(حديث مرفوع) اخبرنا احمد بن عبد الله، حدثنا زهير، عن سليمان، عن انس، قال: عطس رجلان عند النبي صلى الله عليه وسلم فشمت او سمت احدهما ولم يشمت الآخر، فقيل له: يا رسول الله، شمت هذا ولم تشمت الآخر؟، فقال: "إن هذا حمد الله، وإن هذا لم يحمد الله". قال عبد الله: سليمان هو: التيمي.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: عَطَسَ رَجُلَانِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَمَّتَ أَوْ سَمَّتَ أَحَدَهُمَا وَلَمْ يُشَمِّتْ الْآخَرَ، فَقِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، شَمَّتَّ هَذَا وَلَمْ تُشَمِّتْ الْآخَرَ؟، فَقَالَ: "إِنَّ هَذَا حَمِدَ اللَّهَ، وَإِنَّ هَذَا لَمْ يَحْمَدْ اللَّهَ". قَالَ عَبْد اللَّهِ: سُلَيْمَانُ هُوَ: التَّيْمِيُّ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: دو آدمیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چھینکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا، یا یہ کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک کو یرحمک اللہ کہا اور دوسرے کو جواب نہیں دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! آپ نے اس کو جواب دیا اور دوسرے کو جواب نہیں دیا؟ فرمایا: ”اس نے الحمد للہ کہا اور اس نے الحمد للہ نہیں کہا۔“ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: سلیمان تمیمی ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2702]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6221]، [مسلم 2991]، [أبوداؤد 5039]، [ترمذي 2742]، [ابن ماجه 3713]، [أبويعلی 4060]، [ابن حبان 600]، [الحميدي 1242]
وضاحت: (تشریح احادیث 2693 سے 2695) یعنی جس نے «الحمد للّٰه» کہا اس کا جواب «يرحمك اللّٰه» سے دیا، اور جس نے «الحمد للّٰه» نہیں کہا تھا اس کو یہ دعا نہ دی۔ اس لئے چھینکنے والے کو «الحمد للّٰه» ضرور کہنا چاہیے کیونکہ چھینک چستی لاتی اور دماغ صاف کرتی ہے لہٰذا اس پر الله تعالیٰ کا شکر بجا لانا واجب ہوا، اور جو «الحمد للّٰه» نہ کہے اس کیلئے «يرحمك اللّٰه» کہنا درست نہیں۔ واللہ اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد، حدثنا عكرمة هو: ابن عمار، قال: حدثني إياس بن سلمة، قال: حدثني ابي، قال: عطس رجل عند النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: "يرحمك الله". ثم عطس اخرى، فقال:"الرجل مزكوم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ هُوَ: ابْنُ عَمَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: عَطَسَ رَجُلٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "يَرْحَمُكَ اللَّهُ". ثُمَّ عَطَسَ أُخْرَى، فَقَالَ:"الرَّجُلُ مَزْكُومٌ".
ایاس بن سلمہ نے کہا: میرے والد نے حدیث بیان کی، کہا: ایک آدمی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چھینک آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو یرحمک اللہ کہا، دوبارہ پھر اسے چھینک آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندے کو زکام ہے۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 2695) اس حدیث میں ہے کہ ایک سے زیادہ بار چھینکے تو جواب دینا ضروری نہیں۔ ابن ماجہ میں ہے کہ تین بار جواب دیا جائے، اس سے زیادہ چھینک آئے تو یرحمک اللہ کہنا ضروری نہیں ہے، بلکہ چھینکنے والا مزکوم ہے، یعنی ایک بار سے زیادہ چھینکنے پر جواب مستحب ہے، واجب نہیں۔
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن عامر، عن شعبة، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن ابيه، قال: قالت عائشة: "كان لنا ثوب فيه تصاوير، فجعلته بين يدي النبي صلى الله عليه وسلم وهو يصلي، فنهاني او قالت: فكرهه، قالت: فجعلته وسائد".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: "كَانَ لَنَا ثَوْبٌ فِيهِ تَصَاوِيرُ، فَجَعَلْتُهُ بَيْنَ يَدَيْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي، فَنَهَانِي أَوْ قَالَتْ: فَكَرِهَهُ، قَالَتْ: فَجَعَلْتُهُ وَسَائِدَ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہمارے پاس ایک چادر تھی جس میں تصویریں بنی تھیں، میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھا، جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے تو مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روک دیا، یا یہ کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند کیا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: لہٰذا میں نے اس کو کاٹ کر اس کے تکیے بنا دیئے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2704]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2107]، [نسائي 5361]، [أبويعلی 4403]، [ابن حبان 5843]، [الحميدي 253]
وضاحت: (تشریح حدیث 2696) انسان یا حیوان یا اور کسی جاندار کی تصویر بنانا یا لٹکانا حرام ہے۔ آج کل کپڑوں اور لباس اور دیواروں پر تصویریں آویزاں کرنا عام بات ہے جو اسلامی احکامات کے سراسر خلاف ہے، ان تصاویر کو لٹکا کر ان کی عزت و تکریم کرنا، اگربتی جلانا، اس پر ہار پھول چڑھانا، یہ سب مشرکانہ رسوم ہیں۔ شریعتِ اسلامیہ نے اس سے روکا ہے، اگر کسی کپڑے پر تصویر ہو تو اسے کاٹ کر اس کا تکیہ وغیرہ بنا لینا جائز ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک فرشتے اس گھر میں نہیں جاتے جہاں کتا ہو، یا تصویر، یا جنبی ہو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده جيد إذا كان عبد الله بن نجي سمعه من علي، [مكتبه الشامله نمبر: 2705]» اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 227، 4152]، [نسائي 261، 4292]، [ابن ماجه 3650]، [أبويعلی 313]، [ابن حبان 1205]، [موارد الظمآن 1484]
وضاحت: (تشریح حدیث 2697) یہاں اس حدیث میں رحمت کے فرشتے مراد ہیں جن کو ان چیزوں سے نفرت ہے، جو مسلمان اور سچے مومنوں کے پاس شوق اور محبت سے اپنی مرضی سے آتے جاتے ہیں لیکن اگر الله تعالیٰ کا حکم ہو تو ہرجگہ پہنچیں گے: « ﴿لَا يَعْصُونَ اللّٰهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ﴾[التحريم: 6] » ترجمہ: ”اللہ تعالیٰ جو حکم ان کو دیتا ہے وہ اس کی خلاف ورزی نہیں کرتے ہیں بلکہ جو حکم ان کو دیا جاتا اس کو بجا لاتے ہیں۔ “ ورنہ لازم آئے گا کہ جس کمرے میں کتا یا تصویر ہو وہاں ملک الموت بھی داخل نہ ہو۔ ایک ملحد نے اسی قسم کا اعتراض کیا تو کسی عامی نے جواب دیا کہ آپ ہر وقت کتا اپنے ساتھ رکھیں گے تو آپ کی روح قبض کرنے کے لئے وہ فرشتہ نہ آئے گا جو مؤمنین اور صالحین کی روح قبض کرتا ہے، بلکہ وہ فرشتہ آئے گا جو کتوں اور سوروں کی روح قبض کیا کرتا ہے۔ (وحیدی باختصار)۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد إذا كان عبد الله بن نجي سمعه من علي
سیدنا ابومسعود بدری رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مسلمان اپنے اہل و عیال (بیوی بچوں) پر الله تعالیٰ سے ثواب کی امید میں خرچ کرتا ہے تو وہ (خرچ) اس کے لئے صدقہ ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2706]» اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 55، 5351]، [مسلم 1002]، [ترمذي 1965]، [نسائي 2544]، [ابن حبان 4238]، [الطيالسي 1638]، [معرفة السنن و الآثار 8508]
وضاحت: (تشریح حدیث 2698) جو شخص اپنے بیوی بچوں پر احتساب کی نیت سے جو کچھ بھی خرچ کرے گا اس کو صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آدمی پر اپنے بیوی بچوں کا نان و نفقہ فرض ہے۔ حدیث سیدہ ام معاویہ رضی اللہ عنہا میں ہے کہ جتنے خرچ کی ضرورت ہو اگر شوہر نہ دے تو عورت معروف کے ساتھ خاوند کی لا علمی میں اس کے مال سے اپنا اور بچوں کا خرچ لے سکتی ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو النعمان، حدثنا ثابت بن يزيد، قال: حدثنا عاصم الاحول، عن مورق، عن عبد الله بن جعفر، قال:"كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قفل، تلقي بي وبالحسن او بالحسين، قال: واراه قال: الحسن فحملني بين يديه، والحسن وراءه، حتى قدمنا المدينة ونحن على الدابة التي عليها النبي صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ، عَنْ مُوَرِّقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، قَالَ:"كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَفَلَ، تُلُقِّيَ بِي وَبِالْحَسَنِ أَوْ بِالْحُسَيْنِ، قَالَ: وَأُرَاهُ قَالَ: الْحَسَنَ فَحَمَلَنِي بَيْنَ يَدَيْهِ، وَالْحَسَنَ وَرَاءَهُ، حَتَّى قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَنَحْنُ عَلَى الدَّابَّةِ الَّتِي عَلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے لوٹ کر آتے تو مجھے اور سیدنا حسن کو یا سیدنا حسین رضی اللہ عنہما کو استقبال کے لئے کھڑا پاتے۔ راوی نے کہا: میرا خیال ہے کہ وہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ تھے، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے آگے اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے سوار کر لیا یہاں تک کہ ہم مدینہ میں داخل ہوئے اور ہم اسی جانور پر سوار تھے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2707]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2428]، [أبوداؤد 2566]، [ابن ماجه 3773]، [أبويعلی 6791]، [الحميدي 548]
وضاحت: (تشریح حدیث 2699) دابہ سواری کے جانور کو کہتے ہیں جس میں اونٹ، گھوڑا، خچر سب شامل ہیں، اونٹ اور گھوڑے پر تین آدمی سوار ہو جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن خچر اور گدھے پر تین آدمیوں کا سوار ہونا اس کو تکلیف دے گا، اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو سراپا رحمت تھے ان سے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی حیوان کو بھی اذیت میں مبتلا کریں گے، اس لئے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ وہ سواری اونٹ کی تھی، نیز یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سیدنا عبداللہ اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہما بچے ہی تھے اور ان کا وزن زیادہ نہ رہا ہوگا۔ اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بچوں اور یتیموں سے محبت و الفت، شفقت و مہربانی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھتیجے، سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں، جن کے والد سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو بہت محبت اور پیار دیتے تھے۔ سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہما سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت معروف و مشہور ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن سليمان، عن إسحاق بن يحيى بن طلحة، عن المسيب بن رافع، ومعبد بن خالد، عن عبد الله بن يزيد الخطمي وكان اميرا على الكوفة، قال: اتينا قيس بن سعد بن عبادة في بيته، فاذن المؤذن للصلاة، وقلنا لقيس: قم فصل لنا، فقال: لم اكن لاصلي بقوم لست عليهم بامير، فقال رجل ليس بدونه. يقال له: عبد الله بن حنظلة بن الغسيل: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "الرجل احق بصدر دابته، وصدر فراشه، وان يؤم في رحله"، فقال قيس بن سعد عند ذلك: يا فلان لمولى له: قم فصل لهم.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، وَمَعْبَدِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ الْخَطْمِيِّ وَكَانَ أَمِيرًا عَلَى الْكُوفَةِ، قَالَ: أَتَيْنَا قَيْسَ بْنَ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فِي بَيْتِهِ، فَأَذَّنَ الْمُؤَذِّنِ لِلصَّلَاةِ، وَقُلْنَا لِقَيْسٍ: قُمْ فَصَلِّ لَنَا، فَقَالَ: لَمْ أَكُنْ لِأُصَلِّيَ بِقَوْمٍ لَسْتُ عَلَيْهِمْ بِأَمِيرٍ، فَقَالَ رَجُلٌ لَيْسَ بِدُونِهِ. يُقَالُ لَهُ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَنْظَلَةَ بْنِ الْغَسِيلِ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الرَّجُلُ أَحَقُّ بِصَدْرِ دَابَّتِهِ، وَصَدْرِ فِرَاشِهِ، وَأَنْ يَؤُمَّ فِي رَحْلِهِ"، فَقَالَ قَيْسُ بْنُ سَعْدٍ عِنْدَ ذَلِكَ: يَا فُلَانُ لِمَوْلًى لَهُ: قُمْ فَصَلِّ لَهُمْ.
عبداللہ بن یزید الخطمی سے مروی ہے جو کوفہ کے گورنر تھے، انہوں نے کہا: ہم قیس بن سعد بن عبادہ کے گھر گئے، مؤذن نے نماز کے لئے اذان دی، ہم نے قیس سے کہا: اٹھئے ہمیں نماز پڑھایئے۔ انہوں نے جواب دیا کہ جس قوم کا میں امیر نہیں ہوں اسے نماز نہیں پڑھا سکتا۔ یہ سن کر ایک شخص جو کم مرتبہ نہ تھے - ان کو عبداللہ بن حنظلہ ابن الغسیل کہا جاتا تھا - انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مالک اپنی سواری کا زیادہ حق دار ہے، اور اسی طرح بستر پر بیٹھنے کا (صاحبِ بستر زیادہ حق دار ہے)، اور اس کا کہ آدمی اپنے مکان پر امامت کرائے۔“ یہ سن کر قیس بن سعد نے اپنے غلام سے کہا: اٹھو اور ان کو نماز پڑھا دو۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2708]» اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن شواہد کے پیشِ نظر اس روایت کو تقویت ملتی ہے۔ دیکھئے: [مجمع الزوائد 65/2، 2363]، [وأحال إلى أحمد و ذكره البخاري معلقًا فى اللباس قبل حديث 5966 صاحب الدابه أحق بصدره فقط]
وضاحت: (تشریح حدیث 2700) اس حدیث سے اسلاف کی آپس میں ایک دوسرے کی عزت و احترام اور زیارت و ملاقات ثابت ہے، یہ کہ سواری پر صاحبِ سواری آگے بیٹھنے کا زیادہ حقدار ہے الا یہ کہ صاحبِ سواری خود کسی کو آگے بٹھائے یا آگے بیٹھنے کی اجازت دے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا قثم بن عباس رضی اللہ عنہ کو اپنے آگے بٹھایا [بخاري 5966] اور سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کو بھی جیسا کہ اوپر گذر چکا ہے، اور جانور و سواری میں موٹر کار وغیرہ سب شامل ہیں۔ اسی طرح صاحبِ دار کے بیٹھنے کی جگہ پر صاحبِ دار ہی بیٹھنے کا زیادہ حق دار ہے، اور اپنی مسجد یا نماز کی جگہ گھر و خیمہ وغیرہ میں پڑھانے کا زیادہ حقدار صاحبِ دار ہی ہے۔ صحیح حدیث ہے: «لَا يُؤَمُّ (يَؤُمَّنَّ) الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي سُلْطَانِهِ، وَلَا يَقْعُدْ فِي بَيْتِهِ عَلَى تَكْرِمَتِهِ، إِلَّا بِإِذْنِهِ»[رواه مسلم: 673 و أصحاب السنن وغيرهم] ۔ ایک بار امامِ حرم شیخ محمد السبیل ہماری مسجد میں تشریف لائے، سماحۃ الشیخ ابن باز رحمہ اللہ بھی موجود تھے، خاکسار نے امامِ حرم سے درخواست کی کہ نماز آپ پڑھایئے، انہوں نے انکار کیا تو میں نے شیخ محترم سے عرض کیا: آپ سفارش کر دیجئے کہ وہ نماز پڑھائیں، جواب دیا کہ میں کیوں کہوں، تمہارا حق ہے نماز پڑھانے کا، ہاں تم خود کہو قبول کر لیں تو بہتر نہ قبول کریں تو ان کی مرضی۔ یہ سب کچھ اس حدیث کے پیشِ نظر تھا: «أَنْ يَؤُمَّ فِيْ رَحْلِهِ» «تغمده اللّٰه بواسع رحمته» ۔ اس طرح ایک بار امام مسجدِ نبوی شیخ علی الحذیفی تشریف لائے تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا اور شیخ محترم نے سفارش کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن موسى، عن اسامة بن زيد، عن محمد بن حمزة بن عمرو الاسلمي، قال: وقد صحب ابوه رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: سمعت ابي يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "على ذروة كل بعير شيطان، فإذا ركبتموها فسموا الله ولا تقصروا عن حاجاتكم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَمْزَةَ بْنِ عَمْرٍو الْأَسْلَمِيِّ، قَالَ: وَقَدْ صَحِبَ أَبُوهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "عَلَى ذِرْوَةِ كُلِّ بَعِيرٍ شَيْطَانٌ، فَإِذَا رَكِبْتُمُوهَا فَسَمُّوا اللَّهَ وَلَا تُقَصِّرُوا عَنْ حَاجَاتِكُمْ".
محمد بن حمزہ بن عمرو اسلمی نے کہا اور ان کے والد سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں تھے، انہوں نے کہا: میں نے اپنے والد سے سنا، وہ کہتے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر اونٹ کے کوہان پر شیطان ہوتا ہے، اس لئے جب تم اونٹ پر سوار ہو تو اللہ کا نام لو (یعنی بسم اللہ کہو) اور اپنی ضروریات میں کمی نہ کرو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2709]» اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [ابن حبان 1703، 2694]، [موارد الظمآن 2000]، [ابن أبى شيبه 9772]، [طبراني فى الأوسط 1945]، [مجمع الزوائد 367/1]
وضاحت: (تشریح حدیث 2701) اس سے ثابت ہوا کہ کسی بھی سواری پر بیٹھنے سے پہلے بسم اللہ ضرور پڑھنی چاہیے تاکہ ہر شر سے محفوظ رہے۔
سہل بن انس سے مروی ہے، انہوں نے اپنے والد سے روایت کیا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان جانوروں پر سوار رہو جب تک کہ وہ تھکے اور مجروح نہ ہوں اور انہیں کرسی نہ بناؤ۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2710]» اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [مسندأحمد 439/3]، [ابن حبان 5619]، [موارد الظمآن 2002]، [ابن قانع فى معجم الصحابة 973]۔ اور منادی نے اس کو ابویعلی و طبرانی اور حاکم کی طرف منسوب کیا ہے، لیکن مسند میں ہے کہ سہل بن معاذ بن انس یعنی سہل کے والد معاذ ہیں نہ کہ انس۔
امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: عبداللہ بن صالح نے ہم کو خبر دی لیث سے، لیکن ان کی روایت شبابہ بن سوار سے کچھ مختلف ہے۔
تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 2711]» اس حدیث کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 2702 سے 2704) اسلامی شریعت نے جانوروں پر بھی رحم کرنے کی تعلیم دی ہے، اور اس بارے میں متعدد احادیث مروی ہیں جن میں سے ایک مذکورہ بالا روایت ہے جس میں حکم دیا گیا ہے کہ بے جان کرسی کی طرح وقت بے وقت انسان اس پر بیٹھا نہ رہے۔ ایک روایت ہے: «أركبوها غير مقروحة» ۔ مسند احمد میں مفصل روایت یوں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ پر سوار لوگوں کو بازار میں دیکھا جو گپ شپ میں لگے ہوئے تھے، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إِرْكَبُوْهَا، سَالِمَةً وَدَعُوْهَا سَالِمَةً وَلَا تَتَّخِذُوْهَا كَرَاسِيِّ.» دیکھئے [مسند أحمد 439/2، 15714، 15735] ۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق