سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سینگی لگانے والے کی کمائی بری ہے (یعنی سینگی لگانے کی اجرت لینا برا ہے) اور فاحشہ عورت کی کمائی خبیث ہے، اور کتے کی قیمت لینا برا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2663]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2282]، [مسلم 1568، وليس فيه ذكر كسب الحجام]، [أبوداؤد 3421]، [ترمذي 1275]، [ابن حبان 5152]، [شرح معاني الآثار 52/4]، [الحاكم 42/2]
وضاحت: (تشریح حدیث 2656) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پچھنا لگوانے کی اجرت خبیث، اور زانیہ عورت اور کتے کی قیمت بھی خبيث ہے یعنی حرام ہے، جس کا ذکر حدیث رقم (2604) میں گذر چکا ہے۔ البتہ سینگی یا پچھنے کی اجرت لینے کے بارے میں تفصیل ہے، وہ یہ کہ یہاں خبیث سے مراد حرام نہیں بلکہ صرف کراہیت محسوس ہوتی ہے، اور اگر حرام ہوتی تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیوں پچھنا لگوانے کی اجرت دیتے، جیسا کہ آگے آرہا ہے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابوطیبہ (نافع یا میسرہ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سینگی لگائی اور آپ نے ان کو دو صاع غلہ اجرت دینے کا حکم دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2664]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2102، 5696]، [مسلم 1577]، [ترمذي 1278]، [أبويعلی 2835]، [ابن حبان 5151]، [مسند الحميدي 1251]
وضاحت: (تشریح حدیث 2657) اس حدیث سے پچھنا لگوانا اور اس پر اجرت دینا ثابت ہوا۔ پچھنا یا سینگی لگوانا بہت سی بیماریوں سے چھٹکارے کا سبب ہے۔ [بخاري شريف 5696] میں ہے کہ خون کے دباؤ کا بہترین علاج پچھنا لگوانا ہے۔ اور سر درد و شقیقہ کا بہترین علاج بھی سینگی ہے۔ [بخاري: 5700] ۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نر (جانور) کے پانی (منی) کی قیمت لینے سے منع فرمایا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2665]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3429]، [ترمذي 1273]، [نسائي 4689]، [ابن ماجه 2160]، [أبويعلی 6371]
وضاحت: (تشریح حدیث 2658) نر گھوڑا، اونٹ، یا گدھا، بیل، یا بکرا وغیرہ سے ان کی مادہ کا جفتی کرانے پر اجرت لینا منع ہے۔ البتہ اگر بلا شرط مادہ کا مالک کچھ دے بطورِ سلوک کے تو اس کا لینا درست ہے، نیز نر کا عاریتاً دینا بھی مستحب ہے۔ اور علماء کی ایک جماعت نے اجرت کی بھی اجازت دی ہے تاکہ نسل منقطع نہ ہو، ان احادیث کی رو سے فقہاء اس کی حرمت کے قائل ہیں۔ «(وحيدي فى شرح ابن ماجه)» ۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نر کے پانی پر اجرت لینے سے منع فرمایا اور زانیہ عورت کی اجرت (لینے) سے بھی منع فرمایا۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2666]» اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [أحمد 332/2، 415]، اور امام بخاری نے اس کو [تاريخ كبير 115/7] میں تعلیقاً ذکر کیا ہے اور مومسہ (یعنی زانیہ) کا اس میں ذکر نہیں۔
سیدنا سعید بن حریث رضی اللہ عنہ جن کو شرفِ صحبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حاصل تھا انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”تم میں سے جو کوئی گھر یا زمین بیچے تو ممکن ہے اس کے پیسے میں برکت نہ ہو الا یہ کہ وہ اس قیمت کو دوسرے گھر میں لگا دے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف إسماعيل بن إبراهيم بن مهاجر، [مكتبه الشامله نمبر: 2667]» اسماعیل بن ابراہیم بن مہاجر کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے، لیکن دوسرے طرق سے بھی مروی ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 2490]، [أبويعلی 1458]، [المعرفة و التاريخ للفسوي 294/1]، [طبراني 65/6، 5526]، [ابن قانع فى معجم الصحابة 308]، [مجمع الزوائد 6627-6632]
وضاحت: (تشریح احادیث 2659 سے 2661) اگر یہ حدیث صحیح ہو تو دنیا داروں کے لئے بڑی نصیحت ہے، نقد رکھا ہوا پیسہ اکثر صرف ہو جاتا یا کبھی ضائع ہو جاتا ہے برخلاف جائداد غیر منقولہ یعنی زمین جائیداد کے، اسی لئے جائداد بیچنے کو ناپسند کیا، جب تک اس کے بدلے دوسری جائداد نہ خریدے، کیوں کہ نقد پیسہ رکھنے سے تو یہی بہتر تھا کہ جائداد اپنے پاس رہنے دیتا۔ (وحیدی)۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف إسماعيل بن إبراهيم بن مهاجر
سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی کنواں کھودے تو کسی اور کے لئے جائز نہیں کہ چالیس ہاتھ اردگرد تک کنواں کھودے اپنے جانوروں کو پانی پلانے اور بٹھانے کے لئے (یعنی: چالیس ہاتھ بھر اردگرد کا احاطہ اس کنواں کھودنے والے کے لئے چھوڑ دیا جائے)۔“
تخریج الحدیث: «إسناده فيه علتان: ضعف إسماعيل بن مسلم وعنعنة الحسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2668]» اس روایت کی سند میں اسماعیل بن مسلم ضعیف ہیں اور حسن کا عنعنہ ہے لیکن اس کا شاہد موجود ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: [ابن ماجه 2486]، [مجمع الزوائد 6705]، [نصب الراية 291/4]، [تلخيص الحبير 63/3]، [البيهقي 155/6]، [المستدرك 97/4]
وضاحت: (تشریح حدیث 2661) باب کے عنوان حریم البیر سے مراد یہ ہے کہ کوئی کنواں کھودے تو جانور بٹھلانے اور پانی پلانے کے لئے کتنی دور تک کا احاطہ چھوڑنا ہوگا۔ مذکورہ بالا حدیث سے ثابت ہوا کہ ارد گرد چالیس چالیس ہاتھ چھوڑنا ہوگا۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ اس وقت ہے جب کنویں کی گہرائی چالیس ہاتھ ہو۔ علامہ وحیدالزماں شرح ابن ماجہ میں لکھتے ہیں کہ بعض جاہل حنفیوں نے جن کو علمِ حدیث میں بالکل دخل نہیں ہے اس حدیث سے نکالا ہے دہ در دہ حوض نجس نہ ہوگا جب اس میں نجاست پڑ جائے، حالانکہ یہ مضمون بالکل حدیث سے معلوم نہیں ہوتا، اگر کوئی اس کو دھینگا مشتی سے نکالے بھی تو لازم آتا ہے کہ حنفیہ چہل در چہل حوض کی شرط کریں، نہ کہ دہ در دہ کی، کیونکہ اس حدیث میں ہر طرف چالیس ہاتھ بیان ہوئے ہیں۔ دہ در دہ کا مطلب 10/10 ہاتھ ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده فيه علتان: ضعف إسماعيل بن مسلم وعنعنة الحسن
(حديث مرفوع) اخبرنا يعلى، حدثنا عبد الملك، عن عطاء، عن جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم في الشفعة إذا كان طريقهما واحدا؟. قال: "ينظر بها، وإن كان صاحبها غائبا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الشُّفْعَةِ إِذَا كَانَ طَرِيقُهُمَا وَاحِدًا؟. قَالَ: "يُنْظَرُ بِهَا، وَإِنْ كَانَ صَاحِبُهَا غَائِبًا".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شفعہ کے بارے میں فرمایا: ”جب کہ دونوں ہمسایوں کا راستہ ایک ہو اس (ہمسائے) کا انتظار بسبب شفعہ کیا جائے گا گرچہ وہ غائب ہو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وقال الترمذي: " وقد تكلم شعبة في عبد الملك بن أبي سليمان من أجل هذا الحديث، [مكتبه الشامله نمبر: 2669]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1608]، [أبوداؤد 3518]، [ترمذي 1369]، [نسائي 4660]، [ابن ماجه 2494]، [طيالسي 1404]، [أحمد 303/3]، [شرح معاني الآثار 120/4]، [شرح السنة للبغوي 242/8]، [بيهقي 106/6]، [فتح الباري 438/4]
وضاحت: (تشریح حدیث 2662) شفعہ اس حق کو کہتے ہیں جو جائیداد بیچتے وقت شریک کو حاصل ہوتا ہے، اور وہ حق یہ ہے کہ جو قیمت دوسرا خریدار دیتا ہے وہ قیمت دے کر اس جائیداد کو خود لے لے، اور یہ حق شریک اور ہمسایہ دونوں کو حاصل ہے جب کہ پڑوسی اور بیچنے والے کا راستہ ایک ہو، جیسا کہ حدیث میں مذکور ہے اور یہی صحیح ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وقال الترمذي: " وقد تكلم شعبة في عبد الملك بن أبي سليمان من أجل هذا الحديث
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن العلاء، حدثنا عبد الله بن إدريس، عن ابن جريج، عن ابي الزبير، عن جابر، قال: "قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالشفعة في كل شرك لم يقسم: ربعة او حائط لا يحل له ان يبيع حتى يؤذن شريكه، فإن شاء، اخذ، وإن شاء، ترك، فإن باع ولم يؤذنه، فهو احق به". قيل لابي محمد: تقول بهذا؟. قال: نعم.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: "قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالشُّفْعَةِ فِي كُلِّ شِرْكٍ لَمْ يُقْسَمْ: رَبْعَةٍ أَوْ حَائِطٍ لَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَبِيعَ حَتَّى يُؤْذِنَ شَرِيكَهُ، فَإِنْ شَاءَ، أَخَذَ، وَإِنْ شَاءَ، تَرَكَ، فَإِنْ بَاعَ وَلَمْ يُؤْذِنْهُ، فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ". قِيلَ لِأَبِي مُحَمَّدٍ: تَقُولُ بِهَذَا؟. قَالَ: نَعَمْ.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مشترک چیز میں جو تقسیم نہ ہو شفعہ کا فیصلہ کیا۔ خواہ وہ زمین ہو یا باغ، ایک شریک کے لئے اس کا بیچنا اچھا نہیں جب تک کہ دوسرے شریک کی اجازت نہ ہو، اس شریک کو اختیار ہے چاہے تو لے اور چاہے تو نہ لے اور جو ایک شریک اپناحصہ بیچے اور دوسرے شریک کو خبر نہ کرے تو وہ (دوسرا شریک) ہی اس کا زیادہ حق دار ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: آپ بھی یہی کہتے ہیں؟ فرمایا: ہاں (یعنی اس کو حقِ شفعہ حاصل ہے، وہ اتنی رقم جتنی شریک نے لی ہے دے کر غیر شخص سے اپنا حصہ چھین سکتا ہے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2670]» اس روایت کی سند ضعیف لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2213]، [مسلم 1608]، [أبويعلی 1835]، [ابن حبان 5179]
وضاحت: (تشریح حدیث 2663) اس حدیث سے حقِ شفعہ تقسیم سے پہلے ثابت ہوا، جب تقسیم ہو جائے اور ہر شریک کو اس کا حصہ الگ مل جائے تو پھر حقِ شفعہ ختم ہو جاتا ہے، جیسا کہ دوسری حدیث میں صراحت سے مذکور ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث متفق عليه