(مرفوع) حدثنا يحيى بن بكير حدثنا الليث عن عقيل عن ابن شهاب. وحدثني عبد الله بن محمد حدثنا عبد الرزاق حدثنا معمر قال الزهري فاخبرني عروة عن عائشة رضي الله عنها انها قالت اول ما بدئ به رسول الله صلى الله عليه وسلم من الوحي الرؤيا الصادقة في النوم، فكان لا يرى رؤيا إلا جاءت مثل فلق الصبح، فكان ياتي حراء فيتحنث فيه- وهو التعبد- الليالي ذوات العدد، ويتزود لذلك ثم يرجع إلى خديجة فتزوده لمثلها، حتى فجئه الحق وهو في غار حراء فجاءه الملك فيه فقال اقرا. فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: «فقلت ما انا بقارئ فاخذني فغطني حتى بلغ مني الجهد ثم ارسلني. فقال اقرا. فقلت ما انا بقارئ. فاخذني فغطني الثانية حتى بلغ مني الجهد، ثم ارسلني فقال اقرا. فقلت ما انا بقارئ. فغطني الثالثة حتى بلغ مني الجهد، ثم ارسلني فقال اقرا باسم ربك الذي خلق» . حتى بلغ: {ما لم يعلم} فرجع بها ترجف بوادره حتى دخل على خديجة فقال: «زملوني زملوني» . فزملوه حتى ذهب عنه الروع فقال: «يا خديجة ما لي» . واخبرها الخبر وقال: «قد خشيت على نفسي» . فقالت له كلا ابشر، فوالله لا يخزيك الله ابدا، إنك لتصل الرحم، وتصدق الحديث، وتحمل الكل، وتقري الضيف، وتعين على نوائب الحق. ثم انطلقت به خديجة حتى اتت به ورقة بن نوفل بن اسد بن عبد العزى بن قصي- وهو ابن عم خديجة اخو ابيها، وكان امرا تنصر في الجاهلية، وكان يكتب الكتاب العربي فيكتب بالعربية من الإنجيل ما شاء الله ان يكتب، وكان شيخا كبيرا قد عمي- فقالت له خديجة اي ابن عم اسمع من ابن اخيك. فقال ورقة ابن اخي ماذا ترى فاخبره النبي صلى الله عليه وسلم ما راى فقال ورقة هذا الناموس الذي انزل على موسى، يا ليتني فيها جذعا اكون حيا، حين يخرجك قومك. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اومخرجي هم» . فقال ورقة نعم، لم يات رجل قط بما جئت به إلا عودي، وإن يدركني يومك انصرك نصرا مؤزرا. ثم لم ينشب ورقة ان توفي، وفتر الوحي فترة حتى حزن النبي صلى الله عليه وسلم فيما بلغنا حزنا غدا منه مرارا كي يتردى من رءوس شواهق الجبال، فكلما اوفى بذروة جبل لكي يلقي منه نفسه، تبدى له جبريل فقال يا محمد إنك رسول الله حقا. فيسكن لذلك جاشه وتقر نفسه فيرجع، فإذا طالت عليه فترة الوحي غدا لمثل ذلك، فإذا اوفى بذروة جبل تبدى له جبريل فقال له مثل ذلك. قال ابن عباس: {فالق الإصباح} ضوء الشمس بالنهار، وضوء القمر بالليل.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ. وَحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ قَالَ الزُّهْرِيُّ فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ فِي النَّوْمِ، فَكَانَ لاَ يَرَى رُؤْيَا إِلاَّ جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ، فَكَانَ يَأْتِي حِرَاءً فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ- وَهْوَ التَّعَبُّدُ- اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ، وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ فَتُزَوِّدُهُ لِمِثْلِهَا، حَتَّى فَجِئَهُ الْحَقُّ وَهْوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ فَجَاءَهُ الْمَلَكُ فِيهِ فَقَالَ اقْرَأْ. فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي. فَقَالَ اقْرَأْ. فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ. فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ. فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ. فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدُ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ» . حَتَّى بَلَغَ: {مَا لَمْ يَعْلَمْ} فَرَجَعَ بِهَا تَرْجُفُ بَوَادِرُهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ فَقَالَ: «زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي» . فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ فَقَالَ: «يَا خَدِيجَةُ مَا لِي» . وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ وَقَالَ: «قَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي» . فَقَالَتْ لَهُ كَلاَّ أَبْشِرْ، فَوَاللَّهِ لاَ يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ. ثُمَّ انْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قُصَيٍّ- وَهْوَ ابْنُ عَمِّ خَدِيجَةَ أَخُو أَبِيهَا، وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعَرَبِيَّ فَيَكْتُبُ بِالْعَرَبِيَّةِ مِنَ الإِنْجِيلِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ، وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِيَ- فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ أَيِ ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنِ ابْنِ أَخِيكَ. فَقَالَ وَرَقَةُ ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَى فَأَخْبَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا رَأَى فَقَالَ وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَى مُوسَى، يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا أَكُونُ حَيًّا، حِينَ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَوَمُخْرِجِيَّ هُمْ» . فَقَالَ وَرَقَةُ نَعَمْ، لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمَا جِئْتَ بِهِ إِلاَّ عُودِيَ، وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا. ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ، وَفَتَرَ الْوَحْيُ فَتْرَةً حَتَّى حَزِنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا بَلَغَنَا حُزْنًا غَدَا مِنْهُ مِرَارًا كَيْ يَتَرَدَّى مِنْ رُءُوسِ شَوَاهِقِ الْجِبَالِ، فَكُلَّمَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ لِكَيْ يُلْقِيَ مِنْهُ نَفْسَهُ، تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا. فَيَسْكُنُ لِذَلِكَ جَأْشُهُ وَتَقِرُّ نَفْسُهُ فَيَرْجِعُ، فَإِذَا طَالَتْ عَلَيْهِ فَتْرَةُ الْوَحْيِ غَدَا لِمِثْلِ ذَلِكَ، فَإِذَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: {فَالِقُ الإِصْبَاحِ} ضَوْءُ الشَّمْسِ بِالنَّهَارِ، وَضَوْءُ الْقَمَرِ بِاللَّيْلِ.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ‘ ان سے عقیل بن خالد نے بیان کیا ‘ اور ان سے ابن شہاب نے بیان کیا (دوسری سند امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا) کہ مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا مجھ سے عبدالرزاق نے بیان کیا ‘ ان سے معمر نے بیان کیا ‘ ان سے زہری نے کہا کہ مجھے عروہ نے خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتداء سونے کی حالت میں سچے خواب کے ذریعہ ہوئی۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو خواب بھی دیکھتے تو وہ صبح کی روشنی کی طرح سامنے آ جاتا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں چلے جاتے اور اس میں تنہا اللہ کی یاد کرتے تھے چند مقررہ دنوں کے لیے (یہاں آتے) اور ان دنوں کا توشہ بھی ساتھ لاتے۔ پھر خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس واپس تشریف لے جاتے اور وہ پھر اتنا ہی توشہ آپ کے ساتھ کر دیتیں یہاں تک کہ حق آپ کے پاس اچانک آ گیا اور آپ غار حرا ہی میں تھے۔ چنانچہ اس میں فرشتہ آپ کے پاس آیا اور کہا کہ پڑھیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ آخر اس نے مجھے پکڑ لیا اور زور سے دابا اور خوب دابا جس کی وجہ سے مجھ کو بہت تکلیف ہوئی۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس نے مجھے ایسا دابا کہ میں بے قابو ہو گیا یا انہوں نے اپنا زور ختم کر دیا اور پھر چھوڑ کر اس نے مجھ سے کہا کہ پڑھیے اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ہے۔ الفاظ «ما لم يعلم» تک۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے تو آپ کے مونڈھوں کے گوشت (ڈر کے مارے) پھڑک رہے تھے۔ جب گھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوئے تو فرمایا کہ مجھے چادر اڑھا دو ‘ مجھے چادر اڑھا دو، چنانچہ آپ کو چادر اڑھا دی گئی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خوف دور ہو گیا تو فرمایا کہ خدیجہ میرا حال کیا ہو گیا ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سارا حال بیان کیا اور فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔ لیکن خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا اللہ کی قسم ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا، آپ خوش رہئیے اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں، بات سچی بولتے ہیں، ناداروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی وجہ سے پیش آنے والی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ پھر آپ کو خدیجہ رضی اللہ عنہا ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی کے پاس لائیں جو خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد خویلد کے بھائی کے بیٹے تھے۔ جو زمانہ جاہلیت میں عیسائی ہو گئے تھے اور عربی لکھ لیتے تھے اور وہ جتنا اللہ تعالیٰ چاہتا عربی میں انجیل کا ترجمہ لکھا کرتے تھے، وہ اس وقت بہت بوڑھے ہو گئے تھے اور بینائی بھی جاتی رہی تھی۔ ان سے خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا: بھائی! اپنے بھتیجے کی بات سنو۔ ورقہ نے پوچھا: بھتیجے تم کیا دیکھتے ہو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دیکھا تھا وہ سنایا تو ورقہ نے کہا کہ یہ تو وہی فرشتہ (جبرائیل علیہ السلام) ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر آیا تھا۔ کاش میں اس وقت جوان ہوتا جب تمہیں تمہاری قوم نکال دے گی اور زندہ رہتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا یہ مجھے نکالیں گے؟ ورقہ نے کہا کہ ہاں۔ جب بھی کوئی نبی و رسول وہ پیغام لے کر آیا جسے لے کر آپ آئے ہیں تو اس کے ساتھ دشمنی کی گئی اور اگر میں نے تمہارے وہ دن پا لیے تو میں تمہاری بھرپور مدد کروں گا لیکن کچھ ہی دنوں بعد ورقہ کا انتقال ہو گیا اور وحی کا سلسلہ کٹ گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی وجہ سے اتنا غم تھا کہ آپ نے کئی مرتبہ پہاڑ کی بلند چوٹی سے اپنے آپ کو گرا دینا چاہا لیکن جب بھی آپ کسی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھے تاکہ اس پر سے اپنے آپ کو گرا دیں تو جبرائیل علیہ السلام آپ کے سامنے آ گئے اور کہا کہ یا محمد! آپ یقیناً اللہ کے رسول ہیں۔ اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سکون ہوتا اور آپ واپس آ جاتے لیکن جب وحی زیادہ دنوں تک رکی رہی تو آپ نے ایک مرتبہ اور ایسا ارادہ کیا لیکن جب پہاڑ کی چوٹی پر چڑھے تو جبرائیل علیہ السلام سامنے آئے اور اسی طرح کی بات پھر کہی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا (سورۃ الانعام) میں لفظ «فالق الإصباح» سے مراد دن میں سورج کی روشنی اور رات میں چاند کی روشنی ہے۔
Narrated `Aisha: The commencement of the Divine Inspiration to Allah's Apostle was in the form of good righteous (true) dreams in his sleep. He never had a dream but that it came true like bright day light. He used to go in seclusion (the cave of) Hira where he used to worship(Allah Alone) continuously for many (days) nights. He used to take with him the journey food for that (stay) and then come back to (his wife) Khadija to take his food like-wise again for another period to stay, till suddenly the Truth descended upon him while he was in the cave of Hira. The angel came to him in it and asked him to read. The Prophet replied, "I do not know how to read." (The Prophet added), "The angel caught me (forcefully) and pressed me so hard that I could not bear it anymore. He then released me and again asked me to read, and I replied, "I do not know how to read," whereupon he caught me again and pressed me a second time till I could not bear it anymore. He then released me and asked me again to read, but again I replied, "I do not know how to read (or, what shall I read?)." Thereupon he caught me for the third time and pressed me and then released me and said, "Read: In the Name of your Lord, Who has created (all that exists). Has created man from a clot. Read and Your Lord is Most Generous...up to..... ..that which he knew not." (96.15) Then Allah's Apostle returned with the Inspiration, his neck muscles twitching with terror till he entered upon Khadija and said, "Cover me! Cover me!" They covered him till his fear was over and then he said, "O Khadija, what is wrong with me?" Then he told her everything that had happened and said, 'I fear that something may happen to me." Khadija said, 'Never! But have the glad tidings, for by Allah, Allah will never disgrace you as you keep good reactions with your Kith and kin, speak the truth, help the poor and the destitute, serve your guest generously and assist the deserving, calamityafflicted ones." Khadija then accompanied him to (her cousin) Waraqa bin Naufal bin Asad bin `Abdul `Uzza bin Qusai. Waraqa was the son of her paternal uncle, i.e., her father's brother, who during the Pre-Islamic Period became a Christian and used to write the Arabic writing and used to write of the Gospels in Arabic as much as Allah wished him to write. He was an old man and had lost his eyesight. Khadija said to him, "O my cousin! Listen to the story of your nephew." Waraqa asked, "O my nephew! What have you seen?" The Prophet described whatever he had seen. Waraqa said, "This is the same Namus (i.e., Gabriel, the Angel who keeps the secrets) whom Allah had sent to Moses. I wish I were young and could live up to the time when your people would turn you out." Allah's Apostle asked, "Will they turn me out?" Waraqa replied in the affirmative and said: "Never did a man come with something similar to what you have brought but was treated with hostility. If I should remain alive till the day when you will be turned out then I would support you strongly." But after a few days Waraqa died and the Divine Inspiration was also paused for a while and the Prophet became so sad as we have heard that he intended several times to throw himself from the tops of high mountains and every time he went up the top of a mountain in order to throw himself down, Gabriel would appear before him and say, "O Muhammad! You are indeed Allah's Apostle in truth" whereupon his heart would become quiet and he would calm down and would return home. And whenever the period of the coming of the inspiration used to become long, he would do as before, but when he used to reach the top of a mountain, Gabriel would appear before him and say to him what he had said before. (Ibn `Abbas said regarding the meaning of: 'He it is that Cleaves the daybreak (from the darkness)' (6.96) that Al-Asbah. means the light of the sun during the day and the light of the moon at night).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 87, Number 111
وقوله تعالى لقد صدق الله رسوله الرؤيا بالحق لتدخلن المسجد الحرام إن شاء الله آمنين محلقين رءوسكم ومقصرين لا تخافون فعلم ما لم تعلموا فجعل من دون ذلك فتحا قريبا سورة الفتح آية 27.وَقَوْلِهِ تَعَالَى لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لا تَخَافُونَ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِنْ دُونِ ذَلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا سورة الفتح آية 27.
اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ انا فتحنا میں) فرمایا «لقد صدق الله رسوله الرؤيا بالحق لتدخلن المسجد الحرام إن شاء الله آمنين محلقين رءوسكم ومقصرين لا تخافون فعلم ما لم تعلموا فجعل من دون ذلك فتحا قريبا» کہ ”بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کا خواب سچ کر دکھایا کہ یقیناً تم مسجد الحرام میں داخل ہو گے اگر اللہ نے چاہا امن کے ساتھ کچھ لوگ اپنے سر کے بالوں کو منڈوائیں گے یا کچھ کتروائیں گے اور تمہیں کسی کا خوف نہ ہو گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو وہ بات معلوم تھی جو تمہیں معلوم نہیں ہے پھر اللہ نے سردست تم کو ایک فتح (فتح خیبر) کرا دی۔“
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کسی نیک آدمی کا اچھا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔“
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ نے جو سعید کے بیٹے ہیں ‘ کہا کہ میں نے ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ کہا کہ میں نے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”(اچھے) خواب اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں اور برے خواب شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں۔“
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، حدثني ابن الهاد، عن عبد الله بن خباب، عن ابي سعيد الخدري، انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:" إذا راى احدكم رؤيا يحبها فإنما هي من الله، فليحمد الله عليها وليحدث بها، وإذا راى غير ذلك مما يكره، فإنما هي من الشيطان، فليستعذ من شرها ولا يذكرها لاحد فإنها لا تضره".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي ابْنُ الْهَادِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَبَّابٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ رُؤْيَا يُحِبُّهَا فَإِنَّمَا هِيَ مِنَ اللَّهِ، فَلْيَحْمَدِ اللَّهَ عَلَيْهَا وَلْيُحَدِّثْ بِهَا، وَإِذَا رَأَى غَيْرَ ذَلِكَ مِمَّا يَكْرَهُ، فَإِنَّمَا هِيَ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَلْيَسْتَعِذْ مِنْ شَرِّهَا وَلَا يَذْكُرْهَا لِأَحَدٍ فَإِنَّهَا لَا تَضُرُّهُ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن الہاد نے، ان سے عبداللہ بن خباب نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم میں سے کوئی ایسا خواب دیکھے جسے وہ پسند کرتا ہو تو وہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس پر اللہ کی حمد کرے اور اسے بتا دینا چاہئیے لیکن اگر کوئی اس کے سوا کوئی ایسا خواب دیکھتا ہے جو اسے ناپسند ہے تو یہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے پس اس کے شر سے پناہ مانگے اور کسی سے ایسے خواب کا ذکر نہ کرے یہ خواب اسے کچھ نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔“
Narrated Abu Sa`id Al-Khudri: The Prophet said, "If anyone of you sees a dream that he likes, then it is from Allah, and he should thank Allah for it and narrate it to others; but if he sees something else, i.e., a dream that he dislikes, then it is from Satan, and he should seek refuge with Allah from its evil, and he should not mention it to anybody, for it will not harm him."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 87, Number 114
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا عبد الله بن يحيى بن ابي كثير، واثنى عليه خيرا لقيته باليمامة، عن ابيه، حدثنا ابو سلمة، عن ابي قتادة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" الرؤيا الصالحة من الله، والحلم من الشيطان، فإذا حلم فليتعوذ منه، وليبصق عن شماله، فإنها لا تضره"،وعن ابيه، حدثنا عبد الله بن ابي قتادة، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ خَيْرًا لَقِيتُهُ بِالْيَمَامَةِ، عَنْ أَبِيهِ، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ مِنَ اللَّهِ، وَالْحُلْمُ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِذَا حَلَمَ فَلْيَتَعَوَّذْ مِنْهُ، وَلْيَبْصُقْ عَنْ شِمَالِهِ، فَإِنَّهَا لَا تَضُرُّهُ"،وَعَنْ أَبِيهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا اور ان کی تعریف کی کہ میں نے ان سے یمامہ میں ملاقات کی تھی، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابوسلمہ رضی اللہ عنہ اور ان سے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اچھا خواب اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور برا خواب شیطان کی طرف سے پس اگر کوئی برا خواب دیکھے تو اسے اس سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہئیے اور بائیں طرف تھوکنا چاہئیے یہ خواب اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا“ اور عبداللہ بن یحییٰ سے ان کے والد نے اور ان سے عبداللہ بن ابی قتادہ نے بیان کیا اور ان سے ان کے والد نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح بیان کیا۔
Narrated Abu Qatada: The Prophet said, "A good dream that comes true is from Allah, and a bad dream is from Satan, so if anyone of you sees a bad dream, he should seek refuge with Allah from Satan and should spit on the left, for the bad dream will not harm him."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 87, Number 115
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اور ان سے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مومن کا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہوتا ہے۔“
ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے سعید بن المسیب نے بیان کیا، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مومن کا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہوتا ہے۔“ اس کی روایت ثابت، حمید، اسحاق بن عبداللہ اور شعیب نے انس رضی اللہ عنہ سے کی انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
ہم سے ابراہیم بن حمزہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن ابی حازم اور عبدالعزیز دراوری نے بیان کیا، ان سے یزید بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن خباب نے، ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ نیک خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، حدثني سعيد بن المسيب، ان ابا هريرة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" لم يبق من النبوة إلا المبشرات، قالوا: وما المبشرات؟، قال: الرؤيا الصالحة".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ، قَالُوا: وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟، قَالَ: الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا مجھ سے سعید بن مسیب نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نبوت میں سے صرف اب مبشرات باقی رہ گئی ہیں۔ صحابہ نے پوچھا کہ مبشرات کیا ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھے خواب۔
Narrated Abu Huraira: I heard Allah's Apostle saying, "Nothing is left of the prophetism except Al-Mubashshirat." They asked, "What are Al-Mubashshirat?" He replied, "The true good dreams (that conveys glad tidings).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 87, Number 119