وروى احمد عن سعد بن عبادة: ان رجلا من الانصار اتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: اخبرنا عن يوم الجمعة ماذا فيه من الخير؟ قال: «فيه خمس خلال» وساق الحديث وَرَوَى أَحْمَدُ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ: أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَخْبِرْنَا عَنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ مَاذَا فِيهِ مِنَ الْخَيْرِ؟ قَالَ: «فِيهِ خَمْسُ خلال» وسَاق الحَدِيث
امام احمد نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ایک انصاری شخص نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا ہمیں جمعہ کے دن کے متعلق بتائیں کہ اس میں کیا خبر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس میں پانچ خصوصیات ہیں،،،،،۔ “ اور باقی حدیث آخر تک (اسی طرح) بیان کی۔ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (5/ 284 ح 22824) [و عبد بن حميد (309)] ٭ ابن عقيل: ضعيف.»
وعن ابي هريرة قال: قيل للنبي صلى الله عليه وسلم: لاي شيء سمي يوم الجمعة؟ قال: «لان فيها طبعت طينة ابيك آدم وفيها الصعقة والبعثة وفيها البطشة وفي آخر ثلاث ساعات منها ساعة من دعا الله فيها استجيب له» . رواه احمد وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِأَيِّ شَيْءٍ سُمِّيَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ؟ قَالَ: «لِأَنَّ فِيهَا طُبِعَتْ طِينَةُ أَبِيكَ آدَمَ وَفِيهَا الصَّعْقَةُ وَالْبَعْثَةُ وَفِيهَا الْبَطْشَةُ وَفِي آخِرِ ثَلَاثِ سَاعَاتٍ مِنْهَا سَاعَةٌ مَنْ دَعَا الله فِيهَا اسْتُجِيبَ لَهُ» . رَوَاهُ أَحْمد
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا، جمعہ کے دن کے نام کی وجہ سے تسمیہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیونکہ اس روز آپ کے باپ آدمؑ کے خمیر کو تیار کیا گیا، اسی میں نفخہ اولی (پہلی بار صور پھونکا جانا) اور نفخہ ثانیہ ہے۔ اسی میں حشر کا میدان سجے گا۔ اور اس کی آخری تین گھڑیوں میں ایک ایسی گھڑی ہے کہ جو شخص اس میں دعا کرتا ہے تو اس کی دعا قبول کی جاتی ہے۔ “ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (311/2 ح 8088) ٭ فيه فرج بن فضالة ضعيف و علي بن أبي طلحة: لم يسمع من أبي ھريرة.»
وعن ابي الدرداء قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اكثروا الصلاة علي يوم الجمعة فإنه مشهود تشهده الملائكة وإن احدا لن يصلي علي إلا عرضت علي صلاته حتى يفرغ منها» قال: قلت: وبعد الموت؟ قال: «إن الله حرم على الارض ان تاكل اجساد الانبياء فنبي الله حي يرزق» . رواه ابن ماجه وَعَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَكْثِرُوا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَإِنَّهُ مَشْهُودٌ تَشْهَدُهُ الْمَلَائِكَةُ وَإِنَّ أحدا لن يُصَلِّي عَلَيَّ إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا» قَالَ: قُلْتُ: وَبَعْدَ الْمَوْتِ؟ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ فَنَبِيُّ اللَّهِ حَيٌّ يُرْزَقُ» . رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه
ابودرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جمعہ کے روز مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو۔ کیونکہ وہ مشہود ہے، اس پر فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ جب تم میں سے کوئی شخص مجھ پر درود پڑھتا ہے تو اس کا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے حتیٰ کہ وہ اس سے فارغ ہو جائے۔ “ راوی بیان کرتے ہیں، میں نے عرض کیا، اور وفات کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے انبیا علیہم السلام کے اجساد کو کھانا زمین (مٹی) پر حرام کر دیا ہے۔ اللہ کے نبی ؑ زندہ ہوتے ہیں اور انہیں رزق دیا جاتا ہے۔ “ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه ابن ماجه (1637) ٭ السند منقطع، زيد بن أيمن عن عبادة بن نسي: مرسل.»
وعن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما من مسلم يموت يوم الجمعة او ليلة الجمعة إلا وقاه الله فتنة القبر» . رواه احمد والترمذي وقال: هذا حديث غريب وليس إسناده بمتصل وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَمُوتُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوْ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ إِلَّا وَقَاهُ اللَّهُ فِتْنَةَ الْقَبْرِ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَلَيْسَ إِسْنَاده بِمُتَّصِل
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات فوت ہو جاتا ہے تو اللہ اسے فتنہ قبر سے بچا لیتا ہے۔ “ احمد، ترمذی، اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ اور اس کی سند متصل نہیں۔ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه أحمد (169/2 ح 5682) والترمذي (1074) ٭ ربيعة بن سيف لم يسمع من عبد الله بن عمرو رضي الله عنه فالسند منقطع و للحديث شواھد ضعيفة عند البيھقي (اثبات عذاب القبر بتحقيقي: 152. 153) وغيره.»
وعن ابن عباس انه قرا: (اليوم اكملت لكم دينكم) الآية وعنده يهودي فقال: لو نزلت هذه الآية علينا لاتخذناها عيدا فقال ابن عباس: فإنها نزلت في يوم عيدين في ويوم جمعة ويوم عرفة. رواه الترمذي وقال هذا حديث حسن غريب وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَرَأَ: (الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لكم دينكُمْ) الْآيَةَ وَعِنْدَهُ يَهُودِيٌّ فَقَالَ: لَوْ نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ عَلَيْنَا لَاتَّخَذْنَاهَا عِيدًا فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَإِنَّهَا نزلت فِي يَوْم عيدين فِي وَيَوْم جُمُعَةٍ وَيَوْمِ عَرَفَةَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ کہ انہوں نے یہ آیت تلاوت کی: ”آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے۔ “ تو اس وقت ان کے پاس ایک یہودی تھا، اس نے کہا: اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس (یوم نزول) کو عید بنا لیتے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ تو عیدین کے روز نازل ہوئی ہے، جمعہ کے دن اور عرفہ کے دن۔ ترمذی، اور انہوں نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ صحیح، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه الترمذي (3044)»
وعن انس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا دخل رجب قال: «اللهم بارك لنا في رجب وشعبان وبلغنا رمضان» قال: وكان يقول: «ليلة الجمعة ليلة اغر ويوم الجمعة يوم ازهر» . رواه البيهقي في الدعوات الكبير وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ رَجَبٌ قَالَ: «اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ» قَالَ: وَكَانَ يَقُولُ: «لَيْلَةُ الْجُمُعَةِ لَيْلَةٌ أَغَرُّ وَيَوْمُ الْجُمُعَةِ يَوْمٌ أَزْهَرُ» . رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي الدَّعَوَاتِ الْكَبِيرِ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب ماہ رجب شروع ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعا فرماتے: ”اے اللہ! ہمارے لیے رجب و شعبان میں برکت فرما اور ہمیں رمضان تک پہنچا۔ “ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے: ”جمعہ کی رات، چمک دار رات ہے اور جمعہ کا دن ترو تازہ دن ہے۔ “ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه البيھقي في الدعوات الکبير ([لم أجده] و شعب الإيمان [3815] و فضائل الأوقات [14] کلاھما له) [و عبد الله بن أحمد 259/1 ح 2346] ٭ رواه زائدة بن أبي الرقاد عن زياد النميري: الأول منکر الحديث والثاني ضعيف.»
عن ابن عمر وابي هريرة انهما قالا: سمعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول على اعواد منبره: «لينتهين اقوام عن ودعهم الجمعات او ليختمن الله على قلوبهم ثم ليكونن من الغافلين» . رواه مسلم عَنِ ابْنِ عُمَرَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُمَا قَالَا: سَمِعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ عَلَى أَعْوَادِ مِنْبَرِهِ: «لِيَنْتَهِيَنَّ أَقْوَامٌ عَنْ وَدْعِهِمُ الْجُمُعَاتِ أَوْ لَيَخْتِمَنَّ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ ثُمَّ لَيَكُونُنَّ مِنَ الْغَافِلِينَ» . رَوَاهُ مُسلم
ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر کی سیڑھیوں پر فرماتے ہوئے سنا: ”لوگ جمعے چھوڑنے سے باز آ جائیں ورنہ اللہ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا اور پھر وہ غافلین میں سے ہو جائیں گے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (865/40)»
عن ابي الجعد الضميري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ترك ثلاث جمع تهاونا بها طبع الله على قلبه» . رواه ابو داود والترمذي والنسائي وابن ماجه والدارمي عَنْ أَبِي الْجَعْدِ الضُّمَيْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ تَرَكَ ثَلَاثَ جُمَعٍ تَهَاوُنًا بِهَا طَبَعَ اللَّهُ عَلَى قَلْبِهِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ والدارمي
ابوجعد ضمری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص عدم توجہ کی بنا پر تین جمعے چھوڑے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ “ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد و الترمذی و النسائی و ابن ماجہ و الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (1052) والترمذي (500 وقال: حسن) والنسائي (88/3 ح 1370 ا) و ابن ماجه (1125) والدارمي (1/ 379 ح 1579) [و صححه ابن خزيمة (1857) و ابن حبان (65، 553، 554) والحاکم (علٰي شرط مسلم (280/1) ووافقه الذهبي وھو حديث صحيح.]»