سنن دارمي
من كتاب البيوع
خرید و فروخت کے ابواب
65. باب مَنْ أَحْيَا أَرْضاً مَيْتَةً فَهِيَ لَهُ:
جو خالی زمین کو آباد کرے وہ اسی کی ہے
حدیث نمبر: 2643
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ رَافِعٍ: أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَهُ: أَنَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَيْتَةً فَلَهُ فِيهَا أَجْرٌ وَمَا أَكَلَتِ الْعَافِيَةُ مِنْهَا، فَلَهُ فِيهَا صَدَقَةٌ". قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: الْعَافِيَةُ: الطَّيْرُ وَغَيْرُ ذَلِكَ.
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص خالی غیر آباد زمین کو آباد کرے اس کے لئے اس میں اجر و ثواب ہے، اور اس کی زراعت سے جو کوئی بھی کچھ کھائے تو یہ اس کے لئے صدقہ ہے۔“ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: عافیہ سے مراد پرندے وغیرہ ہیں۔
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن والحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2649]»
اس روایت کی سند حسن اور حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 1379]، [أبويعلی 1805]، [ابن حبان 5202]، [موارد الظمآن 1136]
وضاحت: (تشریح حدیث 2642)
«عافية عافي» کا مؤنث ہے، اور اس سے مراد لغت میں ہر وہ ذو نفس ہے جو رزق کی تلاش میں ہو، خواہ وہ انسان ہو، چوپایہ، یا پرنده، مطلب یہ ہوا کہ غیر آباد زمین پر کھیتی کرنے سے اجر بھی ہے، اور مذکورہ اجناس میں سے کوئی تھوڑا بہت کھا لے تو یہ اس آباد کرنے والے کی طرف سے صدقہ ہے۔
ترمذی میں ہے: جو ایسی زمین کو آباد کرے وہ اسی کی ہے۔
اس سے یہ معلوم ہوا کہ بنجر زمین آباد کرنے کے لئے حاکم کی اجازت کی ضرورت نہیں، اور بعض علماء نے کہا کہ بلا اجازت کسی زمین پر قبضہ کرنا درست نہیں۔
اور «أَرْضًا مَيْتَةً» سے مراد وہ زمین ہے جس میں نہ زراعت ہو، نا مکان ہو، اور نہ وہ کسی کی ملک ہو۔
اور آباد کرنے سے مراد مکان بنانا، زراعت کرنا یا درخت و باغ لگانا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام میں بے کار زمین پڑے رہنے کا تصور نہیں ہے، اس کو آباد ہونا چاہیے۔
کسی ملک کے استحکام کا بھی یہی تقاضا ہے، اور اس سے انفرادی ملکیت کا بھی ثبوت ملتا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن والحديث صحيح