مشكوة المصابيح
كِتَاب الْعِلْمِ
علم کا بیان
علماء کے لیے غور و فکر کی کچھ احادیث
حدیث نمبر: 263
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: لَوْ أَنَّ أَهْلَ الْعِلْمِ صَانُوا الْعِلْمَ وَوَضَعُوهُ عِنْدَ أَهْلِهِ لَسَادُوا بِهِ أَهْلَ زَمَانِهِمْ وَلَكِنَّهُمْ بَذَلُوهُ لِأَهْلِ الدُّنْيَا لِيَنَالُوا بِهِ مِنْ دُنْيَاهُمْ فَهَانُوا عَلَيْهِمْ سَمِعْتُ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ جَعَلَ الْهُمُومَ هَمًّا وَاحِدًا هَمَّ آخِرَتِهِ كَفَاهُ اللَّهُ هَمَّ دُنْيَاهُ -[88]- وَمَنْ تَشَعَّبَتْ بِهِ الْهُمُومُ فِي أَحْوَالِ الدُّنْيَا لَمْ يُبَالِ اللَّهُ فِي أَيِّ أَوْدِيَتِهَا هَلَكَ» . رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: اگر اہل علم، علم کی حفاظت کرتے اور اسے اس کے اہل لوگوں تک پہنچاتے تو وہ اس کے ذریعے اپنے زمانے کے لوگوں پر سیادت و حکمرانی کرتے، لیکن انہوں نے دنیا داروں کے لیے مخصوص کر دیا تاکہ وہ اس کے ذریعے ان کی دنیا سے کچھ حاصل کر لیں، تو اس طرح وہ ان کے سامنے بے آبرو ہوگئے، میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو شخص اپنے غموں کو سمیٹ کر فقط اپنی (آخرت کو) ایک غم بنا لیتا ہے تو اللہ اس کے دنیا کے غموں سے اس کے لیے کافی ہو جاتا ہے، اور جس شخص کو دنیا کے غم و فکر منتشر رکھیں تو پھر اللہ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ کس وادی میں ہلاک ہوتا ہے۔ “اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «ضعيف، رواه ابن ماجه (257) [و سنده ضعيف جدًا، نھشل: متروک، کذبه ابن راھويه، و انظر الحديث الآتي: 264]»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
مشکوۃ المصابیح کی حدیث نمبر 263 کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 263
تحقیق الحدیث:
اس کی سند سخت ضعیف و مردود ہے اور یہ روایت ضعیف ہے۔
اس میں وجہ ضعف دو ہیں:
➊ نہشل بن سعید شدید مجروح اور ساقط العدالت راوی ہے۔
◄ اس کے بارے میں امام ابوداود الطیالسی اور امام اسحاق بن راہویہ دونوں نے کہا: «كذاب» [كتاب الجرح والتعديل 8؍496 وسنده صحيح]
◄ حاکم نیشاپوری نے کہا:
«روي عن الضحاك بن مزاحم الموضوعات . . .»
”اس نے ضحاک بن مزاحم سے موضوعات (موضوع روایتیں) بیان کی ہیں۔“ [المدخل الي الصحيح ص218 ت209]
یہ روایت بھی ضحاک سے ہے، لہٰذا موضوع ہے۔
➋ معاویہ بن سلمہ النصری مجہول الحال ہے اور بعض غیر موثق روایتوں میں اس کی توثیق بھی مروی ہے۔ [اخلاق العلماء للآجري ص92] میں یہی روایت «شعيب بن ايوب: أخبرنا عبدالله بن نمير: أخبرنا معاوية النصري . إلخ» کی سند سے موجود ہے، لہٰذا ثابت ہوا کہ نہشل اس روایت کے ساتھ منفرد نہیں ہے، اس روایت کے سارے شواہد ضعیف ہیں۔
تنبیہ:
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من كانت الدنيا همه فرق الله عليه أمره وجعل فقره بين عينيه ولم يأته من الدنيا إلا ما كتب له، ومن كانت الآخرة نيته جمع الله له أمره وجعل غناه فى قلبه وأتته الدنيا وهى راغمة .»
”جسے (صرف) دنیا کا ہی غم ہو، اللہ اس کے معاملات منتشر کر دیتا ہے اور اس کی آنکھوں پر غربت طاری کر دیتا ہے، اسے دنیا میں سے وہی ملتا ہے جو اس کی قسمت میں ہے۔ اور جسے آخرت کا غم ہو تو اللہ اس کے معاملات اکٹھے کر دیتا ہے اور اس کے دل میں بےنیازی پیدا کر دیتا ہے، دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر آتی ہے۔“ [سنن ابن ماجه: 4105 وسنده صحيح وحسنه الترمذي: 2656 وصححه ابن حبان: 72 والبوصيري فى زوائد ابن ماجه]
↰ یہ صحیح حدیث سابقہ روایت سے بےنیاز کر دیتی ہے۔
فائدہ:
احوال الدنیا سے پہلے «في» کا لفظ مشکوٰۃ کے نسخوں سے گر گیا ہے، لہٰذا اس کا اضافہ اصل سنن ابن ماجہ سے کیا گیا ہے۔
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 263
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث257
´علم سے نفع اٹھانے اور اس پر عمل کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا اگر اہل علم علم کی حفاظت کرتے، اور اس کو اس کے اہل ہی کے پاس رکھتے تو وہ اپنے زمانہ والوں کے سردار ہوتے، لیکن ان لوگوں نے دنیا طلبی کے لیے اہل دنیا پر علم کو نچھاور کیا، تو ان کی نگاہوں میں ذلیل ہو گئے، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس نے اپنی تمام تر سوچوں کو ایک سوچ یعنی آخرت کی سوچ بنا لیا، تو اللہ تعالیٰ اس کے دنیاوی غموں کے لیے کافی ہو گا، اور جس کی تمام تر سوچیں دنیاوی احوال میں پریشان رہیں، تو اللہ تعالیٰ کو کچھ پرواہ نہیں کہ وہ کس وادی میں ہلاک ہو جائے“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 257]
اردو حاشہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو دنیا کے معاملات میں بھی آخرت کے فائدہ اور نقصان کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔
مومن آخرت کے فائدہ کے لیے دنیا کا نقصان برداشت کر لیتا ہے اس لیے اس کو اس قربانی پر غم اور افسوس نہیں ہوتا بلکہ خوشی ہوتی ہے، اس طرح وہ دنیا کے تفکرات سے گویا محفوظ ہو جاتا ہے۔
(2)
آخرت کو فراموش کرنے کا برا نتیجہ دنیا میں بھی ملتا ہے اور وہ یہ کہ انسان ہمیشہ فکر و غم میں مبتلا رہتا ہے، اس سے جو چیز چھن جاتی ہے اس پر سخت غمگین ہوتا ہے جبکہ مومن کو کوئی مصیبت پیش آتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے کیونکہ اسے آخرت میں بہتر جزا ملنے کی امید ہوتی ہے۔
(3)
بعض محققین نے اس روایت کوحسن قرار دیا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 257
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4106
´دنیا کے غم و فکر کا بیان۔`
اسود بن یزید کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے تمہارے محترم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس نے اپنے سارے غموں کو آخرت کا غم بنا لیا تو اللہ تعالیٰ اس کی دنیا کے غم کے لیے کافی ہے، اور جو دنیاوی معاملات کے غموں اور پریشانیوں میں الجھا رہا، تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی پروا نہیں کہ وہ کس وادی میں ہلاک ہوا۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4106]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
دنیا کے تفکرات سے بے نیاز کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی جائز ضروریات آسانی سے پوری ہوجاتی ہیں اور جو شخص حرص وہوس کی وجہ سے طرح طرح کے تفکرات میں مبتلا ہوتا ہے۔
اس کے تفکرات ختم نہیں ہوتے وہ خود ہی ان میں الجھا ہوا اللہ کے حضور پیش ہوجاتا ہے۔
مزید تفصیل کے لیے حدیث: 257 کے فوائد دیکھیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4106