سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
کتاب جہاد کے بارے میں
19. باب اَرواح الشہداء
19. شہیدوں کی ارواح کا بیان
حدیث نمبر: 2447
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا سعيد بن عامر، عن شعبة، عن سليمان، عن عبد الله بن مرة، عن مسروق، قال: سالنا عبد الله عن ارواح الشهداء، ولولا عبد الله لم يحدثنا احد، قال: "ارواح الشهداء عند الله يوم القيامة في حواصل طير خضر، لها قناديل معلقة بالعرش، تسرح في اي الجنة شاءوا ثم ترجع إلى قناديلها فيشرف عليهم ربهم، فيقول: الكم حاجة؟. تريدون شيئا؟، فيقولون: لا، إلا ان نرجع إلى الدنيا فنقتل مرة اخرى".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: سَأَلْنَا عَبْدَ اللَّهِ عَنْ أَرْوَاحِ الشُّهَدَاءِ، وَلَوْلَا عَبْدُ اللَّهِ لَمْ يُحَدِّثْنَا أَحَدٌ، قَالَ: "أَرْوَاحُ الشُّهَدَاءِ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي حَوَاصِلِ طَيْرٍ خُضْرٍ، لَهَا قَنَادِيلُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ، تَسْرَحُ فِي أَيِّ الْجَنَّةِ شَاءُوا ثُمَّ تَرْجِعُ إِلَى قَنَادِيلِهَا فَيُشْرِفُ عَلَيْهِمْ رَبُّهُمْ، فَيَقُولُ: أَلَكُمْ حَاجَةٌ؟. تُرِيدُونَ شَيْئًا؟، فَيَقُولُونَ: لَا، إِلَّا أَنْ نَرْجِعَ إِلَى الدُّنْيَا فَنُقْتَلَ مَرَّةً أُخْرَى".
مسروق رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے شہیدوں کی ارواح کے بارے پوچھا۔ اور اگر سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نہ ہوتے تو ہمیں کوئی حدیث نہ بتاتا، انہوں نے کہا: شہیدوں کی ارواح اللہ کے نزدیک قیامت کے دن سبز پرندوں کے قالب میں ہوں گی، جو عرش سے لٹکی ہوئی قنادیل میں بسیرا کرتی ہوں گی، اور جنت میں جہاں چاہیں چلتی پھرتی ہونگی، اور پھر اپنی قندیلوں میں لوٹ آتی ہونگی، ان کا رب (رب العالمین) ان کی طرف جھانکے گا اور پوچھے گا: تم کو کسی چیز کی ضرورت ہے؟ وہ روحیں کہیں گی: ہمیں اور کسی چیز کی حاجت نہیں سوائے اسکے کہ ہم دنیا میں لوٹ جائیں اور پھر دوبارہ ماری جائیں (یعنی شہید کی جائیں)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2454]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1887]، [ترمذي 3011]، [ابن ماجه 2801]، [طيالسي 1143]، [ابن أبى شيبه 308/5]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2446)
ہر انسان روح کے سبب زندہ ہے، روح نکل جائے تو مردہ کہلاتا ہے۔
ارواح کیا چیز ہیں؟ اس بارے میں مختلف اقوال ہیں۔
قرآن پاک میں ہے: « ﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي .....﴾ [الإسراء: 85] » یعنی لوگ آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ انہیں بتا دیجئے کہ روح میرے رب کا حکم ہے۔
انسان کے جسم سے ایک بار روح نکل جائے تو پھر دنیا میں واپس نہیں آتی، ارواح کو حاضر کرنا، اور ان سے معلومات لینا، ماضی و مستقبل اور حال کے حالات معلوم کرنا، باطل اور لغو چیزیں ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں، اور عقیدۂ اسلام کے سراسر منافی ہیں۔
یہاں اس حدیث سے شہداء کی ارواح کے بارے میں معلوم ہوا کہ عرشِ الٰہی سے بندھی قنادیل میں ربِ کائنات کے قریب ہوں گی، اور یہ بہت بڑا شرف و اعجاز ہے شہداء کے لئے۔
اسی حدیث سے جنت کا وجود بھی ثابت ہوا اور عرشِ الٰہی کا بھی ثبوت ملا، نیز یہ کہ شہید اتنے عزت و احترام اور قربِ الٰہی کے سبب دنیا میں دوبارہ آنے اور شہید ہونے کی تمنا کرے گا۔
«(اَللّٰهُمَّ ارْزُقْنَا الشَّهَادَةَ يَا رَبَّ الْعَالَمِيْنَ وَهَوِّنْ عَلَيْنَا السَّكَرَاتِ قُرْبَ الْمَمَاتِ يَا أَحْكَمَ الْحَاكِمِيْنَ)» آمین۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
20. باب في صِفَةِ الْقَتْلَى في سَبِيلِ اللَّهِ:
20. فی سبیل اللہ قتل ہونے والوں کی کیفیت کا بیان
حدیث نمبر: 2448
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن المبارك، حدثنا معاوية بن يحيى، قال: هو الصدفي، قال: حدثنا صفوان بن عمرو، عن ابي المثنى الاملوكي، عن عتبة بن عبد السلمي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "القتلى ثلاثة: مؤمن جاهد بنفسه وماله في سبيل الله، إذا لقي العدو، قاتل حتى يقتل". قال النبي صلى الله عليه وسلم فيه:"فذلك الشهيد الممتحن في خيمة الله، تحت عرشه، لا يفضله النبيون إلا بدرجة النبوة ومؤمن خلط عملا صالحا وآخر سيئا، جاهد بنفسه وماله في سبيل الله، إذا لقي العدو قاتل حتى يقتل". قال النبي صلى الله عليه وسلم فيه:"مصمصة محت ذنوبه وخطاياه، إن السيف محاء للخطايا، وادخل الجنة من اي ابواب الجنة شاء. ومنافق جاهد بنفسه وماله، فإذا لقي العدو قاتل حتى يقتل، فذاك في النار، إن السيف لا يمحو النفاق". قال عبد الله: يقال للثوب إذا غسل: مصمص.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: هُوَ الصَّدَفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي الْمُثَنَّى الْأُمْلُوكِيِّ، عَنْ عُتْبَةَ بْنِ عَبْدٍ السُّلَمِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْقَتْلَى ثَلَاثَةٌ: مُؤْمِنٌ جَاهَدَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، إِذَا لَقِيَ الْعَدُوَّ، قَاتَلَ حَتَّى يُقْتَلَ". قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ:"فَذَلِكَ الشَّهِيدُ الْمُمْتَحَنُ فِي خَيْمَةِ اللَّهِ، تَحْتَ عَرْشِهِ، لَا يَفْضُلُهُ النَّبِيُّونَ إِلَّا بِدَرَجَةِ النُّبُوَّةِ وَمُؤْمِنٌ خَلَطَ عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا، جَاهَدَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، إِذَا لَقِيَ الْعَدُوَّ قَاتَلَ حَتَّى يُقْتَلَ". قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ:"مَصْمَصَةٌ مَحَتْ ذُنُوبَهُ وَخَطَايَاهُ، إِنَّ السَّيْفَ مَحَّاءٌ لِلْخَطَايَا، وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ شَاءَ. وَمُنَافِقٌ جَاهَدَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ، فَإِذَا لَقِيَ الْعَدُوَّ قَاتَلَ حَتَّى يُقْتَلَ، فَذَاكَ فِي النَّارِ، إِنَّ السَّيْفَ لَا يَمْحُو النِّفَاقَ". قَالَ عَبْد اللَّهِ: يُقَالُ لِلثَّوْبِ إِذَا غُسِلَ: مُصْمِصَ.
عتبہ بن عبد السلمی نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قتل ہونے والے تین قسم کے ہیں: (1) ایک تو وہ مومن جس نے اللہ کے راستے میں اپنے جان و مال کے ساتھ جہاد کیا، دشمن سے مڈ بھیڑ ہوئی تو قتال کیا اور مارا گیا، ایسے مقتول کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ آزمایا ہوا وہ شہید ہے جو عرش کے نیچے اللہ کے خیمے میں ہوگا اور انبیاء اس سے درجہ نبوت میں بڑھے ہوئے ہونگے۔ (2) دوسرا وہ مومن ہے جس کے اچھے برے اعمال خلط ملط رہے، اس نے اللہ کے راستے میں اپنی جان و مال کے ساتھ جہاد کیا، جب دشمن سے مڈ بھیڑ ہوئی تو قتال کیا یہاں تک کہ قتل کردیا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے مقتول کے بارے میں فرمایا: یہ چوسنے والی چیز ہے جس نے اس کے گناہ اورلغزشیں مٹا دیں کیونکہ تلوار گناہوں کو مٹا دینے والی ہے، ایسا مقتول جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل کردیا جائے گا۔ (3) تیسرا مقتول وہ منافق ہے جس نے اپنے جان و مال کے ساتھ جہاد کیا، دشمن سے ملاقات ہوئی تو (خوب) جنگ کی یہاں تک کہ مار ڈالا گیا لیکن وہ جہنم میں جائے گا اور تلوار نفاق (کے داغ) کو نہ مٹا سکے گی۔
امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: جب کپڑا دھو کر ڈال دیا جائے تو اس کو مصص بولتے ہیں۔ لہٰذا مصمصہ کے معنی ہوئے: دھلی ہوئی چیز۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف معاوية بن يحيى ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2455]»
یہ روایت معاویہ بن یحییٰ کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن حبان 4663]، [موارد الظمآن 1614]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2447)
اس حدیث میں مقتولین کی اقسام اور ان کے درجات بتائے گئے ہیں۔
پہلے نمبر پر وہ شہید و مقتول ہے جس نے خالصۃً لوجہ اللہ جہاد کیا اور شہید ہوا، ایسا شخص اعلیٰ مقام پر عرش الرحمٰن کے سایہ تلے انبیاء کرام کے درجہ سے تھوڑا سا فاصلے پر ہوگا۔
دوسرا شہید وہ ہے جس نے اچھے کام بھی کئے اور برے کام بھی اس سے سرزد ہو گئے، پھر ایسے شخص نے جہاد کیا اور جامِ شہادت نوش کیا تو اس کو اختیار ہوگا جنّت کے جس دروازے سے چاہے جنّت میں داخل ہو جائے، اور یہ بھی بہت بڑا مرتبہ ہے۔
تیسرا مقتول وہ منافق ہے جس نے منافقت کی اور جہاد تو کیا لیکن دکھانے کے لئے، ایسا شخص اپنی جان و مال سب کچھ لٹا کر مار بھی ڈالا جائے تب بھی شہادت کا درجہ حاصل نہ کر سکے گا۔
اور مرنے کے بعد سیدھا جہنم میں جائے گا۔
«(أعاذنا اللّٰه وإياكم منها)»

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف معاوية بن يحيى ولكن الحديث متفق عليه
21. باب فِيمَنْ قَاتَلَ في سَبِيلِ اللَّهِ صَابِراً مُحْتَسِباً:
21. جو شخص اجر کی نیت اور صبر کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کرے اس کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 2449
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن عبد المجيد، حدثنا ابن ابي ذئب، عن المقبري، عن عبد الله بن ابي قتادة، عن ابيه: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قام فخطب فحمد الله واثنى عليه، ثم ذكر الجهاد فلم يدع شيئا افضل منه إلا الفرائض، فقام رجل، فقال: يا رسول الله، ارايت من قتل في سبيل الله، فهل ذلك مكفر عنه خطاياه؟، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"نعم، إذا قتل صابرا، محتسبا، مقبلا غير مدبر، إلا الدين فإنه ماخوذ به كما زعم لي جبريل".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ فَخَطَبَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ ذَكَرَ الْجِهَادَ فَلَمْ يَدَعْ شَيْئًا أَفْضَلَ مِنْهُ إِلَّا الْفَرَائِضَ، فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَهَلْ ذَلِكَ مُكَفِّرٌ عَنْهُ خَطَايَاهُ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"نَعَمْ، إِذَا قُتِلَ صَابِرًا، مُحْتَسِبًا، مُقْبِلًا غَيْرَ مُدْبِرٍ، إِلا الدَّيْنَ فَإِنَّهُ مَأْخُوذٌ بِهِ كَمَا زَعَمَ لِي جِبْرِيلُ".
سیدنا ابوقتاده رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا: اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی، پھر جہاد کا تذکرہ کیا تو کوئی ایسی چیز نہ چھوڑی جو جہاد سے افضل ہو (یعنی جہاد کو افضل ترین بتایا) سوائے فرائض کے، ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول الله! بتایئے اگر کوئی شخص اللہ کے راستے میں مار ڈالا جائے تو کیا اس کی غلطیاں معاف کر دی جائیں گی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، جو صبر کے ساتھ اجر کی نیت سے اگر بڑھتے ہوئے مارا گیا پیچھے ہٹتے ہوئے نہیں (اس کی ساری خطائیں معاف کردی جائیں گی) قرض کے علاوہ، اس کا شہید ہونے کے بعد بھی اس سے مواخذہ کیا جائے گا جیسا کہ جبریل علیہ السلام نے مجھے ابھی بتایا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2456]»
تخریج اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1885]، [ترمذي 1712]، [نسائي 3156، له شاهد عند أبى يعلی 1857]، [الحميدي 429]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2448)
امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: اس سے معلوم ہوا کہ نیّت خالص ہو (تو شہادت تمام گناہوں کے لئے کفارہ ہے)، یعنی خالص اللہ تعالیٰ کے واسطے لڑے، نہ ملک اور مال اور دولت کے لئے، نہ قوم کی ناموری یا عزت کے واسطے، ہاں اس کا قرض معاف نہ ہوگا، اور اسی طرح تمام حقوق العباد بھی معاف نہ ہونگے، پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض کو مستثنیٰ نہیں کیا، پھر جبریل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی وقت بتا دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کر دیا۔
(وحیدی)۔
شہادت ہو مطلوب مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت، نہ کشور کشائی

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
22. باب مَا يُعَدُّ مِنَ الشُّهَدَاءِ:
22. کون شہیدوں میں شمار ہو گا؟
حدیث نمبر: 2450
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا سليمان، هو: التيمي، عن ابي عثمان، عن عامر بن مالك، عن صفوان بن امية، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "الطاعون شهادة، والغرق شهادة، والغزو شهادة، والبطن شهادة والنفساء شهادة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ، هُوَ: التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ عَامِرِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "الطَّاعُونُ شَهَادَةٌ، وَالْغَرَقُ شَهَادَةٌ، وَالْغَزْوُ شَهَادَةٌ، وَالْبَطْنُ شَهَادَةٌ وَالنُّفَسَاءُ شَهَادَةٌ".
سیدنا صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: طاعون (میں مرنا) شہادت ہے، غرق (ہوکر مرنا) بھی شہادت ہے، جنگ کرتے ہوئے مرنا شہادت ہے، پیٹ کی تکلیف (میں مرنا) شہادت اور نفاس والی عورتوں کی موت شہادت ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2457]»
اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [نسائي 2053]، [أحمد 401/3، 466/6]، [ابن أبى شيبه 233/5]، [طبراني 56/8، 7328]، [نسائي فى الكبريٰ 2181]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2449)
.یعنی جو شخص طاعون یا پیٹ کی بیماری کے سبب، یا پانی میں غرق ہو کر، یا عورت نفاس کی حالت میں، یا غازی جنگ کرتے ہوئے مر جائے تو ان سب کو شہادت کا درجہ ملے گا۔
بشرطیکہ اعمالِ صالحہ سے دامن بھرا ہو، شرک و بدعت سے آدمی دور ہو تو ان کی شہادت کی توقع کی جا سکتی ہے، اور ان شہیدوں کے احکام مختلف ہوں گے، درجہ شہیدوں کا ہوگا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
حدیث نمبر: 2451
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن موسى، عن إسرائيل، عن منصور، عن ابي بكر بن حفص، عن شرحبيل بن السمط، عن عبادة بن الصامت، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "القتل في سبيل الله شهادة، والطاعون شهادة، والبطن شهادة، والمراة يقتلها ولدها جمعا شهادة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَفْصٍ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ السِّمْطِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْقَتْلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ شَهَادَةٌ، وَالطَّاعُونُ شَهَادَةٌ، وَالْبَطْنُ شَهَادَةٌ، وَالْمَرْأَةُ يَقْتُلُهَا وَلَدُهَا جُمْعًا شَهَادَةٌ".
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے راستے میں جنگ کرنا شہادت ہے، طاعون شہادت ہے، پیٹ (کی بیماری) شہادت ہے، حاملہ عورت جنین کی وجہ سے فوت ہو جائے تو یہ شہادت ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2458]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أحمد 317/5، 323]، [كشف الاستار 1718، وله شاهد عند بخاري 2849]، [مسلم 1919، 1920]، [ابن ماجه 2803]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2450)
امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: ان کے سوا اور لوگ بھی دوسری حدیثوں میں مذکور ہیں جو ذات الجنب سے مرے، جو عورت زچگی کے عارضہ میں مرے، جو مرد اپنا مال بچانے اور دفاع میں مارا جائے، اور اپنے بیوی بچوں کے دفاع کرنے میں مارا جائے۔
اور شہادت سے مراد یہ ہے کہ آخرت میں ان کو ثواب شہیدوں کا سا ملے گا لیکن ان پر شہیدوں کے احکام لاگو نہ ہوں گے، ان کو غسل دیا جائے گا اور ان کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی، صرف اللہ کی راہ میں جو لڑتے ہوئے شہید ہوا ان کو غسل نہ دیا جائے گا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
23. باب مَا أَصَابَ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في مَغَازِيهِمْ مِنَ الشِّدَّةِ:
23. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے غزوات میں جو مشقتیں برداشت کیں اس کا بیان
حدیث نمبر: 2452
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يعلى، حدثنا إسماعيل، عن قيس، عن سعد بن ابي وقاص، قال: "كنا نغزو مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ما لنا طعام إلا هذا السمر، وورق الحبلة، حتى إن احدنا ليضع كما تضع الشاة، ماله خلط، ثم اصبحت بنو اسد تعزرني! لقد خبت إذن وضل عمليه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: "كُنَّا نَغْزُو مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَنَا طَعَامٌ إِلا هذَا السَّمُرُ، وَوَرَقُ الْحُبْلَةِ، حَتَّى إِنَّ أَحَدَنَا لَيَضَعُ كَمَا تَضَعُ الشَّاةُ، مَالَهُ خِلْطٌ، ثُمَّ أَصْبَحَتْ بَنُو أَسَدٍ تُعَزِّرُنِي! لَقَدْ خِبْتُ إِذَنْ وَضَلَّ عَمَلِيَهْ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں شرکت کرتے تھے، اس وقت ہمارے ساتھ درخت کے پتوں کے سوا کھانے کے لئے کچھ بھی نہ ہوتا تھا، اس سے ہمیں بکریوں کی طرح اجابت ہوئی تھی یعنی ملی ہوئی نہیں ہوتی تھی (میگنیوں کی طرح اجابت ہوتی) لیکن اب بنواسد میرے اندر عیب نکالتے ہیں، اگر ایسا ہوا تو میں بالکل محروم اور بے نصیب ہی رہا اور میرے سارے کام، اعمالِ صالحہ برباد ہوگئے۔ (سمر اور ورق الحبلہ درخت کے پتوں کو کہتے ہیں)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2459]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3728]، [مسلم 2966]، [ترمذي 2365]، [أبويعلی 732]، [الحميدي 78]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2451)
ہوا یہ تھا کہ بنو اسد نے امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی چغلی کھائی تھی کہ وہ صحیح طرح نماز نہیں پڑھتے، لوگوں کے درمیان صحیح وقت پر فیصلے نہیں کرتے وغیرہ، لیکن یہ سب غلط تھا، اور جس شخص نے یہ الزامات لگائے تھے اس کے لئے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے بددعا کی جو قبول ہوئی، اور مرتے دم تک اس شخص کا پیچھا نہ چھوڑا، وہ کہا کرتا تھا: ہے مجھے سعد کی بددعا لگ گئی، اللہ والوں کو ستانے کا یہی انجام ہوتا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پیغمبرِ اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ابتدائے اسلام میں کس قدرمشقتیں برداشت کیں ہیں کہ کھانے کے لئے کچھ نہ ہوتا، اور پتے چبا کر، چھالیں چوس کر زندگی گذارتے تھے۔
«(رضي اللّٰه عنهم وأرضاهم)

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
24. باب مَنْ غَزَا يَنْوِي شَيْئاً فَلَهُ مَا نَوَى:
24. کوئی آدمی غزوہ کرے لیکن نیت میں کھوٹ ہو
حدیث نمبر: 2453
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا الحجاج بن منهال، حدثنا حماد بن سلمة، حدثنا جبلة بن عطية، عن يحيى بن الوليد بن عبادة بن الصامت، عن عبادة بن الصامت: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "من غزا في سبيل الله وهو لا ينوي في غزاته إلا عقالا، فله ما نوى".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا جَبَلَةُ بْنُ عَطِيَّةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ غَزَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَهُوَ لَا يَنْوِي فِي غَزَاتِهِ إِلَّا عِقَالًا، فَلَهُ مَا نَوَى".
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ کی راہ میں جہاد کرے اور نیت نہ رکھے اپنے غزوے میں مگر ایک رسی کی تو اس کو وہی چیز ملے گی۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2460]»
اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [نسائي 3138]، [ابن حبان 4638]، [موارد الظمآن 1605]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2452)
یعنی جہاد کا ثواب اسے نہ ملے گا کیونکہ اس کی نیت خالص نہ تھی، گرچہ رسی کوئی بڑی چیز نہیں مگر اتنی ذرا سی غرض اور لالچ رکھنے سے خلوص کو دھبہ لگتا ہے اور ثواب مٹ جاتا ہے۔
انسان کو چاہیے کہ اپنے ہر کام میں اس کا خیال رکھے، کیونکہ جیسی نیت ویسی ہی مراد ملے گی۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
25. باب في صِفَةِ: «الْغَزْوُ غَزْوَانِ» :
25. جہاد دو طرح کا ہوتا ہے
حدیث نمبر: 2454
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا نعيم بن حماد، حدثنا بقية بن الوليد، عن بحير بن سعد، عن خالد بن معدان، عن ابي بحرية، عن معاذ بن جبل، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "الغزو غزوان: فاما من غزا ابتغاء وجه الله واطاع الإمام، وانفق الكريمة، وياسر الشريك واجتنب الفساد، فإن نومه ونبهه اجر كله، واما من غزا فخرا ورياء وسمعة، وعصى الإمام، وافسد في الارض، فإنه لا يرجع بالكفاف".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ أَبِي بَحْرِيَّةَ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْغَزْوُ غَزْوَانِ: فَأَمَّا مَنْ غَزَا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ وَأَطَاعَ الْإِمَامَ، وَأَنْفَقَ الْكَرِيمَةَ، وَيَاسَرَ الشَّرِيكَ وَاجْتَنَبَ الْفَسَادَ، فَإِنَّ نَوْمَهُ وَنُبْهَهُ أَجْرٌ كُلُّهُ، وَأَمَّا مَنْ غَزَا فَخْرًا وَرِيَاءً وَسُمْعَةً، وَعَصَى الْإِمَامَ، وَأَفْسَدَ فِي الْأَرْضِ، فَإِنَّهُ لَا يَرْجِعُ بِالْكَفَافِ".
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہاد دو ہیں، جس شخص نے اللہ کی رضا مندی کے لئے جہاد کیا، امام کی اطاعت کی (یعنی اپنے آفیسر و سردار کی) اور اپنی پسندیدہ چیز خرچ کی، اپنے ساتھی کے ساتھ نرمی برتی اور فتنہ و فساد سے باز رہا تو اس کا سونا جاگنا سب کچھ ثواب ہوگا، اور جو شخص فخر و مباہات دکھانے اور سنانے کے لئے جہاد کرے، امیر کی نافرمانی کرے، زمین پر فساد برپا کرے، تو وہ برابر سرابر پر نہیں لوٹے گا۔ (یعنی نہ ثواب ہو نہ عذاب ایسا اس کا لوٹنا مشکل ہے، بلکہ وہ عذاب میں گرفتار ہو گا۔)

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لعنعنة بقية بن الوليد ولكنه صرح بالتحديث عند أحمد وأبي داود وغيرهما، [مكتبه الشامله نمبر: 2461]»
اس روایت کی سند میں مقال ہے، لیکن دوسری کتب و اسانید سے یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2515]، [نسائي 3138]، [أحمد 234/5]، [طبراني 91/20، 176]، [بيهقي فى الشعب 4265]، [الحاكم 85/2]، [سعيد بن منصور 2323، وغيرهم]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لعنعنة بقية بن الوليد ولكنه صرح بالتحديث عند أحمد وأبي داود وغيرهما
26. باب فِيمَنْ مَاتَ وَلَمْ يَغْزُ:
26. جو شخص بنا جہاد کئے ہوئے فوت ہو جائے اس کا بیان
حدیث نمبر: 2455
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن المبارك، حدثنا الوليد بن مسلم، حدثنا يحيى بن الحارث، عن القاسم ابي عبد الرحمن، عن ابي امامة: ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "من لم يغز، ولم يجهز غازيا، او يخلف غازيا في اهله بخير، اصابه الله بقارعة قبل يوم القيامة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ لَمْ يَغْزُ، وَلَمْ يُجَهِّزْ غَازِيًا، أَوْ يَخْلِفْ غَازِيًا فِي أَهْلِهِ بِخَيْرٍ، أَصَابَهُ اللَّهُ بِقَارِعَةٍ قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ".
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو آدمی نہ جہاد کرے، نہ مجاہد کے لئے سامان مہیا کرے اور نہ مجاہد کے پیچھے امانت داری کے ساتھ اس کے اہل و عیال کی نگہبانی کرے، اللہ تعالیٰ اس کو قیامت سے پہلے آفت و پریشانی میں مبتلا کرے گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2462]»
اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2503]، [ابن ماجه 2762]، [طبراني 7747، وله شاهد عند مسلم 1910]، [البيهقي 48/9]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2453 سے 2455)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی خود جہاد نہ کر سکے تو مجاہدین کی مدد ہی کرے، یہ بھی نہ ہو سکے تو مجاہد جب جہاد کے لئے نکلیں تو ان کے بال بچوں اور گھر بار کی خبر گیری کرے، امانت داری، ایمان اور خدا ترسی کے ساتھ، ان تینوں باتوں سے محروم رہے تو بڑی بدبختی ہے۔
(وحیدی)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
27. باب في فَضْلِ مَنْ جَهَّزَ غَازِياً:
27. جو شخص مجاہد کو تیاری کرائے اس کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 2456
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يعلى، حدثنا عبد الملك، عن عطاء، عن زيد بن خالد الجهني، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "من جهز غازيا في سبيل الله، او خلف في اهله، كتب الله له مثل اجره، إلا انه لا ينقص من اجر الغازي شيئا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ جَهَّزَ غَازِيًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوْ خَلَفَ فِي أَهْلِهِ، كَتَبَ اللَّهُ لَهُ مِثْلَ أَجْرِهِ، إِلَّا أَنَّهُ لَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الْغَازِي شَيْئًا".
سیدنا زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اللہ کے راستے میں غزوہ کرنے والے کو ساز و سامان دیا اور غازی کے گھر بار کی اس کے پیچھے خیر خواہانہ طریق پر نگہبانی کی تو الله تعالیٰ اس کے لئے بھی مجاہد و غازی کا اجر لکھتا ہے اور غازی کے اجر میں کچھ بھی کمی نہیں ہوتی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وعبد الملك هو: ابن أبي سليمان وعطاء هو: ابن أبي رباح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2463]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2843]، [مسلم 1895]، [أبوداؤد 2509]، [ترمذي 1628]، [نسائي 3180]، [ابن حبان 4630]، [موارد الظمآن 1619]، [الحميدي 837]۔ لیکن صحیحین اور سنن میں ہے کہ ”جس نے غازی کو ساز و سامان دیا اس نے جہاد کیا اور جس نے غازی کے گھر کی نگہبانی کی اس نے (گویا) جہاد کیا۔“

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وعبد الملك هو: ابن أبي سليمان وعطاء هو: ابن أبي رباح والحديث متفق عليه

Previous    1    2    3    4    5    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.