سنن دارمي
من كتاب البيوع
خرید و فروخت کے ابواب
48. باب فِي: «مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ»:
مال دار آدمی کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے
حدیث نمبر: 2622
حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ، وَإِذَا أُتْبِعَ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِيءٍ فَلْيَتْبَعْ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرض ادا کرنے میں مال دار کی طرف سے ٹال مٹول کرنا ظلم ہے، اور اگر تم میں سے کسی کا قرض کسی مال دار کے حوالے کیا جائے تو وہ اسے قبول کر لے۔“
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده قوي وهو عند مالك في البيوع، [مكتبه الشامله نمبر: 2628]»
اس روایت کی سند قوی اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2287]، [مسلم 1564]، [ترمذي 1308]، [نسائي 4702]، [ابن ماجه 2403]، [أبويعلی 6283]، [ابن حبان 5053]، [الحميدي 1062]
وضاحت: (تشریح حدیث 2621)
مطلب یہ ہے کہ کسی مال دار نے کسی کا قرض اپنے ذمے لے لیا تو اس کو ادا کرنے میں ٹال مٹول سے کام لینا ظلم ہوگا، اس کو چاہیے کہ فوراً ادا کردے، نیز جس کا قرض اس کے حوالے کیا گیا ہے اسے بھی چاہیے کہ اس کو قبول کر کے اس مالدار سے اپنا قرض وصول کر لے، اور اسے حوالہ کرنے سے انکار نہ کرے، ورنہ اس میں وہ خود نقصان اٹھائے گا۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي وهو عند مالك في البيوع