وعن ابن عباس انه دفع مع النبي صلى الله عليه وسلم يوم عرفة فسمع النبي صلى الله عليه وسلم وراءه زجرا شديدا وضربا للإبل فاشار بسوطه إليهم وقال: «يا ايها الناس عليكم بالسكينة فإن البر ليس بالإيضاع» . رواه البخاري وَعَن ابنِ عبَّاسٍ أَنَّهُ دَفَعَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَرَفَةَ فَسَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَاءَهُ زَجْرًا شَدِيدًا وَضَرْبًا لِلْإِبِلِ فَأَشَارَ بِسَوْطِهِ إِلَيْهِمْ وَقَالَ: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ عَلَيْكُمْ بِالسَّكِينَةِ فَإِنَّ الْبِرَّ لَيْسَ بِالْإِيضَاعِ» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عرفہ کے دن وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ واپس آ رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پیچھے اونٹوں کو بہت مارنے اور ڈانٹنے کی آوازیں سنیں تو آپ نے اپنے کوڑے سے ان کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: ”لوگو! سکینت اختیار کرو کیونکہ سواریوں کو تیز دوڑانا کوئی نیکی نہیں۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (1671)»
وعنه ان اسامة بن زيد كان ردف النبي صلى الله عليه وسلم من عرفة إلى المزدلفة ثم اردف الفضل من المزدلفة إلى منى فكلاهما قال: لم يزل النبي صلى الله عليه وسلم يلبي حتى رمى جمرة العقبة وَعَنْهُ أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زِيدٍ كَانَ رِدْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عَرَفَةَ إِلَى الْمُزْدَلِفَةِ ثُمَّ أَرْدَفَ الْفَضْلَ مِنَ الْمُزْدَلِفَةِ إِلَى مِنًى فَكِلَاهُمَا قَالَ: لَمْ يَزَلِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُلَبِّي حَتَّى رَمَى جَمْرَة الْعقبَة
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عرفات سے مزدلفہ تک اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے بیٹھے تھے، پھر آپ نے مزدلفہ سے منیٰ تک فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھا لیا، ان دونوں نے بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمرہ عقبی کو کنکریاں مارنے تک تلبیہ پکارتے رہے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1686) و مسلم (266 /1280. 128)»
وعن ابن عمر قال: جمع النبي صلى الله عليه وسلم المغرب والعشاء بجمع كل واحدة منهما بإقامة ولم يسبح بينهما ولا على إثر كل واحدة منهما. رواه البخاري وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: جَمَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ بِجَمْعٍ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا بِإِقَامَةٍ وَلَمْ يُسَبِّحْ بَيْنَهُمَا وَلَا عَلَى إِثْرِ كُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مغرب و عشا کی نمازیں مزدلفہ میں اکٹھی پڑھیں اور ہر نماز کے لیے اقامت کہی، آپ نے ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی نفل نماز پڑھی نہ ان میں سے کسی کے بعد۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (1673)»
وعن عبد الله بن مسعود قال: ما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى صلاة إلا لميقاتها إلا صلاتين: صلاة المغرب والعشاء بجمع وصلى الفجر يومئذ قبل ميقاتها وَعَنْ عَبْدُ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى صَلَاةً إِلَّا لِمِيقَاتِهَا إِلَّا صَلَاتَيْنِ: صَلَاةَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِجَمْعٍ وَصَلَّى الْفَجْرَ يومئِذٍ قبلَ ميقاتها
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو، مزدلفہ میں دو نمازوں، نمازِ مغرب اور عشا کو جمع کرنے اور اسی روز نمازِ فجر کو اس کے وقت سے پہلے پڑھنے کے سوا، ہمیشہ نمازوں کو ان کے اوقات میں پڑھتے ہوئے دیکھا۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1683) و مسلم (1289/292)»
وعن ابن عباس قال: انا ممن قدم النبي صلى الله عليه وسلم ليلة المزدلفة في ضعفة اهله وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَنَا مِمَّنْ قَدَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَة الْمزْدَلِفَة فِي ضعفة أَهله
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں بھی ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزدلفہ کی رات اپنے اہل خانہ کے ضعیف افراد کے ساتھ پہلے (منیٰ) روانہ کر دیا تھا۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1678) و مسلم (301 / 1293)»
وعن الفضل بن عباس وكان رديف النبي صلى الله عليه وسلم انه قال في عشية عرفة وغداة جمع للناس حين دفعوا: «عليكم بالسكينة» وهو كاف ناقته حتى دخل محسرا وهو من منى قال: «عليكم بحصى الخذف الذي يرمى به الجمرة» . وقال: لم يزل رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبي حتى رمى الجمرة. رواه مسلم وَعَن الفضلِ بن عبَّاسٍ وَكَانَ رَدِيفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ فِي عَشِيَّةِ عَرَفَةَ وَغَدَاةِ جَمْعٍ لِلنَّاسِ حِينَ دَفَعُوا: «عَلَيْكُمْ بِالسَّكِينَةِ» وَهُوَ كَافٌّ نَاقَتَهُ حَتَّى دَخَلَ مُحَسِّرًا وَهُوَ مِنْ مِنًى قَالَ: «عَلَيْكُمْ بِحَصَى الْخَذْفِ الَّذِي يُرْمَى بِهِ الْجَمْرَةَ» . وَقَالَ: لَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُلَبِّي حَتَّى رَمَى الْجَمْرَةَ. رَوَاهُ مُسلم
ابن عباس رضی اللہ عنہ، فضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے سواری پر سوار تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرفہ کی شام اور مزدلفہ کی صبح لوگوں سے، جبکہ وہ واپس آ رہے تھے، فرمایا: ”آرام سے آؤ۔ “ جبکہ آپ اپنی اونٹنی کو (تیز چلنے سے) روک رہے تھے، حتی کہ آپ وادی محسر میں داخل ہو گئے جو کہ منیٰ کے قریب ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جمرہ کی رمی کرنے کے لیے چھوٹی چھوٹی کنکریاں لے لو۔ “ راوی بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمرہ کو کنکریاں مارنے تک تلبیہ پکارتے رہے۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1282/268)»
وعن جابر قال: افاض النبي صلى الله عليه وسلم من جمع وعليه السكينة وامرهم بالسكينة واوضع في وادي محسر وامرهم ان يرموا بمثل حصى الخذف وقال: «لعلي لا اراكم بعد عامي هذا» . لم اجد هذا الحديث في الصحيحين إلا في جامع الترمذي مع تقديم وتاخير وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: أَفَاضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ جَمْعٍ وَعَلَيْهِ السَّكِينَةُ وَأَمَرَهُمْ بِالسَّكِينَةِ وَأَوْضَعَ فِي وَادِي مُحَسِّرٍ وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَرْمُوا بِمِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ وَقَالَ: «لَعَلِّي لَا أَرَاكُمْ بَعْدَ عَامِي هَذَا» . لَمْ أَجِدْ هَذَا الْحَدِيثَ فِي الصَّحِيحَيْنِ إِلَّا فِي جَامِعِ التِّرْمِذِيِّ مَعَ تقديمٍ وَتَأْخِير
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مزدلفہ سے واپس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سکینت و اطمینان تھا، اور آپ نے صحابہ کو بھی آرام سے چلنے کا حکم فرمایا، جبکہ وادی محسر میں آپ تیز چلے اور انہیں حکم فرمایا کہ انگلی پر رکھ کر ماری جانے والی کنکری کے برابر کنکریاں مارو، اور فرمایا: ”شاید اس سال کے بعد میں تمہیں نہ دیکھ سکوں۔ “ میں نے یہ حدیث تقدیم و تاخیر کے ساتھ جامع ترمذی کے علاوہ صحیحین میں نہیں پائی۔ صحیح، رواہ الترمذی و ابوداؤد و النسائی و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الترمذي (886 وقال: حسن صحيح) [و أبو داود (1944) والنسائي (258/5 ح 3024) وانظر ابن ماجه (3023)] ٭ و للحديث شواھد وھو بھا صحيح.»
وعن محمد بن قيس بن مخرمة قال: خطب رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «إن اهل الجاهلية كانوا يدفعون من عرفة حين تكون الشمس كانها عمائم الرجال في وجوههم قبل ان تغرب ومن المزدلفة بعد ان تطلع الشمس حين تكون كانها عمائم الرجال في وجوههم. وإنا لا ندفع من عرفة حتى تغرب الشمس وندفع من المزدلفة قبل ان تطلع الشمس هدينا مخالف لهدي عبدة الاوثان والشرك» . رواه البيهقي في شعب الإيمان وقال فيه: خطبنا وساقه بنحوه وَعَن محمّدِ بنِ قيسِ بن مَخْرمةَ قَالَ: خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «إِنَّ أَهْلَ الْجَاهِلِيَّةِ كَانُوا يَدْفَعُونَ مِنْ عَرَفَةَ حِينَ تَكُونُ الشَّمْسُ كَأَنَّهَا عَمَائِمُ الرِّجَالِ فِي وُجُوهِهِمْ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ وَمِنَ الْمُزْدَلِفَةِ بَعْدَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ حِينَ تَكُونُ كَأَنَّهَا عَمَائِمُ الرِّجَالِ فِي وُجُوهِهِمْ. وَإِنَّا لَا نَدْفَعُ مِنْ عَرَفَةَ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ وَنَدْفَعُ مِنَ الْمُزْدَلِفَةِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ هَدْيُنَا مُخَالِفٌ لِهَدْيِ عَبَدَةِ الْأَوْثَانِ وَالشِّرْكِ» . رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي شعب الْإِيمَان وَقَالَ فِيهِ: خَطَبنَا وَسَاقه بِنَحْوِهِ
محمد بن قیس بن مخرمہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا تو فرمایا: ”اہل جاہلیت عرفات سے اس وقت لوٹا کرتے تھے جب سورج غروب ہونے سے پہلے اس طرح ہو جیسے آدمیوں کی پگڑیاں ان کے چہروں پر ہوں، اور مزدلفہ سے طلوعِ آفتاب کے بعد جیسے آدمیوں کی پگڑیاں ان کے چہروں پر ہوں۔ جبکہ ہم غروب آفتاب کے بعد عرفات سے لوٹتے ہیں اور طلوع آفتاب سے پہلے مزدلفہ سے واپس آتے ہیں، ہمارا طریقہ، بتوں کے پجاریوں اور مشرکوں کے طریقے سے مختلف ہے۔ “ بیہقی۔ اور فرمایا: ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا، اور باقی حدیث ویسے ہی بیان کی۔ ضعیف، رواہ البیھقی فی سنن الکبریٰ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «ضعيف، رواه [البيھقي في السنن الکبري 125/5) والحاکم (523/3) وصححه ووافقه الذهبي] ٭ السند مرسل و رواه شعبة عن ابن جريج عن محمد بن قيس بن مخرمة عن مسور بن مخرمة به نحو المعني و سنده ضعيف، ابن جريج مدلس و عنعن.»
وعن ابن عباس قال: قدمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة المزدلفة اغيلمة بني عبد المطلب على حمرات فجعل يلطح افخاذنا ويقول: «ابيني لا ترموا الجمرة حتى تطلع الشمس» . رواه ابو داود والنسائي وابن ماجه وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَدَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً الْمُزْدَلِفَةِ أُغَيْلِمَةَ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ عَلَى حُمُرَاتٍ فَجَعَلَ يَلْطَحُ أَفْخَاذَنَا وَيَقُولُ: «أُبَيْنِيَّ لَا تَرْمُوا الْجَمْرَةَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں مزدلفہ کی رات بنو عبدالمطلب کے بچوں کے ہمراہ گدھوں پر بٹھا کر پہلے ہی روانہ کر دیا تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیار سے ہماری رانوں پر مار رہے تھے اور فرما رہے تھے: ”میرے پیارے بچو! جب تک سورج طلوع نہ ہو جائے جمرہ کو کنکریاں نہ مارنا۔ “ سندہ ضعیف، رواہ ابوداؤد و النسائی و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه أبو داود (1940) والنسائي (270/5. 271 ح 3066) و ابن ماجه (3025) ٭ الحسن العرني ثقة أرسل عن ابن عباس و لبعض الحديث شواھد، بعضھا حسنة عند الطحاوي (مشکل الآثار 119/9 ح3494) وغيره.»
وعن عائشة قالت: ارسل النبي صلى الله عليه وسلم بام سلمة ليلة النحر فرمت الجمرة قبل الفجر ثم مضت فافاضت وكان ذلك اليوم اليوم الذي يكون رسول الله صلى الله عليه وسلم عندها. رواه ابو داود وَعَن عَائِشَة قَالَتْ: أَرْسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بأُمِّ سَلَمَةَ ليلةَ النَّحْر فرمت الجمرةَ قبلَ الْفَجْرِ ثُمَّ مَضَتْ فَأَفَاضَتْ وَكَانَ ذَلِكَ الْيَوْمُ الْيَوْمَ الَّذِي يَكُونَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدهَا. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ام سلمہ رضی اللہ عنہ کو قربانی کی رات ہی بھیج دیا تھا، انہوں نے فجر سے پہلے ہی جمرہ کو کنکریاں مار لی تھیں، پھر وہ (منیٰ سے) چلی گئیں اور طواف افاضہ کیا، اور یہ وہ دن تھا جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ہاں تھے۔ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (1942)»