(حديث مرفوع) اخبرنا جعفر بن عون، اخبرنا هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، ان هندا ام معاوية امراة ابي سفيان اتت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن ابا سفيان رجل شحيح وإنه لا يعطيني ما يكفيني وبني إلا ما اخذت منه، وهو لا يعلم، فهل علي في ذلك جناح؟ فقال: "خذي ما يكفيك وولدك بالمعروف".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ هِنْدًا أُمَّ مُعَاوِيَةَ امْرَأَةَ أَبِي سُفْيَانَ أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ شَحِيحٌ وَإِنَّهُ لَا يُعْطِينِي مَا يَكْفِينِي وَبَنِيَّ إِلَّا مَا أَخَذْتُ مِنْهُ، وَهُوَ لَا يَعْلَمُ، فَهَلْ عَلَيَّ فِي ذَلِكَ جُنَاحٌ؟ فَقَالَ: "خُذِي مَا يَكْفِيكِ وَوَلَدَكِ بِالْمَعْرُوفِ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہند (بنت عتبہ) معاویہ کی ماں اور سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہم کی بیوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ابوسفیان بخیل آدمی ہیں، وہ مجھے اتنا خرچہ نہیں دیتے جو مجھے اور میرے بچوں کے لئے کافی ہو مگر یہ کہ میں کچھ ان کی لاعلمی میں لے لوں، تو ایسا کرنے میں مجھ پر گناہ ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عادت کے مطابق بھلے طریقہ سے تم اتنا مال لے سکتی ہو جو خود تمہارے اور تمہارے بچوں کے لئے کافی ہو۔“
وضاحت: (تشریح حدیث 2295) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت اور بچوں پر خرچ کرنا مرد کے واجبات میں سے ہے، نیز اس حدیث سے بیویوں کے حقوق پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ اگر خاوند نان و نفقہ نہ دے یا بخل سے کام لے تو بیوی ان سے خرچہ وصول کرنے کے لئے ہر جائز راستہ اختیار کر سکتی ہے، اس کی لاعلمی میں اس کے مال سے ضرورت کے مطابق لے بھی سکتی ہے۔ اگر عدالت یا قاضی و حاکم کے پاس جانے ہی سے اس کو اپنا حق وصول ہوتا ہو تو وہاں بھی جا سکتی ہے، جیسا کہ سیدہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے کیا، اور یہ غیبت یا شکایت میں شمار نہ ہوگا، نیز یہ کہ ان تمام امور میں نیک نیتی ملحوظ رکھنا ضروری ہے اور محض فتنہ و فساد یا خانہ خرابی مقصود ہو تو پھر یہ رخصت ختم ہو جائے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2305]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2211]، [مسلم 1714]، [أبوداؤد 3532]، [أبويعلی 4636]، [ابن حبان 4255]، [الحميدي 244]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه