(حديث مرفوع) حدثنا عفان، حدثنا حماد، اخبرنا قتادة، عن عكرمة، عن ابن عباس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم "نهى عن المجثمة". فقال ابو محمد: المجثمة: المصبورة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا قَتَادَةُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "نَهَى عَنْ الْمُجَثَّمَةِ". فَقَالَ أَبُو مُحَمَّد: الْمُجَثَّمَةُ: الْمَصْبُورَةُ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجثمہ سے منع فرمایا ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: مجثمہ مصبورہ کو کہتے ہیں یعنی بندھے ہوئے جانور کو تیر یا گولی یا پتھر سے مارنا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2018]» اس حدیث کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5515]، [مسلم 1957]، [أبوداؤد 3719]، [ترمذي 1825]، [نسائي 4460]، [أبويعلی 2497]، [ابن حبان 5608]
وضاحت: (تشریح حدیث 2013) ان تمام احادیث سے معلوم ہوا کہ کسی بھی جانور کو عبث مارنا، اس کی جان سے کھیلنا، ترسا ترسا کر مارنا بہت ہی قبیح فعل ہے، اور اسلام میں اس کی سخت ممانعت ہے۔ پھر ایسا جانور جس کو باندھ کر مارا گیا ہو، گناہ بھی ہے اور حلال بھی نہیں۔ یہ اسلام کا پاکیزہ نظامِ رحمت ہے جس میں جانوروں پر بھی رحمت کی تعلیم ہے۔ کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن سعيد، حدثنا عبد الرحيم هو ابن سليمان، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة ام المؤمنين، ان قوما قالوا: يا رسول الله، إن قوما ياتونا باللحم لا ندري اذكر اسم الله عليه ام لا؟ فقال: "سموا انتم وكلوا" وكانوا حديث عهد بجاهلية.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ هُوَ ابْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنَّ قَوْمًا قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ قَوْمًا يَأْتُونَا بِاللَّحْمِ لَا نَدْرِي أَذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ أَمْ لَا؟ فَقَالَ: "سَمُّوا أَنْتُمْ وَكُلُوا" وَكَانُوا حَدِيثَ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ.
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ کچھ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! ہمارے پاس کچھ لوگ گوشت لے کر آتے ہیں، ہم نہیں جانتے کہ اس پر (ذبح کرتے وقت) الله کا نام لیا تھا یا نہیں، فرمایا: ”تم الله کا نام لو (بسم اللہ) کہو اور کھا لو“، اور یہ زمانہ جاہلیت سے قریب کا واقعہ تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2019]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2057، 5507]، [أبوداؤد 2829]، [نسائي 4448]، [ابن ماجه 3174]، [أبويعلی 4447]
وضاحت: (تشریح حدیث 2014) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں سے گوشت لے لینا درست ہے گرچہ یہ نہ معلوم ہو کہ ذبح کے وقت اس نے اللہ کا نام لیا تھا یا نہیں، کیونکہ مسلمان کا ظاہر حال امید دلاتا ہے کہ اس نے اللہ کا نام ضرور لیا ہوگا، البتہ مشرک سے گوشت لینا درست نہیں جب تک کہ آنکھ سے دیکھ نہ لیوے کہ اس کو مسلمان نے ذبح کیا ہے۔ (وحیدی)۔ اہلِ کتاب کا ذبیحہ درست ہے بشرطیکہ جھٹکے کا نہ ہو، آج کل کے اہلِ کتاب کھلے ہوئے مشرک ہیں، لہٰذا احتیاط اچھی ہے۔ والله اعلم۔
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، عن سفيان، عن ابيه، عن عباية بن رفاعة ابن رافع، عن جده رافع بن خديج: ان بعيرا ند وليس في القوم إلا خيل يسيرة، فرماه رجل بسهم، فحبسه، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:"إن لهذه البهائم اوابد كاوابد الوحش، فما غلبكم منها، فاصنعوا به هكذا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ ابْنِ رَافِعٍ، عَنْ جَدِّهِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ: أَنَّ بَعِيرًا نَدَّ وَلَيْسَ فِي الْقَوْمِ إِلَّا خَيْلٌ يَسِيرَةٌ، فَرَمَاهُ رَجُلٌ بِسَهْمٍ، فَحَبَسَهُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"إِنَّ لِهَذِهِ الْبَهَائِمِ أَوَابِدَ كَأَوَابِدِ الْوَحْشِ، فَمَا غَلَبَكُمْ مِنْهَا، فَاصْنَعُوا بِهِ هَكَذَا".
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک اونٹ بھڑک کر بھاگ گیا اور اس وقت لوگوں کے پاس چند گھوڑے تھے، چنانچہ ایک صحابی نے اس اونٹ پر تیر چلا کر اسے (بھاگنے سے) روک دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان چوپایوں (جانوروں) میں بھی جنگلی جانوروں کی طرح سرکشی ہوتی ہے، لہٰذا ان جانوروں میں سے کوئی تمہیں عاجز کر دے تو تم اس کے ساتھ ایسا ہی کرو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2020]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2488]، [مسلم 1968]، [أبوداؤد 2921]، [ترمذي 1492]، [نسائي 4308]، [ابن ماجه 3183]، [ابن حبان 5886]، [الحميدي 414]
وضاحت: (تشریح حدیث 2015) یعنی کوئی چوپایہ بھڑک کر بھاگے تو اس کو تیر، برچھی، گولی وغیرہ سے بسم اللہ کہہ کر مار دو وہ حلال ہوگا۔ یہ ذکاة اضطراری ہے، اس کا حکم مثل ذبح کے ہے جب کہ ذبح کرنے پر قدرت نہ ہو تو ایسا کیا جا سکتا ہے۔ (وحیدی بتصرف)۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ایک چڑیا کو ناحق مارے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس سے اس بارے میں پرسش کرے گا“، عرض کیا گیا: اس کا حق کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حق یہ ہے کہ تم اس کو ذبح کرو پھر اس کو کھاؤ۔“
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2021]» اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [نسائي 4354]، [مسند الحميدي 598]
وضاحت: (تشریح حدیث 2016) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بے مقصد چھوٹے سے جانور کو بھی مارنا قیامت کے دن رسوائی کا سبب ہے، اس سے پوچھا جائے گا کہ تم نے اس جانور کو ناحق کیوں مارا تھا۔ ایک اور نسائی کی روایت میں ہے کہ جو شخص ایک چڑیا کو بے فائدہ مار ڈالے وہ قیامت کے دن چلائے گی کہ اے پروردگار! فلاں شخص نے مجھ کو بے فائدہ قتل کر ڈالا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس طرح کا کھیل عبث و مکروہ ہے، ہاں اگر ذبح کرنے اور کھانے کے لئے چڑیا مارے یا شکار کرے تو یہ بلا تردد جائز ہے۔ والله اعلم۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پیٹ کے بچے کا ذبح کرنا وہی ہے جو اس کی ماں کا ذبح کرنا ہے“، امام دارمی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: کیا وہ بھی کھایا جا سکتا ہے؟ فرمایا: ”ہاں۔“
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 2022]» اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2828]، [أبويعلی 1808]، [مجمع الزوائد 6124، وله شاهد عند أبى يعلی 992]، [ابن حبان 5889]، [موارد الظمآن 1077]
وضاحت: (تشریح حدیث 2017) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو بکری ذبح کی جائے اور اس کے پیٹ میں بچہ نکل آئے تو اس بچے کو ذبح کرنے کی ضرورت نہیں، اس کو ویسے ہی بنا ذبح کئے ہوئے کھایا جا سکتا ہے۔ اکثر علماء کا یہ ہی مذہب ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: زندہ نکلے تو ذبح کر کے کھائے اور مردہ ہو تو نہ کھائے۔
سیدنا ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر دانت (کیلے) والے درندے کے کھانے سے منع فرمایا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 2023]» اس روایت کی سند قوی اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5530]، [مسلم 1932]، [أبوداؤد 3802]، [ترمذي 1477]، [نسائي 4336]، [ابن ماجه 3232]، [ابن حبان 5279]، [مسند الحميدي 899]، [طبراني 208/22]، [بيهقي معرفة السنن والآثار 19198]
وضاحت: (تشریح حدیث 2018) ذی ناب سے مراد ایسے دانت ہیں جن سے درندہ جانور یا پرندہ اپنے شکار کو زخمی کر کے پھاڑ دیتا ہے۔ (راز)۔ اکثر اہلِ حدیث اور ائمہ کا یہی قول ہے کہ ہر دانت (کیلے) والا درندہ جو دانت سے شکار پکڑتا ہے اور حملہ کرتا ہے حرام ہے، جیسے: بھیڑیا، شیر، کتا، چیتا، اور ریچھ، بلی وغیرہ۔ اور امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا: کفتار (لکڑ بگڑ) اور لومڑی حلال ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کہا: درندوں کی طرح یہ بھی حرام ہیں، اسی طرح گیڈر اور بوربچہ وغیرہ (بھی حرام ہے)، (وحیدی)۔
سیدنا ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (شکار) اُچکن والے جانور، اور جانور کو باندھ کر مارنے سے، اور لوٹ مار سے، اور دانت والے درندے کے کھانے سے منع فرمایا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2024]» اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [طبراني 209/22]، [بيهقي 334/9]۔ ابواویس کا نام اس سند میں عبداللہ بن عبداللہ بن اویس ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2019) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چوری، ڈکیتی، لوٹ مار کا مال کھانا حرام ہے، اور یہ تمام افعال بہت مذموم ہیں، اور اسلام میں اس کی بڑی سخت سزا ہے۔ چور کے ہاتھ پیر کاٹ دیئے جائیں، ڈاکوؤں اور رہزنوں کے لئے اور بھی سنگین سزائیں مقرر کی گئی ہیں تاکہ نوع انسانی امن و امان کی زندگی بسر کر سکے۔ انہیں قوانین کی برکت سے سعودیہ میں امن و امان قائم ہے جو ساری دنیا کے لئے مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ مجثمہ کا ذکر گذر چکا ہے اور وہ بھی کھانا حرام ہے، اسی طرح درندوں کا گوشت بھی حرام ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر دانت والے درندے اور ہر پنجے (سے شکار کرنے) والے درندے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا (یعنی جو پنجے سے شکار کرے جیسے باز، شکرہ، بحری گدھ وغیرہ اور اس میں چیل و گدھ بھی شامل ہیں)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2025]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1934]، [أبوداؤد 3803]، [نسائي 4359]، [أبويعلی 2414]، [ابن حبان 5280]
وضاحت: (تشریح حدیث 2020) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جو پرندے پنجے سے شکار کرتے ہیں یا وہ درندے جو دانتوں سے گوشت پھاڑ ڈالتے ہیں ان کا کھانا حرام ہے۔
ابوملیح نے اپنے والد سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2027]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4132، وغيره من المراجع المذكورة آنفا]
وضاحت: (تشریح حدیث 2022) ان روایات سے درندوں کی کھال بچھانے اور پہننے کی ممانعت ثابت ہوئی کیونکہ دنیا داروں میں ان کا بچھانا اور پہننا باعثِ نخوت و تکبر ہوتا ہے، (وحیدی)۔ ابوداؤد کی ایک روایت (4128) میں ہے: جن لوگوں کے پاس چیتے کی کھال ہو ان سے فرشتے جدا ہو جاتے ہیں۔ اس لئے شیر چیتے کی کھالوں پر بیٹھنا جائز نہیں۔