وقوله تعالى لقد صدق الله رسوله الرؤيا بالحق لتدخلن المسجد الحرام إن شاء الله آمنين محلقين رءوسكم ومقصرين لا تخافون فعلم ما لم تعلموا فجعل من دون ذلك فتحا قريبا سورة الفتح آية 27.وَقَوْلِهِ تَعَالَى لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لا تَخَافُونَ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِنْ دُونِ ذَلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا سورة الفتح آية 27.
اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ انا فتحنا میں) فرمایا «لقد صدق الله رسوله الرؤيا بالحق لتدخلن المسجد الحرام إن شاء الله آمنين محلقين رءوسكم ومقصرين لا تخافون فعلم ما لم تعلموا فجعل من دون ذلك فتحا قريبا» کہ ”بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کا خواب سچ کر دکھایا کہ یقیناً تم مسجد الحرام میں داخل ہو گے اگر اللہ نے چاہا امن کے ساتھ کچھ لوگ اپنے سر کے بالوں کو منڈوائیں گے یا کچھ کتروائیں گے اور تمہیں کسی کا خوف نہ ہو گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو وہ بات معلوم تھی جو تمہیں معلوم نہیں ہے پھر اللہ نے سردست تم کو ایک فتح (فتح خیبر) کرا دی۔“
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کسی نیک آدمی کا اچھا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔“
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6983
حدیث حاشیہ: ان چھیالیس حصوں کا علم اللہ ہی کو ہے ممکن ہے اللہ نے اپنے رسول پاک کو بھی ان سے آگاہ فرما دیا ہو ان حصوں کی تعداد کے بارے میں مختلف روایات ہیں جن سے زیادہ سے زیادہ نیک خواب کی فضیلت مراد ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6983
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6983
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود خواب کو حسنہ کہا ہے اور نیک لوگوں کے اچھے خوابوں کو نبوت کا چھیالسیواں حصہ قراردیا ہے،یعنی ضروری نہیں کہ ہر خواب مزاج کے اتارچڑھاؤ یا ذاتی رجحانات ہی کا نتیجہ ہو،اگرچہ ایک روایت میں مومن کے ہر خواب کے لیے یہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔ (صحیح البخاري، التعبیر، حدیث 6994) لیکن اس حدیث کے مطابق مومن کے اچھے خوابوں کو یہ مقام حاصل ہوتا ہے کہ وہ نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہوتے ہیں۔ 2۔ یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ بعض اوقات مومن بھی پراگندہ خوابوں سے دوچار ہو جاتا ہے لیکن ایسا کبھی کبھار ہوتا ہے کیونکہ مومن کے متعلق شیطان کی دخل اندازی بہت کم ہوتی ہے، اچھے خواب کے متعلق نبوت کے چھیالیسواں حصے کی تشریح ہم آئندہ کریں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6983
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 618
´یہ ضروری نہیں کہ خواب من وعن پورا ہو بلکہ اس کی تعبیر ممکن ہے` «. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”الرؤيا الحسنة من الرجل الصالح جزء من ستة واربعين جزءا من النبوة . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نیک آ دمی کا اچھا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 618]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 6983، من حديث مالك به]
تفقه: ➊ نبوت کے بہت سے حصے ہیں مثلاً وحی، جبریل علیہ السلام کا آنا، براہ راست کلام، پردے کے پیچھے سے کلام، الہام، کشف، فرشتے کا انسانی صورت میں وحی لانا، غیب کی خبریں اور سچے خواب وغیرہ۔ ان میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے کے بعد اب نبوت کی تمام قسمیں، حصے اور اجزاء ہمیشہ کے لئے ختم اور منقطع ہیں سوائے سچے خوابوں کے جنہیں نیک آدمی کبھی کبھار دیکھتا ہے۔ اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ جو شخص سچے خواب دیکھتا ہے وہ نبی یا رسول ہے بلکہ نبوت اور رسالت کا دروازہ قیامت تک ہمیشہ کے لئے بند کر دیا گیا ہے لہٰذا اب نہ کوئی نبی پیدا ہوگا اور نہ رسول پیدا ہوگا۔ ➋ بہت سے اہل بدعت کے مذاہب کا دارومدار جھوٹے، خود ساختہ اور شیطانی خوابوں پر ہے جن کے ذریعے سے وہ قرآن و حدیث اور اجماع کو رد کر دیتے ہیں۔ ➌ یہ ضروری نہیں کہ خواب من و عن پورا ہو بلکہ اس کی تعبیر ممکن ہے اور خواب میں رموز و اشارات اور مجاز وغیرہ ہو سکتا ہے۔ ➍ مشہور ثقہ امام قاضی ابوجعفر احمد بن اسحاق بن بہلول بن حسان بن سنان التنوخی البغدادی رحمہ اللہ (متوفي 318ھ) نے کہا: ”میں عراقیوں کے مذہب پر تھا تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا، آپ نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ آپ پہلی تکبیر میں اور جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے تھے۔“[سنن الدار قطني 1/292 ح1112، وسنده صحيح] ظاہر ہے کہ حنفی حضرات اس سچے اور نیک آدمی کے خواب کو صحیح نہیں مانتے لہٰذا ثابت ہوا کہ صحابہ کرام کے بعد کسی امتی کا خواب حجت نہیں ہے اگرچہ وہ یہ دعویٰ کرے کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے۔ ➎ نیز دیکھئے: [ح127، 375، 512]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 121
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5018
´خواب کا بیان۔` عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے ۱؎۔“[سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 5018]
فوائد ومسائل: 1۔ صاحب ایمان کی یہ فضیلت ہے۔ کہ اس کے خواب بالعموم سچے ہوتے ہیں۔ مومن کے خواب کو نبوت کا چھیالیسواں حصہ کہنے کی ایک توجیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہﷺ کا دور نبوت تیئس سال کا ہے اور ان میں پہلے چھ ماہ تک آپ کو محض خواب آیا کرتے تھے۔ جو اس قدر سچے اور حقیقت ہوتے تھے، جیسے رات کے اندھیرے کے بعد صبح صادق کا طلوع ہونا۔ تو یہ چھ ماہ تیئس سال کا چھیالیسواں حصہ ہے۔ تو اسی نسبت سے مومن کے خواب کے متعلق یہ کہا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔
2۔ جس شخص کی یہ خواہش ہو کہ اس کے خواب سچے ہوا کریں تو اسے چاہیے کہ اپنے ایمان وعمل کو خالص بنانے میں محنت کرے۔ اور ہمیشہ سچ بولنے کو اپنا معمول بنائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5018
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3893
´مسلمان اچھا خواب دیکھے یا اس کے بارے میں دیکھا جائے اس کا بیان۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نیک آدمی کا اچھا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب تعبير الرؤيا/حدیث: 3893]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) نبی کا خواب ہمیشہ سچا ہوتا ہے۔ کیونکہ اس پر شیطان کا اثر نہیں ہوتا البتہ بعض اوقات وہ خواب ایسا ہوتا ہے۔ جس کی تعبیر کی ضرورت ہوتی ہے۔ نیک آدمی کو کبھی غلط خواب بھی آتے ہیں کیونکہ وہ معصوم نہیں ہوتا۔ تاہم جتنا زیادہ نیک ہو اتنا زیادہ اس کے خواب سچا ہونے کی اُمید ہوتی ہے۔
(2) حضرت محمد رسول اللہ ﷺ آخری نبی ﷺ ہیں۔ ان کے بعد کوئی آدمی نبی نہیں ہوسکتا۔ اس لئے خواب کو نبوت کا چھیالیسواں حصہ کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ خواب دیکھنے والا شرف نبوت میں شریک ہوجاتا ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ نبوت کے چھیالیس یا ستر حصے ہیں۔ اور ان میں سے ایک حصہ اچھے خواب بھی ہیں۔ اگرچہ نبوت اب باقی نہیں رہی مگر اس کا یہ حصہ قیامت تک باقی ہے۔ اس کی ایک توجیہہ یہ بیان کی جاتی ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ کا دور نبوت تیئس سال کا ہے۔ اور ان میں پہلے چھ ماہ تک آپﷺ کو محض خواب آیا کرتے تھے۔ جو اس قدر سچے اور حقیقت پر مبنی ہوتے تھے جیسے رات کے اندھیرے کے بعد صبح صادق کاطلوع ہونا چونکہ یہ چھ ماہ تیئس سال کا چھیا لیسواں حصہ ہے اس نسبت سے مومن کے خواب کے متعلق یہ کہا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3893
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2272
´نبوت کے ختم ہونے اور بشارتوں کے باقی رہنے کا بیان۔` انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رسالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے، لہٰذا میرے بعد کوئی رسول اور کوئی نبی نہ ہو گا“، انس کہتے ہیں: یہ بات لوگوں پر گراں گزری تو آپ نے فرمایا: ”البتہ بشارتیں باقی ہیں“، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بشارتیں کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”مسلمان کا خواب اور یہ نبوت کا ایک حصہ ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الرؤيا/حدیث: 2272]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: نبی اکرمﷺکی بعثت اس امت کے لیے سب سے عظیم بشارت تھی، اللہ رب العالمین نے نبی اکرمﷺ کومبعوث فرما کر جو احسان اس امت پرکیا ہے ایسا احسان کسی دوسری امت پرنہیں کیا، اسے اسلام جیسی نعمت سے سرفرازکیا، رب العالمین اپنے اس احسان کا ذکرکچھ اس طرح فرما رہا ہے ﴿لَقَدْ مَنَّ اللهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ ...﴾(آل عمران: 164) آپ کی ذات گرامی اس امت کے لیے سراپا بشارت ہی بشارت تھی، دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعدآپﷺ کے فرمان کے مطابق بشارتوں میں سے اچھے خواب کے علاوہ کوئی دوسری چیز باقی نہ رہ گئی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2272