(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن الصلت، حدثنا ابو عقيل: يحيى بن المتوكل، قال: اخبرني القاسم بن عبيد الله، عن سالم، عن ابن عمر: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم مر بطعام بسوق المدينة فاعجبه حسنه، فادخل رسول الله صلى الله عليه وسلم يده في جوفه، فاخرج شيئا ليس كالظاهر فافف بصاحب الطعام، ثم قال: "لا غش بين المسلمين، من غشنا فليس منا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ: يَحْيَى بْنُ الْمُتَوَكِّلِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الْقَاسِمُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِطَعَامٍ بِسُوقِ الْمَدِينَةِ فَأَعْجَبَهُ حُسْنُهُ، فَأَدْخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ فِي جَوْفِهِ، فَأَخْرَجَ شَيْئًا لَيْسَ كَالظَّاهِرِ فَأَفَّفَ بِصَاحِبِ الطَّعَامِ، ثُمَّ قَالَ: "لَا غِشَّ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ، مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر مدینہ کے بازار میں غلے (طعام) کے ایک ڈھیر پر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ اچھا لگا سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اپنا ہاتھ داخل کر دیا تو اس کے اندر سے ایسی چیز نکلی جو ظاہر میں (ڈھیر کے اوپر) نہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اف اف کیا پھر اس غلہ فروش سے فرمایا: ”مسلمانوں کے درمیان دھوکہ بازی نہیں ہے، جس نے ہمیں دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف يحيى بن المتوكل، [مكتبه الشامله نمبر: 2583]» اس روایت کی سند یحییٰ بن متوکل کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 102]، [أبوداؤد 3452]، [ترمذي 1315]، [ابن ماجه 2224]، [أبويعلی 6520]، [ابن حبان 4905]، [الحميدي 1063]، [مجمع الزوائد 6423]
وضاحت: (تشریح حدیث 2576) «لَيْسَ مِنَّا» سے مراد یہ ہے کہ وہ مسلمان جو دھوکہ بازی کرے، مسلمانوں کو فریب دے، وہ ہمارے طریقے یا راستے پر نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے کہا: وہ مسلمان نہیں ہے، یعنی دھوکہ دیا تو اسلام کے دائرے سے خارج ہوگیا۔ یہ بہت بڑی وعید ہے، اس سے دغا بازی، دھوکہ اور فریب کی مذمت ثابت ہوئی، اور اس سے بچنے کی ترغیب و ترہیب بھی، لہٰذا بیع و شراء میں دھوکہ دہی سے بچنا چاہیے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف يحيى بن المتوكل
(حديث مرفوع) حدثنا سعيد بن الربيع، حدثنا شعبة، عن سليمان، قال: سمعت ابا وائل، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال: "لكل غادر لواء يوم القيامة يقال: هذه غدرة فلان".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُقَالُ: هَذِهِ غَدْرَةُ فُلَانٍ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن ہر دغا باز کے لئے ایک جھنڈا ہوگا۔ کہا جائے گا: یہ فلاں کی دغا بازی ہے۔ (تاکہ لوگ اس کی دغا بازی کو جان لیں)۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2584]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3186]، [مسلم 1736]، [أحمد 411/1]، [أبويعلی 1101]
وضاحت: (تشریح حدیث 2577) دغابازی، غداری اور دھوکہ دہی یہ سب بری عادتیں ہیں، ان سے خرید و فروخت اور ہر معاملے میں بچنا چاہیے۔ اس طرح کے لوگ قیامت کے دن اپنے اعمال سے صاف پہچانے جائیں گے، دغاباز کے مقعد پر یہ جھنڈا لگایا جائے گا جو انتہائی ذلت و رسوائی کا سبب ہوگا۔ «(أعاذنا اللّٰه منه)» ۔
سیدنا معمر بن عبداللہ بن نافع بن نضلہ عدوی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دومرتبہ فرمایا: ”خطاء کار کے سوا ذخیرہ اندوزی کوئی نہیں کرتا۔“
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أن محمد بن إسحاق قد عنعن وهو مدلس. أما الحديث فهو صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2585]» اس روایت کے رواة ثقات ہیں، صرف محمد بن اسحاق مدلس ہیں اور ”عن“ سے روایت کیا ہے، لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1605]، [ابن ماجه 2154]، [ابن حبان 4936]، [عبدالرزاق 14889]، [ابن قانع فى معجم الصحابة رقم 1065]
وضاحت: (تشریح حدیث 2578) «لَا يَحْتَكَر:» احتکار سے ماخوذ ہے، یعنی غلے کو روک لینا، فروخت نہ کرنا، اس انتظار میں کہ بھاؤ چڑھے تب بیچیں گے اور عوام کو اس کی شدید ضرورت ہو، فروخت کرنے والا اس سے مستغنیٰ ہو، اور «خَاطِءٌ» سے مراد نافرمان، گناہ گار، خطار کار ہے۔ اس حدیث میں ذخیرہ اندوزی کی ممانعت ہے، وہ اس طرح سے کہ ایک آدمی کوئی چیز خرید کر لے کہ جب نرخ بڑھیں گے تو اس وقت اسے فروخت کروں گا، حالانکہ عوام میں اس کی بہت مانگ ہو۔ حدیث کے الفاظ عام ہیں مگر جمہور نے اس سے مراد صرف انسانوں اور حیوانوں کے خورد و نوش کی چیزیں لی ہیں، دوسری اشیاء اس نہی سے مستثنیٰ ہیں۔ احتکار ایسی شکل میں بلاشبہ حرام ہے کہ روز مرہ کی استعمال کی قلت پیدا ہو جائے، اور جن کے پاس یہ چیزیں ہوں وہ انہیں چھپا کر رکھ لیں، احتکار تجارت پیشہ حضرات کے لئے حرام ہے۔ زمیندار اپنی پیداوار کو روک لے تو اس کے لئے گنجائش ہے مگر جب غلے کی قلت شدت اختیار کر جائے تو پھر اس کے لئے بھی غلہ کو روک لینا جائز نہ ہوگا۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أن محمد بن إسحاق قد عنعن وهو مدلس. أما الحديث فهو صحيح
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”باہر سے مال لانے والا روزی دیا جائے گا اور ذخیرہ کر کے رکھنے والے پر لعنت کی جائے گی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2586]» اس حدیث کی سند علی بن زید بن جدعان کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 2153]، [عبد بن حميد 33]، [البيهقي 30/6]، [الحاكم 11/2]
وضاحت: (تشریح حدیث 2579) ذخیرہ اندوزی کرنے کی ممانعت اور بھی دیگر کئی احادیثِ صحیحہ میں آئی ہے، اور مذکورہ بالا حدیث میں احتکار کرنے والے پرلعنت ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: جو احتکار حرام ہے وہ غلہ و اناج کا احتکار ہے ان شروط کے ساتھ جو اوپر ذکر کی گئی ہیں، یعنی غلہ کی قلت ہو یا ملتا ہی نہ ہو اور لوگوں کو اس کی ضرورت ہو، اور پھر بند کر کے رکھے کہ اور گرانی ہو جائے گی تب بیچیں گے تو یہ حرام ہے، کیونکہ اپنے ذرا سے فائدے کے لئے لوگوں کو تکلیف و ایذا دیتا ہے، اور لوگوں کو تکلیف دینا بہت بڑا گناہ ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا عمرو بن عون، اخبرنا حماد بن سلمة، عن حميد، وثابت , وقتادة , عن انس، قال: غلا السعر على عهد النبي صلى الله عليه وسلم، فقال الناس: يا رسول الله غلا السعر فسعر لنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن الله هو الخالق القابض الباسط الرازق، المسعر، وإني ارجو ان القى ربي وليس احد منكم يطلبني بمظلمة ظلمتها إياه بدم ولا مال".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، وَثَابِتٍ , وَقَتَادَةَ , عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: غَلَا السِّعْرُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ غَلَا السِّعْرُ فَسَعِّرْ لَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْخَالِقُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّازِقُ، الْمُسَعِّرُ، وَإِنِّي أَرْجُو أَنْ أَلْقَى رَبِّي وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْكُمْ يَطْلُبُنِي بِمَظْلَمَةٍ ظَلَمْتُهَا إِيَّاهُ بِدَمٍ وَلَا مَالٍ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قیمتیں بہت بڑھ گئیں تو لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! بھاؤ بڑھ گئے ہیں، آپ ہمارے لئے قیمتیں (نرخ) متعین کر دیجئے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الله تعالیٰ پیدا کرنے والا ہے، تنگی دینے والا، اور کشادگی عطا کرنے والا (یعنی کبھی روک لیتا ہے کبھی چھوڑ دیتا ہے) اور نرخ مقرر کرنے والا ہے اور میں یہ امید کرتا ہوں کہ میں جب اللہ تعالیٰ سے ملاقات کروں تو کوئی مجھ سے جان یا مال میں ظلم کا مطالبہ کرنے والا نہ ہو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2587]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3451]، [ترمذي 1314]، [ابن ماجه 2200]، [أبويعلی 2774]، [ابن حبان 4935]
وضاحت: (تشریح حدیث 2580) یعنی جانی و مالی کسی طرح کا بھی اس میں ظلم مجھ سے سرزد نہ ہوا ہو، اس میں نرخ مقرر کرنے کو گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم سے تعبیر کیا اور ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ دراصل زمانۂ جاہلیت میں ایسا ہوتا تھا کہ جب غلہ کی گرانی ہو جاتی تو ناعاقبت اندیش حکام بیوپاریوں کو بلاکر مارتے پیٹتے، سزائیں دیتے اور مجبور کرتے تھے کہ اس بھاؤ پر غلہ بیچو، نتیجہ میں وہ غلہ منگانا ہی چھوڑ دیتے جس سے قلت اور قحط کی مصیبت آ پڑتی، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نرخ اور بھاؤ مقرر کرنے سے سختی سے انکار کر دیا۔ غلے کی قیمتوں پر کنٹرول ریٹ لاگو کرنا اگر بیوپاری کا حق ریٹ نہیں بڑھاتے ہیں تو یہ ان کے ساتھ نا انصافی اور ظلم ہے۔ ہدایہ میں ہے: بادشاہِ وقت کو نرخ مقرر نہ کرنا چاہے، البتہ اگر غلہ کے بیوپاری عمداً بلاوجہ نرخ کو بہت گراں کر دیں تو قاضی اہل الرائے کے مشورے سے نرخ مقرر کر سکتا ہے۔
(حديث قدسي) حدثنا حدثنا احمد بن يونس، حدثنا زهير، حدثنا منصور بن المعتمر، عن ربعي بن حراش: ان حذيفة حدثهم، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "تلقت الملائكة روح رجل ممن قبلكم، فقالوا: اعملت من الخير شيئا؟، فقال: لا، قالوا: تذكر. قال: كنت اداين الناس فآمر فتياني ان ينظروا المعسر، ويتجاوزوا عن الموسر". قال:"قال الله: تجاوزوا عنه".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ: أَنَّ حُذَيْفَةَ حَدَّثَهُمْ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "تَلَقَّتِ الْمَلَائِكَةُ رُوحَ رَجُلٍ مِمَّنْ قَبْلَكُمْ، فَقَالُوا: أَعَمِلْتَ مِنَ الْخَيْرِ شَيْئًا؟، فَقَالَ: لَا، قَالُوا: تَذَكَّرْ. قَالَ: كُنْتُ أُدَايِنُ النَّاسَ فَآمُرُ فِتْيَانِي أَنْ يُنْظِرُوا الْمُعْسِرَ، وَيَتَجَاوَزُوا عَنِ الْمُوسِرِ". قَالَ:"قَالَ اللَّهُ: تَجَاوَزُوا عَنْهُ".
سیدنا حذیفہ ابن الیمان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سے پہلے گذشتہ امتوں کے کسی شخص کی روح کے پاس (موت کے وقت) فرشتے آئے اور پوچھا کہ تو نے کچھ اچھے کام بھی کئے؟ روح نے جواب دیا کہ نہیں۔ انہوں نے کہا: یاد کرو۔ اس نے کہا: میں لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا اور اپنے نوکروں کو کہدیتا تھا کہ وہ تنگ حال کو مہلت دیا کریں اور مال دار سے نرمی کریں۔“ فرمایا: ”الله تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم فرمایا کہ: اس سے نرمی برتیں، سختی نہ کریں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2588]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2077]، [أبويعلی 2774]، [ابن حبان 4935]
وضاحت: (تشریح حدیث 2581) موسر کھاتے پیتے اور مالدار شخص کو کہتے ہیں۔ اس حدیث سے معاملات میں درگذر اور نرمی برتنے کی فضیلت معلوم ہوئی کہ تجارت میں صرف اس نرمی اور درگذر کی نیکی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس سے تجاوز فرمایا اور نرمی برتی۔
سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خریدنے اور بیچنے والوں کو اس وقت تک (بیع ختم کردینے کا) اختیار ہے جب کہ دونوں جدا نہ ہوں، پھر اگر دونوں نے سچائی سے کام لیا اور ہر بات صاف صاف بتا دی تو ان کی تجارت (بیع شراء) میں برکت ہوگی، لیکن اگر دونوں نے جھوٹ بولی اور کوئی بات چھپا رکھی تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ختم کردی جائے گی۔“
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 2589]» اس روایت کی سند سعید بن عامر کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن دوسری صحیح اسانید سے بھی مروی ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2079]، [مسلم 1532]، [أبوداؤد 3459]، [ابن حبان 4904]، [معرفة السنن و الآثار للبيهقي 10965]
وضاحت: (تشریح حدیث 2582) اس حدیث میں تجارت کے بہترین اصول بیان کئے گئے ہیں، اور بتایا گیا ہے کہ سوداگروں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے مال کا حسن و قبح سب ظاہر کر دیں تاکہ خریدنے والے کو بعد میں شکایت کا موقع نہ ملے، اور بائع و مشتری نہ جھوٹ بولیں نہ جھوٹی قسم کھائیں کیونکہ اس سے ان کی برکت جاتی رہے گی۔ اس سے سچائی کی فضیلت اور جھوٹ کی برائی بھی معلوم ہوئی۔ اس حدیث میں خیار یا اختیار کی بات ذکر کی گئی ہے اور اس کی دو صورتیں یہاں ظاہر ہوتی ہیں: ایک تو خیارِ مجلس یعنی جب تک جدا نہ ہوں بائع اور مشتری دونوں کو خریدنے یا بیچنے کا، یا اس بیع کو توڑ دینے کا حق حاصل ہوگا۔ دوسرا خیارِ شرط ہے اور وہ یہ کہ دونوں یہ شرط کر لیں کہ اتنی مدت تک سودے کا باقی رکھنے یا واپس کرنے کا اختیار رہے گا، اگر خریدار اس کو واپس کرنا چاہے تو فروخت کرنے والے کو بغیر کسی حیلہ و حجت کے واپس لینا ہوگا۔ اس کے علاوہ بھی خیار کی اور کئی صورتیں ہیں جو بائع اور مشتری کے درمیان طے ہو جائیں، مثلاً یہ کہ سامان میں کوئی عیب ہوا تو وا پس کرنا ہوگا، یا یہ کہ جو چیز یا جانور پسند ہوگا لے لوں گا باقی واپس کر دوں گا، تو ان صورتوں میں ان شروط کو پورا کرنا ہوگا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف سعيد بن عامر لم يذكر بين من سمعوا سعيد بن أبي عروبة قديما ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2590]» تخریج اور شرح اوپر گذر چکی ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف سعيد بن عامر لم يذكر بين من سمعوا سعيد بن أبي عروبة قديما ولكن الحديث متفق عليه
(حديث مرفوع) اخبرنا عثمان بن محمد، حدثنا هشيم، حدثنا ابن ابي ليلى، عن القاسم بن عبد الرحمن، عن ابيه، عن عبد الله، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: "البيعان إذا اختلفا والمبيع قائم بعينه، وليس بينهما بينة، فالقول ما قال البائع، او يترادان البيع".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: "الْبَيِّعَانِ إِذَا اخْتَلَفَا وَالْمَبيعُ قَائِمٌ بِعَيْنِهِ، وَلَيْسَ بَيْنَهُمَا بَيِّنَةٌ، فَالْقَوْلُ مَا قَالَ الْبَائِعُ، أَوْ يَتَرَادَّانِ الْبَيْعَ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جب بائع اور مشتری (خریدنے اور فروخت کرنے والے) میں اختلاف ہو جائے اور مبیع (یعنی سامان) بعینہ موجود ہو اور دونوں کے درمیان کوئی دلیل (یا گواہ) نہ ہو تو (صاحبِ مال) بائع کا قول معتبر مانا جائے گا، یا پھر دونوں اس (سودے) کو چھوڑ دیں گے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2591]» اس روایت کی سند ضعیف لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3511]، [نسائي 4662]، [أبويعلی 4984]
وضاحت: (تشریح احادیث 2583 سے 2585) قیمت یا سامان کی نوعیت میں بائع اور مشتری کے درمیان جھگڑا ہو جائے اور دونوں میں سے کسی کے پاس واضح دلیل یا گواہ نہ ہو تو بائع کی بات مانی جائے گی، یا پھر یہ سودا دونوں منسوخ کر دیں گے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو آدمی الله تعالیٰ پر ایمان اور روزِ قیامت پر یقین رکھتا ہے اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے سودے (بیع) پر سودا (بیع) کرے یہاں تک کہ وہ (دوسرا بھائی) اس سودے کو ترک کر دے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح فقد صرح ابن إسحاق بالتحديث عند الموصلي، [مكتبه الشامله نمبر: 2592]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1414]، [أبويعلی 1762، وغيرهما]
وضاحت: (تشریح حدیث 2585) بیع پر بیع نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص مشتری (خریدنے والے) سے کہے: تو نے یہ چیز جو خریدی ہے اس کو واپس کر دے اس سے بہتر میں تجھ کو اسی قیمت پر دے دوں گا، اور یہ مدتِ خیار کے اندر ہو تو ایسا کرنا جائز نہیں ہے، ہاں اگر کوئی خریدنے والا از خود اس سامان اور سودے کو چھوڑ دے تو پھر اسے خریدنے میں کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح شراء پر شراء بھی جائز نہیں ہے، وہ بایں صورت کہ فروخت کرنے والے (بائع) سے مدتِ خیار کے دوران یوں کہے کہ تو یہ بیع فسخ کر دے میں تجھ سے یہی چیز اس سے زیادہ قیمت پر خرید لوں گا، یہ بھی جائز نہیں۔ امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا: ایسی بیع مسلمانوں کے درمیان جائز نہیں، لیکن جمہور علماء نے تمام انسانوں کے ساتھ عام رکھا ہے، کیونکہ یہ چیز اخلاق سے بعید ہے کہ کوئی شخص اپنا سامان بیچ رہا ہے اور بیچ میں مداخلت کر دیں اور اس کا فائدہ نہ ہونے دیں۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح فقد صرح ابن إسحاق بالتحديث عند الموصلي