(حديث موقوف) حدثنا محمد بن كثير، عن الاوزاعي، عن عبدة، عن زر بن حبيش، قال: "من قرا آخر سورة الكهف لساعة، يريد يقوم من الليل، قامها"، قال عبدة: فجربناه، فوجدناه كذلك.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ عَبْدَةَ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، قَالَ: "مَنْ قَرَأَ آخِرَ سُورَةِ الْكَهْفِ لِسَاعَةٍ، يُرِيدُ يَقُومُ مِنْ اللَّيْلِ، قَامَهَا"، قَالَ عَبْدَةُ: فَجَرَّبْنَاهُ، فَوَجَدْنَاهُ كَذَلِكَ.
زر بن حبیش نے کہا: جو شخص رات میں قیام کے لئے کسی وقت سورہ کہف کی آخری دس آیات پڑھے گا وہ (اس وقت ضرور) اٹھ جائے گا۔ عبدۃ نے کہا: ہم نے اس کا تجربہ کیا اور ایسا ہی پایا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن كثير وهو: المصيصي الصنعاني وهو موقوف على زر، [مكتبه الشامله نمبر: 3449]» یہ اثر محمد بن کثیر المصیصی کی وجہ سے ضعیف ہے، اور زر بن حبیش پر موقوف ہے۔ اس کو ابوعبیدہ نے [فضائل القرآن، ص: 246] پر اور سخاوی نے [جمال القراء 130/1] پر ذکر کیا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف محمد بن كثير وهو: المصيصي الصنعاني وهو موقوف على زر
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: جو شخص جمعہ کی رات کو سورہ کہف پڑھے تو اس کے لئے اس سے لے کر بیت اللہ تک نور کی روشنی ہوتی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى أبي سعيد وهو موقوف عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 3450]» اس اثر کی سند صحیح اور موقوف علی سیدنا ابی سعید رضی اللہ عنہ ہے۔ اس کو ابوعبید نے [فضائل القرآن، ص: 244] میں اور بیہقی نے [شعب الإيمان 2444] میں روایت کیا ہے۔ نیز نسائی نے [عمل اليوم و الليله 953، 954] میں، حاکم نے [حاكم 2073] میں اور بیہقی نے [بيهقي 2446] میں بھی اس کی تخریج کی ہے۔ جمعہ کے دن کچھ فقہاء نے سورہ کہف کی تلاوت کو مستحب قرار دیا ہے، ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ واللہ اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى أبي سعيد وهو موقوف عليه
(حديث موقوف) اخبرنا ابو المغيرة، حدثتنا عبدة، عن خالد بن معدان، قال: "اقرءوا المنجية، وهي: (الم تنزيل)، فإنه بلغني ان رجلا كان يقرؤها ما يقرا شيئا غيرها، وكان كثير الخطايا، فنشرت جناحها عليه، وقالت: رب اغفر له، فإنه كان يكثر قراءتي، فشفعها الرب فيه، وقال: اكتبوا له بكل خطيئة حسنة، وارفعوا له درجة".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَتْنَا عَبْدَةُ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، قَالَ: "اقْرَءُوا الْمُنَجِّيَةَ، وَهِيَ: (الم تَنْزِيلُ)، فَإِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ رَجُلًا كَانَ يَقْرَؤُهَا مَا يَقْرَأُ شَيْئًا غَيْرَهَا، وَكَانَ كَثِيرَ الْخَطَايَا، فَنَشَرَتْ جَنَاحَهَا عَلَيْهِ، وَقَالَتْ: رَبِّ اغْفِرْ لَهُ، فَإِنَّهُ كَانَ يُكْثِرُ قِرَاءَتِي، فَشَفَّعَهَا الرَّبُّ فِيهِ، وَقَالَ: اكْتُبُوا لَهُ بِكُلِّ خَطِيئَةٍ حَسَنَةً، وَارْفَعُوا لَهُ دَرَجَةً".
خالد بن معدان نے کہا: نجات دلانے والی سورة پڑھا کرو، مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ ایک آدمی اس کو پڑھا کرتا تھا، اس کے علاوہ کچھ نہ پڑھتا تھا، وہ بہت گنہگار تھا، اس سورت نے اپنے پر اس شخص پر پھیلا دیئے اور اللہ تعالیٰ سے درخواست کی: اے رب! یہ آدمی میری تلاوت کثرت سے کیا کرتا تھا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کی شفاعت قبول فرما لی اور فرمایا: اس کی ہر خطا کے بدلے میں ایک نیکی لکھو اور ایک درجہ بلند کر دو (بعض نسخ میں منجیہ کے بعد «الم تنزيل السجدة» ہے)۔ یعنی یہ سورت نجات دلانے والی ہے۔
تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 3451]» اس اثر کو عبدۃ نے روایت کیا ہے جس کا ترجمہ نہیں ملتا، اور یہ اثر خالد بن معدان پر ہی موقوف ہے۔ تبریزی نے اس کو [مشكاة 2176] میں ذکر کیا اور مسند دارمی کا حوالہ دیا ہے۔ نیز دیکھئے: [الدر المنثور 170/5]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق
(حديث موقوف) حدثنا عفان، حدثنا حماد بن سلمة، انبانا ابو الزبير، عن عبد الله بن ضمرة، عن كعب قال: "من قرا (الم تنزيل) السجدة، وتبارك الذي بيده الملك، كتب له سبعون حسنة، وحط عنه بها سبعون سيئة، ورفع له بها سبعون درجة".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، أنبأنَا أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ كَعْبٍ قَالَ: "مَنْ قَرَأَ (ألم تَنْزِيلُ) السَّجْدَةَ، وَتَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ، كُتِبَ لَهُ سَبْعُونَ حَسَنَةً، وَحُطَّ عَنْهُ بِهَا سَبْعُونَ سَيِّئَةً، وَرُفِعَ لَهُ بِهَا سَبْعُونَ دَرَجَةً".
عبداللہ بن ضمرہ سے مروی ہے سیدنا کعب الاحبار رضی اللہ عنہ نے کہا: جو شخص «تنزيل السجده» اور «تبارك الذى بيده الملك» پڑھے گا اس کے لئے 70 نیکیاں لکھی جائیں گی اور ستر گناہ مٹا دیئے جائیں گے اور ستر درجے اس کے بلند کر دیئے جائیں گے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو موقوف على كعب، [مكتبه الشامله نمبر: 3452]» اس اثر کی سند سیدنا کعب رضی اللہ عنہ تک صحیح اور موقوف ہے۔ دیکھئے: [فضائل القرآن لابن الضريس، ص: 313] و [الدر المنثور 170/5]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو موقوف على كعب
(حديث موقوف) حدثنا عبد الله بن صالح، حدثني معاوية بن صالح: انه سمع ابا خالد عامر بن جشيب، وبحير بن سعد، يحدثان: ان خالد بن معدان، قال: "إن الم {1} تنزيل الكتاب لا ريب فيه من رب العالمين {2} سورة السجدة آية 1-2 تجادل عن صاحبها في القبر، تقول: اللهم إن كنت من كتابك، فشفعني فيه، وإن لم اكن من كتابك، فامحني عنه، وإنها تكون كالطير تجعل جناحها عليه، فيشفع له، فتمنعه من عذاب القبر، وفي (تبارك) مثله"، فكان خالد لا يبيت حتى يقرا بهما.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ: أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا خَالِدٍ عَامِرَ بْنَ جَشِيبٍ، وَبَحِيرَ بْنَ سَعْدٍ، يُحَدِّثَانِ: أَنَّ خَالِدَ بْنَ مَعْدَانَ، قَالَ: "إِنَّ الم {1} تَنْزِيلُ الْكِتَابِ لا رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ {2} سورة السجدة آية 1-2 تُجَادِلُ عَنْ صَاحِبِهَا فِي الْقَبْرِ، تَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ مِنْ كِتَابِكَ، فَشَفِّعْنِي فِيهِ، وَإِنْ لَمْ أَكُنْ مِنْ كِتَابِكَ، فَامْحُنِي عَنْهُ، وَإِنَّهَا تَكُونُ كَالطَّيْرِ تَجْعَلُ جَنَاحَهَا عَلَيْهِ، فَيُشْفَعُ لَهُ، فَتَمْنَعُهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَفِي (تَبَارَكَ) مِثْلَهُ"، فَكَانَ خَالِدٌ لَا يَبِيتُ حَتَّى يَقْرَأَ بِهِمَا.
خالد بن معدان نے کہا: بیشک (سورہ) «الم تنزيل» قبر میں اپنے پڑھنے والے کے لئے جھگڑا کرے گی، وہ کہے گی: اے اللہ! اگر میں تیری کتاب (قرآن) میں سے ہوں تو اس کے بارے میں میری شفاعت قبول فرما، اور اگر تیری کتاب میں سے نہیں ہوں تو مجھے اس سے مٹا دے، اور وہ پرندے کی طرح ہو گی جو اس کے اوپر سایہ کیے ہو گا، وہ اس (پڑھنے والے) کے لئے شفاعت کرے گی اور اس کو عذاب قبر سے بچا لے گی، اور (سورہ) «تبارك» بھی اسی طرح ہے۔ چنانچہ خالد بن معدان بذات خود ان دونوں سورتوں کو پڑھے بنا سوتے نہیں تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح وهو موقوف على خالد بن معدان، [مكتبه الشامله نمبر: 3453]» یہ اثر عبداللہ بن صالح کی وجہ سے ضعیف اور خالد بن معدان پر موقوف ہے۔ دیکھئے [مشكاة 2176]، [الدر المنثور 171/5]۔ لیکن آگے یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے جو صحیح ہے۔ دیکھئے: «الحديث التالي» ۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح وهو موقوف على خالد بن معدان
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا سفيان، عن ليث، عن ابي الزبير، عن جابر، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم "لا ينام حتى يقرا: (تنزيل) السجدة، (وتبارك)".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "لَا يَنَامُ حَتَّى يَقْرَأَ: (تَنْزِيلُ) السَّجْدَةَ، (وَتَبَارَكَ)".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک نہیں سوتے تھے جب تک کہ «الم السجدة» اور «تبارك» نہ پڑھ لیتے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف ليث وهو: ابن أبي سليم، [مكتبه الشامله نمبر: 3454]» یہ حدیث اس سند سے ضعیف ہے، لیکن اس کے شواہد موجود ہیں جو حسن یا صحیح ہیں۔ دیکھئے: [الأدب المفرد للبخاري 1207، 1209]، [أحمد 340/3]، [ترمذي 2894]، [نسائي فى الكبریٰ 10543]، [ابن أبى شيبه 9865]، [ابن السني فى عمل اليوم و الليلة 675]، [الحاكم 3545، وغيرهم]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف ليث وهو: ابن أبي سليم
(حديث مقطوع) حدثنا موسى بن خالد، حدثنا معتمر، عن ليث، عن طاوس، قال: "فضلتا على كل سورة في القرآن بستين حسنة".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: "فُضِّلَتَا عَلَى كُلِّ سُورَةٍ فِي الْقُرْآنِ بِسِتِّينَ حَسَنَةً".
طاؤوس رحمہ اللہ نے کہا: قرآن کی یہ دونوں سورتیں ( «سجده» اور «تبارك») ہر سورہ سے ساٹھ نیکیاں (درجہ) زیادہ ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف إلى طاووس وهو موقوف عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 3455]» یہ اثر طاؤوس رحمہ اللہ پر موقوف اور ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 9866]، [عبدالرزاق 6035، بسند فيه اعضال] و [ابن الضريس فى فضائل القرآن 333، 337]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف إلى طاووس وهو موقوف عليه
(حديث مقطوع) اخبرنا حجاج بن منهال، حدثنا شعبة، حدثني عمرو بن مرة، قال: سمعت مرة، يقول: "اتي رجل في قبره، فاتي جانب قبره، فجعلت سورة من القرآن ثلاثون آية تجادل عنه، حتى قال: فنظرنا انا ومسروق، فلم نجد في القرآن سورة ثلاثين آية إلا تبارك".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ مُرَّةَ، يَقُولُ: "أُتِيَ رَجُلٌ فِي قَبْرِهِ، فَأُتِيَ جَانِبُ قَبْرِهِ، فَجَعَلَتْ سُورَةٌ مِنْ الْقُرْآنِ ثَلَاثُونَ آيَةً تُجَادِلُ عَنْهُ، حَتَّى قَالَ: فَنَظَرْنَا أَنَا وَمَسْرُوقٌ، فَلَمْ نَجِدْ فِي الْقُرْآنِ سُورَةً ثَلَاثِينَ آيَةً إِلَّا تَبَارَكَ".
عمرو بن مرۃ سے مروی ہے، انہوں نے اپنے والد مرۃ سے سنا، وہ کہتے تھے: ایک آدمی کو اس کی قبر میں دفن کیا گیا، اس کی قبر کی جانب عذاب آیا تو تیس آیات والی سورہ آئی اور اس سے دفاع کرنے لگی۔ راوی نے کہا: میں اور مسروق نے غور کیا تو «تبارك» کے علاوہ کسی اور سورہ میں تیس آیات نہیں پائیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى مرة وهو موقوف عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 3456]» اس اثر کی سند صحیح ہے، لیکن موقوف ہے۔ دیکھئے: [فضائل القرآن لابن الضريس 232، 234]، [فضائل القرآن لابي عبيد، ص: 260]، [عبدالرزاق 6025]، [طبراني 140/9، 8651، بسند جيد]۔ نیز دیکھئے: [ترمذي 2891، وقال: حديث حسن]
وضاحت: (تشریح احادیث 3433 سے 3445) ان تمام آثار سے سورۃ الملک یعنی « ﴿تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ﴾ » کی فضیلت ثابت ہوئی، ترمذی میں اسی سورہ کو مانعہ اور منجیہ کہا گیا ہے، ترمذی میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن پاک میں ایک سورہ تیس آیات کی ہے، اس نے ایک آدمی کے لئے شفاعت کی یہاں تک کہ وہ بخش دیا گیا، وہ تبارک ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى مرة وهو موقوف عليه
(حديث مرفوع) حدثنا إبراهيم بن المنذر، حدثنا إبراهيم بن المهاجر بن المسمار، عن عمر بن حفص بن ذكوان، عن مولى الحرقة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن الله تبارك وتعالى قرا طه، ويس قبل ان يخلق السموات والارض بالف عام، فلما سمعت الملائكة القرآن، قالت: طوبى لامة ينزل هذا عليها، وطوبى لاجواف تحمل هذا، وطوبى لالسنة تتكلم بهذا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُهَاجِرِ بْنِ الْمِسْمَارِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ حَفْصِ بْنِ ذَكْوَانَ، عَنْ مَوْلَى الْحُرَقَةِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَرَأَ طه، وَيس قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ بِأَلْفِ عَامٍ، فَلَمَّا سَمِعَتْ الْمَلَائِكَةُ الْقُرْآنَ، قَالَتْ: طُوبَى لِأُمَّةٍ يَنْزِلُ هَذَا عَلَيْهَا، وَطُوبَى لِأَجْوَافٍ تَحْمِلُ هَذَا، وَطُوبَى لِأَلْسِنَةٍ تَتَكَلَّمُ بِهَذَا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تبارک وتعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کرنے سے ہزار سال پہلے طہ اور یس کو پڑھا اور جب فرشتوں نے قرآن پاک کو سنا تو کہا: قابل رشک ہے وہ امت جس پر یہ سورتیں نازل ہوں اور قابل رشک ہیں وہ دل جن میں یہ سورتیں رہتی ہیں، اور قابلِ رشک ہیں وہ زبانیں جن پر ان کا ورد رہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف جدا عمر بن حفص بن ذكوان قال أحمد: تركنا حديثه وحرقناه، [مكتبه الشامله نمبر: 3457]» عمر بن حفص بن ذکوان کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف جدا ہے، اور ابراہیم بن مہاجر بن مسمار بھی ضعیف ہیں۔ دیکھئے: [طبراني فى الأوسط 4373]، [السنة لابن أبى عاصم 607]، [ابن خزيمه فى التوحيد 236]، [ابن حبان فى المجروحين 108/1]، [البيهقي فى شعب الإيمان 2450] و [في الأسماء و الصفات 232]، [ابن الجوزي فى الموضوعات 110/1، وغيرهم]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف جدا عمر بن حفص بن ذكوان قال أحمد: تركنا حديثه وحرقناه
(حديث موقوف) حدثنا ابو الوليد موسى بن خالد، حدثنا معتمر، عن ابيه، قال: بلغني عن الحسن، قال: "من قرا (يس) في ليلة، ابتغاء وجه الله او مرضاة الله، غفر له، وقال: بلغني انها تعدل القرآن كله".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ مُوسَى بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: بَلَغَنِي عَنْ الْحَسَنِ، قَالَ: "مَنْ قَرَأَ (يس) فِي لَيْلَةٍ، ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ أَوْ مَرْضَاةِ اللَّهِ، غُفِرَ لَهُ، وَقَالَ: بَلَغَنِي أَنَّهَا تَعْدِلُ الْقُرْآنَ كُلَّهُ".
حسن رحمہ اللہ نے کہا: جس نے اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے رات میں سورہ یس پڑھی اس کو بخش دیا جائے گا، انہوں نے کہا: مجھے یہ خبر پہنچی کہ یہ سورہ پورے قرآن کے برابر ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه وهو موقوف على الحسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3458]» یہ اثر موقوف ہے، اور اس کی سند میں انقطاع ہے، اس لئے ضعیف ہے۔ [ذكره السيوطي فى الدر المنثور 256/5]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه وهو موقوف على الحسن