وعن علي رضي الله عنه قال: حدثني ابو بكر وصدق ابو بكر. قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ما من رجل يذنب ذنبا ثم يقوم فيتطهر ثم يصلي ثم يستغفر الله إلا غفر الله له ثم قرا هذه الاية: (والذين إذا فعلوا فاحشة او ظلموا انفسهم ذكروا الله فاستغفروا لذنوبهم) رواه الترمذي وابن ماجه إلا ان ابن ماجه لم يذكر الآية وَعَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ وَصَدَقَ أَبُو بَكْرٍ. قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَا مِنْ رَجُلٍ يُذْنِبُ ذَنْبًا ثُمَّ يَقُومُ فَيَتَطَهَّرُ ثُمَّ يُصَلِّي ثُمَّ يَسْتَغْفِرُ اللَّهَ إِلَّا غَفَرَ الله لَهُ ثمَّ قَرَأَ هَذِه الاية: (وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذكرُوا الله فاستغفروا لذنوبهم) رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ إِلَّا أَنَّ ابْنَ مَاجَه لم يذكر الْآيَة
علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے حدیث بیان کی، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سچ فرمایا، انہوں نے بیان کیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جب کوئی شخص کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے، پھر وضو کر کے نماز پڑھ کر اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہے تو اللہ اسے معاف کر دیتا ہے۔ “ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: (والذین اذا فعلوا،،،، فاستغفروا لذنوبھم)”اور وہ لوگ جب کوئی برا کام کر گزرتے ہیں یا اپنی جان پر ظلم کر بیٹھتے ہیں، تو اللہ کو یاد کرتے ہیں، پھر اس سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرتے ہیں۔ “ ترمذی، ابن ماجہ، البتہ ابن ماجہ نے آیت ذکر نہیں کی۔ اسنادہ حسن۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (3006 و قال: حسن و 406) و ابن ماجه (1395) [و أبو داود (1521) و صححه ابن حبان (2454)]»
وعن حذيفة قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا حزبه امر صلى. رواه ابو داود وَعَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا حَزَبَهُ أَمْرٌ صَلَّى. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی اہم مسئلہ درپیش ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوراً نفل نماز کا اہتمام فرماتے۔ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (1319) ٭ محمد بن عبد الله الدؤلي: مجھول الحال و لحديثه شاھد ضعيف.»
وعن بريدة قال: اصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم فدعا بلالا فقال: «بم سبقتني إلى الجنة ما دخلت الجنة قط إلا سمعت خشخشتك امامي» . قال: يا رسول الله ما اذنت قط إلا صليت ركعتين وما اصابني حدث قط إلا توضات عنده ورايت ان لله علي ركعتين. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «بهما» . رواه الترمذي وَعَنْ بُرَيْدَةَ قَالَ: أَصْبَحَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَعَا بِلَالًا فَقَالَ: «بِمَ سَبَقْتَنِي إِلَى الْجَنَّةِ مَا دَخَلْتُ الْجَنَّةَ قَطُّ إِلَّا سَمِعْتُ خَشْخَشَتَكَ أَمَامِي» . قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَذَّنْتُ قَطُّ إِلَّا صَلَّيْتُ رَكْعَتَيْنِ وَمَا أَصَابَنِي حَدَثٌ قَطُّ إِلَّا تَوَضَّأْتُ عِنْدَهُ وَرَأَيْتُ أَنَّ لِلَّهِ عَلَيَّ رَكْعَتَيْنِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بِهِمَا» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبح کے وقت بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ”کس عمل کی وجہ تم مجھ سے پہلے جنت میں چلے گئے میں جب بھی جنت میں گیا تو میں نے تمہارے جوتوں کی آواز اپنے آگے سنی، “ انہوں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! میں جب بھی اذان کہتا ہوں تو دو رکعتیں پڑھتا ہوں، اور جب میرا وضو ٹوٹ جاتا ہے تو میں فوراً وضو کرتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے دو رکعتیں پڑھنا مجھ پر لازم ہیں (لہذا میں دو رکعتیں پڑھتا ہوں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”انہی دو کی وجہ سے (تم اس مقام کو پہنچے ہو)۔ “ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (3689 وقال: حسن صحيح غريب) [و صححه ابن خزيمة (1209) و ابن حبان (الإحسان: 7044، 7045) والحاکم (313/1) ووافقه الذھبي.]»
وعن عبد الله بن ابي اوفى قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من كانت له حاجة إلى الله او إلى احد من بني آدم فليتوضا فليحسن الوضوء ثم ليصل ركعتين ثم ليثن على الله تعالى وليصل على النبي صلى الله عليه وسلم ثم ليقل: لا إله إلا الله الحليم الكريم سبحان الله رب العرش العظيم والحمد لله رب العالمين اسالك موجبات رحمتك وعزائم مغفرتك والغنيمة من كل بر والسلامة من كل إثم لا تدع لي ذنبا إلا غفرته ولا هما إلا فرجته ولا حاجة هي لك رضى إلا قضيتها يا ارحم الراحمين. رواه الترمذي وابن ماجه وقال الترمذي: هذا حديث غريب وَعَنْ عَبْدُ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ كَانَتْ لَهُ حَاجَةٌ إِلَى اللَّهِ أَوْ إِلَى أحد من بني آدم فَليَتَوَضَّأ فليحسن الْوُضُوءَ ثُمَّ لْيُصَلِّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ لْيُثْنِ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى وَلْيُصَلِّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ لْيَقُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ أَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ وَالْغَنِيمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ وَالسَّلَامَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ لَا تَدَعْ لِي ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَهُ وَلَا هَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَهُ وَلَا حَاجَةً هِيَ لَكَ رِضًى إِلَّا قَضَيْتَهَا يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيث غَرِيب
عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کو اللہ سے کوئی حاجت و ضرورت ہو یا کسی انسان سے کوئی کام ہو تو وہ اچھی طرح وضو کر کے دو رکعتیں پڑھے، پھر اللہ تعالیٰ کی ثنا بیان کرے اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوٰۃ پڑھے پھر یوں دعا کرے: ”اللہ حلیم و کریم کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، عرش عظیم کا رب پاک ہے، ہر قسم کی حمد اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے، میں تجھ سے ان اعمال و اسباب کی درخواست کرتا ہوں جو تیری رحمت اور تیری مغفرت کو واجب و مؤکد کر دیں، میں ہر نیکی کو غنیمت جاننے اور ہر گناہ سے بچنے کی تجھ سے درخواست کرتا ہوں، سب سے زیادہ رحم فرمانے والے! میرے تمام گناہ معاف فرما دے، میرے تمام غم دور کر دے اور ہر ضرورت جو تیری رضا کا باعث بنے اسے پورا فرما دے۔ “ ترمذی، ابن ماجہ، اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه الترمذي (479) و ابن ماجه (1384) ٭ فائد: منکر الحديث، قاله البخاري، يعني لا تحل الرواية عنه.»
عن ابن عباس ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: للعباس بن عبد المطلب: يا عباس يا عماه الا اعطيك؟ الا امنحك؟ الا احبوك؟ الا افعل بك عشر خصال إذا انت فعلت ذلك غفر الله لك ذنبك اوله وآخره قديمه وحديثه خطاه وعمده صغيره وكبيره سره وعلانيته: ان تصلي اربع ركعات تقرا في كل ركعة فاتحة الكتاب وسورة. فإذا فرغت من القراءة في اول ركعة وانت قائم قلت سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله اكبر خمس عشرة مرة ثم تركع فتقولها وانت راكع عشرا ثم ترفع راسك من الركوع فتقولها عشرا ثم تهوي ساجدا فتقولها وانت ساجد عشرا ثم ترفع راسك من السجود فتقولها عشرا ثم تسجد فتقولها عشرا ثم ترفع راسك فتقولها عشرا فذلك خمس وسبعون في كل ركعة تفعل ذلك في اربع ركعات إن استطعت ان تصليها في كل يوم فافعل فإن لم تفعل ففي كل جمعة مرة فإن لم تفعل ففي كل شهر مرة فإن لم تفعل ففي كل سنة مرة فإن لم تفعل ففي عمرك مرة. رواه ابو داود وابن ماجه والبيهقي في الدعوات الكبير عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لِلْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ: يَا عَبَّاسُ يَا عَمَّاهُ أَلَا أُعْطِيكَ؟ أَلَا أَمْنَحُكَ؟ أَلا أحبوك؟ أَلَا أَفْعَلُ بِكَ عَشْرَ خِصَالٍ إِذَا أَنْتَ فَعَلْتَ ذَلِكَ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ ذَنْبَكَ أَوَّلَهُ وَآخِرَهُ قَدِيمَهُ وَحَدِيثَهُ خَطَأَهُ وَعَمْدَهُ صَغِيرَهُ وَكَبِيرَهُ سِرَّهُ وَعَلَانِيَتَهُ: أَنْ تُصَلِّيَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ تَقْرَأُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ فَاتِحَةَ الْكِتَابِ وَسُورَةً. فَإِذَا فَرَغْتَ مِنَ الْقِرَاءَةِ فِي أَوَّلِ رَكْعَةٍ وَأَنْتَ قَائِمٌ قُلْتَ سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ خَمْسَ عَشْرَةَ مَرَّةً ثُمَّ تَرْكَعُ فَتَقُولُهَا وَأَنْتَ رَاكِعٌ عَشْرًا ثُمَّ تَرْفَعُ رَأْسَكَ مِنَ الرُّكُوعِ فَتَقُولُهَا عَشْرًا ثُمَّ تَهْوِي سَاجِدًا فَتَقُولُهَا وَأَنْتَ سَاجِدٌ عَشْرًا ثُمَّ تَرْفَعُ رَأْسَكَ مِنَ السُّجُودِ فَتَقُولُهَا عَشْرًا ثُمَّ تَسْجُدُ فَتَقُولُهَا عَشْرًا ثُمَّ تَرْفَعُ رَأْسَكَ فَتَقُولُهَا عَشْرًا فَذَلِكَ خَمْسٌ وَسَبْعُونَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ تَفْعَلُ ذَلِكَ فِي أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ إِنِ اسْتَطَعْت أَن تصليها فِي كل يَوْم فَافْعَلْ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَفِي كُلِّ جُمُعَةٍ مَرَّةً فَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَفِي كُلِّ شَهْرٍ مَرَّةً فَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَفِي كُلِّ سَنَةٍ مَرَّةً فَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَفِي عُمْرِكَ مَرَّةً. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَهْ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي الدَّعْوَات الْكَبِير
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”اے چچا جان عباس! کیا میں آپ کو کچھ عطا نہ کروں؟ کیا میں آپ کو کچھ عنایت نہ کروں؟ کیا میں آپ کو کوئی خبر نہ دوں؟ کیا میں آپ کو دس خصلتیں عطا نہ کروں کہ جب آپ ان پر عمل کریں تو اللہ آپ کے اگلے پچھلے، قدیم و جدید، سہواً کیے گئے یا عمداً، چھوٹے بڑے، پوشیدہ اور ظاہر تمام گناہ معاف فرما دے، وہ یہ کہ آپ چار رکعت نماز پڑھیں، ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ اور کوئی دوسری سورت پڑھیں، جب آپ پہلی رکعت میں قراءت سے فارغ ہو جائیں اور ابھی قیام میں ہوں ت�� آپ پندرہ مرتبہ ”سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر“ پڑھیں، پھر آپ رکوع کریں اور رکوع میں یہی تسبیح دس مرتبہ پڑھیں، پھر رکوع سے سر اٹھائیں اور دس مرتبہ یہی کلمات پڑھیں، پھر سجدہ کریں اور سجدہ میں دس مرتبہ یہی کلمات پڑھیں، پھر سجدہ سے سر اٹھائیں اور دس مرتبہ یہی کلمات پڑھیں، پھر سجدہ کریں اور دس مرتبہ یہی کلمات پڑھیں اور پھر سجدہ سے سر اٹھائیں اور دس مرتبہ یہی کلمات پڑھیں، اس طرح ہر رکعت میں پچھتر مرتبہ کلمات ہوں گے، آپ یہ عمل چار رکعتوں میں دہرائیں، اگر آپ ہر روز اسے پڑھ سکیں تو پڑھیں، اگر ایسے نہ ہو سکے تو پھر ہر جمعہ (یعنی ہفتہ میں ایک بار) پڑھیں، اگر ایسے نہ کر سکیں تو پھر سال میں ایک مرتبہ پڑھیں، اگر ایسے بھی نہ کر سکیں تو پھر اپنی زندگی میں ایک بار ہی پڑھ لیں۔ “ حسن، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ و البیھقی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أبو داود (1297) و ابن ماجه (1387) والبيھقي في الدعوات الکبير (2/ 159 ح 393)»
وعن ابي هريرة قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن اول ما يحاسب به العبد يوم القيامة من عمله صلاته فإن صلحت فقد افلح وانجح وإن فسدت فقد خاب وخسر فإن انتقص من فريضته شيء قال الرب تبارك وتعالى: نظروا هل لعبدي من تطوع؟ فيكمل بها ما انتقص من الفريضة ثم يكون سائر عمله على ذلك. وفي رواية: «ثم الزكاة مثل ذلك ثم تؤخذ الاعمال حسب ذلك» . رواه ابو داود وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عمله صلَاته فَإِن صلحت فقد أَفْلح وأنجح وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ فَإِنِ انْتَقَصَ مِنْ فَرِيضَتِهِ شَيْءٌ قَالَ الرَّبُّ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: نظرُوا هَلْ لِعَبْدِي مِنْ تَطَوُّعٍ؟ فَيُكَمَّلُ بِهَا مَا انْتَقَصَ مِنَ الْفَرِيضَةِ ثُمَّ يَكُونُ سَائِرُ عَمَلِهِ عَلَى ذَلِكَ. وَفِي رِوَايَةٍ: «ثُمَّ الزَّكَاةُ مِثْلَ ذَلِك ثمَّ تُؤْخَذ الْأَعْمَال حسب ذَلِك» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”بندے سے روز قیامت اس کے اعمال میں سے سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا، اگر وہ صحیح و درست ہوئی تو وہ فلاح و نجات پا گیا اور اگر وہ صحیح و درست نہ ہوئی تو پھر وہ ناکام و نا مراد ہو گا، اگر اس کے فرائض میں کوئی کمی ہوئی تو رب تبارک و تعالی فرمائے گا: دیکھو، کیا میرے بندے کے کچھ نوافل ہیں، تو اس طرح فرائض کی کمی کو ان (نوافل) سے پورا کر دیا جائے گا، پھر باقی اعمال کا حساب اسی طرح ہو گا۔ “ اور ایک دوسری روایت میں ہے: ”پھر زکوۃ کا حساب بھی اسی طرح ہو گا اور پھر باقی اعمال کا حساب بھی اسی (مذکور مثال کی) طرح ہو گا۔ “ حسن واللفظ مرکب، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن واللفظ مرکب، رواه أبو داود (864 و سنده ضعيف و ھو بغير ھذا اللفظ، 866 و سنده صحيح و ھي الرواية الثانية عندصاحب المشکوة) [و رواه ابن ماجه (1425 وسنده ضعيف) و صححه الحاکم (262/1) ووافقه الذهبي]»
وعن ابي امامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما اذن الله لعبد في شيء افضل من الركعتين يصليهما وإن البر ليذر على راس العبد ما دام في صلاته وما تقرب العباد إلى الله بمثل ما خرج منه» يعني القرآن. رواه احمد والترمذي وَعَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا أَذِنَ اللَّهُ لَعَبْدٍ فِي شَيْءٍ أَفْضَلَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ يُصَلِّيهِمَا وَإِنَّ الْبِرَّ لَيُذَرُّ عَلَى رَأْسِ الْعَبْدِ مَا دَامَ فِي صَلَاتِهِ وَمَا تَقَرَّبَ الْعِبَادُ إِلَى اللَّهِ بِمِثْلِ مَا خَرَجَ مِنْهُ» يَعْنِي الْقُرْآنَ. رَوَاهُ أَحْمد وَالتِّرْمِذِيّ
ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بندہ جب دو رکعتیں پڑھتا ہے تو اللہ اس طرف خصوصی توجہ فرماتا ہے اور جب تک بندہ نماز پڑھتا رہتا ہے تو نیکی (رحمت) اس بندے کے سر پر سایہ کرتی رہتی ہے، اور بندہ اللہ کے کلام یعنی قرآن کے ذریعے جس قدر اللہ کا قرب حاصل کر سکتا ہے ویسا کسی اور چیز کے ذریعے حاصل نہیں کر سکتا۔ “ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (5/ 268 ح 22662) والترمذي (2911 وقال: غريب) ٭ ليث بن أبي سليم ضعيف.»
عن انس: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى الظهر بالمدينة اربعا وصلى العصر بذي الحليفة ركعتين عَنْ أَنَسٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الظُّهْرَ بِالْمَدِينَةِ أَرْبَعًا وَصَلَّى الْعَصْر بِذِي الحليفة رَكْعَتَيْنِ
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ میں ظہر چار رکعت (پوری نماز) ادا کی اور ذوالحلیفہ میں عصر دو رکعت (قصر نماز) ادا کی۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1089) و مسلم (690/10)»