سیدہ خولہ بنت حکیم رضی الله عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی (سفرمیں) کسی جگہ میں اترے اور یہ کہہ لے «أَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللّٰهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ» تو اس منزل کی کوئی چیز اسے نقصان نہ پہنچائے گی یہاں تک کہ اس جگہ سے کوچ کرے۔“ ترجمہ دعا: میں اللہ کے مکمل کلمات کے ساتھ پناہ چاہتا ہوں اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل محمد بن عجلان ولكن الحديث صحيح ووهيب هو: ابن خالد، [مكتبه الشامله نمبر: 2722]» اس روایت کی سند محمد بن عجلان کی وجہ سے حسن ہے، لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2708]، [ترمذي 3437]، [ابن ماجه 3547]، [أحمد 409/6]، [طبراني 237/24، 603]، [ابن خزيمه 2567]، [شرح السنة 145/5، 1347]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل محمد بن عجلان ولكن الحديث صحيح ووهيب هو: ابن خالد
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، عن عثمان بن سعد، عن انس بن مالك: ان النبي صلى الله عليه وسلم كان "إذا نزل منزلا، لم يرتحل منه حتى يصلي ركعتين، او يودع المنزل بركعتين". قال عبد الله: عثمان بن سعد ضعيف.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ "إِذَا نَزَلَ مَنْزِلًا، لَمْ يَرْتَحِلْ مِنْهُ حَتَّى يُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ، أَوْ يُوَدِّعَ الْمَنْزِلَ بِرَكْعَتَيْنِ". قَالَ عَبْد اللَّهِ: عُثْمَانُ بْنُ سَعْدٍ ضَعِيفٌ.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر میں کسی مقام پر اترتے تو وہاں سے کوچ نہ کرتے جب تک کہ دو رکعت نماز نہ پڑھ لیتے یا اس مقام سے دو رکعت نماز پڑھ کر رخصت ہوتے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: اس کی سند میں عثمان بن سعد ضعیف ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عثمان بن سعد، [مكتبه الشامله نمبر: 2723]» اس حدیث کی سند جیسا کہ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا عثمان بن سعد کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1205]، [نسائي 497 وفيه: لم يرتحل حتى يصلي الظهر]، [طبراني فى الأوسط 3465]، [كشف الاستار 747]، [ابن عدي 1817/5]، [العقيلي 205/3]، [أبويعلی 4315]، [مجمع الزوائد 3725]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عثمان بن سعد
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے سفر سے واپس لوٹتے تو یہ دعا کرتے تھے: ” «آئِبُوْنَ إِنْ شَاءَ اللّٰهُ ...... حَامِدُوْنِ» یعنی ہم واپس لوٹنے والے اگر اللہ نے چاہا تو، توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، اپنے رب کی حمد کرنے والے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2724]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1797]، [مسلم 1344]، [أبوداؤد 2770]، [ترمذي 950]، [أبويعلی 5513]، [ابن حبان 2707]، [الحميدي 657]
وضاحت: (تشریح احادیث 2714 سے 2717) بخاری شریف میں پوری دعا اس طرح ہے: «لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ سَاجِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ، صَدَقَ اللّٰهُ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ» اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، ملک اسی کا ہے اور حمد اسی کے لئے ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے، ہم واپس ہو رہے ہیں توبہ کرتے ہوئے، عبادت کرتے ہوئے، اپنے رب کو سجدہ کرتے ہوئے اور اس کی حمد کرتے ہوئے، اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، اپنے بندے کی مدد کی اور سارے لشکر کو تنہا شکست دے دی۔ (یہ فتح مکہ کی طرف اشارہ ہے)۔
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد، حدثنا شعبة، قال: حدثنا ابو إسحاق، قال: سمعت البراء بن عازب، يقول: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم امر رجلا إذا اخذ مضجعه ان يقول: "اللهم اسلمت نفسي إليك، ووجهت وجهي إليك، وفوضت امري إليك، والجات ظهري إليك، رغبة ورهبة إليك، لا ملجا ولا منجى منك إلا إليك، آمنت بكتابك الذي انزلت، ونبيك الذي ارسلت، فإن مات، مات على الفطرة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ، يَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ رَجُلًا إِذَا أَخَذَ مَضْجَعَهُ أَنْ يَقُولَ: "اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ نَفْسِي إِلَيْكَ، وَوَجَّهْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ، وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ، وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إِلَيْكَ، رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ، لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَى مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ، آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ، وَنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ، فَإِنْ مَاتَ، مَاتَ عَلَى الْفِطْرَةِ".
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو حکم فرمایا کہ ”جب وہ بستر پر پہنچ جائے تو یہ دعا پڑھے: «اَللّٰهُمَّ اَسْلَمْتُ نَفْسِيْ ...... وَنَبِيِّكَ الَّذِيْ أَرْسَلْتَ» ترجمہ: اے اللہ! میں نے اپنے نفس کو تیرے حوالے کر دیا، اور اپنا چہرہ تیری طرف پھیر لیا، اور اپنے معاملے کو تیرے سپرد کر دیا، میں نے تیرے ثواب کی توقع اور تیرے عذاب کے ڈر سے تجھے ہی پشت پناہ بنا لیا، تیرے سوا کہیں پناہ اور نجات کی جگہ نہیں، میں ایمان لایا اس کتاب پر جو تو نے نازل فرمائی اور اس نبی پر جس کو تو نے بھیجا۔ پھر اگر وہ اسی رات مر گیا تو فطرت پر مرے گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2725]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 247]، [مسلم 2710]، [أبوداؤد 5046]، [ترمذي 3394]، [ابن ماجه 3876]، [أبويعلی 1668]، [ابن حبان 5527]، [الحميدي 740]
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، عن عبيد الله بن عمر، عن سعيد بن ابي سعيد المقبري، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا اوى احدكم إلى فراشه، فلينفض فراشه بداخلة إزاره، فإنه لا يدري ما خلفه فيه، وليقل: اللهم بك وضعت جنبي، وبك ارفعه، اللهم إن امسكت نفسي، فاغفر لها، وإن ارسلتها، فاحفظها بما تحفظ به عبادك الصالحين".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا أَوَى أَحَدُكُمْ إِلَى فِرَاشِهِ، فَلْيَنْفُضْ فِرَاشَهُ بِدَاخِلَةِ إِزَارِهِ، فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي مَا خَلَفَهُ فِيهِ، وَلْيَقُلْ: اللَّهُمَّ بِكَ وَضَعْتُ جَنْبِي، وَبِكَ أَرْفَعُهُ، اللَّهُمَّ إِنْ أَمْسَكْتَ نَفْسِي، فَاغْفِرْ لَهَا، وَإِنْ أَرْسَلْتَهَا، فَاحْفَظْهَا بِمَا تَحْفَظُ بِهِ عِبَادَكَ الصَّالِحِينَ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص بستر پر لیٹے تو اپنا بستر اپنے ازار کے کنارے سے جھاڑ لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کی بے خبری میں کیا چیز اس (بستر) پرآگئی ہے؟ پھر یہ دعا پڑھے: «اَللّٰهُمَّ بِكَ وَضَعْتُ . . . . . . الخ» اے اللہ! تیرے نام کے ساتھ میں نے اپنا پہلو (بستر پر) رکھا اور تیرے ہی نام سے اٹھاؤں گا، اگر تو نے میری روح کو روک لیا تو اس کو بخش دینا اور اگر اس کو چھوڑ دیا (زندگی باقی رکھی) تو اس کی اس طرح حفاظت کرنا جس طرح تو صالحین کی حفاظت کرتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأبو النعمان هو: محمد بن الفضل. والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2726]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6320]، [مسلم 2714]، [أبوداؤد 5050]، [ابن حبان 5534]، [عمل اليوم و الليلة 710]، [شرح السنة 1313]
وضاحت: (تشریح احادیث 2717 سے 2719) ان احادیث میں سونے کے آداب و ادعیہ کا تذکرہ ہے۔ بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ جب سونے کا ارادہ کرو تو نماز کا سا وضو کر لو، پھر بستر کو جھاڑ لو مبادا کوئی کیڑا وغیرہ اس پر نہ پھر گیا ہو۔ دیگر روایت میں ہے کہ آیت الکرسی، سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتیں ایک بار اور « ﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ﴾ ، ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾ ، ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾ » تین تین بار پڑھ کر ہاتھوں پر پھونک ماریں اور سارے بدن پر جہاں تک ہاتھ جائے پھیریں، اور مذکورہ بالا دعائیں پڑھیں اور تسبیح و تہلیل کریں، باذن الله ربِ کائنات کی طرف سے حفاظت ہوگی اور پڑھنے والا ہر مصیبت و پریشانی سے محفوظ رہے گا۔ یہ سچے آداب اور پکے اذکار ہیں جن پر یقینِ کامل ہونا چاہیے۔ ان شاء اللہ آدمی ان اذکار کی برکت سے بدخوابی اور ڈراؤنے خوابوں سے بھی محفوظ رہے گا۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وأبو النعمان هو: محمد بن الفضل. والحديث متفق عليه
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا العوام بن حوشب، قال: حدثني عمرو بن مرة، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن علي، قال: اتانا رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى وضع قدمه بيني وبين فاطمة، فعلمنا ما نقول إذا اخذنا مضاجعنا: "ثلاثا وثلاثين تسبيحة، وثلاثا وثلاثين تحميدة، واربعا وثلاثين تكبيرة". قال علي: فما تركتها بعد. فقال له رجل: ولا ليلة صفين؟. قال: ولا ليلة صفين.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: أَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى وَضَعَ قَدَمَهُ بَيْنِي وَبَيْنَ فَاطِمَةَ، فَعَلَّمَنَا مَا نَقُولُ إِذَا أَخَذْنَا مَضَاجِعَنَا: "ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ تَسْبِيحَةً، وَثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ تَحْمِيدَةً، وَأَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ تَكْبِيرَةً". قَالَ عَلِيٌّ: فَمَا تَرَكْتُهَا بَعْدُ. فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: وَلَا لَيْلَةَ صِفِّينَ؟. قَالَ: وَلَا لَيْلَةَ صِفِّينَ.
امیر المومنین سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے یہاں تک کہ اپنا قدم (مبارک) میرے اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے درمیان رکھا اور ہم کو سکھایا کہ ”جب ہم بستر پر جائیں تو 33 بار «سبحان الله» 33 بار «الحمد لله» 34 بار «الله اكبر» کہیں۔“ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے یہ اذکار کبھی نہیں چھوڑے، ایک شخص نے کہا: صفین کی رات بھی نہیں؟ کہا: ہاں، صفین کی رات بھی نہیں چھوڑے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2727]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3113]، [مسلم 2727]، [أبويعلی 274]، [ابن حبان 5524]، [الحميدي 43]
وضاحت: (تشریح حدیث 2719) صفین وہ جنگ ہے جہاں سیدنا علی اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان جنگ برپا ہوئی تھی، حالتِ جنگ میں بھی انہوں نے اس اہم ترین وظیفہ کو ترک نہیں فرمایا۔ بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا نے خادم مانگا تھا جس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیاری لختِ جگر سے کہا: ”میں تمہیں ایسی چیز بتلائے دیتا ہوں جو خادم سے بہتر ہے“، اور پھر یہ وظیفہ بتلایا، لہٰذا اس سے تسبیح و تہلیل اور تکبیر سونے سے پہلے کہنے کی فضیلت معلوم ہوئی، مولانا صفی الرحمٰن صاحب مبارکپوری رحمہ اللہ نے ایک بار اس حدیث کے ضمن میں فرمایا تھا کہ جو شخص اس وظیفے پر عمل کرے گا اس کو اللہ ایسی قوت و ہمت عطا فرمائے گا کہ خادم کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوگی، اور تکان و تھکاوٹ بھی دور ہو جائے گی۔ ان شاء اللہ۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نیند سے بیدار ہوتے تو دعا فرماتے تھے: «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُوْرٌ» ۔ تمام تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے ہم کو سونے کے بعد اٹھایا اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح على شرط البخاري، [مكتبه الشامله نمبر: 2728]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6312]، [أبوداؤد 5049]، [ترمذي 3417]، [ابن ماجه 3880]، [الأدب المفرد 1205]، [ابن حبان 5532]، [عمل اليوم و الليلة 707]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط البخاري
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يزيد الحزامي، حدثنا الوليد بن مسلم، حدثنا الاوزاعي، قال: حدثني عمير بن هانئ العنسي، قال: حدثني جنادة بن ابي امية، قال: حدثني عبادة بن الصامت، عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال: "من تعار من الليل، فقال: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد، وهو على كل شيء قدير، سبحان الله، والحمد لله، والله اكبر، ولا حول ولا قوة إلا بالله". ثم قال:"رب اغفر لي او قال: ثم دعا استجيب له فإن عزم فتوضا ثم صلى قبلت صلاته".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْحِزَامِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَيْرُ بْنُ هَانِئٍ الْعَنْسِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي جُنَادَةُ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "مَنْ تَعَارَّ مِنَ اللَّيْلِ، فَقَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ". ثُمَّ قَالَ:"رَبِّ اغْفِرْ لِي أَوْ قَالَ: ثُمَّ دَعَا اسْتُجِيبَ لَهُ فَإِنْ عَزَمَ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ صَلَّى قُبِلَتْ صَلَاتُهُ".
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص رات کو بیدار ہو کر یہ پڑھے: «لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ ........... وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ» اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، ملک اسی کے لئے ہے اور تمام تعریفیں بھی اسی کے لئے ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اس کی ذات پاک ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور الله سب سے بڑا ہے اور الله کی مدد کے بغیر نہ کسی کو گناہوں سے بچنے کی طاقت ہے نہ نیکی کرنے کی ہمت۔ پھر یہ کہے: اے اللہ! میری مغفرت فرما“ یا یہ کہا کہ ”کوئی دعا کرے تو اس کی دعا قبول ہوگی، پھر اگر اس نے وضو کیا اور نماز پڑھی تو اس کی نماز بھی قبول ہوگی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2729]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1154]، [أبوداؤد 5060]، [ترمذي 3414]، [ابن ماجه 3878]، [ابن حبان 2596]
وضاحت: (تشریح احادیث 2720 سے 2722) ان احادیث سے سو کر اٹھنے یا رات کو بیدار ہونے کے وقت ان ادعیہ و اذکار کو پڑھنے کی فضیلت معلوم ہوئی۔ ابن بطال نے اس حدیث کے ضمن میں لکھا ہے کہ الله تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبان میں یہ وعدہ فرمایا ہے کہ جو مسلمان بھی رات میں اس طرح بیدار ہو کہ اس کی زبان پر اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان و یقین، اس کی کبریائی اور سلطنت کے سامنے تسلیم اور بندگی، اس کی نعمتوں کا اعتراف اور اس پر اس کا شکر و حمد، اور اس کی ذاتِ پاک کی تنزیہ و تقدیس سے بھر پور کلمات زبان پر جاری ہو جائیں تو الله تعالیٰ اس کی دعا بھی قبول کرتا ہے اور اس کی نماز بھی بارگاہِ رب العزت میں مقبول ہوتی ہے، اس لئے جس شخص تک بھی یہ حدیث پہنچے اسے اس حدیث پر عمل کو غنیمت سمجھنا چاہیے، اور اپنے رب کے لئے تمام اعمال میں نیّتِ خالص پیدا کرنی چاہیے کہ سب سے پہلی شرطِ قبولیت یہی خلوص ہے۔ (تفہیم البخاری)۔
عبدالرحمٰن بن ابزیٰ نے اپنے والد سیدنا ابزیٰ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کرتے تو یہ کہتے: ” «أَصْبَحْنَا عَلَيٰ فِطْرَةِ الْإِسْلَامِ . . . . . . مُسْلِمًا»(ترجمہ) ہم نے فطرتِ اسلام اور کلمۃ اخلاص اور اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین اور اپنے باپ ابراہیم حنيف و مسلم کی ملت پر صبح کی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح عبد الله بن عبد الرحمن وثقه أحمد وابن حبان، [مكتبه الشامله نمبر: 2730]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أحمد 407/3]، [ابن أبى شيبه 6591]، [ابن السني فى عمل اليوم و الليلة 34]
وضاحت: (تشریح حدیث 2722) حنیف کے معنی سیدھے اسلامی احکام پر عمل پیرا، مخلص کے ہیں۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح عبد الله بن عبد الرحمن وثقه أحمد وابن حبان
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن عامر، عن شعبة، عن يعلى بن عطاء، عن عمرو بن عاصم، عن ابي هريرة، قال: قال ابو بكر: يا رسول الله، مرني بشيء اقوله إذا اصبحت وإذا امسيت. قال: "قل: اللهم فاطر السموات والارض، عالم الغيب والشهادة، رب كل شيء ومليكه، اشهد ان لا إله إلا انت، اعوذ بك من شر نفسي، ومن شر الشيطان وشركه". قال:"قله إذا اصبحت وإذا امسيت، وإذا اخذت مضجعك".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مُرْنِي بِشَيْءٍ أَقُولُهُ إِذَا أَصْبَحْتُ وَإِذَا أَمْسَيْتُ. قَالَ: "قُلْ: اللَّهُمَّ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، رَبَّ كُلِّ شَيْءٍ وَمَلِيكَهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِي، وَمِنْ شَرِّ الشَّيْطَانِ وَشِرْكِهِ". قَالَ:"قُلْهُ إِذَا أَصْبَحْتَ وَإِذَا أَمْسَيْتَ، وَإِذَا أَخَذْتَ مَضْجَعَكَ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے بتایئے جب صبح یا شام ہو تو میں کیا کہوں؟ فرمایا: ”کہو: «اَللّٰهُمَّ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ . . . . . . مِنْ شَرِّ الشَّيْطَانِ وَ شِرْكِهِ» اے الله آسمان و زمین کو پیدا کرنے والے، غیب و حاضر کو جاننے والے، ہر چیز کے پروردگار اور مالک، میں شہادت دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، میں تیری پناه مانگتا ہوں اپنے نفس کے شر سے اور شیطان کے شر اور اس کے شرک سے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: ”جب صبح اور شام ہو تو تم اس دعا کو پڑھو اور جب بستر پر جاؤ تب پڑھو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2731]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 3529]، [أبويعلی 77]، [ابن حبان 962]، [موارد الظمآن 2349]
وضاحت: (تشریح حدیث 2723) ان احادیث سے ان دعاؤں کا صبح و شام اور سوتے وقت پڑھنے کا ثبوت ملا جو بہت ہی باعثِ خیر و برکت ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں پڑھنے کی توفیق بخشے، آمین۔