سیدنا ابوہریرہ الدوسی رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ایک مہم پر روانہ فرمایا تو کہا: ”اگر تم فلاں اور فلاں کو پکڑنے میں کامیاب ہو جاؤ تو ان دونوں کو آگ میں جلا دینا۔“ جب دوسرا دن تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے پاس قاصد بھیجا کہ ”میں نے تم کو ان دو آدمیوں کو جلا دینے کا حکم دیا تھا، لیکن میرا خیال ہے کہ اللہ کے سوا کسی کے لئے مناسب نہیں کہ وہ آگ کے عذاب میں (کسی کو) مبتلا کرے، اگرتم ان دونوں کو پکڑ لو تو قتل کر دینا۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 2496) آگ میں جلانے کی ممانعت کو بعض صحابہ نے مطلق جانا اور اس سے منع کیا گو بطورِ قصاص کے ہو، جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بعض لوگوں کو زندہ جلانے کے بارے میں سنا تو کہا: میں انہیں آگ میں نہیں جلاتا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ ہاں انہیں قتل کرا دیتا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مرتد ہو جائے اس کو قتل کر دو۔ جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بات کا علم ہوا تو انہوں نے فرمایا: «صَدَقَ ابْنُ عَبَّاسٍ»، اور ایک روایت ہے: «لِلّٰهِ دَرُّ ابْنِ عَبَّاسٍ» یعنی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ٹھیک کہا۔ دیکھئے: [ترمذي 1458] ۔ بعض صحابہ نے جائز رکھا جیسے سیدنا علی اور سیدنا خالد بن الولید رضی اللہ عنہما۔ مہلب نے کہا: یہ ممانعت تحریمی نہیں بلکہ بطورِ تواضع کے ہے، آج کے زمانے میں آلاتِ حرب توپ، بندوق، ڈائنامائٹ وغیرہ سب انگار ہی انگار ہیں، اور چونکہ کافروں نے ان کا استعمال شروع کر دیا ہے لہٰذا مسلمانوں کو بھی اس کا استعال درست ہے۔ (وحیدی)۔ لیکن آگ میں جلانا اور ان ہتھیاروں سے کسی کو مارنا الگ الگ امر ہیں۔ بندوق وغیرہ سے مارا جا سکتا ہے لیکن آگ میں کسی بھی مخلوق کو زندہ جلانا درست نہیں، چاہے وہ انسان ہو یا حیوان۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أن محمد بن اسحاق قد عنعن. ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2504]» اس روایت کے رجال ثقہ ہیں اور حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3016]، [أبوداؤد 2674]، [ترمذي 1571]، [ابن حبان 5611]، [ابن منصور 2645]۔ مذکورہ بالا دونوں آدمی ہبار بن الاسود بن عبدالمطلب اور نافع بن عبدالقيس الفہری ہیں۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أن محمد بن اسحاق قد عنعن. ولكن الحديث صحيح