مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر
مشكوة المصابيح
علم کا بیان
1.27. اعمال جاریہ
حدیث نمبر: 254
Save to word اعراب
‏‏‏‏عن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن مما يلحق -[85]- المؤمن من عمله وحسناته بعد موته علما علمه ونشره وولدا صالحا تركه ومصحفا ورثه او مسجدا بناه او بيتا لابن السبيل بناه او نهرا اجراه او صدقة اخرجها من ماله في صحته وحياته يلحقه من بعد موته» . رواه بن ماجه والبيهقي في شعب الإيمان ‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ مِمَّا يَلْحَقُ -[85]- الْمُؤْمِنَ مِنْ عَمَلِهِ وَحَسَنَاتِهِ بَعْدَ مَوْتِهِ عِلْمًا علمه ونشره وَولدا صَالحا تَركه ومصحفا وَرَّثَهُ أَوْ مَسْجِدًا بَنَاهُ أَوْ بَيْتًا لِابْنِ السَّبِيلِ بَنَاهُ أَوْ نَهْرًا أَجْرَاهُ أَوْ صَدَقَةً أخرجهَا من مَاله فِي صِحَّته وحياته يلْحقهُ من بعد مَوته» . رَوَاهُ بن مَاجَه وَالْبَيْهَقِيّ فِي شعب الْإِيمَان
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مومن کو اپنی موت کے بعد اپنے مال و حسنات میں جن کا ثواب پہنچتا رہتا ہے، ان میں سے ایک علم ہے جو اس نے سکھایا اور اسے نشر کیا، (دوسرا) نیک اولاد جو اس نے چھوڑی، یا قرآن مجید جو اس نے کسی کو عطیہ کیا، یا مسجد ہے جو اس نے بنائی یا مسافر خانہ ہے جو اس نے بنایا، یا نہر ہے جو اس نے جاری کی یا وہ صدقہ ہے جو اس نے اپنی صحت و حیات میں اپنے مال سے کیا، پس یہ وہ اعمال ہیں جن کا ثواب اس کی موت کے بعد بھی اسے پہنچتا رہتا ہے۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے اور بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«سنده ضعيف، رواه ابن ماجه (242) والبيھقي في شعب الإيمان (3448) [و صححه ابن خزيمة (2490) و للحديث شواھد معنوية]
٭ الوليد بن مسلم کان يدلس تدليس التسوية و لم يصرح بالسماع المسلسل و مرزوق بن أبي الھذيل ضعفه الجمھور.»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده ضعيف
1.28. حصول علم جنت کا راستہ
حدیث نمبر: 255
Save to word اعراب
‏‏‏‏وعن عائشة انها قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إن الله عز وجل اوحى إلي انه من سلك مسلكا في طلب العلم سهلت له طريق الجنة ومن سلبت كريمتيه اثبته عليهما الجنة. وفضل في علم خير من فضل في عبادة وملاك الدين الورع» . رواه البيهقي في شعب الإيمان ‏‏‏‏وَعَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَوْحَى إِلَيَّ أَنَّهُ مَنْ سَلَكَ مَسْلَكًا فِي طَلَبِ الْعِلْمِ سَهَّلْتُ لَهُ طَرِيقَ الْجَنَّةِ وَمَنْ سَلَبْتُ كَرِيمَتَيْهِ أَثَبْتُهُ عَلَيْهِمَا الْجَنَّةَ. وَفَضْلٌ فِي عِلْمٍ خَيْرٌ مِنْ فَضْلٍ فِي عِبَادَةٍ وَمِلَاكُ الدِّينِ الْوَرَعُ» . رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي شعب الْإِيمَان
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ عزوجل نے میری طرف وحی فرمائی کہ جو شخص طلب علم میں کوئی سفر کرتا ہے تو میں اس کے لیے راہ جنت آسان کر دیتا ہوں، اور میں جس کی دونوں آنکھیں سلب کر لیتا ہوں تو میں اس کے بدلے اسے جنت عطا کر دیتا ہوں، علم میں زیادت، عبادت میں زیادت سے بہتر ہے، اور دین کی اصل تقویٰ ہے۔ اس حدیث کو بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«سنده موضوع، رواه البيھقي في شعب الإيمان (5751)
٭ فيه محمد بن عبدالملک الأنصاري و کان يضع الحديث و يکذب.»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده موضوع
1.29. علم اور علماء کے فضائل
حدیث نمبر: 256
Save to word اعراب
‏‏‏‏وعن ابن عباس قال: تدارس العلم ساعة من الليل خير من إحيائها. رواه الدارمي ‏‏‏‏وَعَن ابْن عَبَّاس قَالَ: تَدَارُسُ الْعِلْمِ سَاعَةً مِنَ اللَّيْلِ خَيْرٌ من إحيائها. رَوَاهُ الدَّارمِيّ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں، رات کی ایک گھڑی کی درس و تدریس رات بھر عبادت کرنے سے بہتر ہے۔ اس حدیث کو دارمی نے روایت کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف، رواه الدارمي (1/ 149 ح 620)
٭ السند منقطع، ابن جريج لم يدرک ابن عباس، و حفص بن غياث مدلس و عنعن.»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
حدیث نمبر: 257
Save to word اعراب
‏‏‏‏وعن عبد الله بن عمرو ان رسول الله صلى الله عليه وسلم مر بمجلسين في مسجده فقال: «كلاهما على خير واحدهما افضل من صاحبه اما هؤلاء فيدعون الله ويرغبون إليه فإن شاء اعطاهم وإن شاء منعهم. واما هؤلاء فيتعلمون الفقه او العلم ويعلمون الجاهل فهم -[86]- افضل وإنما بعثت معلما» ثم جلس فيهم. رواه الدارمي ‏‏‏‏وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِمَجْلِسَيْنِ فِي مَسْجِدِهِ فَقَالَ: «كِلَاهُمَا عَلَى خَيْرٍ وَأَحَدُهُمَا أَفْضَلُ مِنْ صَاحِبِهِ أَمَّا هَؤُلَاءِ فَيَدْعُونَ اللَّهَ وَيَرْغَبُونَ إِلَيْهِ فَإِنْ شَاءَ أَعْطَاهُمْ وَإِنْ شَاءَ مَنَعَهُمْ. وَأَمَّا هَؤُلَاءِ فَيَتَعَلَّمُونَ الْفِقْهَ أَوِ الْعِلْمَ وَيُعَلِّمُونَ الْجَاهِلَ فَهُمْ -[86]- أَفْضَلُ وَإِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا» ثمَّ جلس فيهم. رَوَاهُ الدَّارمِيّ
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسجد نبوی میں دو حلقوں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: دونوں خیرو بھلائی پر ہیں، لیکن ان میں ایک دوسرے سے افضل ہے، رہے وہ لوگ جو اللہ سے دعا کر رہے ہیں اور اس کے مشتاق ہیں، پس اگر وہ چاہے تو انہیں عطا فرمائے اور اگر چاہے تو عطا نہ فرمائے، اور رہے وہ لوگ جو فقہ یا علم سیکھ رہے ہیں اور جاہلوں کو تعلیم دے رہے ہیں، تو وہ بہتر ہیں، اور مجھے تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ پھر آپ اس حلقے میں بیٹھ گئے۔ اس حدیث کو دارمی نے روایت کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف، رواه الدارمي (1/ 99، 100 ح 355)
٭ عبد الرحمٰن بن زياد و عبد الرحمٰن بن رافع ضعيفان تقدما (239) وقال رسول الله ﷺ: إن الله تعالي لم يبعثني معنتًا و لا متعنتًا ولکن بعثني معلمًا ميسرًا. (رواه مسلم: 1478، دارالسلام: 3690)»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
حدیث نمبر: 258
Save to word اعراب
‏‏‏‏وعن ابي الدرداء قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما حد العلم الذي إذا بلغه الرجل كان فقيها؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من حفظ على امتي اربعين حديثا في امر دينها بعثه الله فقيها وكنت له يوم القيامة شافعا وشهيدا» ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا حَدُّ الْعِلْمِ الَّذِي إِذَا بَلَغَهُ الرَّجُلُ كَانَ فَقِيهًا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «من حَفِظَ عَلَى أُمَّتِي أَرْبَعِينَ حَدِيثًا فِي أَمْرِ دِينِهَا بَعَثَهُ اللَّهُ فَقِيهًا وَكُنْتُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَة شافعا وشهيدا»
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ سے دریافت کیا گیا کہ علم کی وہ کیا حد ہے جہاں پہنچ کر انسان فقیہ بن جاتا ہے؟ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس شخص نے امور دین کے متعلق چالیس احادیث یاد کیں اور انہیں آگے امت تک پہنچایا تو اللہ اسے فقیہ کی حیثیت سے اٹھائے گا اور روز قیامت میں اس کے حق میں شفاعت کروں گا اور گواہی دوں گا۔ اس حدیث کو بیہقی نے روایت کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (1726 و سنده موضوع)
٭ نوح بن ذکوان ضعيف و أخوه أيوب: منکر الحديث، والحسن البصري عنعن، و عبد الملک بن ھارون بن عنترة کذاب و للحديث طرق کثيرة کلھا ضعيفة.»

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
حدیث نمبر: 259
Save to word اعراب
‏‏‏‏وعن انس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «هل تدرون من اجود جودا؟» قالوا: الله ورسوله اعلم. قال: «الله تعالى اجود جودا ثم انا اجود بني آدم واجودهم من بعدي رجل علم علما فنشره ياتي يوم القيامة اميرا وحده او قال امة وحده» ‏‏‏‏وَعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَلْ تَدْرُونَ مَنْ أَجْوَدُ جُودًا؟» قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: «اللَّهُ تَعَالَى أَجْوَدُ جُودًا ثُمَّ أَنَا أَجْوَدُ بَنِي آدَمَ وَأَجْوَدُهُمْ مِنْ بَعْدِي رَجُلٌ عَلِمَ عِلْمًا فَنَشَرَهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَمِيرًا وَحده أَو قَالَ أمة وَحده»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو سب سے بڑا سخی کون ہے؟ صحابہ نے عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سب سے بڑا سخی ہے، پھر اولاد آدم میں سب سے بڑا سخی میں ہوں، اور میرے بعد وہ شخص سخی ہے جس نے علم حاصل کیا اور اسے فروغ دیا، روز قیامت وہ اس حیثیت سے آئے گا کہ وہ اکیلا ہی امیر ہو گا۔ یا فرمایا: اکیلا ہی ایک امت ہو گا۔  اس حدیث کو بیہقی نے روایت کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف جدًا، رواه البيھقي في شعب الإيمان (1767)
٭ فيه سويد بن عبد العزيز: ضعفه الجمھور، و نوح بن ذکوان ضعيف و أيوب بن ذکوان مجروح منکر الحديث.»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف جدًا
حدیث نمبر: 260
Save to word اعراب
‏‏‏‏وعنه ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:" منهومان لا يشبعان: منهوم في العلم لا يشبع منه ومنهوم في الدنيا لا يشبع منها «. روى البيهقي الاحاديث الثلاثة في» شعب الإيمان" وقال: قال الإمام احمد في حديث ابي الدرداء: هذا متن مشهور فيما بين الناس وليس له إسناد صحيح ‏‏‏‏وَعَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْهُومَانِ لَا يَشْبَعَانِ: مَنْهُومٌ فِي الْعِلْمِ لَا يَشْبَعُ مِنْهُ وَمَنْهُومٌ فِي الدُّنْيَا لَا يَشْبَعُ مِنْهَا «. رَوَى الْبَيْهَقِيُّ الْأَحَادِيثَ الثَّلَاثَةَ فِي» شُعَبِ الْإِيمَانِ" وَقَالَ: قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ فِي حَدِيثِ أَبِي الدَّرْدَاءِ: هَذَا مَتْنٌ مَشْهُورٌ فِيمَا بَين النَّاس وَلَيْسَ لَهُ إِسْنَاد صَحِيح
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دو قسم کے بھوکے حریص لوگ کبھی سیر نہیں ہوتے، علم کا حریص شخص کبھی علم سے سیر نہیں ہوتا اور دنیا کا حریص کبھی دنیا سے سیر نہیں ہوتا۔ بیہقی نے یہ تینوں احادیث شعب الایمان میں بیان کی ہیں۔ اور امام احمد نے ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے بارے میں فرمایا: اس حدیث کا متن تو لوگوں میں مشہور ہے، لیکن اس کی اسناد صحیح نہیں۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«سنده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (10279، نسخة محققة: 9798، و في المدخل: 50) [و ابن عدي في الکامل (2298/6) و عنه ابن الجوزي في العلل المتناھية (113) و في سنده: محمد بن أحمد بن يزيد مجروح.]
٭ فيه أبو الفضل العباس بن الحسين بن أحمد الصفار لم أجد و حميد الطويل مدلس و عنعن و سقط ذکره من شعب الإيمان و للحديث شواھد ضعيفة عند الحاکم (1/ 92) و أبي خيثمة في العلم (141) وغيرهما. وقال کعب الأحبار لأبي ھريرة رضي الله عنه: أما إنک لم تجد أحدًا يطلب شيئًا ألا يشبع منه يومًا من الدھر إلا طالب علم و طلب دنيا. (رواه الحاکم 92/1 ح 313 وسنده صحيح) تعديلات [260]: سنده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (10279، وسقط منه ذکر حميد الطويل، نسخة محققة: 9798، و في المدخل: 50) [و ابن عدي في الکامل (2298/6) و عنه ابن الجوزي في العلل المتناھية (113) و في سنده: محمد بن أحمد بن يزيد مجروح.] ٭ فيه أبو الفضل العباس بن الحسين بن أحمد الصفار لم أجده و للحديث شواھد ضعيفة عند الحاکم (1/ 92) و أبي خيثمة في العلم (141) وغيرهما.»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده ضعيف
حدیث نمبر: 261
Save to word اعراب
‏‏‏‏عن عون قال: قال عبد الله بن مسعود: منهومان لا يشبعان صاحب العلم وصاحب الدنيا ولا يستويان اما صاحب العلم فيزداد رضى للرحمن واما صاحب الدنيا فيتمادى في الطغيان. ثم قرا عبد الله (كلا إن الإنسان ليطغى ان رآه استغنى) ‏‏‏‏قال وقال الآخر (إنما يخشى الله من عباده العلماء. رواه الدارمي ‏‏‏‏  ‏‏‏‏عَن عَوْنٍ قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: مَنْهُومَانِ لَا يَشْبَعَانِ صَاحِبُ الْعِلْمِ وَصَاحِبُ الدُّنْيَا وَلَا يَسْتَوِيَانِ أَمَّا صَاحِبُ الْعِلْمِ فَيَزْدَادُ رِضًى لِلرَّحْمَنِ وَأَمَّا صَاحِبُ الدُّنْيَا فَيَتَمَادَى فِي الطُّغْيَانِ. ثُمَّ قَرَأَ عَبْدُ اللَّهِ (كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَى أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَى) ‏‏‏‏قَالَ وَقَالَ الْآخَرُ (إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عباده الْعلمَاء. رَوَاهُ الدَّارمِيّ ‏‏‏‏ 
عون رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دو بھوکے حریص لوگ سیر نہیں ہوتے صاحب علم اور صاحب دنیا، اور یہ دونوں برابر بھی نہیں ہو سکتے، رہا صاحب علم تو وہ رحمان کی رضا مندی میں بڑھتا چلا جاتا ہے، اور رہا صاحب دنیا تو وہ سرکشی میں بڑھتا چلا جاتا ہے۔ پھر عبداللہ رضی اللہ عنہ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ہاں بلاشبہ انسان سرکش ہو جاتا ہے، جب وہ اپنے آپ کو بے نیاز سمجھتا ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں، انہوں نے دوسرے کے لیے یہ آیت تلاوت فرمائی: بات صرف یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے علما ہی اس سے ڈرتے ہیں۔ اس حدیث کو دارمی نے روایت کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف، رواه الدارمي (1/ 96 ح 339)
٭ عون بن عبد الله بن عتبة بن مسعود لم يسمع من ابن مسعود رضي الله عنه فالسند منقطع.»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
1.3. علماء کے لیے غور و فکر کی کچھ احادیث
حدیث نمبر: 262
Save to word اعراب
‏‏‏‏وعن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إن اناسا من امتي سيتفقهون في الدين ويقرءون القرآن يقولون ناتي الامراء فنصيب من دنياهم ونعتزلهم بديننا ولا يكون ذلك كما لا يجتنى من القتاد إلا الشوك كذلك لا يجتنى من قربهم إلا - قال محمد بن الصباح: كانه يعني - الخطايا". رواه ابن ماجه ‏‏‏‏وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم قَالَ:" إِنَّ أُنَاسًا مِنْ أُمَّتِي سَيَتَفَقَّهُونَ فِي الدِّينِ ويقرءون الْقُرْآن يَقُولُونَ نَأْتِي الْأُمَرَاءَ فَنُصِيبُ مِنْ دُنْيَاهُمْ وَنَعْتَزِلُهُمْ بِدِينِنَا وَلَا يَكُونُ ذَلِكَ كَمَا لَا يُجْتَنَى مِنَ الْقَتَادِ إِلَّا الشَّوْكُ كَذَلِكَ لَا يُجْتَنَى مِنْ قُرْبِهِمْ إِلَّا - قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ: كَأَنَّهُ يَعْنِي - الْخَطَايَا". رَوَاهُ ابْن مَاجَه
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت میں سے کچھ لوگ دین میں تفقہ حاصل کرنے کا دعویٰ کریں گے، وہ قرآن پڑھیں گے، وہ کہیں گے: ہم امرا کے پاس جا کر ان سے ان کی دنیا سے کچھ حاصل کرتے ہیں، اور ہم اپنے دین کو ان سے بچا کر رکھتے ہیں حالانکہ ایسے نہیں ہو سکتا۔ جیسے قتاد (سخت کانٹے دار جنگلی درخت) سے صرف کانٹے ہی چنے جا سکتے ہیں، اسی طرح ان (امرا) کے قرب سے سوائے۔ محمد بن صباح نے کہا: گویا آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ان کے پاس جانے سے گناہ حاصل ہو گا۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف، رواه ابن ماجه (255)
٭ الوليد بن مسلم مدلس و عنعن و فيه علة أخري و ھي جھالة عبيد الله بن أبي بردة.»

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
حدیث نمبر: 263
Save to word اعراب
‏‏‏‏وعن عبد الله بن مسعود قال: لو ان اهل العلم صانوا العلم ووضعوه عند اهله لسادوا به اهل زمانهم ولكنهم بذلوه لاهل الدنيا لينالوا به من دنياهم فهانوا عليهم سمعت نبيكم صلى الله عليه وسلم يقول: «من جعل الهموم هما واحدا هم آخرته كفاه الله هم دنياه -[88]- ومن تشعبت به الهموم في احوال الدنيا لم يبال الله في اي اوديتها هلك» . رواه ابن ماجه ‏‏‏‏وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: لَوْ أَنَّ أَهْلَ الْعِلْمِ صَانُوا الْعِلْمَ وَوَضَعُوهُ عِنْدَ أَهْلِهِ لَسَادُوا بِهِ أَهْلَ زَمَانِهِمْ وَلَكِنَّهُمْ بَذَلُوهُ لِأَهْلِ الدُّنْيَا لِيَنَالُوا بِهِ مِنْ دُنْيَاهُمْ فَهَانُوا عَلَيْهِمْ سَمِعْتُ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ جَعَلَ الْهُمُومَ هَمًّا وَاحِدًا هَمَّ آخِرَتِهِ كَفَاهُ اللَّهُ هَمَّ دُنْيَاهُ -[88]- وَمَنْ تَشَعَّبَتْ بِهِ الْهُمُومُ فِي أَحْوَالِ الدُّنْيَا لَمْ يُبَالِ اللَّهُ فِي أَيِّ أَوْدِيَتِهَا هَلَكَ» . رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: اگر اہل علم، علم کی حفاظت کرتے اور اسے اس کے اہل لوگوں تک پہنچاتے تو وہ اس کے ذریعے اپنے زمانے کے لوگوں پر سیادت و حکمرانی کرتے، لیکن انہوں نے دنیا داروں کے لیے مخصوص کر دیا تاکہ وہ اس کے ذریعے ان کی دنیا سے کچھ حاصل کر لیں، تو اس طرح وہ ان کے سامنے بے آبرو ہوگئے، میں نے تمہارے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جو شخص اپنے غموں کو سمیٹ کر فقط اپنی (آخرت کو) ایک غم بنا لیتا ہے تو اللہ اس کے دنیا کے غموں سے اس کے لیے کافی ہو جاتا ہے، اور جس شخص کو دنیا کے غم و فکر منتشر رکھیں تو پھر اللہ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ کس وادی میں ہلاک ہوتا ہے۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«ضعيف، رواه ابن ماجه (257) [و سنده ضعيف جدًا، نھشل: متروک، کذبه ابن راھويه، و انظر الحديث الآتي: 264]»

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف

Previous    3    4    5    6    7    8    9    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.