وعن ابي سعيد الخدري: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم حنين بعث جيشا إلى اوطاس فلقوا عدوا فقاتلوهم فظهروا عليهم واصابوا لهم سبايا فكان ناسا من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم تحرجوا من غشيانهن من اجل ازواجهن من المشركين فانزل الله تعالى في ذلك (والمحصنات من النساء إلا ما ملكت ايمانكم) اي فهن لهم حلال إذا انقضت عدتهن. رواه مسلم وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ بَعَثَ جَيْشًا إِلَى أَوْطَاسٍ فَلَقُوا عَدُوًّا فَقَاتَلُوهُمْ فَظَهَرُوا عَلَيْهِمْ وَأَصَابُوا لَهُمْ سَبَايَا فَكَأَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحَرَّجُوا مِنْ غِشْيَانِهِنَّ مِنْ أَجْلِ أَزْوَاجِهِنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِي ذَلِكَ (وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاء إِلَّا مَا ملكت أَيْمَانكُم) أَيْ فَهُنَّ لَهُمْ حَلَالٌ إِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُهُنَّ. رَوَاهُ مُسلم
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حنین کے دن اوطاس کی طرف ایک لشکر روانہ کیا تو ان کا دشمن سے آمنا سامنا ہوا، انہوں نے ان سے قتال کیا اور وہ ان پر غالب آ گئے اور انہوں نے کچھ خواتین گرفتار کر لیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض صحابہ نے ان لونڈیوں سے ان کے مشرک خاوندوں کے موجود ہونے کی وجہ سے، جماع کرنے میں حرج محسوس کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق یہ آیت نازل فرمائی: ”اور شادی شدہ عورتیں (تم پر حرام کی گئی ہیں) مگر تمہاری لونڈیاں۔ “ یعنی جب ان کی عدت مکمل ہو جائے تو پھر وہ تمہارے لیے حلال ہیں۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (33/ 1456)»
--. چھوٹے اور بڑے سگے رشتہ والی عورتوں کو جمع نہ کیا جائے
حدیث نمبر: 3171
اعراب
عن ابي هريرة: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى ان تنكح المراة على عمتها او العمة على بنت اخيها والمراة على خالتها او الخالة على بنت اختها لا تنكح الصغرى على الكبرى ولا الكبرى على الصغرى. رواه الترمذي وابو داود والدارمي والنسائي وروايته إلى قوله: بنت اختها عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى أَنْ تُنْكَحَ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا أَوِ الْعَمَّةُ عَلَى بِنْتِ أَخِيهَا وَالْمَرْأَةُ عَلَى خَالَتِهَا أَوِ الْخَالَةُ عَلَى بِنْتِ أُخْتِهَا لَا تُنْكَحُ الصُّغْرَى عَلَى الْكُبْرَى وَلَا الْكُبْرَى عَلَى الصُّغْرَى. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ والدارمي وَالنَّسَائِيّ وَرِوَايَته إِلَى قَوْله: بنت أُخْتهَا
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا کہ ایسی عورت سے نکاح کیا جائے جس کی پھوپھی اس کے نکاح میں پہلے سے ہو یا پھوپھی سے اس کی بھتیجی کے ہوتے ہوئے نکاح نہ کیا جائے، اسی طرح خالہ اور بھانجی کو یا بھانجی اور خالہ کو ایک ساتھ ایک مرد کے نکاح میں جمع نہ کیا جائے نیز (رشتے میں) چھوٹی (مثلاً: بھتیجی، بھانجی) کا بڑی پر اور اور بڑی کا چھوٹی پر نکاح کرنے سے منع فرمایا۔ ترمذی، ابوداؤد، دارمی، نسائی۔ اور ان کی روایت ((بنت اختھا)) تک ہے۔ اسنادہ صحیح، رواہ الترمذی و ابوداؤد و الدارمی و النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه الترمذي (1126 وقال: حسن صحيح) و أبو داود (2065) و الدارمي (136/2 ح2184) و النسائي (98/6 ح 3298 مختصرًا و عنده: ’’بنت أخيھا‘‘ / مذکر)»
--. باپ کی منکوحہ سے نکاح کو حلال سمجھنے والا واجب القتل
حدیث نمبر: 3172
اعراب
وعن البراء بن عازب قال: مر بي خالي ابو بردة بن دينار ومعه لواء فقلت: اين تذهب؟ قال: بعثني النبي صلى الله عليه وسلم إلى رجل تزوج امراة ابيه آتيه براسه. رواه الترمذي وابو داود وَعَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: مَرَّ بِي خَالِي أَبُو بردة بن دِينَار وَمَعَهُ لِوَاءٌ فَقُلْتُ: أَيْنَ تَذْهَبُ؟ قَالَ: بَعَثَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَةَ أَبِيهِ آتِيهِ بِرَأْسِهِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُد
براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میرے ماموں ابوبُردہ بن نیار رضی اللہ عنہ پرچم اٹھائے میرے پاس سے گزرے تو میں نے کہا: آپ کہاں جا رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: مجھے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک آدمی کی طرف بھیجا ہے، جس نے اپنے باپ کی بیوی سے شادی کی ہے، تاکہ میں اس کا سر آپ کی خدمت میں پیش کروں۔ اسے ترمذی اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ اور دارمی کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں اسے قتل کر دوں اور اس کا مال لے لوں۔ اور اس روایت میں ”میرے ماموں“ کے بجائے ”میرے چچا“ کا لفظ ہے۔ صحیح، رواہ الترمذی و ابوداؤد و نسائی و ابن ماجہ و الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الترمذي (1362 وقال: حسن غريب) و أبو داود (4456 و الرواية الثانية له: 4457) و النسائي (110/6 ح 3334) وابن ماجه (2607) و الدارمي (153/2 ح 2245)»
وعن ام سلمة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يحرم من الرضاع إلا ما فتق الامعاء في الثدي وكان قبل الفطام» . رواه الترمذي وَعَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يُحَرِّمُ مِنَ الرِّضَاعِ إِلَّا مَا فَتَقَ الْأَمْعَاءَ فِي الثَّدْيِ وَكَانَ قبل الْفِطَام» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ام سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”وہ رضاعت باعث حرمت ہے، جو براہ راست چھاتیوں سے دودھ پی کر (بھوک مٹا کر) انتڑیاں کھول دے، اور یہ (رضاعت) دودھ چھڑانے سے پہلے ہو۔ “ صحیح، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الترمذي (1152 وقال: حسن صحيح)»
وعن حجاج بن حجاج الاسلمي عن ابيه انه قال: يا رسول الله ما يذهب عني مذمة الرضاع؟ فقال: غرة: عبد او امة. رواه الترمذي وابو داود والنسائي والدارمي وَعَنْ حَجَّاجِ بْنِ حَجَّاجٍ الْأَسْلَمِيِّ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا يُذْهِبُ عَنِّي مَذَمَّةَ الرِّضَاعِ؟ فَقَالَ: غُرَّةٌ: عَبْدٌ أَوْ أَمَةٌ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَالدَّارِمِيُّ
حجاج بن حجاج اسلمی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھ سے کس طرح حقِ رضاعت ادا ہو سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”رضاعی ماں کو غلام یا لونڈی دینے سے۔ “ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی و ابوداؤد و النسائی و الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (1153 وقال: حسن صحيح) و أبو داود (2064) و النسائي (108/6 ح 3331) والدارمي (157/2 ح 2259)»
وعن ابي الطفيل الغنوي قال: كنت جالسا مع النبي صلى الله عليه وسلم إذ اقبلت امراة فبسط النبي صلى الله عليه وسلم رداءه حتى قعدت عليه فلما ذهبت قيل هذه ارضعت النبي صلى الله عليه وسلم. رواه ابو داود وَعَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ الْغَنَوِيِّ قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ أَقْبَلَتِ امْرَأَةٌ فَبَسَطَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رِدَاءَهُ حَتَّى قَعَدَتْ عَلَيْهِ فَلَمَّا ذَهَبَتْ قِيلَ هَذِهِ أَرْضَعَتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ
ابوطفیل غنوی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک عورت آئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی چادر بچھائی حتی کہ وہ اس پر بیٹھ گئی، جب وہ چلی گئی تو بتایا گیا کہ اس خاتون نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ پلایا تھا (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضاعی والدہ ہیں)۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (5144) ٭ عمارة بن ثوبان: مستور و جعفر بن يحيي مثله.»
وعن ابن عمر رضي الله عنه ان غيلان بن سلمة الثقفي اسلم وله عشر نسوة في الجاهلية فاسلمن معه فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «امسك اربعا وفارق سائرهن» . رواه احمد والترمذي وابن ماجه وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ غيلَان بن سَلمَة الثَّقَفِيَّ أَسْلَمَ وَلَهُ عَشْرُ نِسْوَةٍ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَأَسْلَمْنَ مَعَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمْسِكْ أَرْبَعًا وَفَارِقْ سَائِرَهُنَّ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيّ وَابْن مَاجَه
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غیلان بن سلمہ ثقفی رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا اور ان کی دور جاہلیت میں دس بیویاں تھیں، وہ بھی ان کے ساتھ ہی مسلمان ہو گئیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”چار رکھ لو اور باقی فارغ کر دو۔ “ سندہ ضعیف، رواہ احمد و الترمذی و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه أحمد (44/2 ح 5027) و الترمذي (1128) و ابن ماجه (1953) ٭ الزھري مدلس و عنعن و للحديث شواھد ضعيفة.»
وعن نوفل بن معاوية قال: اسلمت وتحتي خمس نسوة فسالت النبي صلى الله عليه وسلم فقال: «فارق واحدة وامسك اربعا» فعمدت إلى اقدمهن صحبة عندي: عاقر منذ ستين سنة ففارقتها. رواه في شرح السنة وَعَنْ نَوْفَلِ بْنِ مُعَاوِيَةَ قَالَ: أَسْلَمْتُ وَتَحْتِي خَمْسُ نِسْوَةٍ فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «فَارِقْ وَاحِدَةً وَأَمْسِكْ أَرْبَعًا» فَعَمَدْتُ إِلَى أَقْدَمِهِنَّ صُحْبَةً عِنْدِي: عَاقِرٍ مُنْذُ سِتِّينَ سنة ففارقتها. رَوَاهُ فِي شرح السّنة
نوفل بن معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے اسلام قبول کیا تو اس وقت میری پانچ بیویاں تھیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مسئلہ دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ایک کو چھوڑ دو اور چار رکھ لو۔ “ میں نے ان میں سے اپنی سب سے پہلی بیوی کو، جو بانجھ تھی اور ساٹھ سال سے میری رفیقہ حیات تھی، خود سے جدا کر دیا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ فی شرح السنہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه البغوي في شرح السنة (90/9. 91 ح 22899) [و الشافعي 351/2: أخبرنا بعض أصحابنا عن أبي الزناد إلخ و من طريقه البيھقي (184/7) و ھذا البعض مجھول]»
وعن الضحاك بن فيروز الديلمي عن ابيه قال: قلت: يا رسول الله إني اسلمت وتحتي اختان قال: «اختر ايتها شئت» . رواه الترمذي وابو داود وابن ماجه وَعَنِ الضَّحَّاكِ بْنِ فَيْرُوزٍ الدَّيْلَمِيِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَسْلَمْتُ وتحتي أختَان قَالَ: «اختر أيتها شِئْتَ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَهْ
ضحاک بن فیروز دیلمی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور دو بہنیں میرے نکاح میں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ان دونوں میں سے جسے چاہو اختیار کر لو (دوسری چھوڑ دو)۔ “ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی و ابوداؤد و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (1130) و أبو داود (2243) و ابن ماجه (1951)»
وعن ابن عباس قال: اسلمت امراة فتزوجت فجاء زوجها إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله إني قد اسلمت وعلمت بإسلامي فانتزعها رسول الله صلى الله عليه وسلم من زوجها الآخر وردها إلى زوجها الاول وفي رواية: انه قال: إنها اسلمت معي فردها عليه. رواه ابو داود وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَسْلَمَتِ امْرَأَةٌ فَتَزَوَّجَتْ فَجَاءَ زَوْجُهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَعَلِمَتْ بِإِسْلَامِي فَانْتَزَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ زَوْجِهَا الْآخَرِ وَرَدَّهَا إِلَى زَوْجِهَا الْأَوَّلِ وَفِي رِوَايَةٍ: أَنَّهُ قَالَ: إِنَّهَا أَسْلَمَتْ مَعِي فَرَدَّهَا عَلَيْهِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک عورت نے اسلام قبول کیا اور اس نے شادی کر لی، اتنے میں اس کا (پہلا) خاوند نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا، اللہ کے رسول! میں اسلام قبول کر چکا ہوں اور اس (عورت) کو میرے اسلام قبول کرنے کا علم ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس (عورت) کو اس کے دوسرے خاوند سے لے کر اس کے پہلے خاوند کو واپس کر دیا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ اس نے عرض کیا: اس (عورت) نے میرے ساتھ ہی اسلام قبول کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس (عورت) کو اس کے حوالے کر دیا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (2238. 2239) ٭ سماک بن حرب: ضعيف الحديث عن عکرمة، صحيح الحديث عن غيره، إذا حدّث قبل الاختلاط کما حققته في رسالة خاصة و الحمد للّٰه.»