Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ
کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا
24. بَابُ الأَحْكَامِ الَّتِي تُعْرَفُ بِالدَّلاَئِلِ، وَكَيْفَ مَعْنَى الدِّلاَلَةِ وَتَفْسِيرِهَا:
باب: دلائل شرعیہ سے احکام کا نکالا جانا اور دلالت کے معنی اور اس کی تفسیر کیا ہو گی؟
حدیث نمبر: 7360
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، وَعَمِّي، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ أَبِيهِ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرٍ، أَنَّ أَبَاهُ جُبَيْرَ بْنَ مُطْعِمٍ، أَخْبَرَهُ،" أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَلَّمَتْهُ فِي شَيْءٍ، فَأَمَرَهَا بِأَمْرٍ، فَقَالَتْ: أَرَأَيْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ لَمْ أَجِدْكَ؟، قَالَ: إِنْ لَمْ تَجِدِينِي فَأْتِي أَبَا بَكْرٍ"، زَادَ لَنَا الْحُمَيْدِيُّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ كَأَنَّهَا تَعْنِي الْمَوْتَ.
مجھ سے عبیداللہ بن سعد بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد اور چچا نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا اور ان سے ان کے والد نے، انہیں محمد بن جبیر نے خبر دی اور انہیں ان کے والد جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ایک خاتون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک حکم دیا۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر میں آپ کو نہ پاؤں تو پھر کیا کروں گی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مجھے نہ پانا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جانا۔ حمیدی نے ابراہیم بن سعد سے یہ اضافہ کیا کہ غالباً خاتون کی مراد وفات تھی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ حمیدی نے اس روایت میں ابراہیم بن سعد سے اتنا بڑھایا ہے کہ آپ کو نہ پاؤں، اس سے مراد یہ ہے کہ آپ کی وفات ہو جائے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7360 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7360  
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کو امام بخاری دلالت کی مثال کے طور پر لائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے یہ کہنے سے کہ میں آپ کو نہ پاؤں یہ سمجھ لیا کہ مراد اس کی موت ہے۔
بعضوں نے کہا اس میں دلالت ہے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خلیفہ ہونے کی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو خلیفہ نہیں کیا تواس کا مطلب یہ ہے کہ صراحت کے ساتھ‘ باقی اشارے کے طور پر تو کئی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ کرنا چاہیے تھے۔
مثلاً یہ حدیث اور مرض موت میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کا حکم دینے کی حدیث اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث کہ اپنے بھائی اور باپ کو بلا بھیج‘ میں لکھ دوں‘ ایسا نہ ہو کوئی آرزو کرنے والا کچھ اور آرزو کرے اور وہ حدیث کہ صحابہ نے آپ سے پوچھا ہم آپ کے بعد کس کو خلیفہ کریں فرمایا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو کرو گے تو وہ ایسے ہیں عمر رضی اللہ عنہ کو کرو گے تو وہ ایسے ہیں‘ علی رضی اللہ عنہ کو کرو گے تو وہ ایسے ہیں مگر مجھ کو امید نہیں کہ تم علی رضی اللہ عنہ کو کرو گے۔
اس حدیث میں بھی ابو بکر رضی اللہ عنہ کو پہلے بیان کیا اور شاہ ولی اللہ صاحب نے ازالۃ الخفا میں اس بحث کو بہت تفصیل سے بیان کیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7360   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7360  
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو دوبارہ آنے کے متعلق کہا تو اس نے عرض کی:
اگر آپ موجود نہ ہوں تو کیا کروں؟ گویا اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے موجود نہ ہونے سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات لی تھی۔
(صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث: 3659)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو دلالت عقلی کی مثال کے طور پر پیش کیا ہے کہ جب اس نے یہ جواب دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے انداز گفتگو سے معلوم کرلیا کہ وہ اس سے مراد میری موت لیتی ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آنے کی تلقین فرمائی۔
اس میں اگرچہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلیفہ بننے کی صراحت نہیں۔
البتہ زبردست قرینہ اور واضح اشارہ ضرور ہے، چنانچہ خواہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت پر استدلال کیا ہے۔
(صحیح البخاري، الأحکام، حدیث: 7220)
انھوں نے اس حدیث پر "خلافت" کا عنوان قائم کیا ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کیا، یہ اس اشارے کے خلاف نہیں کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کہنے سے مراد "نص صریح اور واضح نامزدگی" ہے، البتہ اشارات بے شمار ہیں جن کی وضاحت ہم کتاب الاحکام میں بیان کرآئے ہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7360   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3676  
´باب`
جبیر بن مطعم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت نے آ کر کسی مسئلہ میں آپ سے بات کی اور آپ نے اسے کسی بات کا حکم دیا تو وہ بولی: مجھے بتائیے اللہ کے رسول! اگر میں آپ کو نہ پاؤں؟ (تو کس کے پاس جاؤں) آپ نے فرمایا: اگر تم مجھے نہ پانا تو ابوبکر کے پاس جانا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3676]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس میں آپﷺ کے بعد آپ کے جانشین ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہونے کی پیشین گوئی،
اور ان کو اپنا جانشین بنانے کا لوگوں کو اشارہ ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3676   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7220  
7220. سیدنا جبیر بن مطعم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ کے پاس ایک خاتون آئی اور کسی معاملے کے متعلق آپ سے گفتگو کی۔ آپ ﷺ نے اس سے کہا کہ وہ دوبارہ آئے، اس نے کہا: اللہ کے رسول! اگر میں آؤں اور آپ کو نہ پاؤں تو کیا کروں؟ اس کا اشارہ آپ کی وفات کی طرف تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر مجھے نہ پاؤ تو ابو بکر کے پاس چلی آنا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7220]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث صاف دلیل ہے اس بات کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ آپ کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوں گے۔
دوسری روایت میں جسے طبرانی اور اسماعیلی نے نکالا یوں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک گنوار نے بیعت کی‘ پوچھا اگر آپ کی وفات ہو جائے تو کس کے پاس آؤں؟ آپ نے فرمایا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آنا۔
پوچھا اگر وہ بھی گزر جائیں؟ فرما یا کہ پھر عمر رضی اللہ عنہ کے پاس۔
تربیت خلافت کا یہ کھلا ثبوت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7220   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3659  
3659. حضرت جبیر بن معطم ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ نے اس سے فرمایا کہ وہ پھر آئے۔ اس نے عرض کیا: اگر میں آؤں اور آپ کو نہ پاؤں، اس کی مراد آپ کی وفات تھی، تو آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تو مجھے نہ پائے تو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس چلی جانا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3659]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ آپ کو بذریعہ وحی معلوم ہوچکا تھا کہ آپ کے بعد حضرت ابوبکر ؓ آپ کے خلیفہ ہوں گے۔
طبرانی نے عصمہ بن مالک سے نکالا۔
ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کے بعد اپنے مالوں کی زکاۃ کس کو دیں؟ آپ نے فرمایا:
ابوبکر ؓ کو دینا، اس کی سند ضعیف ہے، معجم میں سہل بن ابی خیثمہ سے نکالا کہ آپ سے ایک گنوار نے بیعت کی اور پوچھا کہ اگر آپ کی وفات ہوجائے تومیں کس کے پاس آؤں؟ فرمایا ابوبکر کے پاس۔
اس نے کہا اگر وہ مرجائیں تو پھر کس کے پاس؟ فرمایا حضرت عمر ؓ کے پاس۔
ان روایتوں سے شیعوں کا رد ہوتا ہے جو کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ اپنے بعد علی ؓ کو خلیفہ مقرر کرگئے تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3659   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3659  
3659. حضرت جبیر بن معطم ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو آپ نے اس سے فرمایا کہ وہ پھر آئے۔ اس نے عرض کیا: اگر میں آؤں اور آپ کو نہ پاؤں، اس کی مراد آپ کی وفات تھی، تو آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تو مجھے نہ پائے تو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس چلی جانا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3659]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر ؓ کے خلیفہ ہونے کا واضح اشارہ ملتا ہے۔
حضرت عمر ؓ سے کہا گیا کہ آپ کسی کو خلیفہ نامزد کردیں تو انھوں نے فرمایا:
رسول اللہ ﷺ نے کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کیا تھا ان کا یہ کہنا مذکورہ روایت کے منافی نہیں کیونکہ حضرت عمر ؓ کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے صراحت کے ساتھ کسی کی نامزد گی نہیں کی یہ اشارے کے منافی نہیں ہے۔
البتہ طبرانی میں ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کی:
اللہ کے رسول اللہ ﷺ! آپ کے بعد ہم اپنے اموال کے صدقات کس کے حوالے کریں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:
میرے بعد اپنے صدقات ابوبکر کو ادا کرنا۔
اس روایت میں کچھ صراحت ہے لیکن اس کی سند انتہائی کمزور ہے۔
(فتح الباري: 7/31)

اس حدیث میں ان شیعہ حضرات کی تردید ہے جو دعوی کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ، اور حضرت عباس ؓ کو خلیفہ بنانے کی وصیت کی تھی۔

واضح رہے کہ امام بخاری ؒ دو طرح کے عنوان قائم کرتے ہیں ایک تو بنیادی توعیت کے ہیں جیسا کہ ان احادیث پر آپ نے حضرت ابو بکر ؓ کی فضیلت کا عنوان قائم کیا ہے لیکن بعض دفعہ پیش کردہ احادیث میں بنیاد ی مسئلے کے علاوہ کوئی اضافی فائدہ بھی ہوتا ہے اس لیے اس کی اہمیت کے پیش نظر ایک الگ اضافی عنوان قائم کر دیتے ہیں جیسا کہ سابقہ احادیث پر ایک عنوان:
(باب قول النبي صلى الله عليه وسلم لو كنت متخذا خليلا)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی:
اگراللہ کے سوا میں کسی کو خلیل بنانا تو ابو بکر کو بناتا قائم کیا ہے یہ وضاحت اس لیے ضرروی کہ پیش کردہ مذکورہ حدیث کی اضافی عنوان سے کوئی مطابقت نہیں بلکہ اس کی بنیادی عنوان سے مطابقت ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3659   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7220  
7220. سیدنا جبیر بن مطعم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ کے پاس ایک خاتون آئی اور کسی معاملے کے متعلق آپ سے گفتگو کی۔ آپ ﷺ نے اس سے کہا کہ وہ دوبارہ آئے، اس نے کہا: اللہ کے رسول! اگر میں آؤں اور آپ کو نہ پاؤں تو کیا کروں؟ اس کا اشارہ آپ کی وفات کی طرف تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر مجھے نہ پاؤ تو ابو بکر کے پاس چلی آنا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7220]
حدیث حاشیہ:

یہ حدیث اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت برحق تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ آپ کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ ہوں گے، لیکن اس حدیث میں صراحت نہیں بلکہ واضح اشارہ ہے۔
(فتح الباري: 407/13)
ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دیہاتی نے بیعت کی اور اس نے پوچھا:
اگر آپ کی وفات ہوجائے تو میں کس کے پاس آؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ابوبکرکے پاس آنا۔
اس نے پوچھا:
اگر وہ بھی فوت ہوجائیں تو؟ آپ نے فرمایا:
’‘پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس چلے آنا۔
اس سے بھی ترتیب خلافت معلوم ہوتی ہے۔
(فتح الباري: 31/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7220