وعن عبد الله بن ابي اوفى قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من كانت له حاجة إلى الله او إلى احد من بني آدم فليتوضا فليحسن الوضوء ثم ليصل ركعتين ثم ليثن على الله تعالى وليصل على النبي صلى الله عليه وسلم ثم ليقل: لا إله إلا الله الحليم الكريم سبحان الله رب العرش العظيم والحمد لله رب العالمين اسالك موجبات رحمتك وعزائم مغفرتك والغنيمة من كل بر والسلامة من كل إثم لا تدع لي ذنبا إلا غفرته ولا هما إلا فرجته ولا حاجة هي لك رضى إلا قضيتها يا ارحم الراحمين. رواه الترمذي وابن ماجه وقال الترمذي: هذا حديث غريب وَعَنْ عَبْدُ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ كَانَتْ لَهُ حَاجَةٌ إِلَى اللَّهِ أَوْ إِلَى أحد من بني آدم فَليَتَوَضَّأ فليحسن الْوُضُوءَ ثُمَّ لْيُصَلِّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ لْيُثْنِ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى وَلْيُصَلِّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ لْيَقُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ أَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ وَالْغَنِيمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ وَالسَّلَامَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ لَا تَدَعْ لِي ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَهُ وَلَا هَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَهُ وَلَا حَاجَةً هِيَ لَكَ رِضًى إِلَّا قَضَيْتَهَا يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيث غَرِيب
عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کو اللہ سے کوئی حاجت و ضرورت ہو یا کسی انسان سے کوئی کام ہو تو وہ اچھی طرح وضو کر کے دو رکعتیں پڑھے، پھر اللہ تعالیٰ کی ثنا بیان کرے اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوٰۃ پڑھے پھر یوں دعا کرے: ”اللہ حلیم و کریم کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، عرش عظیم کا رب پاک ہے، ہر قسم کی حمد اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے، میں تجھ سے ان اعمال و اسباب کی درخواست کرتا ہوں جو تیری رحمت اور تیری مغفرت کو واجب و مؤکد کر دیں، میں ہر نیکی کو غنیمت جاننے اور ہر گناہ سے بچنے کی تجھ سے درخواست کرتا ہوں، سب سے زیادہ رحم فرمانے والے! میرے تمام گناہ معاف فرما دے، میرے تمام غم دور کر دے اور ہر ضرورت جو تیری رضا کا باعث بنے اسے پورا فرما دے۔ “ ترمذی، ابن ماجہ، اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه الترمذي (479) و ابن ماجه (1384) ٭ فائد: منکر الحديث، قاله البخاري، يعني لا تحل الرواية عنه.»