وعن جبير بن مطعم قال: لما قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم سهم ذوي القربى بين بني هاشم وبني المطلب اتيته انا وعثمان بن عفان فقلنا: يا رسول الله هؤلاء إخواننا من بني هاشم لا ننكر فضلهم لمكانك الذي وضعك الله منهم ارايت إخواننا من بني المطلب اعطيتهم وتركتنا وإنما قرابتنا وقرابتهم واحدة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إنما بنو هاشم وبنو المطلب شيء واحد هكذا» . وشبك بين اصابعه. رواه الشافعي وفي رواية ابي داود والنسائي نحوه وفيه: «إنا وبنو المطلب لا نفترق في جاهلية ولا إسلام وإنما نحن وهم شيء واحد» وشبك بين اصابعه وَعَن جُبير بنُ مُطعِمٍ قَالَ: لَمَّا قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَهْمَ ذَوِي الْقُرْبَى بَيْنَ بَنِي هَاشِمٍ وَبَنِي الْمُطَّلِبِ أَتَيْتُهُ أَنَا وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَؤُلَاءِ إِخْوَانُنَا مِنْ بَنِي هَاشِمٍ لَا نُنْكِرُ فَضْلَهُمْ لِمَكَانِكَ الَّذِي وضعكَ اللَّهُ مِنْهُمْ أَرَأَيْتَ إِخْوَانَنَا مِنْ بَنِي الْمُطَّلِبِ أَعْطَيْتَهُمْ وَتَرَكْتَنَا وَإِنَّمَا قَرَابَتُنَا وَقَرَابَتُهُمْ وَاحِدَةً فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّمَا بَنُو هَاشِمٍ وَبَنُو الْمُطَّلِبِ شَيْءٌ وَاحِدٌ هَكَذَا» . وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ. رَوَاهُ الشَّافِعِيُّ وَفِي رِوَايَةِ أَبِي دَاوُدَ وَالنَّسَائِيِّ نَحْوُهُ وَفِيهِ: «إِنَّا وَبَنُو الْمُطَّلِبِ لَا نَفْتَرِقُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا إِسْلَامٍ وَإِنَّمَا نَحْنُ وَهُمْ شَيْءٌ وَاحِدٌ» وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعه
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رشتہ داروں کا حصہ بنو ہاشم اور بنو مطلب کے درمیان تقسیم کر دیا تو میں اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بنو ہاشم قبیلے کے ہمارے یہ بھائی، آپ کے مقام و مرتبہ کی وجہ سے ان کی فضیلت کا ہمیں انکار نہیں کیونکہ اللہ نے آپ کو ان میں پیدا فرمایا، بنو مطلب کے ہمارے بھائیوں کے بارے میں بتائیں کہ آپ نے انہیں عطا فرما دیا جبکہ ہمیں چھوڑ دیا حالانکہ ہماری اور ان کی قرابت ایک ہی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سن کر اپنی انگلیوں کو ایک دوسری میں داخل کر کے فرمایا: ”بنو ہاشم اور بنو مطلب اس طرح ایک چیز ہیں۔ “ شافعی۔ ابوداؤد اور نسائی کی روایت اسی طرح ہے، اور اس میں ہے: ہم اور بنو مطلب نہ تو دور جاہلیت میں الگ تھے اور نہ اسلام میں الگ ہیں۔ اور ہم اور وہ ایک چیز ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالیں۔ حسن، رواہ الشافعی و ابوداؤد و النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه الشافعي في الأم (146/4و سنده ضعيف) و أبو داود (2980 وھو حديث صحيح) و النسائي (130/7 ح 4142 و ھو حديث حسن) [و أصله عند البخاري (4229)]»
عن عبد الرحمن بن عوف قال: إني واقف في الصف يوم بدر فنظرت عن يميني وعن شمالي فإذا بغلامين من الانصار حديثة اسنانها فتمنيت ان اكون بين اضلع منهما فغمزني احدهما فقال: يا عم هل تعرف ابا جهل؟ قلت: نعم فما حاجتك إليه يا ابن اخي؟ قال: اخبرت انه يسب رسول الله صلى الله عليه وسلم والذي نفسي بيده لئن رايته لا يفارق سوادي سواده حتى يموت الاعجل منا فتعجبت لذلك قال: وغمزني الآخر فقال لي مثلها فلم انشب ان نظرت إلى ابي جهل يجول في الناس فقلت: الا تريان؟ هذا صاحبكما الذي تسالاني عنه قال: فابتدراه بسيفهما فضرباه حتى قتلاه ثم انصرفا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبراه فقال: «ايكما قتله؟» فقال كل واحد منهما: انا قتله فقال: «هل مسحتما سيفيكما؟» فقالا: لا فنظر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى السيفين فقال: «كلاكما قتله» . وقضى رسول الله صلى الله عليه وسلم بسلبه لمعاذ بن عمرو بن الجموح والرجلان: معاذ بن عمرو بن الجموح ومعاذ بن عفراء عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ: إِنِّي وَاقِفٌ فِي الصَّفِّ يَوْمَ بَدْرٍ فَنَظَرْتُ عَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي فَإِذَا بِغُلَامَيْنِ مِنَ الْأَنْصَارِ حَدِيثَة أسنانها فتمنيت أَنْ أَكُونَ بَيْنَ أَضْلَعَ مِنْهُمَا فَغَمَزَنِي أَحَدُهُمَا فَقَالَ: يَا عَمِّ هَلْ تَعْرِفُ أَبَا جَهْلٍ؟ قُلْتُ: نَعَمْ فَمَا حَاجَتُكَ إِلَيْهِ يَا ابْنَ أَخِي؟ قَالَ: أُخْبِرْتُ أَنَّهُ يَسُبُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَئِنْ رَأَيْتُهُ لَا يُفَارِقُ سَوَادِي سَوَادَهُ حَتَّى يَمُوتَ الْأَعْجَلُ مِنَّا فَتَعَجَّبْتُ لِذَلِكَ قَالَ: وَغَمَزَنِي الْآخَرُ فَقَالَ لِي مِثْلَهَا فَلَمْ أَنْشَبْ أَنْ نَظَرْتُ إِلَى أَبِي جَهْلٍ يَجُولُ فِي النَّاسِ فَقُلْتُ: أَلَا تَرَيَانِ؟ هَذَا صَاحِبُكُمَا الَّذِي تَسْأَلَانِي عَنْهُ قَالَ: فابتدراه بسيفهما فَضَرَبَاهُ حَتَّى قَتَلَاهُ ثُمَّ انْصَرَفَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فأخبراهُ فَقَالَ: «أَيُّكُمَا قَتَلَهُ؟» فَقَالَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا: أَنَا قَتله فَقَالَ: «هلْ مسحتُما سيفَيكما؟» فَقَالَا: لَا فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّيْفَيْنِ فَقَالَ: «كِلَاكُمَا قَتَلَهُ» . وَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَلَبِهِ لِمُعَاذِ بن عَمْرِو بن الْجَمُوحِ وَالرَّجُلَانِ: مُعَاذُ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ ومعاذ بن عفراء
عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں غزوۂ بدر کے روز صف میں کھڑا تھا، میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھا تو میں انصار کے دو نو عمر لڑکوں کے درمیان تھا، میں نے تمنا کی کہ میں اِن دونوں سے زیادہ قوی آدمیوں کے درمیان ہوتا، اتنے میں اِن میں سے ایک نے مجھے اشارہ کرتے ہوئے پوچھا: چچا جان! آپ ابوجہل کو جانتے ہیں؟ میں نے کہا: ہاں، لیکن بھتیجے تمہیں اس سے کیا کام؟ اس نے کہا: مجھے پتہ چلا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر میں نے اسے دیکھ لیا تو میں الگ نہیں ہوں گا حتی کہ ہم سے جلد اجل کو پہنچنے والا فوت ہو جائے۔ اس کی اس بات سے مجھے بہت تعجب ہوا، بیان کرتے ہیں، پھر دوسرے نے مجھے اشارہ کیا اور اس نے بھی مجھ سے وہی بات کی، اتنے میں میں نے ابوجہل کو لوگوں میں چکر لگاتے ہوئے دیکھا تو میں نے کہا: کیا تم دیکھ نہیں رہے یہ وہی شخص ہے جس کے بارے میں تم مجھ سے پوچھ رہے تھے، وہ بیان کرتے ہیں، وہ دونوں اپنی تلواروں کے ساتھ اس کی طرف لپکے اور اس پر وار کیا حتی کہ انہوں نے اسے قتل کر دیا، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئے اور آپ کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کس نے اسے قتل کیا ہے؟“ اِن دونوں میں سے ہر ایک نے کہا: میں نے اسے قتل کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے اپنی تلواریں صاف کر لی ہیں؟“ انہوں نے عرض کیا: نہیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں کی تلواریں دیکھ کر فرمایا: ”تم دونوں نے اسے قتل کیا ہے۔ “ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوجہل کے سازو سامان کے متعلق معاذ بن عمرو بن جموح کے حق میں فیصلہ فرمایا، جبکہ وہ دونوں آدمی (لڑکے) معاذ بن عمرو بن جموح اور معاذ بن عفراء تھے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3141) و مسلم (42 / 1752)»
وعن انس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم بدر: «من ينظر لنا ما صنع ابو جهل؟» فانطلق ابن مسعود فوجده قد ضربه ابنا عفراء حتى برد قال: فاخذ بلحيته فقال: انت ابو جهل فقال: وهل فوق رجل قتلتموه. وفي رواية: قال: فلو غير اكار قتلني وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ بَدْرٍ: «مَنْ يَنْظُرُ لَنَا مَا صَنَعَ أَبُو جَهْلٍ؟» فَانْطَلَقَ ابْنُ مَسْعُودٍ فَوَجَدَهُ قَدْ ضَرَبَهُ ابْنَا عَفْرَاءَ حَتَّى بَرَدَ قَالَ: فَأَخَذَ بِلِحْيَتِهِ فَقَالَ: أَنْتَ أَبُو جَهْلٍ فَقَالَ: وَهَلْ فَوْقَ رَجُلٍ قَتَلْتُمُوهُ. وَفِي رِوَايَةٍ: قَالَ: فَلَوْ غَيْرُ أَكَّارٍ قتلني
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، بدر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کون دیکھ کر ہمیں یہ بتائے گا کہ ابوجہل کس حالت میں ہے؟“ ابن مسعود رضی اللہ عنہ گئے تو انہوں نے دیکھا کہ عفراء کے دونوں بیٹوں نے اس پر حملہ کیا ہے جس کی وجہ سے وہ ٹھنڈا (قریب المرگ) ہو گیا ہے، راوی بیان کرتے ہیں، انہوں نے اسے داڑھی سے پکڑ کر کہا: تو ابوجہل ہے؟ اس نے کہا: تم نے ایک آدمی ہی تو قتل کیا ہے؟ ایک دوسری روایت میں ہے: اس نے کہا: کاش کوئی غیر کاشکار مجھے قتل کرتا۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (4020) و مسلم (1800/118).»
وعن سعد بن ابي وقاص قال: اعطى رسول الله صلى الله عليه وسلم رهطا وانا جالس فترك رسول الله صلى الله عليه وسلم منهم رجلا وهو اعجبهم إلي فقمت فقلت: ما لك عن فلان؟ والله إني لاراه مؤمنا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «او مسلما» ذكر سعد ثلاثا واجابه بمثل ذلك ثم قال: «إني لاعطي الرجل وغيره احب إلي منه خشية ان يكب في النار على وجهه» . متفق عليه. وفي رواية لهما: قال الزهري: فترى: ان الإسلام الكلمة والإيمان العمل الصالح وَعَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ: أَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَهْطًا وَأَنَا جَالِسٌ فَتَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم مِنْهُم رَجُلًا وَهُوَ أَعْجَبُهُمْ إِلَيَّ فَقُمْتُ فَقُلْتُ: مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ؟ وَاللَّهِ إِنِّي لَأُرَاهُ مُؤْمِنًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أوْ مُسلما» ذكرَ سَعْدٌ ثَلَاثًا وَأَجَابَهُ بِمِثْلِ ذَلِكَ ثُمَّ قَالَ: «إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ وَغَيْرُهُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ خَشْيَةَ أَنْ يُكَبَّ فِي النَّارِ عَلَى وَجْهِهِ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَفِي رِوَايَةٍ لَهُمَا: قَالَ الزُّهْرِيُّ: فترى: أَن الْإِسْلَام الْكَلِمَة وَالْإِيمَان الْعَمَل الصَّالح
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک جماعت کو کچھ دیا اور میں بیٹھا ہوا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان میں سے ایک آدمی کو چھوڑ دیا وہ مجھے ان میں سے زیادہ پسندیدہ تھا، چنانچہ میں کھڑا ہوا اور عرض کیا: فلاں شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ اللہ کی قسم! میں اسے مومن سمجھتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بلکہ (میں اسے) مسلمان (سمجھتا ہوں)۔ “ سعد رضی اللہ عنہ نے تین بار ایسے ہی عرض کیا، اور آپ نے انہیں ایسے ہی جواب ارشاد فرمایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک میں آدمی کو دیتا ہوں، جبکہ دوسرا شخص (جسے میں نہیں دیتا) اس کی نسبت مجھے زیادہ پیارا ہوتا ہے، اس اندیشے کے پیشِ نظر دیتا ہوں کہ وہ اپنے چہرے کے بل جہنم میں نہ ڈالا جائے۔ “ بخاری، مسلم۔ متفق علیہ۔ اور صحیحین کی روایت میں ہے، امام زہری ؒ نے فرمایا: ہم سمجھتے ہیں کہ اسلام کلمہ ہے جبکہ ایمان عمل صالح ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (27) و مسلم (237 / 150)»
وعن ابن عمر ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قام يعني يوم بدر فقال: «إن عثمان انطلق في حاجة الله وحاجة رسوله وإني ابايع له» فضرب له رسول الله بسهم ولم يضرب بشيء لاحد غاب غيره. رواه ابو داود وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ يَعْنِي يَوْمَ بَدْرٍ فَقَالَ: «إِنَّ عُثْمَانَ انْطَلَقَ فِي حَاجَةِ اللَّهِ وَحَاجَةِ رَسُولِهِ وَإِنِّي أُبَايِعُ لَهُ» فَضَرَبَ لَهُ رسولُ الله بِسَهْمٍ وَلَمْ يَضْرِبْ بِشَيْءٍ لِأَحَدٍ غَابَ غَيْرَهُ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ بدر کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”بے شک عثمان، اللہ اور اس کے رسول کے کام سے گئے ہوئے ہیں، اور میں ان کی بیعت کرتا ہوں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لیے حصہ مقرر فرمایا، جبکہ آپ نے ان کے علاوہ کسی اور غیر حاضر شخص کے لیے حصہ مقرر نہیں فرمایا۔ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أبو داود (2726)»
وعن رافع بن خديج قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يجعل في قسم المغانم عشرا من الشاء ببعير. رواه النسائي وَعَن رافعِ بن خديجٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْعَلُ فِي قَسْمِ الْمَغَانِمِ عَشْرًا مِنَ الشّاءِ بِبَعِير. رَوَاهُ النَّسَائِيّ
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مال غنیمت کی تقسیم میں ایک اونٹ کے بدلے میں دس بکریاں مقرر فرمایا کرتے تھے۔ صحیح رواہ النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه النسائي (7/ 221 ح 4396) [و أصله متفق عليه (البخاري: 2488 ومسلم: 1968)]»
وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: غزا نبي من الانبياء فقال لقومه: لا يتبعني رجل ملك بضع امراة وهو يريد ان يبني بها ولما يبن بها ولا احد بنى بيوتا ولم يرفع سقوفها ولا رجل اشترى غنما او خلفات وهو ينتظر ولادها فغزا فدنا من القرية صلاة العصر او قريبا من ذلك فقال للشمس: إنك مامورة وانا مامور اللهم احبسها علينا فحبست حتى فتح الله عليه فجمع الغنائم فجاءت يعني النار لتاكلها فلم تطعمها فقال: إن فيكم غلولا فليبايعني من كل قبيلة رجل فلزقت يد رجل بيده فقال: فيكم الغلول فجاؤوا براس مثل راس بقرة من الذهب فوضعها فجاءت النار فاكلتها. زاد في رواية: «فلم تحل الغنائم لاحد قبلنا ثم احل الله لنا الغنائم راى ضعفنا وعجزنا فاحلها لنا» وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: غَزَا نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ فَقَالَ لِقَوْمِهِ: لَا يَتْبَعُنِي رَجُلٌ مَلَكَ بُضْعَ امْرَأَةٍ وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يَبْنِيَ بِهَا وَلَمَّا يَبْنِ بِهَا وَلَا أَحَدٌ بَنَى بُيُوتًا وَلَمْ يَرْفَعْ سُقُوفَهَا وَلَا رَجُلٌ اشْتَرَى غَنَمًا أَوْ خَلِفَاتٍ وَهُوَ يَنْتَظِرُ وِلَادَهَا فَغَزَا فَدَنَا مِنَ الْقَرْيَةِ صَلَاةَ الْعَصْرِ أَوْ قَرِيبًا مِنْ ذَلِكَ فَقَالَ لِلشَّمْسِ: إِنَّكِ مَأْمُورَةٌ وَأَنَا مَأْمُورٌ اللَّهُمَّ احْبِسْهَا عَلَيْنَا فَحُبِسَتْ حَتَّى فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ فَجَمَعَ الْغَنَائِمَ فَجَاءَتْ يَعْنِي النَّارَ لِتَأْكُلَهَا فَلَمْ تَطْعَمْهَا فَقَالَ: إِنَّ فِيكُمْ غُلُولًا فَلْيُبَايِعْنِي مِنْ كُلِّ قَبِيلَةٍ رَجُلٌ فَلَزِقَتْ يدُ رجلٍ بيدِه فَقَالَ: فيكُم الغُلولُ فجاؤوا بِرَأْسٍ مِثْلِ رَأْسِ بَقَرَةٍ مِنَ الذَّهَبِ فَوَضَعَهَا فَجَاءَتِ النَّارُ فَأَكَلَتْهَا. زَادَ فِي رِوَايَةٍ: «فَلَمْ تَحِلَّ الْغَنَائِمُ لِأَحَدٍ قَبْلَنَا ثُمَّ أَحَلَّ اللَّهُ لَنَا الْغَنَائِمَ رَأَى ضَعْفَنَا وَعَجْزَنَا فَأَحَلَّهَا لَنَا»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”انبیا ؑ میں سے کسی ایک نبی نے جہاد کیا تو انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا: وہ شخص میرے ساتھ نہ جائے جس نے شادی کی اور وہ اسے اپنے گھر لانا چاہتا ہے مگر وہ اسے تاحال اپنے گھر نہیں لا سکا اور وہ شخص بھی میرے ساتھ نہ جائے جس نے گھر بنایا اور اس نے اس کی چھتیں بلند نہیں کیں، اور نہ وہ شخص میرے ساتھ جائے جس نے بکری یا حاملہ اونٹنی خریدی ہے اور وہ اس کے بچے کا منتظر ہے۔ انہوں نے جہاد کا ارادہ کیا، اور وہ نماز عصر یا اس کے قریب اس بستی کے قریب پہنچے (جس کے ساتھ جہاد کرنا تھا) اور انہوں نے سورج سے فرمایا: تو بھی مامور ہے اور میں بھی مامور ہوں، اے اللہ! اسے ٹھہرا دے، لہذا اسے ٹھہرا دیا گیا حتی کہ اللہ نے انہیں فتح عطا فرمائی، انہوں نے مال غنیمت جمع کیا، آگ اسے جلانے کے لیے آئی مگر اس نے اسے نہ جلایا۔ انہوں نے فرمایا: تم میں سے کوئی خائن ہے، ہر قبیلے سے ایک آدمی میری بیعت کرے، ایک آدمی کا ہاتھ ان کے ہاتھ کے ساتھ چمٹ گیا، نبی نے فرمایا: تم میں خائن ہے۔ وہ گائے کے سر کے برابر سونے کا ایک سر لائے اور اسے مالِ غنیمت میں رکھا گیا، پھر آگ آئی اور اسے کھا گئی۔ اور ایک روایت میں یہ زیادہ نقل کیا ہے: ”ہم سے پہلے مالِ غنیمت کسی کے لیے حلال نہیں تھا، پھر اللہ نے ہمارے لیے مالِ غنیمت حلال فرما دیا، اس نے ہماری کمزوری اور عاجزی دیکھی تو اسے ہمارے لیے حلال قرار دے دیا۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3124) و مسلم (1747/32)»
وعن ابن عباس قال: حدثني عمر قال: لما كان يوم خيبر اقبل نفر من صحابة النبي صلى الله عليه وسلم فقالوا: فلان شهيد وفلان شهيد حتى مروا على رجل فقالوا: فلان شهيد فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كلا إني رايته في النار في بردة غلها او عباءة» ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا ابن الخطاب اذهب فناد في الناس: انه لا يدخل الجنة إلا المؤمنون ثلاثا قال: فخرجت فناديت: الا إنه لا يدخل الجنة إلا المؤمنون ثلاثا. رواه مسلم وَعَن ابْن عَبَّاس قَالَ: حَدثنِي عمر قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمَ خَيْبَرَ أَقْبَلَ نَفَرٌ مِنْ صَحَابَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: فُلَانٌ شَهِيدٌ وَفُلَانٌ شَهِيدٌ حَتَّى مَرُّوا عَلَى رَجُلٍ فَقَالُوا: فُلَانٌ شَهِيدٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَلَّا إِنِّي رَأَيْتُهُ فِي النَّارِ فِي بُرْدَةٍ غَلَّهَا أَوْ عَبَاءَةٍ» ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا ابْنَ الْخَطَّابِ اذْهَبْ فَنَادِ فِي النَّاسِ: أَنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ ثَلَاثًا قَالَ: فَخَرَجْتُ فَنَادَيْتُ: أَلَا إِنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ ثَلَاثًا. رَوَاهُ مُسلم
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے حدیث بیان کی، انہوں نے فرمایا: جب غزوہ خیبر کا دن تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کی ایک جماعت آئی اور انہوں نے کہا: فلاں شہید ہے، فلاں شہید ہے، حتی کہ وہ ایک شخص کے پاس سے گزرے تو انہوں نے کہا: فلاں شہید ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہرگز نہیں، میں نے اسے ایک چادر کی وجہ سے، جو اُس نے خیانت کی تھی، جہنم میں دیکھا ہے۔ “ پھر فرمایا: ”ابنِ خطاب! جاؤ اور تین بار اعلان عام کر دو کہ جنت میں (کامل) مومن داخل ہوں گے۔ “ وہ بیان کرتے ہیں، میں نکلا اور تین بار اعلان کیا: سن لو! جنت میں صرف مومن ہی جائیں گے۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (182 / 114)»
عن بجالة قال: كنت كاتبا لجزء بن معاوية عم الاحنف فاتانا كتاب عمر بن الخطاب رضي الله عنه قبل موته بسنة: فرقوا بين كل ذي محرم من المجوس ولم يكن عمر اخذ الجزية من المجوس حتى شهد عبد الرحمن بن عوف ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اخذها من مجوس هجر. رواه البخاري وذكر حديث بريدة: إذا امر اميرا على جيش في «باب الكتاب إلى الكفار» عَن بَجالَةَ قَالَ: كُنْتُ كَاتِبًا لِجَزْءِ بْنِ مُعَاوِيَةَ عَمِّ الْأَحْنَفِ فَأَتَانَا كِتَابُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَبْلَ مَوْتِهِ بِسَنَةٍ: فَرِّقُوا بَيْنَ كُلِّ ذِي مَحْرَمٍ مِنَ الْمَجُوسِ وَلَمْ يَكُنْ عُمَرُ أَخَذَ الْجِزْيَةَ مِنَ الْمَجُوسِ حَتَّى شَهِدَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَهَا مِنْ مَجُوسِ هجَرَ. رَوَاهُ البُخَارِيّ وذُكرَ حديثُ بُريدةَ: إِذَا أَمَّرَ أَمِيرًا عَلَى جَيْشٍ فِي «بَابِ الْكتاب إِلى الْكفَّار»
بجالہ ؒ بیان کرتے ہیں، میں احنف کے چچا جزء بن معاویہ کا سیکرٹری تھا، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی وفات سے ایک سال پہلے اِن کی طرف سے ہمارے پاس ایک خط آیا کہ مجوسیوں کے ہر اس جوڑے کے درمیان علیحدگی کرو جو آپس میں ایک دوسرے کے محرم ہوں، اور عمر رضی اللہ عنہ مجوسیوں سے جزیہ نہیں لیتے تھے حتی کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے گواہی دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجر کے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا۔ رواہ البخاری۔ اور بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ”جب کسی امیر کو کسی لشکر پر مقرر فرماتے .....“ باب الکتاب إلی الکفار میں ذکر کی گئی ہے
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (3156) حديث بريدة، تقدم (3929)»
عن معاذ: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لما وجهه إلى اليمن امره ان ياخذ من كل حالم يعني محتلم دينارا او عدله من المعافري: ثياب تكون باليمن. رواه ابو داود عَنْ مُعَاذٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا وَجَّهَهُ إِلَى الْيَمَنِ أَمْرَهُ أَنْ يَأْخُذَ مِنْ كُلِّ حَالِمٍ يَعْنِي مُحْتَلِمٍ دِينَارًا أَوْ عَدْلَهُ مِنَ الْمَعَافِرِيِّ: ثِيَابٌ تَكُونُ بِالْيمن. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں یمن کی طرف بھیجا تو انہیں ہر بالغ شخص سے ایک دینار یا اس کے مساوی معافری کپڑا جو کہ یمن میں ہوتا ہے، لینے کا حکم فرمایا۔ سندہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه أبو داود (3038) [و الترمذي (623) و النسائي (2455) و ابن ماجه (1803)] ٭ الأعمش مدلس و عنعن.»