(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن الزبير، حدثنا الفرج بن سعيد، قال: اخبرني عمي ثابت بن سعيد، عن ابيه سعيد، عن جده ابيض بن حمال: انه سال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن حمى الاراك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا حمى في الاراك"، فقال: اراكة في حظاري؟، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:"لا حمى في الاراك". قال فرج: يعني ابن ابيض: بحظاري: الارض التي فيها الزرع المحاط عليها.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ، حَدَّثَنَا الْفَرَجُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمِّي ثَابِتُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ سَعِيدٍ، عَنْ جَدِّهِ أَبْيَضَ بْنِ حَمَّالٍ: أَنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ حِمَى الْأَرَاكِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا حِمَى فِي الْأَرَاكِ"، فَقَالَ: أَرَاكَةٌ فِي حِظَارِي؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"لَا حِمَى فِي الْأَرَاكِ". قَالَ فَرَجٌ: يَعْنِي ابْنُ أَبْيَضُ: بِحِظَارِي: الْأَرْضَ الَّتِي فِيهَا الزَّرْعُ الْمُحَاطُ عَلَيْهَا.
سیدنا ابیض بن جمال رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیلو کی حد بندی کی اجازت چاہی تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پیلو میں روک (حد بندی) نہیں ہوسکتی۔“ انہوں نے عرض کیا: یہ پیلو وہ ہیں جو میرے کھیت کے اندر ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پیلو میں احاطہ بندی نہیں ہے۔“ فرج (ابن سعید) بن ابیض نے کہا: حظاری سے مراد وہ زمین ہے جس میں کھیتی کو گھیر دیا گیا ہو (یعنی باڑھ یا کھائی وغیرہ بنا کر روک لگا دی گئی ہو)۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2653]» اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3066]، [الآحاد و المثاني لابن أبى عاصم 2472]
وضاحت: (تشریح حدیث 2646) پیلو کی گھیرا بندی سے اس لئے منع کیا کہ مسواک وغیرہ کے لئے لوگوں کو اس کی ضرورت پڑتی ہے، اور اس سے مراد وہ درخت ہیں جو پہلے سے کھیت میں موجود ہوں، احاطہ بندی سے مقصود یہ تھا کہ ایسی روک لگ جائے جس سے لوگ آکر نہ کاٹیں اور اپنے مویشی نہ چرائیں، غالباً نمک، پانی، گھاس اور آگ کی طرح اس کو بھی عام مسلمانوں کی ملکیت میں شمار کیا گیا۔ واللہ اعلم۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا ابن عيينة، عن عمرو بن دينار، عن ابي المنهال، قال: سمعت إياس بن عبد المزني وكان من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، قال: لا تبيعوا الماء: فإني سمعت النبي صلى الله عليه وسلم"ينهى عن بيع الماء". وقال عمرو بن دينار: لا ندري اي ماء. قال: يقول: لا ادري ماء جاريا او الماء المستقى؟.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي الْمِنْهَالِ، قَالَ: سَمِعْتُ إِيَاسَ بْنَ عَبْدٍ الْمُزَنِيَّ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا تَبِيعُوا الْمَاءَ: فَإِنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يَنْهَى عَنْ بَيْعِ الْمَاءِ". وَقَالَ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ: لَا نَدْرِي أَيَّ مَاءٍ. قَالَ: يَقُولُ: لَا أَدْرِي مَاءً جَارِيًا أَوِ الْمَاءَ الْمُسْتَقَى؟.
سیدنا ایاس بن عبد مزنی رضی اللہ عنہ نے کہا جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے۔ پانی نہ بیچو کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کے بیچنے سے منع فرمایا۔ عمرو بن دینار نے کہا: پتہ نہیں کون سا پانی بیچنے سے منع فرمایا۔ انہوں نے کہا: کہتے ہیں پتہ نہیں بہنے والے پانی سے یا پینے والے پانی سے منع فرمایا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح على شرط البخاري، [مكتبه الشامله نمبر: 2654]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ابوالمنہال کا نام عبدالرحمٰن بن مطعم ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3478]، [ترمذي 1271]، [نسائي 4675]، [ابن ماجه 2476]، [ابن حبان 4952]، [موارد الظمآن 1117]، [الحميدي 936]
وضاحت: (تشریح حدیث 2647) اس حدیث میں پانی مطلقاً بیچنے کی ممانعت آئی ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ پینے کا پانی بیچنا درست نہیں، کھیتی کے لئے سینچائی کا پانی یا کنویں سے بھر کر لے جانے والے مشک وغیرہ کا پانی بیچنا اور خریدنا درست ہے، اور کنویں یا حوض، چشمے کا پانی پینے یا جانوروں کے پلانے کے لئے بیچنا درست نہیں، بلکہ صاحبِ کنواں کو اجازت دینی چاہیے کہ لوگ پئیں اور جانوروں کو پلائیں، نیز بوتلوں میں پیک صاف کیا ہوا پانی بیچنے میں کوئی حرج نہیں کیونک فلٹر کرنے، بوتلوں میں بھرنے، اور سپلائی میں اخراجات ہوتے ہیں، اس کے عوض اس پر پیسہ لینا درست ہے۔ اس حدیث میں نہی سے مراد بعض علماء کے نزدیک تنزیہی ہے، اور بعض نے نہی تحریمی کہا ہے، یعنی ہر حال میں پانی بیچنا حرام ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط البخاري
(حديث مرفوع) حدثنا عثمان بن عمر، حدثنا كهمس، عن سيار رجل من فزارة عن ابيه، عن بهيسة، عن ابيها، عن النبي صلى الله عليه وسلم: انه اتى النبي صلى الله عليه وسلم فاستاذنه فدخل بينه وبين قميصه وقد قال عثمان: فالتزمه، فقال: ما الشيء الذي لا يحل منعه؟، فقال:"الملح والماء"، فقال: ما الشيء الذي لا يحل منعه؟. قال: "ان تفعل الخير خير لك". قال: ما الشيء الذي لا يحل منعه؟. قال:"إن تفعل الخير خير لك" وانتهى إلى الملح والماء. قيل لعبد الله: تقول به؟ فاوما براسه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ، عَنْ سَيَّارٍ رَجُلٍ مِنْ فَزَارَةَ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ بُهَيْسَةَ، عَنْ أَبِيهَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّهُ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَأْذَنَهُ فَدَخَلَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ قَمِيصِهِ وَقَدْ قَالَ عُثْمَانُ: فَالْتَزَمَهُ، فَقَالَ: مَا الشَّيْءُ الَّذِي لَا يَحِلُّ مَنْعُهُ؟، فَقَالَ:"الْمِلْحُ وَالْمَاءُ"، فَقَالَ: مَا الشَّيْءُ الَّذِي لَا يَحِلُّ مَنْعُهُ؟. قَالَ: "أَنْ تَفْعَلَ الْخَيْرَ خَيْرٌ لَكَ". قَالَ: مَا الشَّيْءُ الَّذِي لَا يَحِلُّ مَنْعُهُ؟. قَالَ:"إِنْ تَفْعَلْ الْخَيْرَ خَيْرٌ لَكَ" وَانْتَهَى إِلَى الْمِلْحِ وَالْمَاءِ. قِيلَ لِعَبْدِ اللَّهِ: تَقُولُ بِهِ؟ فَأَوْمَأَ بِرَأْسِهِ.
بہیسہ نے اپنے والد سے روایت کیا: انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی، پھر اپنا منہ کرتے کے اندر ڈالا اور لپٹنے (چومنے) لگے، پھر عرض کیا: کون سی چیز سے روکنا جائز نہیں ہے؟ فرمایا: ”نمک اور پانی سے۔“ پھر عرض کیا: وہ کونسی چیز ہے جس سے روکنا جائز نہیں ہے؟ فرمایا: ”جتنی زیادہ نیکی کرو بہتر ہے۔“ پھر عرض کیا: کونسی چیز سے روکنا جائز نہیں ہے؟ فرمایا: ”جتنی نیکی کرو بہتر ہے“ اور صرف نمک اور پانی ہی پر اکتفا کیا۔ امام دارمی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: آپ بھی یہی کہتے ہیں؟ سر سے اثبات میں اشارہ کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2655]» اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1669، 3476]، [أبويعلی 7177]، [ابن حزم فى المحلی 54/9]
وضاحت: (تشریح حدیث 2648) یعنی پانی اور نمک لینے سے کسی طرح روکنا جائز نہیں ہے، اور کوئی چیز جتنی اجر و ثواب کے لئے خرچ کی جائے گی اتنا ہی ثواب ہوگا۔ اس حدیث سے نمک اور پانی بیچنا یا اس سے روکنا ممنوع ثابت ہوا، تفصیل اوپر گذر چکی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن عبيد الله، حدثني نافع، عن عبد الله: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم "عامل خيبر بشطر ما يخرج منها من ثمرة او زرع".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "عَامَلَ خَيْبَرَ بِشَطْرِ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ أَوْ زَرْعٍ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ خیبر سے کاشت اور کھجور کی آدھی (نصف حصہ) بٹائی پر معاہدہ کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2656]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2329]، [مسلم 1551]، [أبوداؤد 3008]، [أحمد 17/2، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 2649) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں سے زمین کی بٹائی کا ٹھیکہ طے فرمایا جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت کے شروع تک جاری ہی رہا، لیکن یہودیوں کی مسلسل شرارتوں کی وجہ سے انہوں نے اہلِ خیبر کو وہاں سے جلا وطن کر دیا۔ اس حدیث سے غیر مسلمین سے معاملہ کرنے، تجارت و کھیتی باڑی میں شراکت کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الحسن، عن زكريا بن إسحاق، حدثنا ابو الزبير: انه سمع جابرا يقول: كنا نخابر قبل ان ينهانا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الخبر بسنتين او ثلاث، على الثلث، والشطر، وشيء من تبن، فقال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من كانت له ارض فليحرثها، فإن كره ان يحرثها، فليمنحها اخاه، فإن كره ان يمنحها اخاه، فليدعها".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ إِسْحَاق، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ: أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا يَقُولُ: كُنَّا نُخَابِرُ قَبْلَ أَنْ يَنْهَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخِبْرِ بَسَنَتَيْنِ أَوْ ثَلَاثٍ، عَلَى الثُّلُثِ، وَالشَّطْرِ، وَشَيْءٍ مِنْ تِبْنٍ، فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَحْرُثْهَا، فَإِنْ كَرِهَ أَنْ يَحْرُثَهَا، فَلْيَمْنَحْهَا أَخَاهُ، فَإِنْ كَرِهَ أَنْ يَمْنَحَهَا أَخَاهُ، فَلْيَدَعْهَا".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخابرہ سے منع کرنے سے پہلے ہم زمین کو کاشت کے لئے دو اور تین سال تک ایک تہائی یا آدھے ساجھے پر دیا کرتے تھے، بھوسے کے عوض بٹائی پر دیتے تھے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس زمین ہو وہ خود اس میں کاشتکاری کرے، اگر اس کو کھیتی کرنا پسند نہ ہو تو اس زمین کو اپنے بھائی کو دے دے، اور اگر اپنے بھائی کو بھی دینا پسند نہ ہو تو اسے پڑا رہنے دے (یعنی کرائے پر نہ چلائے)۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأبو الحسن هو أحمد بن عبد الله بن مسلم الحراني والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2657]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ابوالحسن کا نام احمد بن عبداللہ بن مسلم حرانی ہے، اور یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2340]، [مسلم 1536/89]، [أبويعلی 1844]، [ابن حبان 4995]، [الحميدي 1318]
وضاحت: (تشریح حدیث 2650) مخابره: زمین بٹائی پر دینے کو کہتے ہیں، اس کی صورت یہ ہے کہ مزارع اور مالکِ زمین کے درمیان پیداوار کے نصف، ثلث یاریع پر معاملہ طے کیا جائے کہ مزارع اپنی خدمت کے بدلے میں پیداوار کا نصف، تہائی یا چوتھائی حصہ وصول کرے گا، باقی مالکِ زمین کا ہوگا، اسی طرح مزارعہ ہے، اور بعض علماء نے کہا: جب تخم زمین کا مالک دے تو وہ مزارعت ہے، اور جب کام کرنے والا تخم اپنے پاس سے ڈالے تو وہ مخابرہ ہے۔ بہرحال مزارعہ اورمخابرہ دونوں سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا، لیکن اس ممانعت کے باوجود علمائے کرام کے اس بارے میں مختلف اقوال ہیں، بعض نے اس کو جائز کہا اور بعض نے ناجائز کہا ہے، اور اس بارے میں تفصیل یہ ہے کہ بیع مخابرہ مطلقاً ممنوع نہیں بلکہ لوگ زمین کے کسی حصے کی پیداوار کو مزارع کے لئے اور کسی حصے کی پیداوار کو مالکِ زمین کے لئے مخصوص کر لیتے تھے، بسا اوقات مزارع والا حصہ صحیح سلامت رہ جاتا اور مالک والا تباہ ہو جاتا، اور کبھی اس کے برعکس ہو جاتا، اس طرح معاملہ باہمی نزاع اور جھگڑے تک پہنچ جاتا، اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کے امر سے منع فرمایا۔ اس طرح کا طے شدہ معاملہ کہ زمین سے جو پیداوار حاصل ہو اس کو طے شدہ حصہ یا مقدار میں مالکِ زمین اور مزارع تقسیم کریں گے، مثلاً چوتھا یا تیسرا حصۂ پیداوار کاشتکار کا اور بقیہ سارا مالکِ زمین کا، تو اس میں کوئی نہ مضائقہ ہے، نہ حرج، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بذاتِ خود اہلِ خیبر سے اسی اصول پر معاملہ طے فرمایا تھا۔ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے علاوہ ائمۂ ثلاثہ بٹائی پر زمین دینے کے قائل ہیں۔ اس حدیث میں خود زراعت کرنے کی ترغیب ہے، یا پھر اپنے بھائی کو دیدیں، اور آخری جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ بٹائی پر نہ دیں، لیکن دوسری بہت سی احادیث میں زمین کرائے یا بٹائی پر دینے کی اجازت آئی ہے، اور ممانعت صرف اسی حالت میں ہے کہ جگہ مخصوص کر دی جائے کہ اس جگہ کی کاشت کو کاشتکار لے گا، اور اس کے بہہ جانے یا خراب ہو جانے کا اندیشہ ہو تو مبیع مجہول ہونے کے سبب یہ ناجائز ہوگا۔ مزید تفصیل آگے آرہی ہے۔ اور [مسلم شريف 3935] میں صراحت ہے کہ اپنی زمین بٹائی پر دینے میں کوئی حرج نہیں، ہاں بھائی کو دینا اگر خود کاشتکاری نہ کرے تو افضل ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وأبو الحسن هو أحمد بن عبد الله بن مسلم الحراني والحديث متفق عليه
عبداللہ بن سائب نے کہا: میں نے سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے مزارعت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: سیدنا ثابت بن ضحاک انصاری رضی اللہ عنہ نے مجھے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزارعت سے (یعنی بٹائی پر زمین دینے سے) منع فرمایا۔ راوی نے امام دارمی رحمہ اللہ سے پوچھا: آپ بھی یہی کہتے ہیں؟ فرمایا: نہیں، میں پہلے قول کا قائل ہوں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2658]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ابواسحاق کا نام سلیمان بن ابی سلیمان ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1549]، [شرح معاني الآثار 107/4]، [البيهقي 133/6]، [ابن حزم فى المحلی 182/8]
وضاحت: (تشریح حدیث 2651) یہ حدیث مزارعت کی ممانعت پر دلالت کرتی ہے، اور بظاہر ان احادیث کے معارض و مخالف ہے جن میں اس کی اجازت دی گئی ہے جیسا کہ اوپر گذر چکا ہے، لیکن ابوداؤد میں سیدنا عروة رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ اشکال بھی رفع ہو جاتا ہے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: الله تعالیٰ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کو معاف فرمائے۔ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس حدیث کا مجھے ان سے زیادہ علم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دو انصاری آئے، دونوں جھگڑ رہے تھے، یہ صورتِ حال دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمہاری یہ حالت ہے تو پھر کھیتی باڑی ٹھیکے پر نہ دیا کرو۔ سیدنا رافع رضی اللہ عنہ نے حدیث کا پہلا حصہ نہیں سنا اور صرف «لا تكرو المزارع» سن لیا، اس لئے صحیح صورتِ حال ان کو سمجھ نہ آسکی، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع تو نہیں فرمایا بلکہ یہ فرمایا تھا کہ تم میں سے کسی ایک کا اپنی زمین کو فائدہ اٹھانے کے لئے دینا اس سے بہتر ہے کہ وہ اس کے بدلے میں معلوم و معین محصول لے، اور یہ بھی کہا گیا کہ اس حدیث میں جو نہی ہے وہ قبل از اسلام رائج طریقہ کی ہے، نیز یہ بھی کہا گیا کہ یہ نہی تنزیہی پر محمول ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آغازِ اسلام میں مہاجرین ضرورت مند تھے، ان کے پاس زمین نہیں تھی۔ انصار کے پاس زمینیں کافی تھیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح ان کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا اسی طرح انصار کو اپنے بے وطن مہاجرین کو بطورِ احسان زمین دلانے کے لئے حکمت کے طور پر مزارعہ سے منع فرمایا تاکہ بغیر کسی محصول کے اپنے بھائیوں کو زمین عطا کر دیں۔ (واللہ اعلم)۔
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا زهير، عن ابي الزبير، عن جابر، قال:"نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الارض البيضاء سنتين او ثلاثا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:"نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْأَرْضِ الْبَيْضَاءِ سَنَتَيْنِ أَوُ ثَلَاثًا".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالی زمین دو یا تین سال کے لئے بیچنے سے منع فرمایا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2659]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1536]، [أحمد 338/3-395]، [أبويعلی 1806]، [ابن حبان 4992]، [الحميدي 1292]
وضاحت: (تشریح حدیث 2652) اس کا مطلب یہ ہے: کوئی شخص خالی زمین یا درختوں کے پھل دو یا تین برس کے لئے بیچے، جیسا کہ مسلم شریف کی روایت میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے اس کی وضاحت موجود ہے، نیز اس کو بیع معاومہ بھی کہتے ہیں جو بالاجماع باطل ہے، اس لئے کہ اس میں دھوکہ ہے، شاید وہ درخت پھل نہ دے، یا کھیتی کی پیداوار نہ ہو، یا ہو سکتا ہے اور کوئی آفت آجائے۔
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں زمین کو کرائے پر دیا کرتے تھے، اس قدر پیداوار کے بدلے جو نالیوں کے کنارے پر ہو اور جس پر خود بخود پانی پہنچ جائے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے روک دیا اور ہم کو سونے یا چاندی کے بدلے (یعنی درہم و دینار کے بدلے) زمین کرایہ پر دینے کی اجازت دی۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2660]» اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن دراہم و دنانیر کے بدلے میں کرایہ پر دینے کے بارے میں صحیح احادیث موجود ہیں۔ یہ حدیث [أبوداؤد 3391]، [نسائي 3937]، [ابن ماجه 2461]، [أبويعلی 811]، [ابن حبان 5201]، [موارد الظمآن 1133] میں موجود ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2653) «السَّوَاقِي» اور بعض روایات میں «مَاذِيَانَاتُ» اور «أَقْبَالُ الْجَدَاوِلِ» کا ذکر ہے۔ مطلب ان سب روایتوں کا یہ ہے کہ پانی بہنے کی جگہیں، یا پگڈنڈیوں کے دونوں جانب اگنے والی چیزیں، یہ حدیث مساقات و مزارعت کی جس صورت کو ممنوع قرار دے رہی ہے وہ نامعلوم پیداوار اور اس کی نامعلوم مقدار ہے، اس وجہ سے اس سے منع کیا گیا۔ ہاں اگر درہم و دینار، سونے یا چاندی کے عوض زمین کو کرائے پر دیا جائے تو اس میں بالاتفاق کوئی حرج نہیں جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث میں اجازت دی گئی ہے۔ والله اعلم۔
سیدنا عبدالرحمٰن بن مسعود بن نیار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ ہماری بیٹھک پر آئے اور حدیث بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم (پھلوں کا درختوں پر) اندازہ کرو تو (دوتہائی) لیا کرو اور ایک تہائی چھوڑ دیا کرو، اگر ایک تہائی نہیں تو ایک چوتھائی چھوڑ دیا کرو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2661]» اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1605]، [ترمذي 643]، [نسائي 2490]، [ابن حبان 3280]، [الموارد 798]
وضاحت: (تشریح حدیث 2654) معمول یہ تھا کہ زکاۃ کے لئے جب پھل درخت پر ہوتے تو ان کا اندازہ کر لیا جاتا اور اترنے کے بعد اس کا دسواں حصہ مالک سے زکاة میں لیا جاتا، تیسرا حصہ یا کم از کم چوتھا حصہ چھوڑ دینے کو اس لئے کہا گیا تاکہ مالک کو گنجائش رہے اور وہ ہمسایوں اور دوستوں کو کھلا سکے۔ بعض روایات میں فجدوا ہے جس کے معنی کھجور توڑنے کے ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈیوں کی (زنا کی) کمائی سے منع فرمایا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأبو حازم هو: سلمان الأشجعي مولى عزة، [مكتبه الشامله نمبر: 2662]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ ابوحازم کا نام سلمان اشجعی (مولی عزہ) ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2283]، [أبوداؤد 3425]، [ابن حبان 5158]، [حلية الأولياء 163/7]
وضاحت: (تشریح حدیث 2655) عہدِ جاہلیت میں لوگ اپنی لونڈیوں سے حرام کمائی حاصل کرتے اور ان سے بالجبر پیشہ کراتے تھے۔ اسلام نے نہایت سختی کے ساتھ اس سے روکا اور ایسی کمائی کو لقمۂ حرام قرار دیا ہے۔ قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: « ﴿وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا .....﴾[النور: 33] » ترجمہ: ”تمہاری جو لونڈیاں پاک دامن رہنا چاہتی ہیں انہیں دنیاوی فائدے کی غرض سے زنا کاری پر مجبور نہ کرو۔ “
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وأبو حازم هو: سلمان الأشجعي مولى عزة