وعن رجل من اسد بن خزيمة انه سال ابا ايوب الانصاري قال: يصلي احدنا في منزله الصلاة ثم ياتي المسجد وتقام الصلاة فاصلي معهم فاجد في نفسي شيئا من ذلك فقال ابو ايوب: سالنا عن ذلك النبي صلى الله عليه وسلم قال: «فذلك له سهم جمع» . رواه مالك وابو داود وَعَنْ رَجُلٍ مِنْ أَسَدِ بْنِ خُزَيْمَةَ أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيَّ قَالَ: يُصَلِّي أَحَدُنَا فِي مَنْزِلِهِ الصَّلَاةَ ثُمَّ يَأْتِي الْمَسْجِدَ وَتُقَامُ الصَّلَاةُ فَأُصَلِّي مَعَهُمْ فَأَجِدُ فِي نَفْسِي شَيْئًا من ذَلِك فَقَالَ أَبُو أَيُّوبَ: سَأَلَنَا عَنْ ذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «فَذَلِكَ لَهُ سَهْمُ جَمْعٍ» . رَوَاهُ مَالِكٌ وَأَبُو دَاوُد
اسد بن خزیمہ کے قبیلے کے ایک شخص سے روایت ہے کہ انہوں نے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مسئلہ دریافت کیا، ہم میں سے کوئی شخص اپنے گھر میں نماز پڑھ کر مسجد میں آتا ہے اور نماز ہو رہی ہو تو کیا میں ان کے ساتھ نماز پڑھوں؟ اس پر میرا دل مطمئن نہیں ہوتا، ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم نے اس بارے میں دریافت کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس کے لیے جماعت کا ثواب ہے۔ “ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه مالک (1/ 133 ح 297) و أبو داود (578) ٭ رجل من أسد بن خزيمة: لم أعرفه.»
وعن يزيد بن عامر قال: جئت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في الصلاة فجلست ولم ادخل معهم في الصلاة فلما انصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم رآني جالسا فقال: «الم تسلم يا زيد؟» قلت: بلى يا رسول الله قد اسلمت. قال: «وما منعك ان تدخل مع الناس في صلاتهم؟» قال: إني كنت قد صليت في منزلي احسب ان قد صليتم. فقال: «إذا جئت الصلاة فوجدت الناس فصل معهم وإن كنت قد صليت تكن لك نافلة وهذه مكتوبة» . رواه ابو داود وَعَن يَزِيدَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ: جِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ فَجَلَسْتُ وَلَمْ أَدْخُلْ مَعَهُمْ فِي الصَّلَاةِ فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَآنِي جَالِسا فَقَالَ: «ألم تسلم يَا زيد؟» قُلْتُ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ أَسْلَمْتُ. قَالَ: «وَمَا مَنَعَكَ أَنْ تَدْخُلَ مَعَ النَّاسِ فِي صَلَاتِهِمْ؟» قَالَ: إِنِّي كُنْتُ قَدْ صَلَّيْتُ فِي مَنْزِلِي أَحْسَبُ أَنْ قَدْ صَلَّيْتُمْ. فَقَالَ: «إِذَا جِئْتَ الصَّلَاةَ فَوَجَدْتَ النَّاسَ فَصَلِّ مَعَهُمْ وَإِنْ كُنْتَ قَدْ صَلَّيْتَ تَكُنْ لَكَ نَافِلَةً وَهَذِه مَكْتُوبَة» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
یزید بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نماز پڑھ رہے تھے، میں بیٹھ گیا اور ان کے ساتھ نماز میں شریک نہ ہوا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فارغ ہوئے تو آپ نے مجھے بیٹھے ہوئے دیکھ کر فرمایا: ”یزید! کیا تم مسلمان نہیں؟“ میں نے عرض کیا، کیوں نہیں، اللہ کے رسول! میں تو مسلمان ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے جماعت کے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟“ انہوں نے عرض کیا، میں سمجھا کہ آپ نماز پڑھ چکے ہوں گے لہذا میں نے گھر میں پڑھ لی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: ”جب تم نماز کے لیے آؤ اور لوگوں کو پاؤ تو پھر تم ان کے ساتھ نماز پڑھو اور اگر تم پڑھ چکے ہو تو پھر وہ تمہارے لیے نفل ہو گی اور یہ فرض۔ “ ضعیف۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (577) ٭ نوح بن صعصعة: مجھول الحال، لم يوثقه غير ابن حبان.»
وعن ابن عمر رضي الله عنهما: ان رجلا ساله فقال: إني اصلي في بيتي ثم ادرك الصلاة في المسجد مع الإمام افاصلي معه؟ قال له: نعم قال الرجل: ايتهما اجعل صلاتي؟ قال عمر: وذلك إليك؟ إنما ذلك إلى الله عز وجل يجعل ايتهما شاء. رواه مالك وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَجُلًا سَأَلَهُ فَقَالَ: إِنِّي أُصَلِّي فِي بَيْتِي ثُمَّ أُدْرِكُ الصَّلَاةَ فِي الْمَسْجِدِ مَعَ الْإِمَامِ أَفَأُصَلِّي مَعَهُ؟ قَالَ لَهُ: نَعَمْ قَالَ الرجل: أَيَّتهمَا أجعَل صَلَاتي؟ قَالَ عُمَرَ: وَذَلِكَ إِلَيْكَ؟ إِنَّمَا ذَلِكَ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ يَجْعَلُ أَيَّتَهُمَا شَاءَ. رَوَاهُ مَالِكٌ
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کسی آدمی نے ان سے دریافت کیا اس نے کہا: میں گھر میں نماز پڑھ لوں اور پھر مسجد میں با جماعت نماز پا لوں تو پھر کیا میں جماعت کے ساتھ شریک ہو جاؤں؟ انہوں نے اسے بتایا، ہاں، اس آدمی نے کہا: میں ان میں سے کس کو اپنی (فر��) نماز قرار دوں؟ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا تجھے اس کا اختیار ہے؟ اس کا اختیار تو اللہ عزوجل کو حاصل ہے کہ وہ ان میں سے جسے چاہے (فرض) بنائے۔ صحیح، رواہ مالک۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه مالک (1/ 133 ح 295)»
وعن سليمان مولى ميمونة قال: اتينا ابن عمر على البلاط وهم يصلون. فقلت: الا تصلي معهم؟ فقال: قد صليت وإني سمعت رسول الله يقول: «لا تصلوا صلاة في يوم مرتين» . رواه احمد وابو داود والنسائي وَعَنْ سُلَيْمَانَ مَوْلَى مَيْمُونَةَ قَالَ: أَتَيْنَا ابْنَ عُمَرَ عَلَى الْبَلَاطِ وَهُمْ يُصَلُّونَ. فَقُلْتُ: أَلَا تُصَلِّي مَعَهُمْ؟ فَقَالَ: قَدْ صَلَّيْتُ وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُول الله يَقُولُ: «لَا تُصَلُّوا صَلَاةً فِي يَوْمٍ مَرَّتَيْنِ» . رَوَاهُ أَحْمد وَأَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيّ
میمونہ رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام سلیمان بیان کرتے ہیں، ہم مقام بلاط پر ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو وہ لوگ نماز پڑھ رہے تھے، میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ ان کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے؟ انہوں نے فرمایا: میں پڑھ چکا ہوں، اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”ایک نماز کو ایک ہی دن میں دو مرتبہ نہ پڑھو۔ “ صحیح، رواہ احمد و ابوداؤد و النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أحمد (2/ 19) و أبو داود (579) والنسائي (2/ 114 ح 861) [و صححه ابن خزيمة (1641) و ابن حبان (432)]»
وعن نافع قال: إن عبد الله بن عمر كان يقول: من صلى المغرب او الصبح ثم ادركهما مع الإمام فلا يعد لهما. رواه مالك وَعَنْ نَافِعٍ قَالَ: إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ يَقُولُ: مَنْ صَلَّى الْمَغْرِبَ أَوِ الصُّبْحَ ثُمَّ أَدْرَكَهُمَا مَعَ الْإِمَامِ فَلَا يَعُدْ لَهما. رَوَاهُ مَالك
نافع ؒ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: جو شخص نماز مغرب یا نماز فجر پڑھ لے، پھر وہ انہیں امام کے ساتھ پا لے تو وہ انہیں دوبارہ نہ پڑھے۔ صحیح، رواہ مالک۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه مالک (1/ 133 ح 298)»
عن ام حبيبة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من صلى في يوم وليلة اثنتي عشرة ركعة بني له بيت في الجنة: اربعا قبل الظهر وركعتين بعدها وركعتين بعد المغرب وركعتين بعد العشاء وركعتين قبل صلاة الفجر. رواه الترمذي وفي رواية لمسلم انها قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «ما من عبد مسلم يصلي لله كل يوم ثنتي عشرة ركعة تطوعا غير فريضة إلا بنى الله له بيتا في لاجنة او إلا بني له بيت في الجنة» عَن أُمِّ حَبِيبَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ صَلَّى فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً بُنِيَ لَهُ بَيْتٌ فِي الْجَنَّةِ: أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمغرب وَرَكْعَتَيْنِ بعد الْعشَاء وَرَكْعَتَيْنِ قبل صَلَاة الْفَجْرِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ أَنَّهَا قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَا مِنْ عَبْدٍ مُسْلِمٍ يُصَلِّي لِلَّهِ كُلَّ يَوْمٍ ثْنَتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً تَطَوُّعًا غَيْرَ فَرِيضَةٍ إِلَّا بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي لاجنة أَوْ إِلَّا بُنِيَ لَهُ بَيْتٌ فِي الْجَنَّةِ»
ام حبیبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص دن اور رات میں (فرض نماز کے علاوہ) بارہ رکعتیں پڑھتا ہے تو اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنا دیا جاتا ہے: ظہر سے پہلے چار اور اس کے بعد دو رکعتیں، مغرب کے بعد دو رکعت، عشاء کے بعد دو اور نماز فجر سے پہلے دو رکعتیں۔ “ ترمذی اور مسلم کی روایت میں ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو مسلمان آدمی ہر روز فرائض کے علاوہ اللہ کی رضا کی خاطر بارہ رکعتیں نفل ادا کرتا ہے تو اللہ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنا دیتا ہے، یا اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنا دیا جاتا ہے۔ “ صحیح، رواہ مسلم و الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الترمذي (415 وقال: حسن صحيح.) و مسلم (103/ 728) ٭ مؤمل بن إسماعيل: حسن الحديث کما حققته في جزء خاص و لم يثبت فيه الجرح المنسوب إلي البخاري والحمد للّٰه.»
وعن ابن عمر قال: صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين قبل الظهر وركعتين بعدها وركعتين بعد المغرب في بيته وركعتين بعد العشاء في بيته قال: وحدثتني حفصة: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي ركعتين خفيفتين حين يطلع الفجر وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الظُّهْرِ وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ فِي بَيْتِهِ وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ فِي بَيْتِهِ قَالَ: وَحَدَّثَتْنِي حَفْصَةُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ حِينَ يَطْلُعُ الْفَجْرُ
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ظہر سے پہلے دو رکعتیں پڑھیں اور اس کے بعد، مغرب کے بعد دو رکعتیں آپ کے گھر پڑھیں اور دو رکعتیں عشاء کے بعد آپ کے گھر میں پڑھیں، اور انہوں نے بیان کیا، حفصہ رضی اللہ عنہ (جو کہ آپ کی بہن تھیں) نے مجھے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فجر طلوع ہو جانے پر ہلکی سی دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1180، 1181) و مسلم (104 / 729)»
وعن ابن عمر قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم لا يصلي بعد الجمعة حتى ينصرف فيصلي ركعتين في بيته وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُصَلِّي بَعْدَ الْجُمُعَةِ حَتَّى يَنْصَرِفَ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ فِي بَيته
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعہ کے بعد گھر تشریف لے جا کر صرف دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (937) و مسلم (407/ 729)»
وعن عبد الله بن شقيق قال: سالت عائشة عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم عن تطوعه فقالت: كان يصلي في بيتي قبل الظهر اربعا ثم يخرج فيصلي بالناس ثم يدخل فيصلي ركعتين وكان يصلي بالناس المغرب ثم يدخل فيصلي ركعتين ويصلي بالناس العشاء ويدخل بيتي فيصلي ركعتين وكان يصلي من الليل تسع ركعات فيهن الوتر وكان يصلي ليلا طويلا قائما وليلا طويلا قاعدا وكان إذا قرا وهو قائم ركع وسجد وهو قائم وإذا قرا قاعدا ركع وسجد وهو قاعد وكان إذا طلع الفجر صلى ركعتين. رواه مسلم. وزاد ابو داود: ثم يخرج فيصلي بالناس صلاة الفجر وَعَن عبد الله بن شَقِيق قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ تَطَوُّعِهِ فَقَالَتْ: كَانَ يُصَلِّي فِي بَيْتِي قَبْلَ الظُّهْرِ أَرْبَعًا ثُمَّ يَخْرُجُ فَيُصَلِّي بِالنَّاسِ ثُمَّ يَدْخُلُ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَكَانَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ الْمَغْرِبَ ثُمَّ يَدْخُلُ فَيصَلي رَكْعَتَيْنِ وَيُصلي بِالنَّاسِ الْعِشَاءَ وَيَدْخُلُ بَيْتِي فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَكَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ تِسْعَ رَكَعَاتٍ فِيهِنَّ الْوَتْرُ وَكَانَ يُصَلِّي لَيْلًا طَوِيلًا قَائِمًا وَلَيْلًا طَوِيلًا قَاعِدا وَكَانَ إِذَا قَرَأَ وَهُوَ قَائِمٌ رَكَعَ وَسَجَدَ وَهُوَ قَائِم وَإِذا قَرَأَ قَاعِدًا رَكَعَ وَسَجَدَ وَهُوَ قَاعِدٌ وَكَانَ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ. وَزَادَ أَبُو دَاوُدَ: ثُمَّ يَخْرُجُ فَيُصَلِّي بِالنَّاسِ صَلَاة الْفجْر
عبداللہ بن شقیق ؒ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نفل نماز کے متعلق عائشہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعتیں میرے گھر میں پڑھتے، پھر نماز پڑھانے تشریف لے جاتے، پھر آ کر دو رکعتیں پڑھتے، پھر آپ نماز مغرب پڑھاتے، پھر گھر تشریف لا کر دو رکعتیں پڑھتے، پھر نماز عشاء پڑھاتے اور میرے گھر تشریف لا کر دو رکعتیں پڑھتے، آپ وتر سمیت نو رکعت نماز تہجد پڑھا کرتے تھے، آپ رات دیر تک کھڑے ہو کر نماز پڑھتے اور دیر تک بیٹھ کر نماز پڑھتے، جب آپ کھڑے ہو کر قراءت کرتے تو رکوع و سجود بھی کھڑے ہو کر کرتے، اور جب آپ بیٹھ کر قراءت کرتے تو رکوع و سجود بھی بیٹھ کر ہی کرتے، اور جب فجر طلوع ہو جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو رکعتیں پڑھتے۔ مسلم، اور امام ابوداؤد نے یہ اضافہ نقل کیا ہے: پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز فجر پڑھانے کے لیے تشریف لے جاتے۔ رواہ مسلم و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (105/ 730) و أبو داود (1251)»
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: لم يكن النبي صلى الله عليه وسلم على شيء من النوافل اشد تعاهدا منه على ركعتي الفجر وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: لَمْ يَكُنِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى شَيْءٍ مِنَ النَّوَافِلِ أَشَدَّ تَعَاهُدًا مِنْهُ على رَكْعَتي الْفجْر
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نوافل میں سے فجر کی دو رکعتوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1169) و مسلم (94/ 724)»