(حديث مرفوع) اخبرنا المعلى بن اسد، حدثنا عبد الواحد بن زياد، حدثنا سليمان الاعمش، حدثنا ابو سفيان، قال: سمعت جابر بن عبد الله , يقول: حدثتني ام مبشر امراة زيد بن حارثة، قالت: دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم في حائط لي، فقال:"يا ام مبشر، امسلم غرس هذا، ام كافر؟". قلت: مسلم، فقال: "ما من مسلم يغرس غرسا فياكل منه إنسان، او دابة، او طير، إلا كانت له صدقة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْمُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا أَبُو سُفْيَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ , يَقُولُ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ مُبَشِّرٍ امْرَأَةُ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَائِطٍ لِي، فَقَالَ:"يَا أُمَّ مُبَشِّرٍ، أَمُسْلِمٌ غَرَسَ هَذَا، أَمْ كَافِرٌ؟". قُلْتُ: مُسْلِمٌ، فَقَالَ: "مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا فَيَأْكُلُ مِنْهُ إِنْسَانٌ، أَوْ دَابَّةٌ، أَوْ طَيْرٌ، إِلَّا كَانَتْ لَهُ صَدَقَةٌ".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: مجھ سے سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما کی بیوی سیدہ ام مبشر رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس میرے باغ میں تشریف لائے اور فرمایا: ”اے ام مبشر! یہ (کھجور کے) درخت کس نے لگائے؟ مسلمان نے یا کافر نے؟“ میں نے عرض کیا: مسلمان نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مسلمان درخت لگائے پھر اس میں سے کوئی آدمی، جانور، یا پرندہ کھائے تو یہ اس کے لئے صدقہ ہے (یعنی درخت لگانے والے مسلمان کو صدقہ کرنے کا اجر و ثواب ہے)۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 2645) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ درخت لگانے، اور دیگر روایات میں کھیتی کرنے کا بھی بڑا اجر و ثواب ہے، جو مسلمان درخت لگائے یاکھیتی باڑی کرے اور اس سے جو بھی کوئی کھائے گا اس کے لئے صدقہ ہے۔ امام مسلم رحمہ اللہ کی ایک روایت میں ہے کہ یہ صدقہ جاریہ ہے اور قیامت تک اس کو اس کا ثواب ملتا رہے گا، جب تک کہ وہ درخت موجود رہے اور پھل دیتا رہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2652]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1552]، [أحمد 362/6]، [أبويعلی 2213]، [ابن حبان 3368]، [الحميدي 1311]