(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد، حدثنا شعبة، حدثنا ابو إسحاق، قال: سمعت البراء بن عازب، يقول: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينقل معنا التراب يوم الاحزاب، وقد"وارى التراب بياض إبطيه"، وهو يقول: اللهم لولا انت ما اهتدينا ولا تصدقنا ولا صلينا فانزلن سكينة علينا وثبت الاقدام إن لاقينا إن الالى قد بغوا علينا وإن ارادوا فتنة ابينا ويرفع بها صوته.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ، يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْقُلُ مَعَنَا التُّرَابَ يَوْمَ الْأَحْزَابِ، وَقَدْ"وَارَى التُّرَابُ بَيَاضَ إِبِطَيْهِ"، وَهُوَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا فَأَنْزِلَنَّ سَكِينَةً عَلَيْنَا وَثَبِّتْ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا إِنَّ الْأُلَى قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا وَإِنْ أَرَادُوا فِتْنَةً أَبَيْنَا وَيَرْفَعُ بِهَا صَوْتَهُ.
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جنگِ احزاب (خندق) کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ مٹی ڈھوتے تھے اور مٹی کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی چھپ گئی تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ اشعار گنگناتے جاتے تھے: (یعنی ”اے الله! اگر تیری ہدایت نہ ہوتی تو ہم کبھی سیدھا راستہ نہ پاتے، نہ صدقہ کر سکتے، اور نہ نماز پڑھتے، اب تو اے اللہ ہمارے دلوں کو سکون دے، اور دشمن سے مڈ بھیڑ ہو جائے تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔ دشمنوں نے ہمارے اوپر زیادتی کی، جب بھی وہ ہم کو فتنہ میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں ہم انکار کرتے ہیں“)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ اشعار بآواز بلند پڑھ رہے تھے۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 2499]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2836]، [مسلم 1803]، [أبويعلی 1716]
وضاحت: (تشریح احادیث 2490 سے 2492) ان اشعار کا ترجمہ مولانا وحید الزماں رحمہ اللہ نے اشعار ہی میں اس طرح کیا ہے: تو ہدایت گر نہ ہوتا تو کہاں ملتی نجات کیسے پڑھتے ہم نمازیں کیسے دیتے ہم زكاة اب اتار ہم پر تسلی اے شیر عالی صفات پاؤں جما دے ہمارے، دے لڑائی میں ثبات بے سبب ہم پے یہ کافر ظلم سے چڑھ آئے ہیں جب وہ بہکائیں ہمیں سنتے نہیں ہم ان کی بات حدیث میں ذکر کردہ آخری الفاظ «إِنَّ الْاُوْلَىٰ قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا» کا مطلب یہ ہے کہ یا الله! دشمنوں نے خواہ مخواہ ہمارے خلاف قدم اٹھایا اور ہمارے ساتھ زیادتی کی ہے، اس لئے مجبوراً ہم کو ان کے جواب میں میدان میں آنا پڑا۔ اس سے ظاہر ہے کہ اسلامی جنگ مدافعانہ ہوتی ہے، جس کا مقصد فتنہ و فساد کو فرو کر کے امن و امان کی فضا پیدا کرنا ہوتا ہے۔ جو لوگ اسلام پر قتل و غارت گری کا الزام لگاتے ہیں وہ حق سے سراسر نا واقفیت کا ثبوت دیتے ہیں۔ (راز رحمہ اللہ) اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع اور رحمت و شفقت ثابت ہوتی ہے کہ دوسروں کو کام میں لگا کر خود چین سے بیٹھ نہیں گئے بلکہ خندق میں کدال اور پچھاوڑا چلاتے، مٹی ڈھوتے اور جسدِ مبارک غبار آلود ہو جاتا، نیز کام کے وقت اسلامی رجزیہ اشعار پڑھنا بھی اس حدیث سے ثابت ہوا، اور بآواز بلند اشعار پڑھنا بھی ثابت ہوا۔
20. باب كَيْفَ دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ:
20. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح مکہ میں داخل ہوئے
حدیث نمبر: 2493
اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن خالد بن حازم، حدثنا مالك، عن الزهري، عن انس: ان النبي صلى الله عليه وسلم دخل مكة عام الفتح وعلى راسه مغفر، فلما نزعه، جاءه رجل، فقال: يا رسول الله، "هذا ابن خطل متعلق باستار الكعبة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اقتلوه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ خَالِدِ بْنِ حَازِمٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ مَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ وَعَلَى رَأْسِهِ مِغْفَرٌ، فَلَمَّا نَزَعَهُ، جَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، "هَذَا ابْنُ خَطَلٍ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اقْتُلُوهُ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے سال جب مکہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرِ مبارک پر خود تها، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اتار رہے تھے تو ایک صحابی (سیدنا ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ ابن خطل ہے جو کعبہ کے پردوں سے لٹکا ہوا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو مار ڈالو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2500]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3044]، [مسلم 1357]، [أبوداؤد 2685]، [ترمذي 1693]، [نسائي 2867]، [ابن ماجه 2805]
وضاحت: (تشریح حدیث 2492) یہ ابن خطل جس کا نام عبداللہ تھا، اسلام اور مسلمانوں کا دشمن تھا، مرتد ہو کر بھاگا اور ایک صحابی کو قتل کر کے کافروں میں مل گیا تھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و ازواجِ مطہرات اور مسلمانوں کی ہجو کرتا اور رنڈیوں سے گواتا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایسا سنگین مجرم اگر کعبہ میں بھی پناہ لے تو اس کو قتل کر دیا جائے گا۔ ”خود“ لوہے کا ٹوپ ہے جو جنگ میں سر بچانے کے لئے استعمال ہوتا تھا جس پر لوہے کا کرتہ زرہ نامی سے جنگ میں باقی بدن کو بچایا جاتا تھا۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار کا قبضہ چاندی کا تھا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: ہشام الدستوائی نے اس کی مخالفت کی، قتادہ سے انہوں نے سعید بن ابی الحسن سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے اور لوگوں نے سمجھ لیا کہ یہی محفوظ ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2501]» اس روایت کی سند معلول ہے، لیکن دیگر متعدد طرق سے مروی ہے جو اس کو تقویت دیتے ہیں۔ ہشام الدستوائی نے قتادہ کے طریق سے سعید بن ابی الحسن سے مرسلاً روایت کی ہے اور امام ابوداؤد نے کہا: «قوي هذه الأحاديث حديث سعيد بن أبى الحسن» ۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2583]، [ترمذي 1691]، [نسائي 5389]، [مشكل الآثار للطحاوي 166/2]
وضاحت: (تشریح حدیث 2493) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تلوار کو چاندی سے مزین کرنا درست ہے۔
سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کسی قوم پر غلبہ حاصل ہو جاتا تو ان کی سرزمین پر تین دن تک قیام کرنا پسند فرماتے۔
تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 2502]» ہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3065]، [مسلم 2875]، [أبوداؤد 2695]، [ترمذي 1551]، [أبويعلی 1415]، [ابن حبان 4776
وضاحت: (تشریح حدیث 2494) تین دن تک اس لئے قیام فرماتے کہ وہاں کا انتظام و انصرام صحیح طریقے سے ذمہ دار حضرات کے سپرد کر دیں اور دوباره دشمن سے حملے کا خطرہ نہ رہے۔ والله اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیر کے باغوں کو جلا دیا تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2503]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2326]، [مسلم 1746]، [أبوداؤد 2615]، [ترمذي 1552]، [ابن ماجه 2844]، [أبويعلی 5837]، [سعيد بن منصور 2642]
وضاحت: (تشریح حدیث 2495) جنگ کی حالت میں بہت سے امور سامنے آتے ہیں جن میں قیادت کرنے والوں کو بہت سوچنا پڑتا ہے۔ بعض شارحین نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ درخت اس لئے جلوائے تھے کہ جنگ کے لئے میدان صاف ہو جائے جس کی ضرورت تھی، تاکہ دشمنوں کو چھپ کر رہنے کا اور کمین گاہ سے مسلمانوں پر حملہ کرنے کا موقع مل سکے۔ آج کی نام نہاد مہذب دنیا میں دیکھئے کہ جنگ کے دنوں میں وہ کیا کیا حرکات کرتے ہیں۔ جنگِ عظیم میں پوری اقوام نے کیا کیا حرکتیں کیں (ناگاساکی اور ہیروشیما ان کی بربریت کے جاگتے نمونے ہیں) جن کے تصور سے جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
سیدنا ابوہریرہ الدوسی رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ایک مہم پر روانہ فرمایا تو کہا: ”اگر تم فلاں اور فلاں کو پکڑنے میں کامیاب ہو جاؤ تو ان دونوں کو آگ میں جلا دینا۔“ جب دوسرا دن تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے پاس قاصد بھیجا کہ ”میں نے تم کو ان دو آدمیوں کو جلا دینے کا حکم دیا تھا، لیکن میرا خیال ہے کہ اللہ کے سوا کسی کے لئے مناسب نہیں کہ وہ آگ کے عذاب میں (کسی کو) مبتلا کرے، اگرتم ان دونوں کو پکڑ لو تو قتل کر دینا۔“
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أن محمد بن اسحاق قد عنعن. ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2504]» اس روایت کے رجال ثقہ ہیں اور حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3016]، [أبوداؤد 2674]، [ترمذي 1571]، [ابن حبان 5611]، [ابن منصور 2645]۔ مذکورہ بالا دونوں آدمی ہبار بن الاسود بن عبدالمطلب اور نافع بن عبدالقيس الفہری ہیں۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2496) آگ میں جلانے کی ممانعت کو بعض صحابہ نے مطلق جانا اور اس سے منع کیا گو بطورِ قصاص کے ہو، جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بعض لوگوں کو زندہ جلانے کے بارے میں سنا تو کہا: میں انہیں آگ میں نہیں جلاتا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ ہاں انہیں قتل کرا دیتا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مرتد ہو جائے اس کو قتل کر دو۔ جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بات کا علم ہوا تو انہوں نے فرمایا: «صَدَقَ ابْنُ عَبَّاسٍ»، اور ایک روایت ہے: «لِلّٰهِ دَرُّ ابْنِ عَبَّاسٍ» یعنی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ٹھیک کہا۔ دیکھئے: [ترمذي 1458] ۔ بعض صحابہ نے جائز رکھا جیسے سیدنا علی اور سیدنا خالد بن الولید رضی اللہ عنہما۔ مہلب نے کہا: یہ ممانعت تحریمی نہیں بلکہ بطورِ تواضع کے ہے، آج کے زمانے میں آلاتِ حرب توپ، بندوق، ڈائنامائٹ وغیرہ سب انگار ہی انگار ہیں، اور چونکہ کافروں نے ان کا استعمال شروع کر دیا ہے لہٰذا مسلمانوں کو بھی اس کا استعال درست ہے۔ (وحیدی)۔ لیکن آگ میں جلانا اور ان ہتھیاروں سے کسی کو مارنا الگ الگ امر ہیں۔ بندوق وغیرہ سے مارا جا سکتا ہے لیکن آگ میں کسی بھی مخلوق کو زندہ جلانا درست نہیں، چاہے وہ انسان ہو یا حیوان۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أن محمد بن اسحاق قد عنعن. ولكن الحديث صحيح
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض غزوات میں ایک عورت ملی جس کو قتل کیا گیا تھا، چنانچہ یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کے قتل کرنے سے منع فرما دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2505]» اس روایت کی سند جید اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3014، 3015]، [مسلم 1744]، [أبوداؤد 2668]، [ترمذي 1569]، [ابن ماجه 2841]، [أحمد 23/2، 76، 122]، [طبراني 383/12، 13416]، [شرح معاني الآثار 221/3]
وضاحت: (تشریح حدیث 2497) یہ اسلام کا نظامِ رحمت اور پیغمبرِ اسلام، محسنِ انسانیت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت و شفقت ہے کہ عورت کی اتنی تکریم کی کہ مدِ مقابل ہونے کے باوجود اس کے قتل سے منع فرما دیا، اسی طرح بے قصور بچوں کو قتل کرنے سے منع کیا۔
(حديث مرفوع) اخبرنا عاصم بن يوسف، حدثنا ابو إسحاق الفزاري، عن يونس بن عبيد، عن الحسن، عن الاسود بن سريع، قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزاة فظفر بالمشركين فاسرع الناس في القتل حتى قتلوا الذرية، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: "ما بال اقوام ذهب بهم القتل حتى قتلوا الذرية؟ الا لا تقتلن ذرية ثلاثا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَاصِمُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق الْفَزَارِيُّ، عَنْ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ سَرِيعٍ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزَاةٍ فَظَفِرَ بِالْمُشْرِكِينَ فَأَسْرَعَ النَّاسُ فِي الْقَتْلِ حَتَّى قَتَلُوا الذُّرِّيَّةَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "مَا بَالُ أَقْوَامٍ ذَهَبَ بِهِمْ الْقَتْلُ حَتَّى قَتَلُوا الذُّرِّيَّةَ؟ أَلا لا تُقْتَلَنَّ ذُرِّيَّةً ثَلَاثًا".
سیدنا اسود بن سریع رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوے میں نکلے اور مشرکین کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گئے، لوگوں نے انہیں قتل کرنے میں جلد بازی کی یہاں تک کہ ان کے بچے تک مارنے شروع کر دیئے، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا بات ہے، کچھ لوگوں کو قتل و غارتگری اس حد تک لے گئی کہ وہ بچوں کو بھی قتل کرنے لگے؟ خبردار بچوں کو قتل نہ کرو۔“ تین بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دہرایا۔ بعض روایات میں «لَا تَقْتُلُنَّ» کا لفظ ہے یعنی ”ہرگز ہرگز بچوں کو قتل نہ کرو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2506]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن حبان 132]، [موارد الظمآن 1658]
وضاحت: (تشریح حدیث 2498) ان دونوں احادیث سے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی ممانعت ثابت ہوئی، حقوقِ نسواں اور بچوں کے استحصال کی دہائی دینے والے ذرا ان تعلیمات پر غور کریں۔
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، عن سفيان، عن عبد الملك بن عمير، عن عطية القرظي، قال: "عرضنا على النبي صلى الله عليه وسلم يومئذ، فمن انبت الشعر، قتل، ومن لم ينبت، ترك"، فكنت انا ممن لم ينبت الشعر، فلم يقتلوني. يعني: يوم قريظة.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَطِيَّةَ الْقُرَظِيِّ، قالَ: "عُرِضْنَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ، فَمَنْ أَنْبَتَ الشَّعْرَ، قُتِلَ، وَمَنْ لَمْ يُنْبِتْ، تُرِكَ"، فَكُنْتُ أَنَا مِمَّنْ لَمْ يُنْبِتْ الشَّعْرَ، فَلَمْ يَقْتُلُونِي. يَعْنِي: يَوْمَ قُرَيْظَةَ.
عطیہ القرظی نے کہا: (جس دن بنی قریظہ کے لوگ مارے گئے) اس دن ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو پیش کیا گیا تو جس کے بال اگ آئے تھے اس کو قتل کر دیا گیا اور جس کے بال نہیں نکلے تھے اسے چھوڑ دیا گیا، اور میں بھی ان میں سے تھا جس کے بال نہیں آئے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح على شرط البخاري، [مكتبه الشامله نمبر: 2507]» اس روایت کی سند صحیح على شرط البخاری ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4404]، [نسائي 3430]، [ابن ماجه 2541]، [ابن حبان 4780]، [الحميدي 912]
وضاحت: (تشریح حدیث 2499) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نابالغ بچے کو مارنا منع ہے، اور بلوغت کی کئی نشانیاں ہیں: داڑھی، مونچھ اور زیرِ ناف کے بال آنا، احتلام ہونا یا پندرہ سال کی عمر کا ہونا۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط البخاري
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیدی کو چھڑایا کرو، بھوکے کو کھانا کھلایا کرو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح على شرط البخاري، [مكتبه الشامله نمبر: 2508]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3046]، [أبويعلی 7325]، [ابن حبان 3324]
وضاحت: (تشریح حدیث 2500) بخاری شریف میں مزید یہ ہے کہ مریض کی عیادت کرو۔ یہ امور حقوقِ انسانیت اور ایمان و اخلاق سے تعلق رکھتے ہیں، اور دنیا میں ان کی بڑی اہمیت ہے۔ مظلوم قیدی کو آزاد کرانا اتنی بڑی نیکی ہے جس کے ثواب کا انداز نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح بھوکوں کو کھانا کھلانا وہ عمل ہے جس کی تعریف بہت سی آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ نبویہ میں ہے، اور عیادتِ مریض حقوقِ مسلم میں مسنون ہے، حقوقِ انساں کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ذرا ان تعلیمات پر غور کریں۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط البخاري