قال: واخبرني نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم مثل ذلك.قَالَ: وَأَخْبَرَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذَلِكَ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی مثل حدیث بیان کی ہے۔تخریج: صحیح بخاري، الشرکة: 14، باب الشرکة فی الرقیق: 5؍103۔
عن سعيد، عن قتادة، عن النضر بن انس، عن بشير بن نهيك، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من اعتق شقيصا من مملوكه فعليه خلاصه في ماله، فإن لم يكن له مال قوم المملوك قيمة عدل، ثم يستسقى غير مشقوق عليه".عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ أَعْتَقَ شَقِيصًا مِنْ مَمْلُوكِهِ فَعَلَيْهِ خَلاصُهُ فِي مَالِهِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ قُوِّمَ الْمَمْلُوكُ قِيمَةَ عَدْلٍ، ثُمَّ يُسْتَسْقَى غَيْرَ مَشْقُوقٍ عَلَيْهِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے غلام میں سے حصہ آزاد کر دیا تو اس پر،اپنے مال میں سے اسے آزاد کرانا، لازم ہے، مگر اس کے پاس مال نہ ہو تو غلام کی قیمت، انصاف والی لگائی جائے گی، پھر اس سے کوشش کا مطالبہ کیا جائے گااور کوئی مشقت نہیں ڈالی جائے گی۔
عن معمر، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت: قال عتبة بن ابي وقاص لاخيه سعد، وكان عتبة كافرا وكان سعد مسلما: إني اعهد ان ابن جارية زمعة ابني، وزمعة احد بني عامر بن لؤي، فاقبض ابن جارية زمعة إذا لقيته، قالت عائشة: فلما كان يوم الفتح لقي سعد ابن جارية زمعة، فقال: ابن اخي، واحتضنه، فقال عبد بن زمعة: بل هو اخي، ولد على فراش ابي من جاريته، فاختصما إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال سعد: يا رسول الله، هذا ابن اخي فانظر إلى شبهه باخي عتبة، فقال عبد بن زمعة: بل هو يا رسول الله اخي ولد على فراش ابي من جاريته، فنظر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فراى فلم ير من الناس شبها ابين منه لعتبة، فقال:" هو لك يا عبد بن زمعة، الولد للفراش، واحتجبي منه يا سودة"، فلم يرها حتى ماتت.عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ عُتْبَةُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ لأَخِيهِ سَعْدٍ، وَكَانَ عُتْبَةُ كَافِرًا وَكَانَ سَعْدٌ مُسْلِمًا: إِنِّي أَعْهَدُ أَنَّ ابْنَ جَارِيَةِ زَمْعَةَ ابْنِي، وَزَمْعَةُ أَحَدُ بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ، فَاقْبِضِ ابْنَ جَارِيَةِ زَمْعَةَ إِذَا لَقِيتَهُ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ الْفَتْحِ لَقِيَ سَعْدٌ ابْنَ جَارِيَةِ زَمْعَةَ، فَقَالَ: ابْنَ أَخِي، وَاحْتَضَنَهُ، فَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ: بَلْ هُوَ أَخِي، وُلِدَ عَلَى فِرَاشِ أَبِي مِنْ جَارِيَتِهِ، فَاخْتَصَمَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ سَعْدٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا ابْنُ أَخِي فَانْظُرْ إِلَى شَبَهِهِ بِأَخِي عُتْبَةَ، فَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ: بَلْ هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخِي وُلِدَ عَلَى فِرَاشِ أَبِي مِنْ جَارِيَتِهِ، فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَأَى فَلَمْ يَرَ مِنَ النَّاسِ شَبَهًا أَبْيَنَ مِنْهُ لِعُتْبَةَ، فَقَالَ:" هُوَ لَكَ يَا عَبْدُ بْنَ زَمْعَةَ، الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَاحْتَجِبِي مِنْهُ يَا سَوْدَةُ"، فَلَمْ يَرَهَا حَتَّى مَاتَتْ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی سعد رضی اللہ عنہ سے کہا اور عتبہ کافر اور سعد رضی اللہ عنہ مسلمان تھے، بے شک میں تجھے تاکید کرتا ہوں کہ زمعہ کی لونڈی کا بیٹا، میرا بیٹا ہے اور زمعہ بنو عامر بن لوی کا ایک فرد تھا، جب تو زمعہ کی لونڈی کے بیٹے سے ملے تو اسے لے لینا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جب فتح (مکہ)کا دن تھا تو سعد رضی اللہ عنہ زمعہ کی لونڈی کے بیٹے سے ملے تو کہا، میر ابھتیجا اور اسے سینے سے لگا لیا، عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بلکہ وہ میرا بھائی ہے، وہ میرے باپ کے بستر پر، اس کی لونڈی سے پیدا ہوا ہے، سو وہ دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھگڑا لے گئے اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! بلکہ وہ تیرا بھائی ہے، وہ میرے باپ کے بستر پر، اس کی لونڈی سے پیدا ہوا ہے، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (عتبہ)جیسی مشابہت دیکھی، لوگوں نے اس سے واضح شباہت نہ دیکھی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تیرے لیے ہے اے عبد بن زمعہ! بچہ بستر کے لیے ہوتا ہے اور اے سودہ رضی اللہ عنہا! اس سے پردہ کر۔“ تو اس نے انہیں نہ دیکھا، یہاں تک کہ وہ فوت ہو گئیں۔
عن سعيد بن حسان المخزومي، انه سمع عروة بن عياض يحدث، عن جابر بن عبد الله: ان رجلا اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إن لي جارية، وانا اريد ان آتيها واحتبسها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اما إن ذلك ليس براد شيئا اراده الله"، او قال:" مانع شيئا اراده الله"، قال: ثم جاء الرجل، فقال: يا رسول الله، إن جاريتي تلك ولدت وإني كنت احتبسها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" انا عبد الله ورسوله".عَنْ سَعِيدِ بْنِ حَسَّانَ الْمَخْزُومِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ عُرْوَةَ بْنَ عِيَاضٍ يُحَدِّثُ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ: أَنَّ رَجُلا أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ لِي جَارِيَةً، وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ آتِيَهَا وَأَحْتَبِسَهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَا إِنَّ ذَلِكَ لَيْسَ بِرَادٍّ شَيْئًا أَرَادَهُ اللَّهُ"، أَوْ قَالَ:" مَانِعٌ شَيْئًا أَرَادَهُ اللَّهُ"، قَالَ: ثُمَّ جَاءَ الرَّجُلُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ جَارِيَتِي تِلْكَ وَلَدَتْ وَإِنِّي كُنْتُ أَحْتَبِسُهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ".
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہا بیان کرتے ہیں کہ بے شک ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: بے شک میری ایک لونڈی ہے اور میں ارادہ رکھتا ہوں کہ اس کے پاس آؤں اور اسے روک کر رکھوں (حاملہ ہونے سے)بچاؤں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاـ: سنو! بے شک جس کا اللہ ارادہ کرے، یہ چیز اسے قطعاً رد کرنے والی نہیں ہے، یا فرمایا: کہ جس کا اللہ ارادہ کر لے، اسے کوئی چیز روکنے والی نہیں ہے، پھر وہ آدمی آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! بے شک میری اس لونڈی نے بچہ پیدا کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1439، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4194، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9030، 9048، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2173، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1136، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 89، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 2243، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14418، 14419، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14569، 14586، 15372، 15406، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1295، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1910 صحیح مسلم، النکاح: 10/13۔»
عن معمر، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، قال: بينما نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ قام اعرابي من بني فزارة، فقال: يا رسول الله، إن امراتي ولدت غلاما اسود وهو حينئذ ذلك منكر، لم يقل ذلك إلا لينتفي منه، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هل لك إبل؟"، قال: نعم، قال:" فما الوانها؟"، قال: هي حمر، قال له النبي صلى الله عليه وسلم:" هل فيها من اورق؟"، قال: نعم، فيها ذود اورق، قال له النبي صلى الله عليه وسلم:" انى كان ذلك؟"، قال: لا ادري إلا ان يكون نزعها عرق، قال:" وهذا لعله يكون نزعه عرق"، فابى ان يرخص في الانتفاء منه.عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ قَامَ أَعْرَابِيٌّ مِنْ بَنِي فَزَارَةَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ امْرَأَتِي وَلَدَتْ غُلامًا أَسْوَدَ وَهُوَ حِينَئِذٍ ذَلِكَ مُنْكِرٌ، لَمْ يَقُلْ ذَلِكَ إِلا لِيَنْتَفِيَ مِنْهُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلْ لَكَ إِبِلٌ؟"، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" فَمَا أَلْوَانُهَا؟"، قَالَ: هِيَ حُمْرٌ، قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلْ فِيهَا مِنْ أَوْرَقَ؟"، قَالَ: نَعَمْ، فِيهَا ذُودٌ أَوْرَقُ، قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَّى كَانَ ذَلِكَ؟"، قَالَ: لا أَدْرِي إِلا أَنْ يَكُونَ نَزَعَهَا عِرْقٌ، قَالَ:" وَهَذَا لَعَلَّهُ يَكُونُ نَزَعَهُ عِرْقٌ"، فَأَبَى أَنْ يُرَخِّصَ فِي الانْتِفَاءِ مِنْهُ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ اسی دوران ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، جب بنو فزارہ کا ایک بدوی آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! بے شک میری بیوی نے سیاہ رنگ کا بچہ پیدا کیا ہے اور وہ اس وقت اس کا انکار کرنے والا تھا، اس نے یہ صرف اپنے سے اس (بچے)کی نفی کرنے کے لیے کہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تیرے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کا رنگ کیا ہے؟ اس نے کہا: سرخ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: کیا ان میں کوئی گندمی بھی ہیں؟ اس نے کہا: ہاں۔ ان میں خاکستری اونٹ بھی ہیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: یہ کہاں سے آگئے؟ اس نے کہا: مجھے نہیں معلوم، الا یہ کہ کسی رگ نے انہیں کھینچا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور اس (بچے)کو بھی شاید کسی رگ نے کھینچا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا کہ اسے اس کی نفی کی رخصت دیں۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5305، 6847، 7314، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1500، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4106، 4107، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3509، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5642، 5643، 5644، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2260، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2128، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2002، 2003، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14358، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7310، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1115، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5869، 5886، والبزار فى «مسنده» برقم: 7693، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 4667 صحیح بخاري، الطلاق: 12/147، صحیح مسلم، اللعان: 1/135، رقم: 18، 20، 41، جامع ترمذي، الولاء والهبة: 6/326، سنن ابي وداؤد، الطلاق: 6/349، سنن ابن ماجة: 2002، 2003، مسند احمد: 2/273، 234، 279، التلخیص الجیر: 3/226۔»
عن الحسين المكتب، عن عطاء بن ابي رباح، عن جابر بن عبد الله، ان رجلا اعتق غلاما له عن دبر، فاحتاج فاخذه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" من يشتريه مني؟"، فاشتراه نعيم بن عبد الله بكذا وكذا فدفعه إليه.عَنِ الْحُسَيْنِ الْمُكْتِبِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ رَجُلا أَعْتَقَ غُلامًا لَهُ عَنْ دُبُرٍ، فَاحْتَاجَ فَأَخَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مَنْ يَشْتَرِيهِ مِنِّي؟"، فَاشْتَرَاهُ نُعَيْمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بِكَذَا وَكَذَا فَدَفَعَهُ إِلَيْهِ.
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ بے شک ایک آدمی نے اپنا غلام، قرض کے باوجود آزاد کر دیا تو وہ محتاج ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پکڑا اور فرمایا: اسے مجھ سے کون خریدے گا؟ تو اسے نعیم بن عبداللہ نے اتنے اتنے میں خریدا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اس کے سپرد کر دیا۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2141، 2230، 2231، 2403، 2415، 2534، 6716، 6947، 7186، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 997، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2445، 2452، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3339، 3342،، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2547، 4656، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3955، 3957، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1219، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2615، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2512، 2513، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 439، 440، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7849، والدارقطني فى «سننه» برقم: 4258، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14349، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1256، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 90، 2111، والطبراني فى «الصغير» برقم: 1149 صحیح بخاري، کفارات الأیمان: 11/507، صحیح مسلم، الأیمان: 11/141، 142، رقم: 58، 59، جامع ترمذي: 4/411 فی کتاب البیوع، سنن ابي داؤد: العتاق: 10/494، مسند أحمد (الفتح الرباني)1/245، سنن بیهقي: 1/308، 309، تاریخ بغداد: 4/238، التلخیص الحبیر: 4/215، نصب الرایة، زیلعي: 3/285۔»
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”ولاء“ کو بیچنے اور اسے ہبہ کرنے سے منع فرمایا ہے، مگر بے شک عبید اللہ نے ہبہ کا ذکر کرنا بھول گئے یا اسے ذکر نہیں کیا۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2156، 2169، 2535، 2562، 6752، 6756، 6757، 6759، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1506، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1284، 1286، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4948، 4949، 4950، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2869، 8082، 8083، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4663، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2915، 2919، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1236، 2126، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2614، 3200، 3201، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2747، 2748، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 276، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12509، وأحمد فى «مسنده» برقم: 4649، والحميدي فى «مسنده» برقم: 653، والطبراني فى «الكبير» برقم: 13625، 13626، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 50، 1318 صحیح بخاري، العتق: 5/126، الفرائض: 12/35، صحیح مسلم: العتعق: 10/148، جامع ترمذي، البیوع: 4/435، الولاء والهبة: 6/321، سنن ابي داؤد، الفرائض: 133/8، مسند طیالسي: 1/264، سنن دارمي: 2/287، مستدرك حاکم: 2/214۔»
عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت: جاءت بريرة، فقالت: إني كاتبني اهلي على تسع اواق، في كل عام اوقية فاعينيني، فقالت: إن احب اهلك ان اعدها لهم عدة واحدة ويكون ولاؤك لي فعلت، فذهبت إلى اهلها فابوا ذلك عليها، فجاءت إلى عائشة ورسول الله صلى الله عليه وسلم عندها، فقالت: إني عرضت عليهم فابوا إلا ان يكون الولاء لهم، فسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم بذلك فسال عائشة، فاخبرته، فقال: " خذيها فاعتقيها واشترطي لهم الولاء، فإن الولاء لمن اعتق"، ففعلت ذلك عائشة، ثم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم عشية في الناس، فحمد الله واثنى عليه، ثم قال:" اما بعد، فما بال رجال منكم يشترطون شروطا ليست في كتاب الله، ما كان من شرط ليس في كتاب الله فهو باطل، وإن كان مائة شرط، كتاب الله احق، وشرط الله اوثق، فما بال احدكم يقول: اعتق فلانا ولي الولاء، إنما الولاء لمن اعتق".عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: جَاءَتْ بَرِيرَةُ، فَقَالَتْ: إِنِّي كَاتَبَنِي أَهْلِي عَلَى تِسْعِ أَوَاقٍ، فِي كُلِّ عَامٍ أُوقِيَّةٌ فَأَعِينِينِي، فَقَالَتْ: إِنْ أَحَبَّ أَهْلُكِ أَنْ أَعُدَّهَا لَهُمْ عِدَّةً وَاحِدَةً وَيَكُونُ وَلاؤُكِ لِي فَعَلْتُ، فَذَهَبَتْ إِلَى أَهْلِهَا فَأَبَوْا ذَلِكَ عَلَيْهَا، فَجَاءَتْ إِلَى عَائِشَةَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهَا، فَقَالَتْ: إِنِّي عَرَضْتُ عَلَيْهِمْ فَأَبَوْا إِلا أَنْ يَكُونَ الْوَلاءُ لَهُمْ، فَسَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ فَسَأَلَ عَائِشَةَ، فَأَخْبَرَتْهُ، فَقَالَ: " خُذِيهَا فَأَعْتِقِيهَا وَاشْتَرِطِي لَهُمُ الْوَلاءَ، فَإِنَّ الْوَلاءَ لِمَنْ أَعْتَقَ"، فَفَعَلَتْ ذَلِكَ عَائِشَةُ، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشِيَّةً فِي النَّاسِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" أَمَّا بَعْدُ، فَمَا بَالُ رِجَالٍ مِنْكُمْ يَشتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، مَا كَانَ مِنْ شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَهُوَ بَاطِلٌ، وَإِنْ كَانَ مِائَةَ شَرْطٍ، كِتَابُ اللَّهِ أَحَقُّ، وَشَرْطُ اللَّهِ أَوْثَقُ، فَمَا بَالُ أَحَدُكُمْ يَقُولُ: أَعْتِقْ فُلانًا وَلِيَ الْوَلاءُ، إِنَّمَا الْوَلاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ بریرہ آئی اور کہا: بے شک میرے آقاؤں نے مجھ سے سات اوقیوں پر مکاتبت (لکھ پڑت)کر لی ہے، ہر سال ایک اوقیہ (چالیس درہم)دینا ہے، لہٰذا میری مدد کریں۔ انہوں نے فرمایا کہ اگر تیرے آقا پسند کریں کہ میں انہیں یک بارگی ساری رقم گن کر دے دوں، تو میں دے دیتی ہوں، لیکن تیرا ”ولاء“ میرا ہوگا۔ وہ اپنے آقاؤں کے پاس گئی تو انہوں نے اس پر اس کا انکار کر دیا، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تھے اور کہا: بے شک میں نے ان پر پیش کیا، پھر انہوں نے انکار کر دیا، الا یہ کہ ”ولاء“ انہیں کا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (سارا ماجرا)بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اسے لے اور آزاد کر دے اور ان کے لیے ”ولاء“ کی شرط لگا دے، بے شک ”ولاء“ اس کا ہے جس نے آزاد کیا، سو عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پچھلے پہر لوگوں میں کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا کی، پھر فرمایا: اما بعد! تم میں سے ان مردوں کی کیا حالت ہے، جو ایسی شرطیں عائد کرتے ہیں، جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہیں، جو کوئی بھی ایسی شرط ہوئی جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہے، وہ باطل ہے۔ اگرچہ وہ سو شرطیں ہوں، اللہ کا فیصلہ زیادہ حق والا ہے اور اللہ کی شرط زیادہ مضبوط ہے۔ پس کیا حالت ہے تمہارے ایک کی جو کہتا ہوتا ہے کہ اس نے آزاد کیا اور ”ولاء“ میرا ہی ہے۔ ”ولاء“ صرف اس کا ہے جس نے آزادکیا۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2561، 2563، 2564، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1504، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1160، 1283، 1285، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2449، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4269، 4271، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4660، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2233، 2234، 2235، 2236، 2916، 3929، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1154، 1155، 1256، 2124، 2125، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2335، 2336، 2337، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2521، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 279، 1259، 1260، 1261، 1263، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10954، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24687، والحميدي فى «مسنده» برقم: 243، والطبراني فى «الصغير» برقم: 481، 1023 صحیح البخاري، المکاتب: 5/141، صحیح مسلم، العتق: 10/144، 145، سنن ابن ماجة: 2521، مسند أحمد: 6/413، مسند شافعي(بدائع المنن): 2/140، طبقات ابن سعد: 8/258، جامع ترمذي، البیوع: 4/467، سنن ابي داؤد، الفرائض: 8/126، سنن دارمي: 2/10، التلخیص الحبیر: 3/13، نصب الرایة، زیلعي: 4/16، مسند طیالسي: 1/244، موطا مالك:4/90، 94، 95۔»
عن محمد بن عجلان، عن سعيد المقبري، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ثلاثة حق على الله عونهم: المجاهد في سبيل الله، والناكح الذي يريد العفاف، والمكاتب الذي يريد الاداء".عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلانَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " ثَلاثَةٌ حَقٌّ عَلَى اللَّهِ عَوْنُهُمُ: الْمُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَالنَّاكِحُ الَّذِي يُرِيدُ الْعَفَافَ، وَالْمُكَاتَبُ الَّذِي يُرِيدُ الأَدَاءَ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین آدمی ہیں: ان سب کی مدد کرنا اللہ پر حق ہے: اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا، نکاح کرنے والا، جو پاک دامنی کا ارادہ رکھتا ہے اور وہ مکاتب غلام جو ادائی کا ارادہ رکھتا ہے۔
تخریج الحدیث: «جامع ترمذي، فضائل الجهاد: 1655، سنن ابن ماجة: 2518، مسند احمد: 2/251، 437۔ محدث البانی نے اسے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔»