Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن دارمي
من كتاب البيوع
خرید و فروخت کے ابواب
17. باب لاَ يَبِيعُ عَلَى بَيْعِ أَخِيهِ:
بھائی کے سودے پر سودا جائز نہیں
حدیث نمبر: 2586
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ: ابْنُ إِسْحَاق , عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِمَاسَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: "لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَبِيعَ عَلَى بَيْعِ أَخِيهِ حَتَّى يَتْرُكَهُ".
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو آدمی الله تعالیٰ پر ایمان اور روزِ قیامت پر یقین رکھتا ہے اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے سودے (بیع) پر سودا (بیع) کرے یہاں تک کہ وہ (دوسرا بھائی) اس سودے کو ترک کر دے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح فقد صرح ابن إسحاق بالتحديث عند الموصلي، [مكتبه الشامله نمبر: 2592]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1414]، [أبويعلی 1762، وغيرهما]

وضاحت: (تشریح حدیث 2585)
بیع پر بیع نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص مشتری (خریدنے والے) سے کہے: تو نے یہ چیز جو خریدی ہے اس کو واپس کر دے اس سے بہتر میں تجھ کو اسی قیمت پر دے دوں گا، اور یہ مدتِ خیار کے اندر ہو تو ایسا کرنا جائز نہیں ہے، ہاں اگر کوئی خریدنے والا از خود اس سامان اور سودے کو چھوڑ دے تو پھر اسے خریدنے میں کوئی حرج نہیں۔
اسی طرح شراء پر شراء بھی جائز نہیں ہے، وہ بایں صورت کہ فروخت کرنے والے (بائع) سے مدتِ خیار کے دوران یوں کہے کہ تو یہ بیع فسخ کر دے میں تجھ سے یہی چیز اس سے زیادہ قیمت پر خرید لوں گا، یہ بھی جائز نہیں۔
امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا: ایسی بیع مسلمانوں کے درمیان جائز نہیں، لیکن جمہور علماء نے تمام انسانوں کے ساتھ عام رکھا ہے، کیونکہ یہ چیز اخلاق سے بعید ہے کہ کوئی شخص اپنا سامان بیچ رہا ہے اور بیچ میں مداخلت کر دیں اور اس کا فائدہ نہ ہونے دیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح فقد صرح ابن إسحاق بالتحديث عند الموصلي