سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
قرآن کے فضائل
حدیث نمبر: 3518
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عثمان بن محمد، حدثنا جرير، عن مطرف، عن ابي إسحاق، عن ابي بردة، عن عبد الله بن عمرو، قال: قلت: يا رسول الله، في كم اختم القرآن؟ قال: "اختمه في شهر"، قلت: يا رسول الله، انا اطيق، قال:"اختمه في خمسة وعشرين"، قلت: إني اطيق، قال:"اختمه في عشرين"، قلت: إني اطيق، قال:"اختمه في خمس عشرة"، قلت: إني اطيق، قال:"اختمه في عشر"، قلت: إني اطيق، قال:"اختمه في خمس"، قلت: إني اطيق، قال:"لا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فِي كَمْ أَخْتِمُ الْقُرْآنَ؟ قَالَ: "اخْتِمْهُ فِي شَهْرٍ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أنا أُطِيقُ، قَالَ:"اخْتِمْهُ فِي خَمْسة وَعِشْرِينَ"، قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ، قَالَ:"اخْتِمْهُ فِي عِشْرِينَ"، قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ، قَالَ:"اخْتِمْهُ فِي خَمْسَ عَشْرَةَ"، قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ، قَالَ:"اخْتِمْهُ فِي عَشْرٍ"، قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ، قَالَ:"اخْتِمْهُ فِي خَمْسٍ"، قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ، قَالَ:"لَا".
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں کتنے دن میں قرآن پاک ختم کروں؟ فرمایا: ایک مہینے میں، میں نے عرض کیا: مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے؟ فرمایا: پچیس دن میں ختم کر لو، میں نے عرض کیا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، فرمایا: پندرہ دن میں ختم کرو، میں نے عرض کیا: مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے، فرمایا: دس دن میں ختم کرو، میں نے کہا: اس سے زیادہ کی میں طاقت رکھتا ہوں، فرمایا: پانچ دن میں ختم کرو، میں نے کہا: مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے کم میں نہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف مطرف بن طريف متأخر السماع من أبي إسحاق السبيعي ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 3529]»
اس روایت کی سند میں ضعف ہے، لیکن یہ حدیث دوسری سند سے صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 1346]، [نسائي 2390]، [ابن حبان 756]، [ابن كثير فى فضائل القرآن 247]۔ صحیحین میں صرف روزے کا ذکر ہے، قرآن پڑھنے کا نہیں۔ دیکھئے: [بخاري 1974]، [مسلم 1159]

وضاحت:
(تشریح احادیث 3511 سے 3518)
اس سے معلوم ہوا کہ کم سے کم پانچ دن میں قرآن ختم کرنا چاہے، بعض روایاتِ صحیحہ میں تین دن کا بھی ذکر ہے، کما سیأتی، لیکن ایک مہینے سے زیادہ ختمِ قرآن میں نہیں لگنا چاہے، ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جو صرف رمضان میں قرآن پاک پڑھتے اور سنتے ہیں، اور پورے سال تلاوتِ کلام پاک سے غافل رہتے ہیں۔
«(هدانا اللّٰه وإياهم، آمين)»

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف مطرف بن طريف متأخر السماع من أبي إسحاق السبيعي ولكن الحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 3519
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن سعيد، حدثنا عقبة بن خالد، عن عبد الرحمن بن زياد، حدثني عبد الرحمن بن رافع، عن عبد الله بن عمرو، قال:"امرني رسول الله صلى الله عليه وسلم ان لا اقرا القرآن في اقل من ثلاث".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ رَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ:"أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا أَقْرَأَ الْقُرْآنَ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثٍ".
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن سے کم میں قرآن پاک ختم کرنے سے منع فرمایا۔

تخریج الحدیث: «عبد الرحمن بن رافع ضعيف وعبد الرحمن بن زياد الحق فيه أنه ضعيف لكثرة روايته المنكرات، [مكتبه الشامله نمبر: 3530]»
اس سند سے یہ اثر ضعیف ہے، لیکن دوسری سند سے حسن کے درجہ میں ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1391]، [ترمذي 2949]، [ابن ماجه 1347، بغير هذا اللفظ: لَمْ يَفْقَهُ مِنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِيْ أَقَلْ مِنْ ثَلَاثٍ]۔
نیز دیکھئے: [أحمد 158/2]، [حلية الأولياء 122/4]۔ نیز حدیث رقم (1532) پر اس موضوع سے متعلق حدیث گذر چکی ہے۔ تخریج اور تفصیل وہاں ملاحظہ کیجئے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: عبد الرحمن بن رافع ضعيف وعبد الرحمن بن زياد الحق فيه أنه ضعيف لكثرة روايته المنكرات
34. باب التَّغَنِّي بِالْقُرْآنِ:
34. ترنم کے ساتھ قرآن پڑھنے کا بیان
حدیث نمبر: 3520
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا ليث بن سعد، حدثنا ابن ابي مليكة، عن ابن ابي نهيك، عن سعد بن ابي وقاص: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "ليس منا من لم يتغن بالقرآن". قال ابن عيينة: يستغني، قال ابو محمد: الناس يقولون: عبيد الله بن ابي نهيك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَهِيكٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ". قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: يَسْتَغْنِي، قَالَ أَبُو مُحَمَّد: النَّاسُ يَقُولُونَ: عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي نَهِيكٍ.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص خوش الحانی سے قرآن نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ ابن عیینہ نے کہا: «لم يتغن» سے مراد «يستغني» ہے۔ ابومحمد امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: ابونہیک کو لوگ عبیداللہ بن ابی نہیک کہتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3531]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1469، 1470]، [أبويعلی 689، 748]، [ابن حبان 120]، [الحميدي 76، 77]، [الدورفي فى مسند سعد 127]، [ابوالفضل الرازي فضائل القرآن 90]، [ابن كثير فى الفضائل، ص: 186]، [البيهقي فى شعب الإيمان 2613]، [أبوعبيد فى الفضائل، ص: 209] و [القضاعي فى مسند الشهاب 1194، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح احادیث 3518 سے 3520)
«مَنْ لَمْ يَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ» کی تفسیر میں علمائے کرام کی مختلف آراء ہیں، بعض نے کہا: جو قرآن پاک کو اچھی آواز سے نہ پڑھے، مد و شد کی رعایت نہ کرے بشرطیکہ کوئی حرف کم یا زیادہ نہ ہو اور راگنی کو دخل نہ دے (یعنی گانے کی طرح نہ پڑھے)۔
بعض علماء نے کہا: جو قرآن پڑھ کر دنیا سے یا شعر و سخن سے بے پرواہ نہ ہو جائے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
بعض علماء نے کہا: عرب میں دستور تھا مجلس اور سفر میں گایا کرتے تھے، اب اس کے بدلے میں یہ قرآن پایا کہ قرآن پڑھا جائے، یہی اسلام کا گانا ہے۔
بعض نے کہا: اس سے مراد پکار کر پڑھنا ہے۔
(وحیدی بتصرف)
«لَيْسَ مِنَّا» سے مراد یہ ہے: ایسا شخص جو ترنم سے قرآن نہ پڑھے ہمارے اسلامی طریقے پر نہیں ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 3521
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا جعفر بن عون، انبانا مسعر، عن عبد الكريم، عن طاوس، قال: سئل النبي صلى الله عليه وسلم: اي الناس احسن صوتا للقرآن، واحسن قراءة؟ قال: "من إذا سمعته يقرا، اريت انه يخشى الله"، قال طاوس: وكان طلق كذلك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، أَنْبَأَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ النَّاسِ أَحْسَنُ صَوْتًا لِلْقُرْآنِ، وَأَحْسَنُ قِرَاءَةً؟ قَالَ: "مَنْ إِذَا سَمِعْتَهُ يَقْرَأُ، أُرِيتَ أَنَّهُ يَخْشَى اللَّهَ"، قَالَ طَاوُسٌ: وَكَانَ طَلْقٌ كَذَلِكَ.
طاؤس رحمہ اللہ سے مروی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سا آدمی قرآن کے لئے اچھی آواز والا ہے؟ یا اچھی قراءت کرنے والا کون ہے؟ فرمایا: جس کو تم جب پڑھتے ہوئے سنو تو ایسا لگے کہ وہ اللہ سے ڈر رہا ہے۔ طاؤس رحمہ اللہ نے کہا: طلق ایسے ہی تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الكريم وهو: ابن أبي المخارق، [مكتبه الشامله نمبر: 3532]»
عبدالکریم بن ابی المخارق کی وجہ سے اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 9694]، [فضائل القرآن لأبي عبيد، ص: 165]، [حلية الأولياء 19/4]، [الطبراني فى الكبير 7/11، 10852]، [ابن كثير فى البداية 243/9] و [المرشد الوجيز لابن شامه، ص: 199]

وضاحت:
(تشریح حدیث 3520)
مقصد یہ کہ کس شخص کی آواز یا قراءت اچھی مانی جائے گی؟ فرمایا: جس کی تلاوت سے الله کا ڈر پیدا ہو۔
یہ بھی وارد ہے کہ قرآن کو عرب کے لب و لہجے اور ان کی آواز سے پڑھو، اور گا گا کر گانے کی آواز سے پڑھنے کی ممانعت ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الكريم وهو: ابن أبي المخارق
حدیث نمبر: 3522
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث، حدثني عقيل، عن ابن شهاب، حدثني ابو سلمة، عن ابي هريرة، انه كان يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لم ياذن الله لشيء، ما اذن لنبي يتغنى بالقرآن"، قال صاحب له: اراد: يجهر به.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَمْ يَأْذَنْ اللَّهُ لِشَيْءٍ، مَا أَذِنَ لِنَبِيٍّ يَتَغَنَّى بِالْقُرْآنِ"، قَالَ صَاحِبٌ لَهُ: أَرَادَ: يَجْهَرُ بِهِ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الله تعالیٰ نے کوئی چیز اتنی توجہ سے نہیں سنی جتنی توجہ سے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بہترین آواز کے ساتھ قرآن مجید پڑھتے سناہے۔ ابوسلمہ کے شاگرد نے کہا: ان کی مراد بلند آواز سے قرآن پڑھنے کی تھی۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 3533]»
یہ اثر اس سند سے ضعیف ہے، لیکن اسی طرح صحیحین میں صحیح سند سے موجود ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5023]، [مسلم 792]، [أبويعلی 5959]، [ابن حبان 751]، [الحميدي 979]، [ابن كثير فى فضائل القرآن، ص: 179]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 3523
Save to word اعراب
(حديث موقوف) حدثنا عبد الله بن صالح، حدثنا الليث، حدثني يونس، عن ابن شهاب، قال: اخبرني ابو سلمة، ان ابا هريرة، قال: "ما اذن الله لشيء، كما اذن لنبي يتغنى بالقرآن".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: "مَا أَذِنَ اللَّهُ لِشَيْءٍ، كَمَا أَذِنَ لِنَبِيٍّ يَتَغَنَّى بِالْقُرْآنِ".
اس سند سے بھی ویسے ہی مروی ہے جیسے اوپر بیان ہوا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف وهو موقوف على أبي هريرة، [مكتبه الشامله نمبر: 3534]»
ترجمہ و تخریج اوپر گذرچکی ہے، لیکن یہ روایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پرموقوف ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف وهو موقوف على أبي هريرة
حدیث نمبر: 3524
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث، حدثني يونس، عن ابن شهاب، قال: اخبرني ابو سلمة بن عبد الرحمن: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول لابي موسى وكان حسن الصوت بالقرآن: "لقد اوتي هذا من مزامير آل داود".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ لِأَبِي مُوسَى وَكَانَ حَسَنَ الصَّوْتِ بِالْقُرْآنِ: "لَقَدْ أُوتِيَ هَذَا مِنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ".
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے لیے فرماتے تھے، جو قرآن بڑی اچھی آواز سے پڑھتے تھے: ان کو داؤد علیہ السلام جیسی بہترین آواز عطا کی گئی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح وهو مرسل ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 3535]»
یہ روایت مرسل ہے، اور عبداللہ بن صالح ضعیف ہے، لیکن دوسری سند سے حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5048]، [مسلم 793]، [أبويعلی 7279]، [ابن حبان 7197]، [البيهقي 12/3، 231/10]، [و فى شعب الإيمان 526/2، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح احادیث 3521 سے 3524)
داؤد علیہ السلام کو اچھی آواز (خوش الحان) کا معجزہ دیا گیا تھا، وہ بھی زبور خوش آوازی سے پڑھتے تھے اور ایک عجیب سماں بندھ جاتا تھا، (راز رحمہ اللہ)۔
«مَزَامِيْر مِزْمَار» کی جمع ہے جو ستار اور بجانے کے آلے کا نام ہے، یہاں مراد خوش الحانی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح وهو مرسل ولكن الحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 3525
Save to word اعراب
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث، حدثني يونس، عن ابن شهاب، قال: حدثني ابو سلمة ايضا: ان عمر بن الخطاب كان إذا راى ابا موسى، قال: "ذكرنا ربنا يا ابا موسى، فيقرا عنده".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ أَيْضًا: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَانَ إِذَا رَأَى أَبَا مُوسَى، قَالَ: "ذَكِّرْنَا رَبَّنَا يَا أَبَا مُوسَى، فَيَقْرَأُ عِنْدَهُ".
ابوسلمہ نے ہی بیان کیا کہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ جب بھی سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو دیکھتے تو فرماتے تھے: اے ابوموسیٰ! ہمارے رب کی یاد تازہ کراؤ، چنانچہ وہ ان کے پاس قرآن کی تلاوت کرتے۔

تخریج الحدیث: «في إسناده علتان: ضعف عبد الله بن صالح والانقطاع أبو سلمة لم يسمعه من عمر، [مكتبه الشامله نمبر: 3536]»
اس روایت کی سند میں دو علتیں ہیں: عبداللہ بن صالح ضعیف اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کا لقاء امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں، لہٰذا سند منقطع ہے۔ دیکھئے: [فضائل القرآن لأبي عبيد، ص: 163]، [فضائل القرآن لابن كثير، ص: 191]، [ابن حبان 7196]، [موارد الظمآن بعين الحديث 2264] و [البيهقي 231/10]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده علتان: ضعف عبد الله بن صالح والانقطاع أبو سلمة لم يسمعه من عمر
حدیث نمبر: 3526
Save to word اعراب
(حديث موقوف) حدثنا جعفر بن عون، حدثنا إبراهيم الهجري، عن ابي الاحوص، عن عبد الله، قال: "لا الفين احدكم يضع إحدى رجليه على الاخرى يتغنى ويدع ان يقرا سورة البقرة، فإن الشيطان يفر من البيت يقرا فيه سورة البقرة، وإن اصفر البيوت الجوف، يصفر من كتاب الله".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ الْهَجَرِيُّ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: "لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ يَضَعُ إِحْدَى رِجْلَيْهِ عَلَى الْأُخْرَى يَتَغَنَّى وَيَدَعُ أَنْ يَقْرَأَ سُورَةَ الْبَقَرَةِ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَفِرُّ مِنْ الْبَيْتِ يُقْرَأُ فِيهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ، وَإِنَّ أَصْفَرَ الْبُيُوتِ الْجَوْفُ، يَصْفَرُ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تم میں سے کسی کو پیر کے اوپر پیر رکھے قرآن کو گاتے ہوئے اور سورہ بقرہ کو چھوڑے ہوئے نہ پاؤں، بیشک شیطان اس گھر سے بھاگتا ہے جس میں سورہ بقرہ پڑھی جاتی ہے، اور بیشک ویران گھر وہ ہیں جن میں کتاب الٰہی نہ پڑھی جائے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف إبراهيم بن مسلم الهجري وهو موقوف، [مكتبه الشامله نمبر: 3537]»
ابراہیم بن مسلم الہجری کی وجہ سے اس روایت کی سند ضعیف ہے، اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ پر یہ روایت موقوف بھی ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10073]، [عبدالرزاق 5998]، [طبراني فى الأوسط 7762]۔ لیکن سب کی سند ضعیف ہے۔ یہ اثر اس معنی میں پیچھے متعدد بار سورہ بقرہ کی فضیلت میں گذر چکا ہے: اور جس گھر میں یہ سورت پڑھی جائے اس سے یقیناً شیطان بھاگتا ہے۔ دیکھئے رقم (3411)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف إبراهيم بن مسلم الهجري وهو موقوف
حدیث نمبر: 3527
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، قال: حدثني بعض آل سالم بن عبد الله، قال: "قدم سلمة البيذق المدينة، فقام يصلي بهم، فقيل لسالم: لو جئت فسمعت قراءته، فلما كان بباب المسجد، سمع قراءته، رجع فقال: غناء غناء".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنِي بَعْضُ آلِ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: "قَدِمَ سَلَمَةُ الْبَيْذَقُ الْمَدِينَةَ، فَقَامَ يُصَلِّي بِهِمْ، فَقِيلَ لِسَالِمٍ: لَوْ جِئْتَ فَسَمِعْتَ قِرَاءَتَهُ، فَلَمَّا كَانَ بِبَابِ الْمَسْجِدِ، سَمِعَ قِرَاءَتَهُ، رَجَعَ فَقَالَ: غِنَاءٌ غِنَاءٌ".
سالم بن عبداللہ رحمہ اللہ کے اہل میں سے کسی نے کہا: سالم البيذق مدینہ طیبہ آئے اور نماز پڑھانے لگے تو سالم رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: کاش آپ بھی جا کر ان کی قراءت سنتے، چنانچہ جب سالم بن عبداللہ دروازے پر پہنچے اور ان کی قراءت سنی تو واپس لوٹ آئے اور کہا: گانا ہے گانا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه جهالة وابن جريج قد عنعن وهو مدلس، [مكتبه الشامله نمبر: 3538]»
اس روایت میں جہالت ہے، اور کسی نسخہ میں سلمہ البيذق ہے کسی میں سالم، نیز ابن جریح کا عنعنہ بھی ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ (”گانے والوں اور اہلِ کتاب کے لب و لہجہ سے قرآن کی تلاوت میں پرہیز کرو، میرے بعد ایک قوم ایسی پیدا ہوگی جو قرآن مجید کو گویوں کی طرح گا گا کر پڑھے گی، یہ تلاوت ان کے گلے سے نیچے نہیں اترے گی، اور ان کے دل فتنوں میں مبتلا ہوں گے“ (او كما قال صلی اللہ علیہ وسلم) یعنی ایسی تلاوت قطعاً منع ہے، سالم جو کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے صاحبزادے ہیں ان کے والد نہایت سختی سے سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے تھے، اور سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے سرمو انحراف یا خلاف ورزی ان پر شاق گذرتی تھی، کوئی بعید نہیں کہ اس قاری کی قراءت سن کر مذکورہ حدیث کے مطابق گویے کی طرح قرآن پڑھنے کو انہوں نے ناپسند کیا اور گھر واپس لوٹ گئے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه جهالة وابن جريج قد عنعن وهو مدلس

Previous    15    16    17    18    19    20    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.