(حديث مقطوع) حدثنا عمرو بن عون، عن خالد بن عبد الله، عن يحيى بن ابي إسحاق، قال:"سالت القاسم بن عبد الرحمن، ومعاوية بن قرة عن رجل قال في وصيته:"كل لي حر، وله مملوك آبق، فقالا: هو حر"، قال الحسن، وإياس، وبكر بن عبد الله: ليس بحر.(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاق، قَالَ:"سَأَلْتُ الْقَاسِمَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَمُعَاوِيَةَ بْنَ قُرَّةَ عَنْ رَجُلٍ قَالَ فِي وَصِيَّتِهِ:"كُلُّ لِي حُرٌّ، وَلَهُ مَمْلُوكٌ آبِقٌ، فَقَالَا: هُوَ حُرٌّ"، قَالَ الْحَسَنُ، وَإِيَاسٌ، وَبَكْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: ليس بحر.
یحییٰ بن ابی اسحاق نے کہا: میں نے قاسم بن عبدالرحمٰن اور معاویہ بن قرہ سے ایسے آدمی کی وصیت کے بارے میں پوچھا جو کہے میرے تمام غلام آزاد ہیں اور اس کا ایک غلام بھاگا ہوا بھی ہو، ان دونوں نے جواب دیا کہ وہ بھی آزاد ہو گا، اور حسن و ایاس و بکر بن عبداللہ نے کہا: وہ آزاد نہ ہو گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3339]» اس اثر کی سند صحیح ہے، لیکن کہیں اور یہ روایت نہیں ملی۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ام المومنین سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے اپنے ایک یہودی رشتے دار کے لئے وصیت کی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى ابن عمر وهو موقوف عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 3341]» اس حدیث کی سند سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما تک صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10812]، [عبدالرزاق 19342]، [البيهقي 281/6]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى ابن عمر وهو موقوف عليه
(حديث مقطوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا زهير، عن ابي إسحاق، قال:"اوصى غلام من الحي، يقال له: عباس بن مرثد ابن سبع سنين لظئر له يهودية من اهل الحيرة باربعين درهما، فقال شريح: إذا اصاب الغلام في وصيته، جازت وإنما اوصى لذي حق"، قال ابو محمد: انا اقول به.(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، قَالَ:"أَوْصَى غُلَامٌ مِنَ الْحَيِّ، يُقَالُ لَهُ: عَبَّاسُ بْنُ مَرْثَدٍ ابْنُ سَبْعِ سِنِينَ لِظِئْرٍ لَهُ يَهُودِيَّةٍ مِنْ أَهْلِ الْحِيرَةِ بِأَرْبَعِينَ دِرْهَمًا، فَقَالَ شُرَيْحٌ: إِذَا أَصَابَ الْغُلَامُ فِي وَصِيَّتِهِ، جَازَتْ وَإِنَّمَا أَوْصَى لِذِي حَقٍّ"، قَالَ أَبُو مُحَمَّد: أَنَا أَقُولُ بِهِ.
ابواسحاق نے کہا: قبیلے کے ایک سات سالہ لڑکے نے جس کا نام عباس بن مرثد تھا، اپنی اہل حيرة میں سے یہودی دایہ کے لئے چالیس درہم دینے کی وصیت کی تو قاضی شریح نے کہا: جب لڑکا اپنی وصیت میں حق بجانب ہو تو وہ وصیت جائز ہے، اس نے صاحب حق کے لئے ہی وصیت کی۔ امام ابومحمد دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: میں بھی یہی کہتا ہوں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى أبي إسحاق، [مكتبه الشامله نمبر: 3342]» اس اثر کی سند ابواسحاق تک صحیح ہے۔ تخریج رقم (3316) میں گذر چکی ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 3323 سے 3331) اہلِ ذمہ وہ غیر مسلم ہیں جو اسلامی حکومت کے زیرِ امان ہوں، اگر ان کا کوئی رشتہ دار مسلمان ہو تو وہ ان کے لئے وصیت کر سکتا ہے اور یہ وصیت جاری و ساری ہوگی جیسا کہ اُم المؤمنین سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا اور عباس بن مرثد کے یہودی کو وصیت دینے سے پتہ چلتا ہے۔ واللہ اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى أبي إسحاق
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا عبد الله بن سعيد، حدثنا ابو اسامة، عن هشام، عن ابيه:"ان الزبير جعل دوره صدقة على بنيه، لا تباع ولا تورث، وان للمردودة من بناته ان تسكن غير مضرة ولا مضار بها، فإن هي استغنت بزوج، فلا حق لها".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ:"أَنَّ الزُّبَيْرَ جَعَلَ دُورَهُ صَدَقَةً عَلَى بَنِيهِ، لَا تُبَاعُ وَلَا تُوَرَّثُ، وَأَنَّ لِلْمَرْدُودَةِ مِنْ بَنَاتِهِ أَنْ تَسْكُنَ غَيْرَ مُضِرَّةٍ وَلَا مُضَارٍّ بِهَا، فَإِنْ هِيَ اسْتَغْنَتْ بِزَوْجٍ، فَلَا حَقَّ لَهَا".
ہشام نے اپنے والد (عروہ بن الزبیر) سے روایت کیا کہ سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ نے اپنے گھروں کو اپنے بیٹوں کے لئے وقف کر دیا اور یہ شرط لگا دی کہ نہ وہ بیچے جائیں اور نہ وراثت میں تقسیم کئے جائیں، اور اپنی ایک طلاق شدہ لڑکی سے کہا کہ وہ اس میں قیام کریں اور اس گھر کو نقصان نہ پہنچائیں، اور نہ کوئی اور اس میں نقصان کرے، اور خاوند والی بیٹی کو اس گھر میں رہنے کا حق نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3343]» اس اثر کی سند صحیح ہے۔ ابواسامہ: حماد بن اسامہ ہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 974]، [البيهقي 166/6]۔ نیز امام بخاری نے اس کو تعليقاً «كتاب الوصايا باب اذا وقف ارضا......» میں حدیث [2778] سے پہلے ذکر کیا ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 3331) اصل چیز کو بیع، وراثت یا ہبہ سے محفوظ کر لینا اور اس کی آمدنی کسی خاص مد کیلئے فی سبیل الله متعین کرنا وقف کہلاتا ہے، یعنی اسے فروخت یا ہبہ کرنا یا بطورِ ترکہ ورثاء میں تقسیم کرنا درست نہیں۔ اولاد کے لئے بھی وقف صحیح ہے جیسا کہ مذکور بالا اثر میں سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کو اپنے بیٹوں کے لئے وقف کیا۔ والله اعلم۔
(حديث مقطوع) حدثنا الحكم بن المبارك، انبانا الوليد، عن حفص، عن مكحول:"في الرجل يوصي للرجل بدنانير في سبيل الله، فيموت الموصى له قبل ان يخرج بها من اهله، قال: هي إلى اولياء المتوفى الموصي، ينفذونها في سبيل الله".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، أنبأنا الْوَلِيدُ، عَنْ حَفْصٍ، عَنْ مَكْحُولٍ:"فِي الرَّجُلِ يُوصِي لِلرَّجُلِ بِدَنَانِيرَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَيَمُوتُ الْمُوصَى لَهُ قَبْلَ أَنْ يَخْرُجَ بِهَا مِنْ أَهْلِهِ، قَالَ: هِيَ إِلَى أَوْلِيَاءِ الْمُتَوَفَّى الْمُوصِي، يُنْفِذُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ".
مکحول رحمہ اللہ سے مروی ہے: کوئی آدمی کسی شخص کے لئے اللہ کے راستے میں دنانیر خرچ کرنے کی وصیت کرے اور جس کو وصیت کی اس کا وصیت کرنے والے سے پہلے انتقال ہو جائے؟ انہوں نے کہا: وصیت کرنے والے کے وارثین کے ہاتھ سے نکلنے سے پہلے ایسی وصیت جس کے لئے وصیت کی گئی ہے اس کے وارثین کے لئے جائز ہے۔ نیز انہوں نے کہا: مرے ہوئے کے وصیت کرنے والے وارثین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس وصیت کو فی سبیل الله نافذ کریں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف الوليد بن مسلم قد عنعن وهو مدلس، [مكتبه الشامله نمبر: 3344]» اس اثر کی سند میں ولید بن مسلم مدلس ہیں اور عن سے روایت کی ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف الوليد بن مسلم قد عنعن وهو مدلس
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا محمد بن عيينة، عن علي بن مسهر، عن اشعث، عن الحسن:"في الرجل يوصي للرجل بالوصية، فيموت الموصى له قبل الموصي، قال: هي جائزة لورثة الموصى له.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُسْهِرٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ الْحَسَنِ:"فِي الرَّجُلِ يُوصِي لِلرَّجُلِ بِالْوَصِيَّةِ، فَيَمُوتُ الْمُوصَى لَهُ قَبْلَ الْمُوصِي، قَالَ: هِيَ جَائِزَةٌ لِوَرَثَةِ الْمُوصَى لَهُ.
حسن رحمہ اللہ سے مروی ہے: کوئی آدمی کسی شخص کے لئے وصیت کرے اور وصی سے پہلے (جس کے لئے وصیت کی ہے) وہ مر جائے، حسن رحمہ اللہ نے کہا: ایسی وصیت موصی لہ (یعنی جس کے لئے وصیت کی ہے) کے وارثین کے لئے جائز ہو گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف أشعث وهو: ابن سوار، [مكتبه الشامله نمبر: 3345]» اشعث بن سوار کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے، لیکن ابن منصور نے [ابن منصور 367] میں صحیح سند سے روایت کی ہے۔ نیز [ابن أبى شيبه 10788] نے بھی حسن رحمہ اللہ کا یہ قول ذکر کیا ہے کہ: ایسی وصیت موصی لہ کے وارثین کے لئے ہوگی۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف أشعث وهو: ابن سوار
ابواسحاق السبیعی نے کہا: مجھ سے بیان کیا گیا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ایسی وصیت کو جائز قرار دیتے تھے۔ (یعنی) حسن رحمہ اللہ کے قول کے مطابق انہوں نے بھی کہا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 3346]» اس حدیث کی سند بھی اشعث کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10987]
وضاحت: (تشریح احادیث 3332 سے 3335) ان اقوال کو اگر صحیح مان لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ وصیت کرنے والے (وصی یا موصی) سے پہلے موصی لہ (جس کے لئے وصیت کی ہے) مرجائے تو یہ وصیت موصی لہ کے وارثین کی طرف منتقل ہو جائے گی۔ واللہ اعلم۔
نافع سے مروی ہے کہ ایک آدمی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور کہا کہ ایک شخص نے ایک اونٹنی کو اللہ کے راستے میں دینے کی مجھے وصیت کی ہے، اور یہ جہاد کا زمانہ بھی نہیں ہے، کیا میں اس کو حج کے لئے بھیج سکتا ہوں؟ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: حج اور عمرہ فی سبیل اللہ میں شامل ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3347]» اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10888] و [البيهقي 272/6]۔ اس کا شاہد [طيالسي 202/1، 976]، [أحمد 405/6] و [الحاكم فى المستدرك 482/1] میں موجود ہے۔
واقد بن محمد بن زید بن عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے اپنے مال کو فی سبیل اللہ (خرچ کرنے) کی وصیت کی، جس کو وصیت کی تھی اس نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے کہا: اس کو اللہ کے عمال کو دے دو، اس نے کہا: الله کے عمال کون ہیں؟ فرمایا: بیت اللہ کا حج کرنے والے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف موسى بن عبيد الربذي، [مكتبه الشامله نمبر: 3348]» موسیٰ بن عبیدہ ربذی کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10886]
وضاحت: (تشریح احادیث 3335 سے 3337) عموماً فی سبیل اللہ سے مراد جہاد لیا جاتا ہے، اور یہ مصارفِ زکاۃ میں سے بھی ہے، لہٰذا کوئی شخص مطلقاً وصیت کرے کہ اس کا مال فی سبیل اللہ خرچ کیا جائے اور کسی خاص جہت کی تحدید نہ کرے تو وہ مال جنگی ساز و سامان اور ضروریاتِ جہاد کے لئے، نیز مجاہد کے اوپر چاہے وہ مال دار ہی ہو وہ مال خرچ کیا جائے گا، جہاد کا موقع و محل نہ ہو تو احادیث سے ثابت ہے حج و عمرہ بھی فی سبیل اللہ میں داخل ہے، اسی طرح بعض علماء کے نزدیک دعوت و تبلیغ بھی فی سبیل اللہ میں داخل ہے کیوں کہ اس سے بھی مقصد اعلائے کلمۃ اللہ ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف موسى بن عبيد الربذي