حجاج بن حجاج اسلمی نے اپنے والد (سیدنا حجاج رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا کہ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! دودھ کے حق کو کون سی چیز مجھ سے دور کرے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک غلام یا لونڈی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2300]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2064]، [ترمذي 1153]، [نسائي 3329]، [أبويعلی 6835]، [ابن حبان 4230]، [موارد الظمآن 1253]
وضاحت: (تشریح حدیث 2290) یعنی غلام یا لونڈی رضاعی ماں باپ کو خرید کر دے دو جو ان کی خدمت کریں، اس سے حقِ رضاعت ادا ہو جائے گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو عاصم، عن ابن جريج، عن ابن ابي مليكة، قال: حدثني عقبة بن الحارث، ثم قال: لم يحدثنيه ولكن سمعته يحدث القوم، قال: "تزوجت بنت ابي إهاب، فجاءت امة سوداء، فقالت: إني ارضعتكما، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فذكرت ذلك له فاعرض عني. قال ابو عاصم: قال في الثالثة او الرابعة. قال: كيف وقد قيل؟، ونهاه عنها. قال ابو عاصم: وقال عمر بن سعيد بن ابي حسين، عن ابن ابي مليكة:"فكيف وقد قيل؟"ولم يقل: نهاه عنها. قال ابو محمد: كذا عندنا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقْبَةَ بْنُ الْحَارِثِ، ثُمّ قَالَ: لَمْ يُحَدِّثْنِيهِ وَلَكِنْ سَمِعْتُهُ يُحَدِّثُ الْقَوْمَ، قَالَ: "تَزَوَّجْتُ بِنْتَ أَبِي إِهَابٍ، فَجَاءَتْ أَمَةٌ سَوْدَاءُ، فَقَالَتْ: إِنِّي أَرْضَعْتُكُمَا، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَأَعْرَضَ عَنِّي. قَالَ أَبُو عَاصِمٍ: قَالَ فِي الثَّالِثَةِ أَوْ الرَّابِعَةِ. قَالَ: كَيْفَ وَقَدْ قِيلَ؟، وَنَهَاهُ عَنْهَا. قَالَ أَبُو عَاصِمٍ: وَقَالَ عُمَرُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ:"فَكَيْفَ وَقَدْ قِيلَ؟"وَلَمْ يَقُلْ: نَهَاهُ عَنْهَا. قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: كَذَا عِنْدَنَا.
عبداللہ بن ابی ملیکہ نے کہا: سیدنا عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے مجھ سے حدیث بیان کی پھر کہا: نہیں مجھ سے نہیں بلکہ میں نے سنا تھا وہ لوگوں کو حدیث بیان کر رہے تھے کہ میں نے ابواہاب (بن عزیر) کی لڑکی سے شادی کی تو ایک کالی خاتون آئیں اور کہا کہ میں نے تم دونوں (میاں بیوی) کو دودھ پلایا ہے (یہ سن کر) میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے منہ موڑ لیا، (انہوں نے بار بار یہ عرض کیا)، ابوعاصم نے کہا: تیسری یا چوتھی بار پھر جب سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ نے استفسار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کس طرح (تم اس لڑکی سے رشتہ رکھو گے) اور اس کے بارے میں یہ کہا گیا ہے (یعنی تم دونوں دودھ شریک بھائی بہن ہو) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ کو اس لڑکی کے پاس جانے سے روک دیا۔ ابوعاصم نے کہا: عمرو بن سعید بن ابی حسین نے ابن ابی ملیکہ سے صرف یہ لفظ ذکر کیا ( «فكيف وقد قيل») اور یہ نہیں کہا ( «نهاه عنها») یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ کو اس سے روک دیا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: ہمارے نزدیک بھی یہی حکم ہے۔ (یعنی رضاعت کا شبہ بھی ہو جائے تو آدمی اس لڑکی سے دور رہے شادی نہ کرے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه عنعنة ابن جريج ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2301]» اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن یہ حدیث اور واقعہ بالکل صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 88]، [أبوداؤد 3603]، [ترمذي 1151]، [نسائي 3330]، [ابن حبان 4216]، [الحميدي 590]
وضاحت: (تشریح حدیث 2291) ایک عورت کی شہادت (گواہی) پر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عقبہ اور ان کی بیوی رضی اللہ عنہما میں جدائی کرا دی، اس سے ثابت ہوا کہ ہر حال میں احتیاط کا پہلو مقدم رکھنا چاہیے، اسی لئے سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ نے اس لڑکی کو چھوڑ دیا کیونکہ شبہ سے بچنا بہتر ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه عنعنة ابن جريج ولكن الحديث صحيح
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا شعبة، عن اشعث بن سليم، عن ابيه، عن مسروق، عن عائشة: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل عليها وعندها رجل فتغير وجهه، وكانه كره ذلك، فقلت: إنه اخي من الرضاعة، فقال: "انظرن ما إخوانكن فإنما الرضاعة من المجاعة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا وَعِنْدَهَا رَجُلٌ فَتَغَيَّرَ وَجْهُهُ، وَكَأَنَّهُ كَرِهَ ذَلِكَ، فَقُلْتُ: إِنَّهُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ، فَقَالَ: "انْظُرْنَ مَا إِخْوَانُكُنَّ فَإِنَّمَا الرَّضَاعَةُ مِنَ الْمَجَاعَةِ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے، اس وقت ان کے پاس ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا، آپ کا چہرہ مبارک بدل گیا اور طبع مبارک پر ناگواری کے آثار دیکھے تو عرض کیا: یہ تو میرا دودھ شریک بھائی ہے، (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا: ”تحقیق و غور کر لو کہ تمہارے (رضاعی) بھائی کون ہیں؟ رضاعت اس وقت معتبر ہے جب دودھ بھوک کے وقت پیا جائے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2302]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2647، 5102]، [مسلم 1455]، [أبوداؤد 2058]، [نسائي 3312]، [ابن ماجه 1945]، [طيالسي 1569]، [أحمد 94/6، 174]
وضاحت: (تشریح حدیث 2292) یعنی جس وقت دودھ بچے کی غذا ہو اسی وقت رضاعت ثابت ہوگی، اور دوسری احادیث میں ہے کہ اس دودھ کے ذریعہ گوشت پیدا ہو اور ہڈیوں کو مضبوط بنائے، مطلب یہ کہ جو دودھ جزوِ بدن بنے اور گوشت و ہڈی کی نشو و نما کرے اسی دودھ سے حرمت و رضاعت ثابت ہوگی، اور یہ مدت بچے کے پیدا ہونے سے دو سال تک ہے۔ « ﴿حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ﴾[البقرة: 233] » ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر بڑے آدمی نے کسی عورت کا دودھ پی لیا تو اس سے رضاعت ثابت نہیں ہوگی، اور نہ وہ دودھ پینے والا اس عورت کا رضاعی بیٹا ہوگا اور نہ اس کے لڑکے لڑکیوں کا رضاعی بھائی بنے گا۔ جمہور علمائے کرام کا یہی مسلک ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو اليمان الحكم بن نافع، اخبرنا شعيب، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت: جاءت سهلة بنت سهيل بن عمرو وكانت تحت ابي حذيفة بن عتبة بن ربيعة، رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: إن سالما مولى ابي حذيفة يدخل علينا وانا فضل وإنما نراه ولدا، وكان ابو حذيفة تبناه كما تبنى النبي صلى الله عليه وسلم زيدا، فانزل الله تعالى: ادعوهم لآبائهم هو اقسط عند الله سورة الاحزاب آية 5 "فامرها النبي صلى الله عليه وسلم عند ذلك ان ترضع سالما". قال ابو محمد: هذا لسالم خاصة.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: جَاءَتْ سَهْلَةُ بِنْتُ سُهَيْلِ بْنِ عَمْرٍو وَكَانَتْ تَحْتَ أَبِي حُذَيْفَةَ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنَّ سَالِمًا مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ يَدْخُلُ عَلَيْنَا وَأَنَا فُضُلٌ وَإِنَّمَا نَرَاهُ وَلَدًا، وَكَانَ أَبُو حُذَيْفَةَ تَبَنَّاهُ كَمَا تَبَنَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدًا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ سورة الأحزاب آية 5 "فَأَمَرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ أَنْ تُرْضِعَ سَالِمًا". قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: هَذَا لِسَالِمٍ خَاصَّةً.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: سیدہ سہلہ بنت سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہا جو سیدنا ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: ابوحذیفہ کا غلام سالم ہمارے گھر میں آتا ہے اور میں گھر کے معمولی لباس میں ہوتی ہوں، اور ہم اسے اپنا بچہ تصور کرتے ہیں، اور ابوحذیفہ نے ان کو متبنی کر لیا تھا جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو متبنی بنا لیا تھا یہاں تک کہ یہ آیت: «﴿ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ ...... ﴾»[احزاب: 5/33] نازل ہوئی۔ بہر حال ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ وہ سالم کو دودھ پلا دیں۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: بڑے آدمی کو دودھ پلانا یہ صرف سالم کے لئے خاص تھا۔ یعنی اور کوئی بڑا دودھ پی لے تو حرمت ثابت نہ ہو گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2303]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5088]، [مسلم 1453]، [نسائي 3320]، [ابن ماجه 1943]، [ابن حبان 4213، 4215]، [مسند الحميدي 280]
وضاحت: (تشریح حدیث 2293) صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ سیدنا ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کی بیوی نے کہا: اے اللہ کے رسول! اب سالم بڑا ہوگیا ہے، میں اسے کس طرح دودھ پلاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: مجھے معلوم ہوا کہ وہ مرد ہو گیا ہے، جاؤ اسے دودھ پلا دو۔ اس سے مقصد یہ تھا کہ ان کے شوہر کے دل سے کھٹکا نکل جائے اور گھر میں آنے جانے میں پردے کا اہتمام اور مشقت نہ اٹھانی پڑے۔ یہ حدیث بڑی عمر کے آدمی کے دودھ پینے پر حرمت کے ثبوت پر دلالت کرتی ہے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور وداود ظاہری کا یہی مسلک ہے۔ لیکن یہ پہلی حدیث کے معارض ہے جس میں مذکور ہے کہ رضاعت دو سال کے دوران ثابت ہو تو حرمت ثابت ہوتی ہے جو جمہور علماء کا مسلک ہے، اور انہوں نے اس آخر الذکر حدیث سالم کا جواب دیا ہے کہ یہ حکم صرف سیدنا سالم رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص تھا جیسا کہ امام دارمی رحمہ اللہ نے بھی ذکر کیا ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا کہ رضاعت کے معاملے میں بچپن (کی مدتِ رضاعت) ہی کا اعتبار کیا جائے گا الا یہ کہ جب کوئی حاجت یا ضرورت پیش آجائے، جیسا کہ بڑی عمر کے آدمی کی رضاعت کا مسئلہ ہے جسے عورت کے پاس جانا ناگزیر ہے اور عورت کا اس سے پردہ کرنا بھی دشوار ہے، جیسا کہ سیدنا سالم رضی اللہ عنہ کا سیدنا ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کی بیوی کے ساتھ مسئلہ تھا، اس طرح کے بڑی عمر کے آدمی کو جب ضرورت و حاجت کے لئے عورت نے دودھ پلایا تھا تو اس مرد کا دودھ پینا موثر ہوگا۔ ایک اشکال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیدہ سہلہ رضی اللہ عنہا نے جوان آدمی کو کس طرح دودھ پلایا، اس کا جواب قاضی عیاض نے یہ دیا ہے کہ ممکن ہے سیدہ سہلہ رضی اللہ عنہا نے دودھ نکال کر پلا دیا ہو اور پستان نکالنے یا چھونے کی نوبت ہی نہ آئی ہو، اور نہ دونوں کے جسم باہم ملے ہوں (انتہیٰ کلامہ)۔ نیز چھاتی سے بھی اگر پلایا ہو تو ممکن ہے کیونکہ سیدنا سالم رضی اللہ عنہ ان کے بچپن کے پالے ہوئے لے پالک اور مثل بیٹے کے تھے اور انہوں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر ایسا کیا تھا، لہٰذا قباحت نہ رہی۔ واللہ اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی حلالہ کرنے والے پر اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے اس پر۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2304]» اس حدیث کی سند صحیح ہے اور کچھ اسانید سے یہ حدیث ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 1120]، [نسائي 3416]، [أبويعلی 5054]
وضاحت: (تشریح حدیث 2294) «مُحِلْ» اور «مُحَلِّلْ» وہ شخص ہے جو طلاق دینے کی نیت سے مطلقہ ثلاثہ سے نکاح و مباشرت کرے تاکہ وہ پہلے شوہر کے لئے حلال ہوجائے، اور «مُحَلِّلْ لَهُ» سے مراد پہلا شوہر ہے جس نے تین طلاق دے دیں، اور لعنت: اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری اور پھٹکار کو کہتے ہیں، اور یہ جب اللہ اور رسول کی طرف سے ہو تو ملعون شخص راندہ درگاهِ الٰہی ہے اور لعنت گناہِ کبیرہ پر ہی ہوتی ہے۔ اس حدیث میں عورت کو پہلے شوہر کے لئے حلال کرنے کے واسطے نکاح کرنے، اور جس کے لئے حلالہ کیا گیا دونوں پر لعنت کی گئی ہے، یہ فعل بہت ہی قبیح، شرمناک، خبیث اور معیوب ہے۔ گویا عورت کرائے کی بکری ہے جب چاہا تین طلاق دے کر غیر مرد کے ہاتھ میں دے دیا تاکہ وہ اس سے حرام کاری کرے، اور پھر پہلے شوہر کے پاس لوٹ جائے، یہ کھلی ہوئی حرام کاری اور زنا کاری ہے، «حتى تنكح زوجا غيره» کا بہت غلط استعمال ہے۔ اس سلسلے میں صحیح مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی آدمی نے باری باری تین طلاق دے دی ہیں اور عدت کے بعد وہ مطلقہ عورت کسی آدمی سے طلاق کی شرط کے بنا نکاح کرے پھر وہ آدمی اپنی مرضی سے اسے طلاق دے تب وہ عورت پہلے شوہر سے شادی کر سکتی ہے، طلاق کی شرط کے ساتھ نکاح کرنا، دو چار دن استمتاع کرنا، پھر طلاق دینا یہ شرمناک فعل ہے، ایسا کرنے والے اور کرانے والے پرلعنت ہے، اور حدیث کی اصطلاح میں ایسے مفتی و فاعل کو «التيس المستعار» یعنی کرائے کا سانڈ کہا گیا ہے۔ کچھ نادان لوگ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی عدم رفع الیدین کی غیر ثابت شدہ بات کو بڑی شد و مد سے دلیل جانتے ہیں، یہاں حلالہ کے باب میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو پسِ پشت ڈال کر مزے لوٹتے ہیں۔ اللہ انہیں ہدایت دے۔ آمین۔
(حديث مرفوع) اخبرنا جعفر بن عون، اخبرنا هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، ان هندا ام معاوية امراة ابي سفيان اتت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن ابا سفيان رجل شحيح وإنه لا يعطيني ما يكفيني وبني إلا ما اخذت منه، وهو لا يعلم، فهل علي في ذلك جناح؟ فقال: "خذي ما يكفيك وولدك بالمعروف".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ هِنْدًا أُمَّ مُعَاوِيَةَ امْرَأَةَ أَبِي سُفْيَانَ أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ شَحِيحٌ وَإِنَّهُ لَا يُعْطِينِي مَا يَكْفِينِي وَبَنِيَّ إِلَّا مَا أَخَذْتُ مِنْهُ، وَهُوَ لَا يَعْلَمُ، فَهَلْ عَلَيَّ فِي ذَلِكَ جُنَاحٌ؟ فَقَالَ: "خُذِي مَا يَكْفِيكِ وَوَلَدَكِ بِالْمَعْرُوفِ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہند (بنت عتبہ) معاویہ کی ماں اور سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہم کی بیوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ابوسفیان بخیل آدمی ہیں، وہ مجھے اتنا خرچہ نہیں دیتے جو مجھے اور میرے بچوں کے لئے کافی ہو مگر یہ کہ میں کچھ ان کی لاعلمی میں لے لوں، تو ایسا کرنے میں مجھ پر گناہ ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عادت کے مطابق بھلے طریقہ سے تم اتنا مال لے سکتی ہو جو خود تمہارے اور تمہارے بچوں کے لئے کافی ہو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2305]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2211]، [مسلم 1714]، [أبوداؤد 3532]، [أبويعلی 4636]، [ابن حبان 4255]، [الحميدي 244]
وضاحت: (تشریح حدیث 2295) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت اور بچوں پر خرچ کرنا مرد کے واجبات میں سے ہے، نیز اس حدیث سے بیویوں کے حقوق پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ اگر خاوند نان و نفقہ نہ دے یا بخل سے کام لے تو بیوی ان سے خرچہ وصول کرنے کے لئے ہر جائز راستہ اختیار کر سکتی ہے، اس کی لاعلمی میں اس کے مال سے ضرورت کے مطابق لے بھی سکتی ہے۔ اگر عدالت یا قاضی و حاکم کے پاس جانے ہی سے اس کو اپنا حق وصول ہوتا ہو تو وہاں بھی جا سکتی ہے، جیسا کہ سیدہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے کیا، اور یہ غیبت یا شکایت میں شمار نہ ہوگا، نیز یہ کہ ان تمام امور میں نیک نیتی ملحوظ رکھنا ضروری ہے اور محض فتنہ و فساد یا خانہ خرابی مقصود ہو تو پھر یہ رخصت ختم ہو جائے گی۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "خيركم خيركم لاهله، وإذا مات صاحبكم، فدعوه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ، وَإِذَا مَاتَ صَاحِبُكُمْ، فَدَعُوهُ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھر والوں سے اچھا سلوک رکھے اور جب تم میں سے کوئی مر جائے تو اس کو چھوڑ دو۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 2296) یعنی اس کو برے الفاظ سے یاد نہ کرو نہ اس کی برائی کرو، ترمذی شریف میں یہ اضافہ ہے: اور میں اپنے اہل کے ساتھ تم میں سب سے زیادہ اچھا سلوک کرنے والا ہوں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ اچھا سلوک کرنا خود اس انسان کے اچھا ہونے کی علامت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ متقی و پرہیزگار اور کون ہوگا جو اپنے گھر والوں کے لئے سب سے اچھے تھے۔ حقیقت اور امر واقعہ یہ ہے کہ جب گھر میں حسنِ معاشرت کا یہ ماحول ہوگا تو وہ گھرانہ دنیاوی سعادتوں، نعمتوں اور برکتوں سے محظوظ ہوگا۔ اس حدیث میں گذرے ہوئے لوگوں کی برائی کرنے سے بھی روکا گیا ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا إسماعيل بن خليل، اخبرنا علي بن مسهر، عن هشام، عن ابيه، عن عائشة، قالت: "تزوجني رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا بنت ست سنين، فقدمنا المدينة، فنزلنا في بني الحارث بن الخزرج فوعكت، فتمزق راسي، فاوفى جميمة، فاتتني ام رومان وإني لفي ارجوحة ومعي صواحبات لي، فصرخت بي فاتيتها وما ادري ما تريد، فاخذت بيدي حتى اوقفتني على باب الدار، وإني لانهج حتى سكن بعض نفسي، ثم اخذت شيئا من ماء، فمسحت به وجهي وراسي، ثم ادخلتني الدار، فإذا نسوة من الانصار في بيت، فقلن: على الخير والبركة، وعلى خير طائر، فاسلمتني إليهن، فاصلحن من شاني، فلم يرعني إلا رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى، فاسلمتني إليه وانا يومئذ بنت تسع سنين".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ خَلِيلٍ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ، فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، فَنَزَلْنَا فِي بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ فَوُعِكْتُ، فَتَمزَّقَ رَأْسِي، فَأَوْفَى جُمَيْمَةً، فَأَتَتْنِي أُمُّ رُومَانَ وَإِنِّي لَفِي أُرْجُوحَةٍ وَمَعِي صَوَاحِبَاتٌ لِي، فَصَرَخَتْ بِي فَأَتَيْتُهَا وَمَا أَدْرِي مَا تُرِيدُ، فَأَخَذَتْ بِيَدِي حَتَّى أَوْقَفَتْنِي عَلَى بَابِ الدَّارِ، وَإِنِّي لَأَنْهَجُ حَتَّى سَكَنَ بَعْضُ نَفَسِي، ثُمَّ أَخَذَتْ شَيْئًا مِنْ مَاءٍ، فَمَسَحَتْ بِهِ وَجْهِي وَرَأْسِي، ثُمَّ أَدْخَلَتْنِي الدَّارَ، فَإِذَا نِسْوَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فِي بَيْتِ، فَقُلْنَ: عَلَى الْخَيْرِ وَالْبَرَكَةِ، وَعَلَى خَيْرِ طَائِرٍ، فَأَسْلَمَتْنِي إِلَيْهِنَّ، فَأَصْلَحْنَ مِنْ شَأْنِي، فَلَمْ يَرُعْنِي إِلَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضُحى، فَأَسْلَمَتْنِي إِلَيْهِ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا نکاح ہوا تو میری عمر چھ سال تھی، پھر ہم ہجرت کر کے مدینہ آئے تو بنو حارث بن خزرج کے یہاں ٹھہرے، یہاں آ کر مجھے بخار آ گیا اور اس کی وجہ سے میرے بال گرنے لگے، پھر مونڈھوں تک خوب بال ہو گئے، پھر ایک دن (میری والدہ) ام رومان آئیں اس وقت میں اپنی چند سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھی، انہوں نے مجھے پکارا تو میں حاضر ہوئی اور مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میرے ساتھ ان کا کیا ارادہ ہے، آخر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر گھر کے دروازے کے پاس کھڑا کر دیا اور میرا سانس پھولا جا رہا تھا، تھوڑی دیر میں جب مجھے کچھ سکون ہوا تو انہوں نے کچھ تھوڑا سا پانی لے کر میرے منہ اور سر پر پھیرا، پھر مجھے گھر کے اندر لے گئیں، وہاں انصار کی چند عورتیں موجود تھیں جنہوں نے مجھے دیکھ کر دعا دی کہ اللہ خیر و برکت کرے اور تمہارا اچھا نصیب ہو، میری ماں نے مجھے ان کے حوالے کر دیا اور انہوں نے میری آرائش کی، اس کے بعد دن چڑھے اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور ان عورتوں نے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کر دیا اور اس وقت میری عمر نو سال تھی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2307]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3894]، [مسلم 2438]، [أبويعلی 4498]، [ابن حبان 7097]
وضاحت: (تشریح حدیث 2297) حجاز چونکہ گرم ملک ہے اس لئے یہاں قدرتی طور پر لڑکے اور لڑکیاں بہت کم عمر میں بالغ ہو جاتے ہیں، اس لئے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی کے وقت صرف نو سال کی عمر تعجب خیز نہیں، بعض لوگ اس روایت میں غلطی کا اظہار کرتے ہیں کہ 19 کو کہا گیا ہے۔ یہ خام خیالی اور احادیث بخاری و مسلم میں شکوک و شبہات پیدا کرنا ہے جو بڑی خطرناک بات ہے، اس طرح حدیث کے تمام مجموعے خام خیالی اور شکوک و شبہات کی زد میں آ جائیں گے۔ «(أعاذنا اللّٰه منه)» ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چھوٹی لڑکی کا نکاح درست ہے بغیر اجازت کے، بہت سے علماء کا اس پر اجماع ہے کہ باپ نے اگر چھٹپن میں نکاح کر دیا ہے تو بعد بلوغ کے لڑکی کو فسخ کا اختیار نہیں، اور بعض علماء نے کہا کہ بلوغ کے بعد اس بچی کو فسخ کا اختیار ہے، نیز اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دلہن کا بناؤ سنگھار کرنا مستحب ہے، نیز عورتوں کا جمع ہونا اور دعا و مبارک باد دینا بھی صحیح ہے، اور لوگوں کے جمع ہونے سے اعلانِ نکاح بھی ہو جاتا ہے، دلہن کی تسلی و اطمینان اور آدابِ ملاقات سے آشنائی ہوتی ہے، نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دولہا دلہن کی ملاقات اور صحبت دن میں بھی درست ہے۔ واللہ اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه