سنن دارمي
من كتاب البيوع
خرید و فروخت کے ابواب
66. باب في الْقَطَائِعِ:
قطع اراضی جاگیر میں دینے کا بیان
حدیث نمبر: 2644
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا الْفَرَجُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ عَلْقَمَةَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبْيَضَ بْنِ حَمَّالٍ السَّبَائِيُّ الْمَأْرِبِيُّ، حَدَّثَنِي عَمِّي ثَابِتُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبْيَضَ: أَنَّ أَبَاهُ سَعِيدَ بْنَ أَبْيَضَ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبْيَضَ بْنِ حَمَّالٍ حَدَّثَهُ: أَنَّهُ اسْتَقْطَعَ الْمِلْحَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي يُقَالُ لَهُ مِلْحُ شَذَّا بِمَأْرِبَ فَأَقْطَعَهُ، ثُمَّ إِنَّ الْأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ التَّمِيمِيَّ. قَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ إِنِّي قَدْ وَرَدْتُ الْمِلْحَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَهُوَ بِأَرْضٍ لَيْسَ بِهَا مَاءٌ، وَمَنْ وَرَدَهُ، أَخَذَهُ، وَهُوَ مِثْلُ مَاءِ الْعِدِّ. فَاسْتَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَبْيَضَ فِي قَطِيعَتِهِ فِي الْمِلْحِ، فَقُلْتُ: قَدْ أَقَلْتُهُ عَلَى أَنْ تَجْعَلَهُ مِنِّي صَدَقَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "هُوَ مِنْكَ صَدَقَةٌ، وَهُوَ مِثْلُ مَاءِ الْعِدِّ، مَنْ وَرَدَهُ، أَخَذَهُ". قَالَ: وَقَطَعَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْضًا وَنَخْلًا وَكَذَا بِالْجَوْفِ: جَوْفِ مُرَادٍ مَكَانَهُ حِينَ أَقَالَهُ مِنْهُ. قَالَ الْفَرَجُ: فَهُوَ عَلَى ذَلِكَ: مَنْ وَرَدَهُ، أَخَذَهُ.
سیدنا ابیض بن جمال رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نمک کی کان جاگیر میں مانگی جس کو نمک کی شذ مآرب یا سد مآرب کی وادی یا کان کہا جاتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وہ نمک کی وادی عطا فرما دی، پھر سیدنا اقرع بن حابس تمیمی رضی اللہ عنہ نے کہا: یا نبی اللہ! دورِ جاہلیت میں میرا گذر اس کے پاس سے ہوا، وہ ایسی زمین ہے جس میں پانی نہیں اور جو کوئی وہاں جاتا ہے نمک لے آتا ہے، وہ ٹھہرے ہوئے گہرے پانی کی طرح ختم نہیں ہوتا، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابیض رضی اللہ عنہ سے نمک کی اس جاگیر کی منسوخی کے لئے کہا، انہوں نے عرض کیا: میں اس شرط پر اس کو واپس کروں گا کہ اس کو میری طرف سے صدقہ مانا جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تمہاری طرف سے صدقہ ہی ہے اور اس باقی رہنے والے پانی کی طرح سے کہ جو بھی وہاں آئے اسے لے جائے۔“ یعنی ہر آدمی اس سے مستفید ہو اور وہ کبھی ختم نہ ہو۔ سیدنا ابیض رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس منسوخی کے بدلے جوف یا جوف مراد میں زمین اور کھجور کے درختوں کی جاگیر عطا کی۔ راویٔ حدیث فرج بن سعید نے کہا: وہ نمک کی کان آج تک ویسے ہی ہے، جو وہاں جاتا ہے اس سے کچھ نہ کچھ لے لیتا ہے۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2650]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3058]، [ترمذي 1380]، [ابن ماجه 2475]، [ابن حبان 4499]، [الموارد 1140، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 2643)
نمک، آگ اور پانی، گھاس اگر کسی کی ملکیت میں نہ ہو تو تمام لوگ اس سے انتفاع میں شریک ہیں جیسا کہ آگے آرہا ہے، اس لئے ہادیٔ برحق محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نمک کی اس کان کو کسی ایک کی ملکیت میں دینے سے رجوع کر لیا، اس سے معلوم ہوا کے حکمراں کو اختیار ہے جس کو چاہے جو عطا کر دے، نیز یہ کہ وہ دے کر واپس بھی لے سکتا ہے، اور اس کا یہ عطیہ، دے کر واپس لینے کی وعید میں داخل نہ ہوگا۔
لیکن جس کو عطیہ دیا گیا اس سے پوچھنا ضروری ہے، نیز یہ کہ اربابِ حکومت کو صحیح مشورہ دینا واجب ہے جیسا کہ سیدنا اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ نے کیا۔
واللہ اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن