انا انا إسماعيل بن ابي خالد، عن الشعبي، قال: اراد قرظة ان ياتي العراق في اناس من بني عبد الاشهل، فخرج معهم عمر بن الخطاب، فدعا بماء فتوضا، فقال: هل تدرون لم خرجت معكم؟ قالوا: ودا لنا وحقا، قال: لكم حقا ولكني جئت في كلمة: " اقلوا الحديث عن النبي صلى الله عليه وسلم وانا شريككم فيه"، قال: فما كنت احدث عن النبي صلى الله عليه وسلم بعد قول عمر.أنا أنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: أَرَادَ قَرَظَةُ أَنْ يَأْتِيَ الْعِرَاقَ فِي أُنَاسٍ مِنْ بَنِي عَبْدِ الأَشْهَلِ، فَخَرَجَ مَعَهُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَدَعَا بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ، فَقَالَ: هَلْ تَدْرُونَ لِمَ خَرَجْتُ مَعَكُمْ؟ قَالُوا: وُدًّا لَنَا وَحَقًّا، قَالَ: لَكُمْ حَقًّا وَلَكِنِّي جِئْتُ فِي كَلِمَةٍ: " أَقِلُّوا الْحَدِيثَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا شَرِيكُكُمْ فِيهِ"، قَالَ: فَمَا كُنْتُ أُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ قَوْلِ عُمَرَ.
شعبی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ قرظہ نے بنو عبد الاشہل کے کچھ لوگوں کے ساتھ عراق آنے کا ارادہ کیا۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ نکلے اور پانی منگوایا، وضو کیا اور فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیوں نکلا ہوں؟ انہوں نے کہا کہ ہماری محبت اور ہمارے حق کی وجہ سے۔ فرمایا: بے شک تمہارا حق ہے، لیکن میں ایک بات کہنے آیا ہوں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کم حدیثیں بیان کرنا اور میں اس (بات کی پابندی)میں تمہارا شریک ہوں۔ (شعبی)نے کہا کہ میں عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان نہیں کیا کرتا تھا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجة: 1655، سنن دارمی،ا لمقدمة: 1/73، رقم: 285۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»
عن عن مالك بن مغول، عن الشعبي، سمعه يقول: قال عبد الله بن مسعود: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ثم ارعد او قال: اهتز، فقال: او فوق ذلك او دون ذلك او نحو ذلك".عَنْ عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، سَمِعَهُ يَقُولُ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ثُمَّ أَرْعَدَ أَوْ قَالَ: اهْتَزَّ، فَقَالَ: أَوْ فَوْقَ ذَلِكَ أَوْ دُونَ ذَلِكَ أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (شعبی نے کہا)پھر وہ (ابن مسعود رضی اللہ عنہ)گھبراہٹ سے کپکپانے لگے یا کہا کہ ہلنے لگے، اور کہا کہ یا اس سے اوپر یا اس کے کم اور اس طرح۔
عن عن المسعودي، عن مسلم البطين، عن عمرو بن ميمون، قال: اختلفت إلى عبد الله بن مسعود سنة، ما سمعته يقول فيها: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، إلا انه حدث بحديث فجرا في قوله قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فعلاه كرب شديد حتى رايت العرق يحدر عن جبهته، ثم قال: إن شاء الله، إما فوق ذلك وإما نحو ذلك، وإما قريب من ذلك".عَنِ عَنِ الْمَسْعُودِيِّ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، قَالَ: اخْتَلَفْتُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ سَنَةً، مَا سَمِعْتُهُ يَقُولُ فِيهَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِلا أَنَّهُ حَدَّثَ بِحَدِيثٍ فَجَرَا فِي قَوْلِهِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَعَلاهُ كَرْبٌ شَدِيدٌ حَتَّى رَأَيْتُ الْعَرَقَ يَحْدِرُ عَنْ جَبْهَتِهِ، ثُمَّ قَالَ: إِنْ شَاءَ اللَّهُ، إِمَّا فَوْقَ ذَلِكَ وَإِمَّا نَحْوَ ذَلِكَ، وَإِمَّا قَرِيبٌ مِنْ ذَلِكَ".
عمرو بن میمون رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس ایک سال آتاجاتا رہا۔ میں نے نہیں سنا کہ اس میں انہوں نے کہا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں بے شک ایک حدیث انہوں نے ضرور بیان کی تھی اور جب یہ کہنا شروع ہوئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو سخت پریشانی ان پرغالب آگئی، یہاں تک کہ میں نے ان کی پیشانی سے پسینے کے قطرے ٹپکتے دیکھے، پھر کہا: اگر اللہ نے چاہا، یا اس سے اوپر یا اس طرح یا اس کے قریب۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا)۔
عن عن معمر، عن ابن طاوس، عن ابيه، عن ابن عباس، قال: " كنا نحفظ الحديث، والحديث يحفظ عن رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى ركبتم فيه الصعبة والذلولة".عَنْ عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " كُنَّا نَحْفَظُ الْحَدِيثَ، وَالْحَدِيثُ يُحْفَظُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى رَكِبْتُمْ فِيهِ الصَّعْبَةَ وَالذَّلُولَةَ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ہم حدیث حفظ کیا کرتے تھے اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد کی جاتی رہی، یہاں تک کہ انہوں (صحابہ رضی اللہ عنہم)نے اس کی خاطر ہر دشواری کا سامنا کیا اور اس پر قابو پایا۔
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم فى «مقدمة صحيحه» برقم: 7، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 382، 383، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5838، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 27، والدارمي فى «مسنده» برقم: 440، 441 صحیح مسلم،مقدمة: 1/81، مستدرك حاکم: 1/112، سنن دارمي، مقدمة: 1/73، رقم 284۔»
عن عن حماد بن زيد، عن يحيى بن سعيد، نا السائب بن يزيد، قال: " خرجت مع سعد بن مالك من المدينة إلى مكة، فما سمعته يحدث عن النبي صلى الله عليه وسلم بحديث حتى رجعنا، وقال حماد: يعظم الحديث عن النبي صلى الله عليه وسلم ونحن بيننا وبين النبي صلى الله عليه وسلم كذا وكذا ونحن نضيع".عَنْ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، نا السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: " خَرَجْتُ مَعَ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ، فَمَا سَمِعْتُهُ يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَدِيثٍ حَتَّى رَجَعْنَا، وَقَالَ حَمَّادٌ: يُعَظَّمُ الْحَدِيثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَذَا وَكَذَا وَنَحنُ نُضَيِّعُ".
سائب بن یزید رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں سعد بن مالک رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ سے مکہ کی طرف نکلا، میں نے نہیں سنا کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث بھی بیان کی ہو، یہاں تک کہ ہم لوٹ آئے۔حماد نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث کی تعظیم اور سنگینی کی وجہ سے (ایسا کیا)اور ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اپنے درمیان اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ایسے اور ایسے (حدیثیں)بیان کرتے ہیں اور ہم ضائع کرتے ہیں۔
عن عن الجريري، نا ابو نضرة، قال: قلت لابي سعيد: إنك تحدثنا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثا فلو اكتتبناه؟ فقال:" لن اكتبكموه، ولن اجعله قرآنا".عَنِ عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، نا أَبُو نَضْرَةَ، قَالَ: قُلْتُ لأَبِي سَعِيدٍ: إِنَّكَ تُحَدِّثُنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا فَلَوِ اكْتَتَبْنَاهُ؟ فَقَالَ:" لَنْ أُكْتِبْكُمُوهُ، وَلَنْ أَجْعَلَهُ قُرْآنًا".
ابونضرہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید (خدری) رضی اللہ عنہ سے کہا کہ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت پسندیدہ حدیث بیان کرتے ہیں، اگر ہم لکھ لیا کریں تو؟ آپ نے فرمایا: اسے لکھو اور میں ہر گز اسے قرآن نہیں بناؤں گا۔
تخریج الحدیث: «اخرجه الحاكم في المستدرك (2/14 برقم 295 و 31/535 برقم 6462 و 31/535 برقم 6464) والدارمي في سننه (1/42 برقم 493 و 1/51 برقم 621 و 1/51 برقم 622 و 1/51 برقم 623) وأبو القاسم البغوي في الجعديات (0/148 برقم 1184) وابن أبي شيبة في مصنفه (22/3877 برقم 25615 و 22/3930 برقم 25917) والطبراني في الأوسط (1/2 برقم 2575) والخطيب البغدادي في شرف أصحاب الحديث (0/47 برقم 195)»
سیدنا محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ، عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ابن دخیشم رضی اللہ عنہ کے بارے میں انہیں حدیث بیان کی۔ا نس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں مدینے میں آیا اور عتبان رضی اللہ عنہ کو ملا، انہوں نے مجھے وہ حدیث بیان کی،ا نس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے وہ حدیث بہت اچھی لگی تو میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اسے لکھ لو تو اس نے لکھ دی۔
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 33 صحیح مسلم: 33۔»
عن عن معمر، عن علي بن زيد بن جدعان، عن ابي نضرة، عن عمران بن حصين، ان رجلا اتاه فساله عن شيء فحدثه، فقال الرجل: " حدثوا عن كتاب الله ولا تحدثوا عن غيره، فقال: إنك امرؤ احمق، اتجد في كتاب الله ان صلاة الظهر اربعا لا يجهر فيها، وعدد الصلوات وعدد الزكاة ونحوها، ثم قال: اتجد هذا مفسرا في كتاب الله، إن الله قد احكم ذلك والسنة تفسر ذلك".عَنْ عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنَّ رَجُلا أَتَاهُ فَسَأَلَهُ عَنْ شَيْءٍ فَحَدَّثَهُ، فَقَالَ الرَّجُلُ: " حَدِّثُوا عَنْ كِتَابِ اللَّهِ وَلا تُحدِّثُوا عَنْ غَيْرِهِ، فَقَالَ: إِنَّكَ امْرُؤٌ أَحْمَقُ، أَتَجِدُ فِي كِتَابِ اللَّهِ أَنَّ صَلاةَ الظُّهْرِ أَرْبَعًا لا يُجْهَرُ فِيهَا، وَعَدَّدَ الصَّلَوَاتِ وَعَدَّدَ الزَّكَاةِ وَنَحْوَهَا، ثُمَّ قَالَ: أَتَجِدُ هَذَا مُفَسَّرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَحْكَمَ ذَلِكَ وَالسُّنَّةُ تُفَسِّرُ ذَلِكَ".
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک ایک آدمی ان کے پاس آیا اور کسی چیز کے بارے میں ان سے سوال کیا۔ انہوں نے اسے حدیث بیان کی، وہ آدمی بولا: اللہ کی کتاب سے بیان کرو اور اس کے علاوہ سے بیان نہ کرو، تو انہوں نے فرمایا: بے شک تو ایک احمق انسان ہے، کیا تو قرآن میں پاتا ہے کہ بے شک ظہر کی نماز چار رکعت ہے، ان میں اونچی آواز میں نہیں پڑھا جائے گا، اور نمازوں کی گنتی اور زکوٰۃ کی گنتی وغیرہ، پھر فرمایا: کیا تو یہ تفصیل کے ساتھ اللہ کی کتاب میں پاتا ہے؟ بے شک اللہ کی کتاب نے یقینا یہ محکم بیان کر دیا ہے اور سنت اس کی تفسیر کرتی ہے۔
عن عن عيسى بن عمر، حدثني سهل بن ابي امامة، عن سهل بن حنيف، قال: قال ابي لانس بن مالك: يا خال، " إن الناس ليسوا بالناس الذي كنت تعهد، إنما هم الذئاب عليهم الثياب فاحذرهم، قال: اما والله لئن قلت ذلك، لقد رايتني منهم هنيهة اني احدثهم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم بالحديث، فيقولون: انت سمعته باذنيك".عَنْ عَنْ عِيسَى بْنِ عُمَرَ، حَدَّثَنِي سَهْلُ بْنُ أَبِي أُمَامَةَ، عَنْ سَهْلِ بْنِ حَنِيفٍ، قَالَ: قَالَ أَبِي لأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: يَا خَالُ، " إِنَّ النَّاسَ لَيْسُوا بِالنَّاسِ الَّذِي كُنْتَ تَعْهَدُ، إِنَّمَا هُمُ الذِّئَابُ عَلَيْهِمُ الثِّيَابُ فَاحْذَرْهُمْ، قَالَ: أَمَا وَاللَّهِ لَئِنْ قُلْتُ ذَلِكَ، لَقَدْ رَأَيْتُنِي مِنْهُمْ هُنَيْهَةً أَنِّي أُحَدِّثُهُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَدِيثِ، فَيَقُولُونَ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ بِأُذُنَيْكَ".
سہل بن ابی امامہ بن سہل بن حنیف نے کہا کہ میرے باپ نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہا: اے ماموں! بے شک لوگ، اب وہ لوگ نہیں ہیں، جن میں آپ وقت گزارتے آئے تھے، اب تو محض وہ بھیڑئیے ہیں، جن پر لباس ہیں،سو ان سے بچ کر رہیے۔ فرمایا کہ سنو، اللہ کی قسم! البتہ اگر تو نے یہ کہا ہے تو یقینا مجھے ان کی طرف سے تھوڑی دیر میں اس بات نے شک میں ڈالا کہ میں انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حدیث بیان کر رہا ہوں اوروہ کہہ رہے ہیں کہ کیا تو نے اسے اپنے کانوں سے سنا ہے؟
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو آدمی بھی اپنی زبان کو حق کے ساتھ سیدھا رکھتا ہے، بعد ازاں اس پر عمل پیرا ہوتا ہے تو قیامت کے لیے اس کا اجر ضرور جاری ہو جاتا ہے،پھر قیامت والے دن اللہ اسے اس کا پورا ثواب عطا فرمائے گا۔
تخریج الحدیث: «حلیة الأولیاء،ابو نعیم: 8/150، ضعیف الجامع الصغیر: 5181۔»