عبدالرحمٰن بن وعلۃ نے کہا: میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے چمڑے کی مشک (جس میں پانی بھرا جاتا ہے) کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ تمہیں کیا جواب دوں سوائے اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو بھی کھال دباغت دی جائے وہ پاک ہو گئی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2028]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 366]، [أبوداؤد 4123]، [ترمذي 1727]، [نسائي 4252]، [ابن ماجه 3609]
وضاحت: (تشریح حدیث 2023) ماکول اللحم جانور کی کھال نمک، درخت کے پتوں وغیرہ سے صاف کی جائے تو وہ پاک ہو جاتی ہے اور اس سے انتفاع جائز ہے خواہ وہ جانور مردہ ہی کیوں نہ ہو، جیسا کہ آگے حدیث میں آ رہا ہے۔ اس حدیث میں «أَيُّمَا إِهَابٍ» عام ہے، یعنی جو چمڑا بھی دباغت دیا جائے وہ پاک ہو جاتا ہے، اس عموم سے علماء نے استدلال کیا کہ کسی بھی جانور کا چمڑا ہو۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے سور اور امام شافعی رحمہ اللہ نے کتے اور سور کے چمڑے کے بارے میں کہا: وہ کسی صورت میں جائز و پاک نہیں ہوگا۔ اسی طرح آدمی کا چمڑا بھی دباغت سے پاک اور قابلِ استعمال نہ ہوگا۔ سور اور کتا ناپاک و نجس ہونے کے سبب اور آدمی کی کھال آدمی کے معظم و مکرم ہونے کے سبب قابلِ انتفاع نہیں۔ واللہ اعلم۔
عبدالرحمٰن بن وعلہ نے کہا: میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مردہ جانور کی کھال کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”دباغت سے وہ پاک ہو جاتی ہیں۔“ امام دارمی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: کیا آپ بھی یہی کہتے ہیں؟ فرمایا: ہاں، اس جانور کی کھال استعمال کی جا سکتی ہے (جو ماکول اللحم ہو)۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أن اين إسحاق قد عنعن وهو مدلس، [مكتبه الشامله نمبر: 2029]» اس حدیث کی تخریج اوپر گزر چکی ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أن اين إسحاق قد عنعن وهو مدلس
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردہ جانور کی کھال سے انتفاع کا حکم دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2030]» اس روایت میں ابن اسحاق کا عنعنہ ہے لیکن اس کے رواة ثقات اور حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن حبان 1290]، [موارد الظمآن 123]، [أبوداؤد 4124]، [نسائي 4263]، [ابن ماجه 3612]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: ان کی خالہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کی بکری مر گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کاش تم اس کی کھال سے فائدہ اٹھاتے؟“ لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! وہ تو مردہ تھی؟ فرمایا: ”مردار کا فقط کھانا حرام ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2031]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1492]، [مسلم 363]، [أبوداؤد 4120]، [ترمذي 1727]، [نسائي 4246]، [أبويعلی 2419]، [ابن حبان 1284]، [مسند الحميدي 498]
وضاحت: (تشریح احادیث 2024 سے 2027) یعنی مردار کا گوشت کھانا حرام ہے لیکن دباغت کے بعد چمڑا و جلد سے انتفاع جائز ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی حدیث کے ہم معنی روایت کیا ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: لومڑیوں کی کھال کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جبکہ اس کو دباغت دے دی گئی ہو؟ فرمایا: میں اس کو مکروہ سمجھتا ہوں (کیونکہ لومڑی غیر ماکول اللحم ہے، اس کا کھانا جائز نہیں)۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2032]» اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن حدیث صحیح ہے۔ تخریج اوپر مذکور ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2027) ان احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہوا کہ مردہ جانور کی کھال ان کے مرنے کے بعد بھی نکال کر دباغت کے بعد کام میں لائی جا سکتی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ وہ ماکول اللحم جانور کی ہو۔ (واللہ اعلم)۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح
(حديث مرفوع) اخبرنا احمد بن عبد الله، حدثنا مالك، عن الزهري، عن الحسن، وعبد الله ابني محمد، عن ابيهما، عن علي، ان عليا قال لابن عباس:"نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن متعة النساء يوم خيبر، وعن لحوم الحمر الإنسية".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ الْحَسَنِ، وَعَبْدِ اللَّهِ ابْنَيْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِمَا، عَنْ عَلِيٍّ، أَنَّ عَلِيًّا قَالَ لِابْنِ عَبَّاسٍ:"نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ يَوْمَ خَيْبَرَ، وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْإِنْسِيَّةِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن عورتوں کے متعہ سے اور پالتو گدھوں کے گوشت (کھانے) سے منع فرمایا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2033]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4216، 5523]، [مسلم 1407]، [ترمذي 1121]، [نسائي 3365]، [ابن ماجه 1961]، [أبويعلی 576]، [ابن حبان 4140]
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، عن سفيان، عن هشام، عن ابن سيرين، عن انس بن مالك، قال: قام رجل يوم خيبر، فقال: يا رسول الله، اكلت الحمر او افنيت الحمر، ثم قال: يا رسول الله، افنيت الحمر او اكلت الحمر،"فامر رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا فنادى إن الله ورسوله ينهيانكم عن لحوم الحمر، فإنها رجس".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَامَ رَجُلٌ يَوْمَ خَيْبَرَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُكِلَتْ الْحُمُرُ أَوْ أُفْنِيَتِ الْحُمُرُ، ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُفْنِيَتِ الْحُمُرُ أَوْ أُكِلَتْ الْحُمُرُ،"فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا فَنَادَى إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يَنْهَيَانِكُمْ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ، فَإِنَّهَا رِجْسٌ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ خیبر کے دن ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! گدھے کھا لئے گئے، یا یہ کہا: گدھے (کھا کر) ختم کر دیئے گئے، پھر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! گدھے ختم کر دیئے گئے، یا کھا لئے گئے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو حکم دیا کہ اعلان کر دو: ”بیشک اللہ اور اس کا رسول دونوں تم کو پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع کرتے ہیں کیونکہ وہ ناپاک ہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2034]» یہ روایت صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2991، 4199]، [مسلم 1940]، [نسائي 69]، [ابن ماجه 3196]، [أبويعلی 2828]، [ابن حبان 5274]، [الحميدي 1234]
وضاحت: (تشریح احادیث 2028 سے 2030) ان احادیث سے متعہ اور گدھے کے گوشت کی حرمت ثابت ہوئی۔ نکاحِ متعہ یہ ہے کہ آدمی ایک وقتِ مقررہ تک کے لئے نکاح کر لے، جیسے ہفتہ، دس دن، ایک ماہ یا سال کے لئے، یہ شروع اسلام میں حلال تھا پھر قیامت تک کے لئے حرام قرار دیا گیا، آگے مزید تفصیل آ رہی ہے۔ اسی طرح گدھے کا گوشت حلال تھا، پھر قیامت تک کے لئے اس کا کھانا حرام کر دیا گیا۔ ان دونوں چیزوں میں جو لوگ حلت کے قائل ہیں ان کا استدلال صحیح نہیں اور حرمت کی دلیل واضح، صریح اور قوی ہے۔ واللہ اعلم۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن پالتو گدھوں کے گوشت سے منع فرمایا، اور گھوڑے کے گوشت (کو کھانے) کی اجازت دی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2036]» اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4219]، [مسلم 1941]، [أبوداؤد 3788]، [ترمذي 1793]، [نسائي 4338]، [أبويعلی 1787]، [ابن حبان 5268]، [الحميدي 1291]
وضاحت: (تشریح احادیث 2030 سے 2032) گھوڑے کا گوشت بلا کراہت جائز و حلال ہے مگر کیونکہ جہاد و سواری کے لئے اس کی ضرورت پڑتی تھی اس لئے اس کو کھانے کا عام معمول نہیں تھا، بعض فقہاء نے اس کو حرام اور بعض نے مکروہ کہا ہے لیکن راجح یہی ہے کہ گھوڑے کا گوشت حلال ہے جیسا کہ مذکورہ احادیث سے واضح ہے۔ واللہ اعلم۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص مومن رہتے ہوئے کسی ایسی بڑی چیز کی لوٹ مار نہیں کر سکتا جس کی طرف لوگوں کی نظریں اٹھی ہوئی ہوں اور وہ لوٹ مار کر رہا ہو تو وہ ایسی حالت میں مومن نہیں رہتا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2037]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2475]، [مسلم 57]، [نسائي 5676]، [ابن ماجه 3936]، [أبويعلی 2699]، [ابن حبان 186]، [الحميدي 1163]
وضاحت: (تشریح حدیث 2032) یعنی ایسا جرم کرتے وقت وہ مومن نہیں رہتا، ایمان اس سے جدا ہو جاتا ہے، اگر ایمان رہتا تو ایسا کام کیوں کرتا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غارت گری کرنے والا، چوری کرنے والا، اور لوٹ مار کرنے والا، اگر یہ لوگ مدعیان اسلام ہیں تو سراسر اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں، مسلمان کی شان تو یہ ہے کہ اگر اس سے چوری، زنا کاری یا اور کوئی برا کام سرزد ہو جائے تو وہ حد درجہ پشیمان ہو کر ہمیشہ کے لئے تائب ہو جاتا ہے اور استغفار میں منہمک رہتا ہے۔ (راز)۔