(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد، حدثنا حماد بن سلمة، عن سماك بن حرب، عن سعيد بن جبير، عن ابن عمر، قال: كنت ابيع الإبل بالبقيع فابيع بالدنانير، وآخذ الدراهم، وابيع بالدراهم وآخذ الدنانير وربما قال: اقبض فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، رويدك اسالك: إني ابيع الإبل بالبقيع فابيع بالدنانير، وآخذ الدراهم، وابيع بالدراهم وآخذ الدنانير. قال: "لا باس ان تاخذ بسعر يومك، ما لم تفترقا، وبينكما شيء".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كُنْتُ أَبِيعُ الْإِبِلَ بِالْبَقِيعِ فَأَبِيعُ بِالدَّنَانِيرِ، وَآخُذُ الدَّرَاهِمَ، وَأَبِيعُ بِالدَّرَاهِمِ وَآخُذُ الدَّنَانِيرَ وَرُبَّمَا قَالَ: أَقْبِضُ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رُوَيْدَكَ أَسْأَلُكَ: إِنِّي أَبِيعُ الْإِبِلَ بِالْبَقِيعِ فَأَبِيعُ بِالدَّنَانِيرِ، وَآخُذُ الدَّرَاهِمَ، وَأَبِيعُ بِالدَّرَاهِمِ وَآخُذُ الدَّنَانِيرَ. قَالَ: "لَا بَأْسَ أَنْ تَأْخُذَ بِسِعْرِ يَوْمِكَ، مَا لَمْ تَفْتَرِقَا، وَبَيْنَكُمَا شَيْءٌ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میں بقیع کے پاس اونٹ بیچا کرتا تھا، دنانیر کے حساب سے بیچا اور پھر دراہم لے لیتا اور دراہم کے حساب سے بیچتا تو دنانیر لے لیتا (بعض روایات میں اخذ کی جگہ اقبض ہے، معنی دونوں کا ایک ہی ہے)، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ذرا ٹھہریئے مجھے آپ سے سوال پوچھنا ہے۔ میں دنانیر کے عوض بقیع کے پاس اونٹ بیچتا ہوں اور درہم لے لیتا ہوں اور کبھی دراہم کے حساب سے اونٹ بیچتا ہوں اور دنانیر لے لیتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی قباحت نہیں اگر تم اسی دن کے نرخ (قیمت) سے لے لو جب تک کہ جدا نہ ہو ایک دوسرے پر باقی چھوڑ کر (یعنی حساب بے باق کر کے جدا ہو)۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2623]» اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3354]، [ترمذي 1242]، [نسائي 4596]، [ابن ماجه 2262]، [ابن حبان 4920]، [الموارد 1128]
وضاحت: (تشریح حدیث 2616) واضح رہے کہ دینار سونے کا اور درہم چاندی کا ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا حدیث میں سونے کے بدلے چاندی لینا یا چاندی کے بدلے سونا لینا جائز قرار دیا گیا ہے جبکہ ایک ہی مجلس میں اسی دن کی قیمت کے حساب سے لیا جائے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سونے کی قیمت کے برابر دراہم لینا یا دراہم کی قیمت کے برابر دنانیر لینے میں کوئی حرج نہیں، جبکہ جدا ہونے سے پہلے ادا ئیگی ہوجائے۔ خلاصہ یہ کہ سونے چاندی کا ایک دوسرے کی جگہ وصول کرنا اس صورت میں جائز ہے کہ دست بدست ہو، اور پوری ادائیگی موقع پر ہو، ادھار نہ ہو۔
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، حدثنا هشام، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: "توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وإن درعه لمرهونة عند رجل من اليهود بثلاثين صاعا من شعير".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنَّ دِرْعَهُ لَمَرْهُونَةٌ عِنْدَ رَجُلٍ مِنَ الْيَهُودِ بِثَلَاثِينَ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب وفات پائی (اس وقت) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زرہ ایک یہودی کے پاس 30 صاع جو کے بدلے گروی رکھی ہوئی تھی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2624]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 1214]، [نسائي 4665]، [ابن ماجه 3239]، [أحمد 236/1]، [أبويعلی 2695]
وضاحت: (تشریح حدیث 2617) رہن کہتے ہیں گروی رکھنے کو، یعنی کوئی چیز کسی کے پاس رکھ کر اس سے قرض لینا اور قرض ادا کرنے کے بعد اپنی چیز واپس لے لینا، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جَو خریدی اور اس کے عوض اپنی زرہ رہن رکھ دی، جیسا کہ [بخاري 2200] اور [مسلم 1603] میں ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گروی رکھنا جائز ہے، اور ادھار غلہ لینا بھی جائز ہوا، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اس قسم کے دنیاوی معاملات غیر مسلموں سے بھی کئے جا سکتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے غلہ ادھار لیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ان کے یہاں ہر قسم کا کاروبار ہوتا ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن ابن ابي نجيح، عن عبد الله بن كثير، عن ابي المنهال، عن ابن عباس، قال: قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة وهم يسلفون في الثمار في سنتين وثلاث، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "اسلفوا في الثمار: في كيل معلوم ووزن معلوم". وقد كان سفيان يذكره زمانا إلى اجل معلوم، ثم شككه عباد بن كثير.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي الْمِنْهَالِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَهُمْ يُسْلِفُونَ فِي الثِّمَارِ فِي سَنَتَيْنِ وَثَلَاثٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أسْلِّفُوا فِي الثِّمَارِ: فِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ". وَقَدْ كَانَ سُفْيَانُ يَذْكُرُهُ زَمَانًا إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ، ثُمَّ شَكَّكَهُ عَبَّادُ بْنُ كَثِيرٍ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے اس وقت اہلِ مدینہ پھلوں میں دو اور تین سال کی قیمت پیشگی ادا کرتے تھے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھلوں کی پیشگی قیمت دیتے وقت ماپ تول اور وزن معلوم و متعين کر لو۔“ سفیان رحمہ اللہ ایک زمانے تک «إلی أجل معلوم»(یعنی مدت بھی متعین ہو) زمانے کی بھی قید کا ذکر کیا کرتے تھے، پھر عبداللہ بن کثیر نے ان کو شک میں ڈال دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح على شرط البخاري وأبو المنهال هو: عبد الرحمن بن مطعم والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2625]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2240]، [مسلم 1604]، [أبوداؤد 3463]، [ترمذي 1311]، [نسائي 4630]، [ابن ماجه 2280]، [أبويعلی 2407]، [ابن حبان 4925]، [الحميدي 520]
وضاحت: (تشریح حدیث 2618) بیع سلف اور سلم کا مادہ اور معنی ایک ہی ہے۔ سلف اس بیع کو کہتے ہیں کہ ایک شخص دوسرے شخص کو نقد روپیہ دے اور کہے کہ اتنی مدت کے بعد مجھ کو تم ان روپیوں کے عوض میں اتنا غلہ یا چاول فلاں قسم والے دینا، عام بول چال میں اسے بدہنی بولتے ہیں، اور یہ بیع بالاجماع جائز ہے، بعض لوگوں نے کہا: لفظ سلف اہلِ عراق کی لغت ہے اور سلم اہلِ حجاز کی، معنی دونوں کے ایک ہی ہیں، اور کیل وزن سے ماپ اور تول مراد ہیں۔ اس حدیث میں سلف کی صورت یہ سامنے آئی جیسے کوئی کہے: سو روپے کا اتنے وزن کا غلہ آج سے ٹھیک ایک یا دو سال بعد تم سے وصول کروں گا، یہ طے کر کے خریدار نے سو روپیہ اسی وقت ادا کر دیا، یہ بیع سلم یا سلف ہے۔ اب مدت پوری ہونے پر وزنِ مقرر کا غلہ اسے خریدار کو ادا کرنا ہوگا، یہ جائز ہے۔ (راز رحمہ اللہ)۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا: اس امر پر اجماع ہے کہ بیع سلم میں جو چیزیں ماپ یا وزن کے قابل ہیں ان کا وزن مقرر ہونا ضروری ہے، اور جو چیزیں محض عدد سے تعلق رکھتی ہیں ان کی تعداد کا مقرر ہونا ضروری ہے۔ حدیث مذکور سے معلوم ہوا کہ مدینہ میں اس قسم کے لین دین کا عام رواج تھا، اور فی الحقیقت کاشتکاروں اور صناعوں کو پیشگی سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے جو اگر نہ ہو تو وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط البخاري وأبو المنهال هو: عبد الرحمن بن مطعم والحديث متفق عليه
(حديث مرفوع) حدثنا سعيد بن الربيع، حدثنا شعبة، عن محارب، قال: سمعت جابرا: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم "وزن لهم دراهم فارجحها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَارِبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرًا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "وَزَنَ لَهُمْ دَرَاهِمَ فَأَرْجَحَهَا".
جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو قرض ادا کیا اور زیادہ دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو جزء من حديث طويل متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2626]» اس روایت کی سند صحیح اور یہ حدیثِ طویل کا ایک جزء ہے جو متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 443، 2097]، [مسلم 715]، [أبوداؤد 3347]، [نسائي 4605]، [أبويعلی 1793]، [ابن حبان 4911]، [الحميدي 1322]۔ نیز ایک مفصل حدیث اس بارے میں (2601) نمبر پر گذر چکی ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2619) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قرض دار اپنی خوشی سے بغیر شرط کے زیادہ دے تو لے لینے میں کوئی قباحت نہیں، اور قرض اچھی طرح ادا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اچھا مال ادا کرے، یا کچھ زائد بھی دیدے، اور قرض خواہ کا شکر بھی ادا کرے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو جزء من حديث طويل متفق عليه
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، عن سفيان، عن سماك بن حرب، عن سويد بن قيس، قال: جلبت انا ومخرمة العبدي بزا من البحرين إلى مكة، فاتانا رسول الله صلى الله عليه وسلم يمشي، فساومنا بسراويل او اشترى منا سراويل وثم وزان يزن بالاجر، فقال للوزان: "زن وارجح". فلما ذهب يمشي، قالوا: هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: جَلَبْتُ أَنَا وَمَخْرَمَةُ الْعَبْدِيُّ بَزًّا مِنَ الْبَحْرَيْنِ إِلَى مَكَّةَ، فَأَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي، فَسَاوَمَنَا بِسَرَاوِيلَ أَوِ اشْتَرَى مِنَّا سَرَاوِيلَ وَثَمَّ وَزَّانٌ يَزِنُ بِالْأَجْرِ، فَقَالَ لِلْوَزَّانِ: "زِنْ وَأَرْجِحْ". فَلَمَّا ذَهَبَ يَمْشِي، قَالُوا: هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سوید بن قیس سے مروی ہے کہ میں اور مخرمہ عبدی بحرین سے مکہ کی طرف کپڑا لائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدل چلتے ہوئے ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم سے پائجاموں کا بھاؤ کیا یا ہم سے پائجامے خریدے، وہیں ایک تولنے والا تھا جو اجرت لے کر تولتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: تولو اور جھکا کر تولو (یعنی کم نہ تولو) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس چلے گئے تو لوگوں نے کہا: یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 2627]» اس روایت کی سند قوی ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3336]، [ترمذي 1305]، [نسائي 4606]، [ابن ماجه 2220]، [ابن حبان 5147]، [الموارد 1444]
وضاحت: (تشریح حدیث 2620) اس حدیث سے پیغمبرِ اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بازار میں جانا، پیدل چلنا، خرید و فروخت کرنا اور اچھی باتیں بتانا ثابت ہوا، نیز یہ کہ پائجامہ کپڑے خریدنا بھی ثابت ہوا، اور یہ کہ تولنے میں کمی نہیں کرنی چاہیے بلکہ زیادہ دینا باعث برکت ہے، کم تولنا باعثِ عذاب ہے۔ « ﴿وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ . الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ . وَإِذَا كَالُوهُمْ أَوْ وَزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ﴾[المطففين: 1-3] » ترجمہ: ”بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی، جو لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں، اور جب انہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم کر دیتے ہیں۔ “ یعنی لینے اور دینے کے ان کے پاس الگ الگ پیمانے ہیں، اور ناپ تول میں ڈنڈی مارتے ہیں، یہ بڑی بری اخلاقی بیماری ہے جس کا نتیجہ دنیا و آخرت میں تباہی ہے۔ ایک حدیث ہے: جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو اس پر قحط سالی، سخت محنت اور حکمرانوں کا ظلم مسلط کر دیا جاتا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرض ادا کرنے میں مال دار کی طرف سے ٹال مٹول کرنا ظلم ہے، اور اگر تم میں سے کسی کا قرض کسی مال دار کے حوالے کیا جائے تو وہ اسے قبول کر لے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده قوي وهو عند مالك في البيوع، [مكتبه الشامله نمبر: 2628]» اس روایت کی سند قوی اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2287]، [مسلم 1564]، [ترمذي 1308]، [نسائي 4702]، [ابن ماجه 2403]، [أبويعلی 6283]، [ابن حبان 5053]، [الحميدي 1062]
وضاحت: (تشریح حدیث 2621) مطلب یہ ہے کہ کسی مال دار نے کسی کا قرض اپنے ذمے لے لیا تو اس کو ادا کرنے میں ٹال مٹول سے کام لینا ظلم ہوگا، اس کو چاہیے کہ فوراً ادا کردے، نیز جس کا قرض اس کے حوالے کیا گیا ہے اسے بھی چاہیے کہ اس کو قبول کر کے اس مالدار سے اپنا قرض وصول کر لے، اور اسے حوالہ کرنے سے انکار نہ کرے، ورنہ اس میں وہ خود نقصان اٹھائے گا۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي وهو عند مالك في البيوع
(حديث مرفوع) حدثنا عثمان بن عمر، اخبرنا يونس، عن الزهري، عن عبد الله بن كعب، عن ابيه انه تقاضى من ابن ابي حدرد دينا كان له عليه في المسجد، فارتفعت اصواتهما حتى سمعها النبي صلى الله عليه وسلم وهو في بيته، فخرج إليهما، فنادى:"يا كعب". قال: لبيك يا رسول الله. فقال: "ضع من دينك فاوما إليه اي الشطر". قال: قد فعلت. قال:"قم فاقضه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ تَقَاضَى مِنَ ابْنِ أَبِي حَدْرَدٍ دَيْنًا كَانَ لَهُ عَلَيْهِ فِي الْمَسْجِدِ، فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا حَتَّى سَمِعَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي بَيْتِهِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمَا، فَنَادَى:"يَا كَعْبُ". قَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ. فَقَالَ: "ضَعْ مِنْ دَيْنِكَ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ أَيْ الشَّطْرَ". قَالَ: قَدْ فَعَلْتُ. قَالَ:"قُمْ فَاقْضِهِ".
عبداللہ بن کعب نے اپنے والد سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ انہوں نے عبداللہ بن ابی حدرد سے مسجدِ نبوی میں اپنے قرض کا تقاضہ کیا، دونوں کی آوازیں کچھ اونچی ہوگئیں یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو اپنے حجرے میں تھے انہوں نے بھی سن لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس باہرتشریف لائے اور آواز دی: ”اے کعب!“ عرض کیا: حاضر ہوں یا رسول اللہ، اشارہ فرمایا کہ ”آدھا قرض معاف کر دو۔“ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں نے آدھا قرض معاف کر دیا۔ فرمایا: ”ابن ابی حدرد! اٹھو اور آدھا قرض ادا کر دو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2629]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 457]، [مسلم 1558/21]، [أبوداؤد 3595]، [نسائي 5423]، [ابن ماجه 2429]، [أحمد 390/6]، [طبراني 67/19، 127]
وضاحت: (تشریح حدیث 2622) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر قرض دار تنگی اور محتاجی میں ہے تو اس کے ساتھ نرمی برتی جائے، اور جتنی رعایت دے سکتے ہوں دے دیں، یہ رضائے الٰہی کا باعث ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا احمد بن عبد الله، حدثنا زائدة، عن عبد الملك بن عمير، عن ربعي، عن ابي اليسر، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: "من انظر معسرا، او وضع عنه، اظله الله في ظله يوم لا ظل إلا ظله". قال: فبزق في صحيفته، فقال: اذهب فهي لك لغريمه وذكر انه كان معسرا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ رِبْعِيٍّ، عَنْ أَبِي الْيَسَرِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: "مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا، أَوْ وَضَعَ عَنْهُ، أَظَلَّهُ اللَّهُ فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ". قَالَ: فَبَزَقَ فِي صَحِيفَتِهِ، فَقَالَ: اذْهَبْ فَهِيَ لَكَ لِغَرِيمِهِ وَذَكَرَ أَنَّهُ كَانَ مُعْسِرًا.
سیدنا ابواليسر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جو کوئی محتاج (قرض دار) کو مہلت (ڈھیل) دے گا“ یا یہ کہا کہ ”جو کوئی محتاج سے قرض معاف کر دے گا اس کو الله تعالیٰ اس دن میں سایہ عطا کرے گا جس دن اس کے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔“ راوی نے کہا: سیدنا ابوالیسر رضی اللہ عنہ نے وہ عہد نامہ منگایا جس میں قرض کی بابت لکھا تھا اور اس کو مٹا دیا اور اپنے قرض دار سے کہا کہ جاؤ میں نے معاف کیا اور بتایا کہ وہ بھی کبھی محتاج و تنگ دست تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2630]» اس حدیث کی سند صحیح اور حدیث بھی صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2006]، [ابن ماجه 2419 مختصرًا]، [ابن حبان 5044]، [ابن أبى شيبه 2211]، [عبد بن حميد 378]، [شرح السنة 2142]، [مجمع الزوائد 6753]
وضاحت: (تشریح حدیث 2623) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غریب و محتاج قرض دار سے رعایت برتنے یا قرض معاف کر دینے کی کتنی فضیلت ہے۔ ایسا شخص قیامت کے دن عرش کے سایہ تلے ہوگا۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے، اور کتاب الزہد میں قصہ سیدنا ابوالیسر رضی اللہ عنہ کے عنوان سے یہ حدیث مفصلاً موجود ہے، مختصراً یہ کہ سیدنا ابوالیسر رضی اللہ عنہ کا ایک شخص کے ذمے کچھ قرض تھا، وہ اپنا حق لینے کے لئے آئے تو وہ شخص چھپ گیا، آپ رضی اللہ عنہ نے اسے بلایا اور صحیفہ منگا کر اپنے قرض کے دستاویز کو مٹا دیا، اور پھر یہ حدیث بیان کی کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ...... إلخ۔
سیدنا ابوقتاده رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو اپنے قرض دار کو مہلت دے یا اس کا قرض مٹا کر معاف کر دے وہ قیامت کے دن عرش کے سایہ تلے ہوگا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأبو جعفر هو: عمير بن يزيد بن عمير، [مكتبه الشامله نمبر: 2631]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 300/5] و [ابن أبى شيبه 2216، 3059]
وضاحت: (تشریح حدیث 2624) اس حدیث سے بھی قرض دار کے ساتھ نرمی برتنے اور قرض معاف کرنے کی فضیلت ثابت ہوئی۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وأبو جعفر هو: عمير بن يزيد بن عمير
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص جو اپنا مال کسی شخص کے پاس پائے جب کہ وہ مفلس قرار دیا جا چکا ہو تو صاحبِ مال ہی اس کا دوسروں کے مقابلے میں زیادہ مستحق ہوگا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2632]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2402]، [مسلم 1559]، [أبوداؤد 3519]، [ترمذي 1262]، [نسائي 4690]، [ابن ماجه 2358]، [أبويعلی 6470]، [ابن حبان 5036]، [الحميدي 1065]
وضاحت: (تشریح حدیث 2625) جب کوئی آدمی کسی سے کوئی چیز خریدے، یا قرض لے اور ادائیگی سے پہلے ہی اس کا دیوالیہ ہو جائے اور وہ محتاج ہو جائے، اور وہ چیز بعینہ ہو بہو اس کے پاس موجود ہو تو اصل مالک ہی اس کا زیادہ حقدار ہوگا، اور دوسرے قرض خواہوں کا اس میں کوئی حق نہ ہوگا، اور اگر وہ چیز بدل گئی ہو مثلاً سونا خریدا تھا اس کا زیور بنا ڈالا، تو اب سب قرض خواہوں کا حق اس میں برابر ہوگا۔ امام بخاری و امام شافعی رحمہما اللہ کا یہی مسلک ہے لیکن احناف نے اس کے خلاف کہا ہے جو صحیح نہیں۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه