(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا الجريري، عن ابي العلاء، عن ابي مسلم الجرمي، عن الجارود، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"ضالة المسلم حرق النار، ضالة المسلم حرق النار، ضالة المسلم حرق النار، لا تقربنها". قال: فقال رجل: يا رسول الله، اللقطة نجدها؟. قال: "انشدها، ولا تكتم، ولا تغيب، فإن جاء ربها، فادفعها إليه، وإلا، فمال الله يؤتيه من يشاء".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ، عَنْ أَبِي مُسْلِمٍ الْجَرْمِيِّ، عَنِ الْجَارُودِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"ضَالَّةُ الْمُسْلِمِ حَرَقُ النَّارِ، ضَالَّةُ الْمُسْلِمِ حَرَقُ النَّارِ، ضَالَّةُ الْمُسْلِمِ حَرَقُ النَّارِ، لَا تَقْرَبَنَّهَا". قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اللُّقَطَةُ نَجِدُهَا؟. قَالَ: "أَنْشِدْهَا، وَلَا تَكْتُمْ، وَلَا تُغَيِّبْ، فَإِنْ جَاءَ رَبُّهَا، فَادْفَعْهَا إِلَيْهِ، وَإِلَّا، فَمَالُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ".
جارود نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلم کی گم شدہ چیز آگ کی جلن ہے، مسلمان کی گم شدہ چیز آگ کی جلن ہے، مسلمان کی گم شدہ چیز آگ کی جلن ہے، تم اس کے قریب نہ جانا۔“ جارود نے کہا: ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمیں گری پڑی چیز ملے تو؟ فرمایا: ”اس کا اعلان کرو، چھپاؤ نہیں، نہ اسے غائب کرو، اگر اس کا مالک آجائے تو اس کے حوالے کر دو ورنہ پھر یہ اللہ کا مال ہے جس کو وہ چاہتا ہے دیدیتا ہے۔“(یعنی کوئی لینے نہ آئے تو تم لے سکتے ہو اللہ نے تمہیں دیا ہے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأبو العلاء هو: يزيد بن عبد الله بن الشخير، [مكتبه الشامله نمبر: 2644]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ مزید دیکھئے: [طبراني 2119-2122]، [مجمع الزوائد 6928-6929]
وضاحت: (تشریح حدیث 2637) اس حدیث میں بھی مسلمان کی گم شدہ کوئی بھی چیز لینے کی ممانعت ثابت ہوئی، اور گری پڑی چیز کو بھی اس کے مالک تک پہنچانے کے لئے اٹھا سکتے ہیں۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وأبو العلاء هو: يزيد بن عبد الله بن الشخير
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص (جھوٹی) قسم کھا کر کسی مسلمان کا حق لے لے تو الله تعالیٰ نے اس کے لئے دوزخ واجب کر دی اور جنت اس پر حرام کر دی“، اس صحابی نے عرض کیا: چاہے تھوڑی سی چیز ہوتب بھی؟ فرمایا: ”چاہے پیلو کے درخت کی ایک ٹہنی ہی ہو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2645]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 137]، [نسائي 5434]، [ابن ماجه 2324]، [أبويعلی 5114]، [ابن حبان 5087]، [الحميدي 95]
وضاحت: (تشریح حدیث 2638) جھوٹی قسم کھانا بذاتِ خود سخت گناہ ہے۔ پھر جھوٹی قسم کھا کر کسی کا مال غصب کرنا یہ اور بھی بڑا گناہ ہے، اور مسلمان و غیر مسلمان کی اس میں کوئی قید نہیں، گرچہ اس حدیث میں جہنم کے واجب ہونے اور جنّت کے حرام ہونے کو مسلمان کے مال کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے لیکن یہ حکم عام ہے، کسی کا بھی مال ہڑپ کرنا بلا حق و جواز کے حرام ہے اور اپنے مسلمان بھائی کا مال ہڑپ کرنا اور زیادہ بڑا گناہ ہے، اور اس مال کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی، بلکہ تھوڑی سی بھی وہ چیز ہو تب بھی لینا، قبضہ کرنا حرام ہے۔ واللہ اعلم۔
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد، وحجاج، قالا: حدثنا شعبة، قال: حدثني علي بن مدرك، قال: سمعت ابا زرعة يحدث , عن خرشة بن الحر، عن ابي ذر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ثلاثة لا يكلمهم الله، ولا ينظر إليهم يوم القيامة، ولا يزكيهم ولهم عذاب اليم"، فقلت: يا رسول الله من هم خابوا وخسروا؟ فاعادها، فقلت: من هم يا رسول الله؟، فقال:"المسبل، والمنان، والمنفق سلعته بالحلف كاذبا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، وَحَجَّاجٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ مُدْرِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ يُحَدِّثُ , عَنْ خَرَشَةَ بْنِ الْحُرِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمْ اللَّهُ، وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ"، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ هُمْ خَابُوا وَخَسِرُوا؟ فَأَعَادَهَا، فَقُلْتُ: مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، فَقَالَ:"الْمُسْبِلُ، وَالْمَنَّانُ، وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ كَاذِبًا".
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن الله تعالیٰ تین آدمیوں سے نہ کلام کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایسے خائب و خاسر لوگ کون ہیں؟ فرمایا: ”اپنے ازار کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا، احسان جتانے والا، اور اپنے مال کو جھوٹی قسم کھا کر فروخت کرنے والا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2647]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 106]، [أبوداؤد 4087]، [ترمذي 1211]، [ابن ماجه 2208]، [أحمد 177/5، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح احادیث 2639 سے 2641) ٹخنے سے نیچے ازار لٹکانا، پائجامہ، پینٹ، کیسا ہی لباس ہو تکبر کی علامت ہے اور منع ہے۔ اسی طرح کسی پر احسان کر کے، مال دے کر جتانا یہ بھی بڑے پن کی علامت ہے، گناہ ہے اور منع ہے کہ کسی کو کچھ دے کر احسان جتائے، اسی طرح جھوٹی قسم کھا کر مال بیچنا، دھوکہ دینا اور ذاتِ باری تعالیٰ کی بے ادبی ہے، اسی لئے الله تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لئے چار سزائیں مقرر کی ہیں: نہ قیامت کے دن ان کی طرف دیکھے گا، نا ان سے کلام کرے گا، اور نہ ان کے گناہوں سے درگذر کرے گا، بلکہ ان لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہوگا «(أعاذ اللّٰه وإياكم منه)» ۔ یہ بڑی سزائیں ہیں، اس لئے اسبالِ ازار، احسان جتانے اور جھوٹی قسمیں کھا کر مال فروخت کرنے سے سخت پرہیز کرنا چاہیے۔ الله تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کسی کی ایک بالشت زمین ظلم سے لے لی تو سات زمینوں کا طوق (قیامت کے دن) اس کو پہنایا جائے گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2648]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2452]، [مسلم 1610]، [أبويعلی 949]، [ابن حبان 3194]، [الحميدي 83]
وضاحت: (تشریح حدیث 2641) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی کی زمین پر غاصبانہ قبضہ کرنا بڑا بھیانک جرم ہے، اور اس کی سزا یہ ہے کہ قیامت کے دن اس کو زمین کے ساتوں طبق کا طوق اس کی گردن میں ڈالا جائے گا۔ بعض علماء نے کہا کہ سات طبقوں تک اسے دھنسا دیا جائے گا، اور بعض نے کہا کہ سات زمینوں کی مٹی ڈھونے کا اس کو حکم دیا جائے گا، اس دن جب کہ سورج کی حدت و تمازت سے لوگ ویسے ہی پسینوں میں شرابور ہوں گے، اور یہ مصیبت جس کے گلے پڑے گی اس کا کیا حشر ہوگا۔ اس حدیث سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ زمین کے بھی آسمان کی طرح سات طبق ہیں، جیسا کہ قرآن پاک میں بھی ہے: « ﴿اللّٰهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ .....﴾[الطلاق: 12] » یعنی ”الله تعالیٰ نے سات آسمان بنائے اور اسی کی طرح سے سات زمین بھی پیدا فرمائیں۔ “ جو لوگ سات زمینوں کا انکار کرتے ہیں، یا یہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد ہفت اقلیم سات بر اعظم ہیں وہ غلطی پر ہیں، اور قرآن و حدیث کے خلاف وہ ظن و تخمین لگاتے ہیں۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص خالی غیر آباد زمین کو آباد کرے اس کے لئے اس میں اجر و ثواب ہے، اور اس کی زراعت سے جو کوئی بھی کچھ کھائے تو یہ اس کے لئے صدقہ ہے۔“ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: عافیہ سے مراد پرندے وغیرہ ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن والحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2649]» اس روایت کی سند حسن اور حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 1379]، [أبويعلی 1805]، [ابن حبان 5202]، [موارد الظمآن 1136]
وضاحت: (تشریح حدیث 2642) «عافية عافي» کا مؤنث ہے، اور اس سے مراد لغت میں ہر وہ ذو نفس ہے جو رزق کی تلاش میں ہو، خواہ وہ انسان ہو، چوپایہ، یا پرنده، مطلب یہ ہوا کہ غیر آباد زمین پر کھیتی کرنے سے اجر بھی ہے، اور مذکورہ اجناس میں سے کوئی تھوڑا بہت کھا لے تو یہ اس آباد کرنے والے کی طرف سے صدقہ ہے۔ ترمذی میں ہے: جو ایسی زمین کو آباد کرے وہ اسی کی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ بنجر زمین آباد کرنے کے لئے حاکم کی اجازت کی ضرورت نہیں، اور بعض علماء نے کہا کہ بلا اجازت کسی زمین پر قبضہ کرنا درست نہیں۔ اور «أَرْضًا مَيْتَةً» سے مراد وہ زمین ہے جس میں نہ زراعت ہو، نا مکان ہو، اور نہ وہ کسی کی ملک ہو۔ اور آباد کرنے سے مراد مکان بنانا، زراعت کرنا یا درخت و باغ لگانا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام میں بے کار زمین پڑے رہنے کا تصور نہیں ہے، اس کو آباد ہونا چاہیے۔ کسی ملک کے استحکام کا بھی یہی تقاضا ہے، اور اس سے انفرادی ملکیت کا بھی ثبوت ملتا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن والحديث صحيح
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن الزبير الحميدي، حدثنا الفرج بن سعيد بن علقمة بن سعيد بن ابيض بن حمال السبائي الماربي، حدثني عمي ثابت بن سعيد بن ابيض: ان اباه سعيد بن ابيض حدثه، عن ابيض بن حمال حدثه: انه استقطع الملح من رسول الله صلى الله عليه وسلم الذي يقال له ملح شذا بمارب فاقطعه، ثم إن الاقرع بن حابس التميمي. قال: يا نبي الله إني قد وردت الملح في الجاهلية، وهو بارض ليس بها ماء، ومن ورده، اخذه، وهو مثل ماء العد. فاستقال النبي صلى الله عليه وسلم الابيض في قطيعته في الملح، فقلت: قد اقلته على ان تجعله مني صدقة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "هو منك صدقة، وهو مثل ماء العد، من ورده، اخذه". قال: وقطع له رسول الله صلى الله عليه وسلم ارضا ونخلا وكذا بالجوف: جوف مراد مكانه حين اقاله منه. قال الفرج: فهو على ذلك: من ورده، اخذه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا الْفَرَجُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ عَلْقَمَةَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبْيَضَ بْنِ حَمَّالٍ السَّبَائِيُّ الْمَأْرِبِيُّ، حَدَّثَنِي عَمِّي ثَابِتُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبْيَضَ: أَنَّ أَبَاهُ سَعِيدَ بْنَ أَبْيَضَ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبْيَضَ بْنِ حَمَّالٍ حَدَّثَهُ: أَنَّهُ اسْتَقْطَعَ الْمِلْحَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي يُقَالُ لَهُ مِلْحُ شَذَّا بِمَأْرِبَ فَأَقْطَعَهُ، ثُمَّ إِنَّ الْأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ التَّمِيمِيَّ. قَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ إِنِّي قَدْ وَرَدْتُ الْمِلْحَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَهُوَ بِأَرْضٍ لَيْسَ بِهَا مَاءٌ، وَمَنْ وَرَدَهُ، أَخَذَهُ، وَهُوَ مِثْلُ مَاءِ الْعِدِّ. فَاسْتَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَبْيَضَ فِي قَطِيعَتِهِ فِي الْمِلْحِ، فَقُلْتُ: قَدْ أَقَلْتُهُ عَلَى أَنْ تَجْعَلَهُ مِنِّي صَدَقَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "هُوَ مِنْكَ صَدَقَةٌ، وَهُوَ مِثْلُ مَاءِ الْعِدِّ، مَنْ وَرَدَهُ، أَخَذَهُ". قَالَ: وَقَطَعَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْضًا وَنَخْلًا وَكَذَا بِالْجَوْفِ: جَوْفِ مُرَادٍ مَكَانَهُ حِينَ أَقَالَهُ مِنْهُ. قَالَ الْفَرَجُ: فَهُوَ عَلَى ذَلِكَ: مَنْ وَرَدَهُ، أَخَذَهُ.
سیدنا ابیض بن جمال رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نمک کی کان جاگیر میں مانگی جس کو نمک کی شذ مآرب یا سد مآرب کی وادی یا کان کہا جاتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وہ نمک کی وادی عطا فرما دی، پھر سیدنا اقرع بن حابس تمیمی رضی اللہ عنہ نے کہا: یا نبی اللہ! دورِ جاہلیت میں میرا گذر اس کے پاس سے ہوا، وہ ایسی زمین ہے جس میں پانی نہیں اور جو کوئی وہاں جاتا ہے نمک لے آتا ہے، وہ ٹھہرے ہوئے گہرے پانی کی طرح ختم نہیں ہوتا، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابیض رضی اللہ عنہ سے نمک کی اس جاگیر کی منسوخی کے لئے کہا، انہوں نے عرض کیا: میں اس شرط پر اس کو واپس کروں گا کہ اس کو میری طرف سے صدقہ مانا جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تمہاری طرف سے صدقہ ہی ہے اور اس باقی رہنے والے پانی کی طرح سے کہ جو بھی وہاں آئے اسے لے جائے۔“ یعنی ہر آدمی اس سے مستفید ہو اور وہ کبھی ختم نہ ہو۔ سیدنا ابیض رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس منسوخی کے بدلے جوف یا جوف مراد میں زمین اور کھجور کے درختوں کی جاگیر عطا کی۔ راویٔ حدیث فرج بن سعید نے کہا: وہ نمک کی کان آج تک ویسے ہی ہے، جو وہاں جاتا ہے اس سے کچھ نہ کچھ لے لیتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2650]» اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3058]، [ترمذي 1380]، [ابن ماجه 2475]، [ابن حبان 4499]، [الموارد 1140، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 2643) نمک، آگ اور پانی، گھاس اگر کسی کی ملکیت میں نہ ہو تو تمام لوگ اس سے انتفاع میں شریک ہیں جیسا کہ آگے آرہا ہے، اس لئے ہادیٔ برحق محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نمک کی اس کان کو کسی ایک کی ملکیت میں دینے سے رجوع کر لیا، اس سے معلوم ہوا کے حکمراں کو اختیار ہے جس کو چاہے جو عطا کر دے، نیز یہ کہ وہ دے کر واپس بھی لے سکتا ہے، اور اس کا یہ عطیہ، دے کر واپس لینے کی وعید میں داخل نہ ہوگا۔ لیکن جس کو عطیہ دیا گیا اس سے پوچھنا ضروری ہے، نیز یہ کہ اربابِ حکومت کو صحیح مشورہ دینا واجب ہے جیسا کہ سیدنا اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ نے کیا۔ واللہ اعلم۔
علقمہ بن وائل نے اپنے والد سیدنا وائل رضی اللہ عنہ سے روایت کیا، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جاگیر میں ایک زمین عطا کی اور میرے ساتھ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ وہ زمین ان کے حوالے کر دیں۔ یحییٰ نے کہا: ہم سے محمد بن بشار نے یہ حدیث بیان کی غندر سے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح على شرط مسلم، [مكتبه الشامله نمبر: 2651]» اس حدیث کی سند صحیح علی شرط مسلم ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3058]، [ترمذي 1381]، [ابن حبان 7205]
وضاحت: (تشریح حدیث 2644) اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ امام جس کو مناسب سمجھے جاگیر دے سکتا ہے بشرطیکہ کسی کی ملکیت نہ ہو۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط مسلم
(حديث مرفوع) اخبرنا المعلى بن اسد، حدثنا عبد الواحد بن زياد، حدثنا سليمان الاعمش، حدثنا ابو سفيان، قال: سمعت جابر بن عبد الله , يقول: حدثتني ام مبشر امراة زيد بن حارثة، قالت: دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم في حائط لي، فقال:"يا ام مبشر، امسلم غرس هذا، ام كافر؟". قلت: مسلم، فقال: "ما من مسلم يغرس غرسا فياكل منه إنسان، او دابة، او طير، إلا كانت له صدقة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْمُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا أَبُو سُفْيَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ , يَقُولُ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ مُبَشِّرٍ امْرَأَةُ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَائِطٍ لِي، فَقَالَ:"يَا أُمَّ مُبَشِّرٍ، أَمُسْلِمٌ غَرَسَ هَذَا، أَمْ كَافِرٌ؟". قُلْتُ: مُسْلِمٌ، فَقَالَ: "مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا فَيَأْكُلُ مِنْهُ إِنْسَانٌ، أَوْ دَابَّةٌ، أَوْ طَيْرٌ، إِلَّا كَانَتْ لَهُ صَدَقَةٌ".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: مجھ سے سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما کی بیوی سیدہ ام مبشر رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس میرے باغ میں تشریف لائے اور فرمایا: ”اے ام مبشر! یہ (کھجور کے) درخت کس نے لگائے؟ مسلمان نے یا کافر نے؟“ میں نے عرض کیا: مسلمان نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مسلمان درخت لگائے پھر اس میں سے کوئی آدمی، جانور، یا پرندہ کھائے تو یہ اس کے لئے صدقہ ہے (یعنی درخت لگانے والے مسلمان کو صدقہ کرنے کا اجر و ثواب ہے)۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2652]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1552]، [أحمد 362/6]، [أبويعلی 2213]، [ابن حبان 3368]، [الحميدي 1311]
وضاحت: (تشریح حدیث 2645) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ درخت لگانے، اور دیگر روایات میں کھیتی کرنے کا بھی بڑا اجر و ثواب ہے، جو مسلمان درخت لگائے یاکھیتی باڑی کرے اور اس سے جو بھی کوئی کھائے گا اس کے لئے صدقہ ہے۔ امام مسلم رحمہ اللہ کی ایک روایت میں ہے کہ یہ صدقہ جاریہ ہے اور قیامت تک اس کو اس کا ثواب ملتا رہے گا، جب تک کہ وہ درخت موجود رہے اور پھل دیتا رہے۔