سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص حج و عمرے کا احرام باندھے (یعنی حج قران کی نیت کی ہو) اس کے لئے ایک طواف (ترمذی میں ہے اور ایک سعی کافی ہے پھر طواف و سعی کے بعد) وہ جب تک حج و عمرے سے فارغ نہ ہو جائے احرام باندھے رہے گا۔“(یعنی حلال نہ ہو گا)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح على شرط مسلم، [مكتبه الشامله نمبر: 1886]» اس روایت کی سند صحیح علی شرط مسلم ہے۔ دیکھئے: [المنتقى لابن الجارود 460]، [شرح معاني الآثار 197/2]، [أحمد 67/2]، [ترمذي 948]، [دارقطني 257/2]، [ابن حبان 3915]، [موارد الظمآن 993]
وضاحت: (تشریح حدیث 1881) حجِ قران کرنے والے پر ایک طواف اور ایک سعی ہے جو چاہے تو پہلے کر لے اور چاہے تو قربانی کے بعد کرے، اور یہ بھی جائز ہے کہ صرف طواف پہلے کر لے اور سعی کو قربانی کے بعد کے لئے مؤخر کر دے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط مسلم
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ پر بیٹھ کر بیت اللہ کا طواف کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی حجر اسود کے پاس سے گزرتے تو جو چیز (عصا وغیرہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہوتی تو اس کی طرف اس سے اشارہ کرتے اور اللہ اکبر کہتے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1887]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1607]، [مسلم 1272]، [ترمذي 865]، [ابن حبان 3825]
وضاحت: (تشریح حدیث 1882) رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس حدیث سے سواری پر طواف کرنا اور حجرِ اسود کی طرف چھڑی سے اشارہ کرنا اور اللہ اکبر کہنا ثابت ہوا، امام شافعی و امام احمد رحمہما اللہ کا یہ ہی مسلک ہے کہ سواری پر بیٹھ کر طواف کرنا عذر کے باعث جائز ہے، اور حجرِ اسود چومتے یا اس کی طرف اشارہ کرتے وقت طواف کرنے والا یہ کہے: «بِسْمِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ أَكْبَرُ اَللّٰهُمَّ إِيْمَانًا بِكَ وَتَصْدِيْقًا بِكِتَابِكَ وَوَفَاءً بِعَهْدِكَ وَإِتِّبَاعًا لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ مُحَمَّدٍ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.» اس کے بعد طواف شروع کرے۔ والله اعلم۔
(حديث مرفوع) اخبرنا خالد بن مخلد، حدثنا مالك، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: قدمت مكة وانا حائض، ولم اطف بين الصفا والمروة، فشكوت ذلك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: "افعلي ما يفعل الحاج، غير ان لا تطوفي بالبيت".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَدِمْتُ مَكَّةَ وَأَنَا حَائِضٌ، وَلَمْ أَطُفْ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَشَكَوْتُ ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "افْعَلِي مَا يَفْعَلُ الْحَاجُّ، غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں مکہ مکرمہ پہنچی تو حیض آ گیا اور میں صفا و مروہ کی سعی نہ کر سکی، پس میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو حاجی لوگ کرتے ہیں سارے کام کرنا بس بیت الله کا طواف نہ کرنا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 1888]» اس روایت کی سند قوی اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [الموطأ: كتاب الحج 232]، [بخاري 294، 1757]، [مسلم 1211]، [الموصلي 4504]، [ابن حبان 3835]
وضاحت: (تشریح حدیث 1883) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کو حالتِ احرام میں اگر حیض آجائے تو وہ حج کے تمام ارکان اور افعال پورے کرے سوائے طواف بیت اللہ کے، مذکورہ بالا روایت میں ہے کہ میں صفاء و مروہ کی سعی نہ کر سکی، دیگر روایات میں اس کا ذکر نہیں ہے اور مطلق ان کے حیض شروع ہونے کا ذکر ہے، اس لئے یہ روایت انفرادات امام دارمی رحمہ اللہ میں سے ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ طواف میں طہارة شرط ہے، ذکر و اذکار، سعی، رمی، قربانی، حلق و تقصیر وغیرہ بغیر طہارت بھی ادا کئے جا سکتے ہیں۔ واللہ اعلم۔
(حديث مرفوع) اخبرنا الحميدي، حدثنا الفضيل بن عياض، عن عطاء بن السائب، عن طاوس، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "الطواف بالبيت صلاة، إلا ان الله احل فيه المنطق، فمن نطق فيه، فلا ينطق إلا بخير".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ صَلَاةٌ، إِلَّا أَنَّ اللَّهَ أَحَلَّ فِيهِ الْمَنْطِقَ، فَمَنْ نَطَقَ فِيهِ، فَلَا يَنْطِقْ إِلَّا بِخَيْرٍ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیت اللہ کا طواف نماز (کی طرح عبادت) ہے، ہاں اس میں اللہ تعالیٰ نے بات کرنے کی اجازت دی ہے، پس اگر کوئی طواف کے دوران بات کرنا چاہے تو اچھی بات کرے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1889]» اس روایت کی سند تو ضعیف ہے لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند ابي يعلی 2599]، [ابن حبان 3836]، [الموارد 998]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح
اس طریق سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے، ترجمہ اوپر گزر چکا ہے۔
تخریج الحدیث: «حديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1890]» اس روایت کی سند صحیح، حوالہ اوپر گذر چکا ہے۔ نیز دیکھئے: [ترمذي 960]
وضاحت: (تشریح احادیث 1884 سے 1886) احادیثِ باب سے طواف کے دوران بات چیت کرنے کا جواز ثابت ہوا، لیکن مستحب یہ ہے کہ آدمی بلاضرورت طواف کے دوران بات نہ کرے بلکہ اپنے دل و دماغ کو ذکرِ الٰہی و دعا و تلاوت یا علمی باتوں میں مشغول رکھے۔ واللہ اعلم۔
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا يزيد بن هارون، حدثنا حميد، عن انس، قال: قال عمر بن الخطاب رضوان الله عليه: وافقت ربي في ثلاث، قلت: يا رسول الله، "لو اتخذت من مقام إبراهيم مصلى، فانزل الله تعالى: واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى سورة البقرة آية 125".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِ: وَافَقْتُ رَبِّي فِي ثَلَاثٍ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، "لَوْ اتَّخَذْتَ مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى سورة البقرة آية 125".
امیر المومنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے تین مسائل میں اپنے رب کی موافقت کی، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کاش آپ مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لیں، تو الله تعالیٰ نے یہ آیت شریفہ نازل فرمائی: «وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى»[بقرة 125/2] یعنی تم مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1891]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 402]، [مسلم 2399]، [أحمد 23/1، 36]
وضاحت: (تشریح حدیث 1886) اس حدیث سے مقامِ ابراہیم کے پیچھے طواف کی دو رکعت پڑھنے کا ثبوت ملا جو سنّت ہے، اگر مقامِ ابراہیم کے پیچھے جگہ نہ ملے تو یہ سنّتیں حرم پاک کے کسی بھی گوشے میں پڑھی جا سکتی ہیں۔ اس حدیث سے امیر المومنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی فضیلت بھی معلوم ہوئی، ایسے تین مقامات ہیں کہ ان کے دل میں بات آئی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی تائید فرما دی، ان مقامات و مسائل میں سے ایک مقامِ ابراہیم کا ذکر یہاں موجود ہے، دوسرے دو مسائل بھی بخاری شریف کے مذکورہ بالا حوالے میں موجود ہیں اور وہ یہ ہیں: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے اللہ کے رسول! کاش آپ امہات المومنین کو پردے میں رہنے کا حکم فرمادیں۔ آیت نازل ہوئی: « ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ .....﴾[الأحزاب: 59] » ترجمہ: ”اے نبی! اپنی بیویوں سے، اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں (یعنی پردے میں رہیں)۔ “ اور جب ازواجِ مطہرات نے کچھ مطالبات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئے تو انہوں نے اپنی بیٹی سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا: ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ تمہیں طلاق دلا دے اور تمہاری جگہ تم سے بہتر بیویاں اپنے رسول کو عنایت فرما دے۔ چنانچہ یہ آیتِ شریفہ نازل ہوئی: « ﴿عَسَىٰ رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ .....﴾[التحريم: 5] » ترجمہ: ”اگر پیغمبر تمہیں طلاق دے دیں تو بہت جلد انہیں ان کا رب تمہارے بدلے تم سے بہتر بیویاں عنایت فرمائے گا۔ “ اور ٹھیک سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ میں یہ آیتِ شریفہ نازل ہوئی۔
(حديث مرفوع) اخبرنا إسماعيل بن ابان، حدثنا حاتم بن إسماعيل بن ابان، عن جعفر بن محمد، عن ابيه، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، قال ابو جعفر: دخلنا على جابر بن عبد الله، فسال عن القوم حتى انتهى إلي، فقلت انا محمد بن علي بن الحسين بن علي، فاهوى بيده إلى زري الاعلى وزري الاسفل، ثم وضع فمه بين ثديي، وانا يومئذ غلام شاب، فقال: مرحبا بك يا ابن اخي، سل عما شئت. فسالته، وهو اعمى، وجاء وقت الصلاة، فقام في ساجة ملتحفا بها، كلما وضعها على منكبيه، رجع طرفها إليه من صغرها، ورداؤه إلى جنبه على المشجب، فصلى، فقلت: اخبرني عن حجة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال بيده فعقد تسعا، فقال: مكث رسول الله صلى الله عليه وسلم تسع سنين لم يحج، ثم اذن في الناس بالحج في العاشرة: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم حاج، فقدم المدينة بشر كثير كلهم يلتمس ان ياتم برسول الله صلى الله عليه وسلم، ويعمل مثل عمله، فخرجنا معه حتى اتينا ذا الحليفة، فولدت اسماء بنت عميس محمد بن ابي بكر رضي الله عنهم، فارسلت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم: كيف اصنع؟ فقال:"اغتسلي واستثفري بثوب واحرمي". فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد، ثم ركب القصواء حتى استوت به ناقته على البيداء، فنظرت إلى مد بصري من بين يديه من راكب وماش، وعن يمينه مثل ذلك، وعن يساره مثل ذلك، وخلفه مثل ذلك، ورسول الله صلى الله عليه وسلم بين اظهرنا، وعليه ينزل القرآن وهو يعرف تاويله، فاهل بالتوحيد:"لبيك اللهم لبيك، لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك، لا شريك لك". فاهل الناس بهذا الذي يهلون به، فلم يرد رسول الله صلى الله عليه وسلم عليهم شيئا، ولبى رسول الله صلى الله عليه وسلم تلبيته حتى إذا اتينا البيت معه. قال جابر: لسنا ننوي إلا الحج، لسنا نعرف العمرة، حتى إذا اتينا البيت معه، استلم الركن فرمل ثلاثا، ومشى اربعا، ثم تقدم إلى مقام إبراهيم فصلى، فقرا واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى سورة البقرة آية 125، فجعل المقام بينه وبين البيت، وكان ابي يقول: ولا اعلمه ذكره عن جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم: كان يقرا في الركعتين: قل هو الله احد وقل يا ايها الكافرون، ثم رجع إلى الركن فاستلمه، ثم خرج من الباب إلى الصفا، فلما اتى الصفا، قرا: إن الصفا والمروة من شعائر الله سورة البقرة آية 158،"ابدا بما بدا الله به". فبدا بالصفا فرقي عليه حتى راى البيت، فوحد الله وكبره، وقال:"لا إله إلا الله وحده، لا شريك له، له الملك وله الحمد، يحيي ويميت وهو على كل شيء قدير، لا إله إلا الله وحده، انجز وعده، ونصر عبده، وهزم الاحزاب وحده". ثم دعا بين ذلك، فقال مثل هذا ثلاث مرات، ثم نزل إلى المروة، حتى إذا انصبت قدماه في بطن الوادي، قال عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي: يعني: فرمل، حتى إذا صعدنا مشى، حتى إذا اتينا المروة، ففعل على المروة كما فعل على الصفا، حتى إذا كان آخر طواف على المروة، قال:"إني لو استقبلت من امري ما استدبرت، لم اسق الهدي وجعلتها عمرة، فمن كان منكم ليس معه هدي، فليحل ويجعلها عمرة". فقام سراقة بن مالك بن جعشم، فقال: يا رسول الله، العامنا هذا ام لابد؟ فشبك رسول الله صلى الله عليه وسلم اصابعه في الاخرى، فقال:"دخلت العمرة في الحج"، هكذا مرتين"لا، بل لابد ابدا، لا بل لابد ابد". وقدم علي ببدن من اليمن للنبي صلى الله عليه وسلم، فوجد فاطمة رضوان الله عليها ممن حل، ولبست ثيابا صبيغا، واكتحلت، فانكر علي ذلك عليها، فقالت: إن ابي امرني، فكان علي يقول: ذهبت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم احرشه على فاطمة في الذي صنعت، مستفتيا لرسول الله صلى الله عليه وسلم فيما ذكرت، فانكرت ذلك عليها، فقال:"صدقت، ما فعلت حين فرضت الحج؟". قال: قلت: اللهم إني اهل بما اهل به رسولك. قال:"فإن معي الهدي فلا تحل". قال: فكان جماعة الهدي الذي قدم به علي من اليمن، والذي اتى به النبي صلى الله عليه وسلم مئة بدنة، فحل الناس كلهم وقصروا إلا النبي صلى الله عليه وسلم ومن كان معه هدي، فلما كان يوم التروية، وجه إلى منى، فاهللنا بالحج، وركب رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى بمنى الظهر، والعصر، والمغرب، والعشاء، والصبح، ثم مكث قليلا حتى إذا طلعت الشمس، امر بقبة من الشعر فضربت له بنمرة، ثم ركب رسول الله صلى الله عليه وسلم فسار لا تشك قريش إلا انه واقف عند المشعر الحرام، كما كانت قريش تصنع في الجاهلية في المزدلفة، فسار رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى اتى عرفة، فوجد القبة قد ضربت بنمرة، فنزلها حتى إذا زاغت يعني الشمس، امر بالقصواء فرحلت له، فاتى بطن الوادي، فخطب الناس وقال:"إن دماءكم واموالكم حرام كحرمة يومكم هذا، في شهركم هذا، في بلدكم هذا، الا إن كل شيء من امر الجاهلية تحت قدمي موضوع، ودماء الجاهلية موضوعة واول دم اضع دماءنا: دم ابن ربيعة بن الحارث، كان مسترضعا في بني سعد، فقتلته هذيل. وربا الجاهلية موضوع، واول ربا اضعه ربا عباس بن عبد المطلب، فإنه موضوع كله، فاتقوا الله في النساء، فإنما اخذتموهن بامانة الله، واستحللتم فروجهن بكلمة الله، وإن لكم عليهن ان لا يوطئن فرشكم احدا تكرهونه، فإن فعلن ذلك، فاضربوهن ضربا غير مبرح، ولهن عليكم رزقهن وكسوتهن بالمعروف. وانتم مسئولون عني فما انتم قائلون؟"قالوا: نشهد انك قد بلغت واديت ونصحت. فقال باصبعه السبابة فرفعها إلى السماء، وينكتها إلى الناس:"اللهم اشهد، اللهم اشهد، اللهم اشهد". ثم اذن بلال بنداء واحد وإقامة، فصلى الظهر، ثم اقام فصلى العصر، لم يصل بينهما شيئا، ثم ركب حتى وقف، فجعل بطن ناقته القصواء إلى الصخيرات، وقال إسماعيل: إلى الشجيرات، وجعل حبل المشاة بين يديه، ثم استقبل القبلة، فلم يزل واقفا حتى غربت الشمس وذهبت الصفرة، حتى غاب القرص، فاردف اسامة خلفه، ثم دفع، وقد شنق للقصواء الزمام، حتى إنه ليصيب راسها مورك رحله، ويقول بيده اليمنى:"السكينة السكينة". كلما اتى حبلا من الحبال، ارخى لها قليلا حتى تصعد، حتى اتى المزدلفة، فصلى بها المغرب والعشاء باذان وإقامتين، ثم اضطجع حتى إذا طلع يعني الفجر، صلى الفجر، باذان وإقامة، ثم ركب القصواء حتى وقف على المشعر الحرام، واستقبل القبلة، فدعا الله وكبره وهلله ووحده حتى اسفر جدا، ثم دفع قبل ان تطلع الشمس، واردف الفضل بن عباس، وكان رجلا حسن الشعر، ابيض، وسيما، فلما دفع النبي صلى الله عليه وسلم، مر بالظعن يجرين، فطفق الفضل ينظر إليهن، فاخذ النبي صلى الله عليه وسلم يده فوضعها على وجه الفضل، فحول الفضل راسه من الشق الآخر، فوضع النبي صلى الله عليه وسلم يده من الشق الآخر حتى إذا اتى محسر، حرك قليلا، ثم سلك الطريق الوسطى التي تخرجك إلى الجمرة الكبرى، حتى إذا اتى الجمرة التي عندها الشجرة، فرمى بسبع حصيات يكبر على كل حصاة من حصى الخذف، ثم رمى من بطن الوادي، ثم انصرف إلى المنحر، فنحر ثلاثا وستين بدنة بيده، ثم اعطى عليا فنحر ما غبر، واشركه في بدنه، ثم امر من كل بدنة ببضعة، فجعلت في قدر، فطبخت فاكلا من لحومها، وشربا من مرقها، ثم ركب فافاض إلى البيت، فاتى البيت فصلى الظهر بمكة، واتى بني عبد المطلب وهم يستقون من زمزم، فقال:"انزعوا بني عبد المطلب، فلولا يغلبنكم الناس على سقايتكم، لنزعت معكم". فناولوه دلوا فشرب.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبَانَ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنُ أَبَانَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللهِ عَنْهُمَا، قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: دَخَلْنَا عَلَى جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، فَسَأَلَ عَنْ الْقَوْمِ حَتَّى انْتَهَى إِلَيَّ، فَقُلْتُ أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ، فَأَهْوَى بِيَدِهِ إِلَى زِرِّيَ الْأَعْلَى وَزِرِّيَ الْأَسْفَلِ، ثُمَّ وَضَعَ فَمَهُ بَيْنَ ثَدْيَيَّ، وَأَنَا يَوْمَئِذٍ غُلَامٌ شَابٌّ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ يَا ابْنَ أَخِي، سَلْ عَمَّا شِئْتَ. فَسَأَلْتُهُ، وَهُوَ أَعْمَى، وَجَاءَ وَقْتُ الصَّلَاةِ، فَقَامَ فِي سَاجَةٍ مُلْتَحِفًا بِهَا، كُلَّمَا وَضَعَهَا عَلَى مَنْكِبَيْهِ، رَجَعَ طَرَفُهَا إِلَيْهِ مِنْ صِغَرِهَا، وَرِدَاؤُهُ إِلَى جَنْبِهِ عَلَى الْمِشْجَبِ، فَصَلَّى، فَقُلْتُ: أَخْبِرْنِي عَنْ حَجَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ بِيَدِهِ فَعَقَدَ تِسْعًا، فَقَالَ: مَكَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِسْعَ سِنِينَ لَمْ يَحُجَّ، ثُمَّ أُذِّنَ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ فِي الْعَاشِرَةِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجٌّ، فَقَدِمَ الْمَدِينَةَ بَشَرٌ كَثِيرٌ كُلُّهُمْ يَلْتَمِسُ أَنْ يَأْتَمَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيَعْمَلَ مِثْلَ عَمَلِهِ، فَخَرَجْنَا مَعَهُ حَتَّى أَتَيْنَا ذَا الْحُلَيْفَةِ، فَوَلَدَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللهِ عَنْهُمْ، فَأَرْسَلَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَيْفَ أَصْنَعُ؟ فَقَالَ:"اغْتَسِلِي وَاسْتَثْفِرِي بِثَوْبٍ وَأَحْرِمِي". فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ، ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ حَتَّى اسْتَوَتْ بِهِ نَاقَتُهُ عَلَى الْبَيْدَاءِ، فَنَظَرْتُ إِلَى مَدِّ بَصَرِي مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ مِنْ رَاكِبٍ وَمَاشٍ، وَعَنْ يَمِينِهِ مِثْلُ ذَلِكَ، وَعَنْ يَسَارِهِ مِثْلُ ذَلِكَ، وَخَلْفَهُ مِثْلُ ذَلِكَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا، وَعَلَيْهِ يُنْزَلُ الْقُرْآنُ وَهُوَ يَعْرِفُ تَأْوِيلَهُ، فَأَهَلَّ بِالتَّوْحِيدِ:"لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ". فَأَهَلَّ النَّاسُ بِهَذَا الَّذِي يُهِلُّونَ بِهِ، فَلَمْ يَرُدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ شَيْئًا، وَلَبَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَلْبِيَتَهُ حَتَّى إِذَا أَتَيْنَا الْبَيْتَ مَعَهُ. قَالَ جَابِرٌ: لَسْنَا نَنْوِي إِلَّا الْحَجَّ، لَسْنَا نَعْرِفُ الْعُمْرَةَ، حَتَّى إِذَا أَتَيْنَا الْبَيْتَ مَعَهُ، اسْتَلَمَ الرُّكْنَ فَرَمَلَ ثَلَاثًا، وَمَشَى أَرْبَعًا، ثُمَّ تَقَدَّمَ إِلَى مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ فَصَلَّى، فَقَرَأَ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى سورة البقرة آية 125، فَجَعَلَ الْمَقَامَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ، وَكَانَ أَبِي يَقُولُ: وَلَا أَعْلَمُهُ ذَكَرَهُ عَنْ جَابِرٍ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ: قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ وَقُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الرُّكْنِ فَاسْتَلَمَهُ، ثُمَّ خَرَجَ مِنْ الْبَاب إِلَى الصَّفَا، فَلَمَّا أَتَى الصَّفَا، قَرَأَ: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158،"أَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللَّهُ بِهِ". فَبَدَأَ بِالصَّفَا فَرَقِيَ عَلَيْهِ حَتَّى رَأَى الْبَيْتَ، فَوَحَّدَ اللَّهَ وَكَبَّرَهُ، وَقَالَ:"لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ، لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ، أَنْجَزَ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ". ثُمَّ دَعَا بَيْنَ ذَلِكَ، فَقَالَ مِثْلَ هَذَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ نَزَلَ إِلَى الْمَرْوَةِ، حَتَّى إِذَا انْصَبَّتْ قَدَمَاهُ فِي بَطْنِ الْوَادِي، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ: يَعْنِي: فَرَمَلَ، حَتَّى إِذَا صَعِدْنَا مَشَى، حَتَّى إِذَا أَتَيْنَا الْمَرْوَةَ، فَفَعَلَ عَلَى الْمَرْوَةِ كَمَا فَعَلَ عَلَى الصَّفَا، حَتَّى إِذَا كَانَ آخِرَ طَوَافٍ عَلَى الْمَرْوَةِ، قَالَ:"إِنِّي لَوْ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ، لَمْ أَسُقْ الْهَدْيَ وَجَعَلْتُهَا عُمْرَةً، فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ لَيْسَ مَعَهُ هَدْيٌ، فَلْيُحِلَّ وَيَجْعَلْهَا عُمْرَةً". فَقَامَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلِعَامِنَا هَذَا أَمْ لِأَبَدِ؟ فَشَبَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَابِعَهُ فِي الْأُخْرَى، فَقَالَ:"دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ"، هَكَذَا مَرَّتَيْنِ"لَا، بَلْ لِأَبَدِ أَبَدًا، لَا بَلْ لَأَبَدِ أَبَدٍ". وَقَدِمَ عَلِيٌّ بِبُدْنٍ مِنْ الْيَمَنِ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَجَدَ فَاطِمَةَ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهَا مِمَّنْ حَلَّ، وَلَبِسَتْ ثِيَابًا صَبِيغًا، وَاكْتَحَلَتْ، فَأَنْكَرَ عَلِيٌّ ذَلِكَ عَلَيْهَا، فَقَالَتْ: إِنَّ أَبِي أَمَرَنِي، فَكَانَ عَلِيٌّ يَقُولُ: ذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُحَرِّشُهُ عَلَى فَاطِمَةَ فِي الَّذِي صَنَعَتْ، مُسْتَفْتِيًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا ذَكَرَتْ، فَأَنْكَرْتُ ذَلِكَ عَلَيْهَا، فَقَالَ:"صَدَقَتْ، مَا فَعَلْتَ حِينَ فَرَضْتَ الْحَجَّ؟". قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أُهِلُّ بِمَا أَهَلَّ بِهِ رَسُولُكَ. قَالَ:"فَإِنَّ مَعِيَ الْهَدْيَ فَلَا تَحِلَّ". قَالَ: فَكَانَ جَمَاعَةُ الْهَدْيِ الَّذِي قَدِمَ بِهِ عَلِيٌّ مِنْ الْيَمَنِ، وَالَّذِي أَتَى بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِئَةَ بَدَنَةٍ، فَحَلَّ النَّاسُ كُلُّهُمْ وَقَصَّرُوا إِلَّا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ، وَجَّهَ إِلَى مِنًى، فَأَهْلَلْنَا بِالْحَجِّ، وَرَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِمِنًى الظُّهْرَ، وَالْعَصْرَ، وَالْمَغْرِبَ، وَالْعِشَاءَ، وَالصُّبْحَ، ثُمَّ مَكَثَ قَلِيلًا حَتَّى إِذَا طَلَعَتْ الشَّمْسُ، أَمَرَ بِقُبَّةٍ مِنْ الشَّعْرِ فَضُربَتْ لَهُ بِنَمِرَةَ، ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَارَ لَا تَشُكُّ قُرَيْشٌ إِلَّا أَنَّهُ وَاقِفٌ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ، كَمَا كَانَتْ قُرَيْشٌ تَصْنَعُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فِي الْمُزْدَلِفَةِ، فَسَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَى عَرَفَةَ، فَوَجَدَ الْقُبَّةَ قَدْ ضُرِبَتْ بِنَمِرَةَ، فَنَزَلَهَا حَتَّى إِذَا زَاغَتِ يَعْنِي الشَّمْسَ، أَمَرَ بِالْقَصْوَاءِ فَرُحِّلَتْ لَهُ، فَأَتَى بَطْنَ الْوَادِي، فَخَطَبَ النَّاسَ وَقَالَ:"إِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، أَلَا إِنَّ كُلَّ شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ تَحْتَ قَدَمَيَّ مَوْضُوعٌ، وَدِمَاءُ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعَةٌ وَأَوَّلُ دَمٍ أَضَعُ دِمَاءَنَا: دَمُ ابْنِ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ، كَانَ مُسْتَرْضَعًا فِي بَنِي سَعْدٍ، فَقَتَلَتْهُ هُذَيْلٌ. وَرِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ، وَأَوَّلُ رِبًا أَضَعُهُ رِبَا عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ كُلُّهُ، فَاتَّقُوا اللَّهَ فِي النِّسَاءِ، فَإِنَّمَا أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانَةِ اللَّهِ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللَّهِ، وَإِنَّ لَكُمْ عَلَيْهِنَّ أَنْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا تَكْرَهُونَهُ، فَإِنْ فَعَلْنَ ذَلِكَ، فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ، وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ. وَأَنْتُمْ مَسْئولونَ عَنِّي فَمَا أَنْتُمْ قَائِلُونَ؟"قَالُوا: نَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ وَأَدَّيْتَ وَنَصَحْتَ. فَقَالَ بِأُصْبُعِهِ السَّبَّابَةِ فَرَفَعَهَا إِلَى السَّمَاءِ، وَيَنْكُتُهَا إِلَى النَّاسِ:"اللَّهُمَّ اشْهَدْ، اللَّهُمَّ اشْهَدْ، اللَّهُمَّ اشْهَدْ". ثُمَّ أَذَّنَ بِلَالٌ بِنِدَاءٍ وَاحِدٍ وَإِقَامَةٍ، فَصَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ، لَمْ يُصَلِّ بَيْنَهُمَا شَيْئًا، ثُمَّ رَكِبَ حَتَّى وَقَفَ، فَجَعَلَ بَطْنَ نَاقَتِهِ الْقَصْوَاءِ إِلَى الصُّخَيْرَاتِ، وَقَالَ إِسْمَاعِيل: إِلَى الشُّجَيْرَاتِ، وَجَعَلَ حَبْلَ الْمُشَاةِ بَيْنَ يَدَيْهِ، ثُمَّ اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى غَرَبَتْ الشَّمْسُ وَذَهَبَتْ الصُّفْرَةُ، حَتَّى غَابَ الْقُرْصُ، فَأَرْدَفَ أُسَامَةَ خَلْفَهُ، ثُمَّ دَفَعَ، وَقَدْ شَنَقَ لِلْقَصْوَاءِ الزِّمَامَ، حَتَّى إِنَّهُ لَيُصِيبُ رَأْسُهَا مَوْرِكَ رَحْلِهِ، وَيَقُولُ بِيَدِهِ الْيُمْنَى:"السَّكِينَةَ السَّكِينَةَ". كُلَّمَا أَتَى حَبْلًا مِنْ الْحِبَالِ، أَرْخَى لَهَا قَلِيلًا حَتَّى تَصْعَدَ، حَتَّى أَتَى الْمُزْدَلِفَةَ، فَصَلَّى بِهَا الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ بِأَذَانٍ وَإِقَامَتَيْنِ، ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى إِذَا طَلَعَ يَعْنِي الْفَجْرُ، صَلَّى الْفَجْرَ، بِأَذَانٍ وَإِقَامَةٍ، ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ حَتَّى وَقَفَ عَلَى الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ، وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، فَدَعَا اللَّهَ وَكَبَّرَهُ وَهَلَّلَهُ وَوَحَّدَهُ حَتَّى أَسْفَرَ جِدًا، ثُمَّ دَفَعَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَأَرْدَفَ الْفَضْلَ بْنَ عَبَّاسِ، وَكَانَ رَجُلًا حَسَنَ الشَّعْرِ، أَبْيَضَ، وَسِيمًا، فَلَمَّا دَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَرَّ بِالظُّعُنِ يَجْرِينَ، فَطَفِقَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهِنَّ، فَأَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ فَوَضَعَهَا عَلَى وَجْهِ الْفَضْلِ، فَحَوَّلَ الْفَضْلُ رَأْسَهُ مِنْ الشِّقِّ الْآخَرِ، فَوَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ مِنْ الشِّقِّ الْآخَرِ حَتَّى إِذَا أَتَى مُحَسِّرَ، حَرَّكَ قَلِيلًا، ثُمَّ سَلَكَ الطَّرِيقَ الْوُسْطَى الَّتِي تُخْرِجُكَ إِلَى الْجَمْرَةِ الْكُبْرَى، حَتَّى إِذَا أَتَى الْجَمْرَةَ الَّتِي عِنْدَهَا الشَّجَرَةُ، فَرَمَى بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ عَلَى كُلِّ حَصَاةٍ مِنْ حَصَى الْخَذْفِ، ثُمَّ رَمَى مِنْ بَطْنِ الْوَادِي، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمَنْحَرِ، فَنَحَرَ ثَلَاثًا وَسِتِّينَ بَدَنَةً بِيَدِهِ، ثُمَّ أَعْطَى عَلِيًّا فَنَحَرَ مَا غَبَرَ، وَأَشْرَكَهُ فِي بُدْنِهِ، ثُمَّ أَمَرَ مِنْ كُلِّ بَدَنَةٍ بِبَضْعَةٍ، فَجُعِلَتْ فِي قِدْرٍ، فَطُبِخَتْ فَأَكَلَا مِنْ لُحُومِهَا، وَشَرِبَا مِنْ مَرَقِهَا، ثُمَّ رَكِبَ فَأَفَاضَ إِلَى الْبَيْتِ، فَأَتَى الْبَيْتَ فَصَلَّى الظُّهْرَ بِمَكَّةَ، وَأَتَى بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَهُمْ يَسْتَقُونَ مِنْ زَمْزَمَ، فَقَالَ:"انْزِعُوا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَلَوْلَا يَغْلِبَنَّكُمُ النَّاسُ عَلَى سِقَايَتِكُمْ، لَنَزَعْتُ مَعَكُمْ". فَنَاوَلُوهُ دَلْوًا فَشَرِبَ.
ابوجعفر الصادق رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: ہم سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے کچھ لوگوں کے بارے میں پوچھا یہاں تک کہ جب میرے بارے میں دریافت کیا تو میں نے عرض کیا: میں محمد: علی بن الحسین بن علی کا بیٹا ہوں، وہ میری طرف جھکے اور اپنے ہاتھ سے میری قمیص کے اوپر اور نیچے کے بٹن کھولے اور اپنے منہ کو میرے سینے پر رکھ دیا (یعنی چوما)، میں اس وقت نوجوان تھا اور وہ نابینا ہو چکے تھے، پھر انہوں نے کہا: مرحبا اے میرے بھتیجے، جو چاہو پوچھو، چنانچہ میں نے ان سے سوال کیا، پھر نماز کا وقت ہو گیا، وہ ایک کپڑا اوڑھ کر کھڑے ہوئے جو اس قدر چھوٹا تھا کہ اسے دونوں کندھوں پر ڈالتے تو وہ ایک کندھے پر سے گر جاتا، اور چادر ان کی تپائی پر رکھی تھی، اسی حالت میں انہوں نے نماز پڑھی (بعده) میں نے عرض کیا کہ: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کا طریقہ بتلایئے، انہوں نے انگلیوں کے اشارے سے نو عدد بتائے اور فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نو سال تک مدینہ میں رہے اور حج نہیں کیا، اس کے بعد دسویں سال میں اعلان کرا دیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حج کو جانے والے ہیں، چنانچہ بہت سارے لوگ مدینہ میں آ گئے، سب یہ چاہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح حج کریں، ویسے ہی وہ حج کریں، پھر ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نکل پڑے یہاں تک کہ ذوالحلیفہ میں پہنچے، وہاں سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا (زوجہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ) سے محمد بن ابی بکر پیدا ہوئے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہلا بھیجا: اب میں کیا کروں؟ آپ نے فرمایا: ”غسل کر لیں اور ایک کپڑے کا لنگوٹ باندھ لیں، اور احرام باندھ لیں“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ذوالحلیفہ کی) مسجد میں نماز پڑھی، اس کے بعد قصوا (اونٹنی) پر سوار ہوئے یہاں تک کہ جب وہ بیداء کے مقام پر کھڑی ہوئی تو جہاں تک میری نظر جاتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں، بائیں، آگے پیچھے سوار اور پیدل لوگوں کا جم غفیر تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان تھے، آپ پر قرآن پاک اترتا جاتا، آپ اس کے معانی سمجھتے اور عمل کرتے تھے، آپ نے توحید کے کلمات پکارے «لَبَّيْكَ اَللّٰهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيْكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيْكَ لَكَ.» میں حاضر ہوتا ہوں تیری خدمت میں، اے اللہ میں حاضر ہوتا ہوں تیری خدمت میں، حاضر ہوتا ہوں تیری خدمت میں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں تیری خدمت میں، سب تعریف اور نعمت تجھی کو سجتی ہے، اور سلطنت بھی تیری ہی ہے، تیرا کوئی شریک نہیں، اور لوگوں نے بھی لبیک پکاری، جو پکارتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منع نہ فرمایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لبیک پکارتے رہے یہاں تک ہم بیت الله الحرام پہنچ گئے، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نے صرف حج کی نیت کی تھی اور عمرے کو ہم جانتے بھی نہ تھے، جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیت اللہ میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کا بوسہ دیا، پھر طواف کے تین پھیروں میں رمل کیا (یعنی تیزی سے چلے) اور چار پھیروں میں معمولی رفتار سے چلے، پھر مقام ابراہیم کے پاس تشریف لائے اور نماز (ركعتي الطّواف) پڑھی اور یہ پڑھا: «وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى» یعنی: (مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بناؤ) چنانچہ مقام ابراہیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور کعبہ کے درمیان تھا، جعفر نے کہا: میرے والد کہتے تھے، پتہ نہیں انہوں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً کہا یا نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں میں «قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ» اور «قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ» کی قرأت کرتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجر اسود کی طرف آئے اور اس کو بوسہ دیا، پھر باب الصفا سے نکلے اور صفا کے نزدیک پہنچے تو پڑھا: «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ، اَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللّٰهُ بِهِ» یعنی صفا و مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے، ہم اسی سے (سعی) شروع کرتے ہیں جس کا نام پہلے اللہ نے لیا، یعنی صفا پہاڑی سے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعی صفا سے شروع کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر چڑھ گئے یہاں تک کہ خانہ کعبہ کو دیکھ لیا تو اللہ اکبر کہا اور اللہ کی توحید بیان کی اور یہ کہا: «لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِيْ وَيُمِيْتُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْئٍ قَدِيْرُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ أَنْجَزَ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ.» یعنی اللہ ایک ہے اس کے سوا کوئی معبود سچا نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، سلطنت اسی کی ہے اور تعریف اسی کو سجتی ہے، وہی مارتا جلاتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی اور اکیلے نے کافروں کے لشکروں کو شکست دی، اس طرح تین بار کہا اور درمیان میں دعا کی، پھر مروہ کی طرف جانے کو اترے یہاں تک کہ جب وادی کے اندر نشیب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم پہنچے تو (امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا) رمل کیا (یعنی دوڑ کر چلے)، پھر وادی سے نکل کر (معمولی چال سے) چلنے لگے یہاں تک کہ مروہ (پہاڑی) پر آئے اور وہاں بھی ویسے ہی کیا جیسے صفا پر کیا اور پڑھا تھا، اور جب اخیر کا پھیرا مروہ پر ختم ہوا تو فرمایا: اگر مجھے پہلے وہ حال معلوم ہوتا جو بعد کو معلوم ہوا تو میں اپنے ساتھ ہدی نہ لاتا اور پہلے عمرہ کرتا، لیکن تم میں سے جس کے ساتھ بھی (ہدی) قربانی کا جانور نہ ہو وہ احرام کھول دے اور حج کو عمره کر دے، اس وقت سیدنا سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ حکم یعنی حج کو فسخ کر کے عمرہ بنا دینا، اسی سال میں درست ہے یا یہ حکم ہمیشہ کے لئے ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دو بار فرمایا: عمرہ ہمیشہ کے لئے اس طرح حج میں داخل و شامل ہو گیا، اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ یمن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اونٹ لے کر آئے تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا انہوں نے احرام کھول ڈالا ہے اور رنگین کپڑے پہن لئے ہیں اور سرمہ بھی لگا لیا ہے، یہ سب ممنوعات احرام ہیں، تو ان کو یہ برا لگا، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میرے والد محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا تھا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے تھے: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جو کچھ کیا اس کی شکایت کرنے کے لئے اور جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ذکر کیا اس کا فتویٰ معلوم کرنے کے لئے اور یہ کہ میں نے اس عمل پر ان سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا: ”فاطمہ نے سچ کہا اور تم نے احرام باندھتے ہوئے کیا نیت کی تھی؟“ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے کہا تھا اے اللہ میں اسی کی نیت کرتا (احرام باندھتا) ہوں جس کی نیت تیرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے ساتھ تو ہدی ہے اس لئے تم احرام نہ کھولنا“، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جتنے اونٹ قربانی کے لئے مدینہ سے لائے تھے اور جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ یمن سے لے کر آئے تھے کل ملا کر سب سو اونٹ ہوئے، پس سب لوگ حلال ہو گئے، یعنی احرام کھول دیئے اور بال کتروا لئے سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان لوگوں کے جو اپنے ساتھ ہدی لائے تھے، جب یوم الترویہ (آٹھ ذوالحجہ) آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ کی جانب متوجہ ہوئے اور ہم نے حج کا احرام باندھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہو کر منیٰ پہنچے اور وہاں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر کی نماز پڑھی اور تھوڑی دیر ٹھہرے رہے یہاں تک کہ آفتاب نکل آیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی نمرہ میں خیمہ لگانے کا حکم دیا جو بالوں کا بنا ہوا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہو کر عرفات کی جانب چلے، قریش کو شک نہیں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ میں مشعر الحرام کے پاس ٹھہریں گے جیسے وہ (قریش) زمانہ جاہلیت میں کیا کرتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے گزرتے ہوئے عرفات پہنچے مزدلفہ میں رکے نہیں، اور وہاں وادی نمره (جو عرفات کے قریب ہے) میں خیمہ لگا ہوا پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اترے۔ جب آفتاب ڈھل گیا تو قصوا اونٹنی لانے کا حکم دیا، اس پر پالان کسا گیا اور اس پر سوار ہو کر وادی کے اندر آئے اور لوگوں کو خطبہ دیا فرمایا: ”تمہاری جانیں، تمہارے مال تم پر حرام ہیں تمہارے اس دن، اس مہینے اور اس شہر کی حرمت کی طرح، سنو زمانہ جاہلیت کی ہر بات میرے قدموں تلے پامال ہو گئی (یعنی لغو اور باطل ہو گئی) اور زمانہ جاہلیت میں کسی نے جتنے بھی خون کئے تھے سب معاف ہیں (یعنی نہ ان کا قصاص ہے نہ دیت) اور پہلا خون جو میں علاقے کے خونوں میں سے معاف کرتا ہوں ربیعہ بن الحارث کا خون ہے (جو آپ کے چچا زاد بھائی تھے) جو بنی سعد میں دودھ پیتے (پرورش پارہے تھے) اور قتل کر دیئے گئے۔ قبیلہ ہذیل نے انہیں قتل کر دیا اور جتنے سود زمانہ جاہلیت کے باقی ہیں وہ سب موقوف ہوئے، اور پہلا سود جو میں موقوف کرتا ہوں، اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے کیونکہ سود بالکل موقوف ہو گیا ہے، عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، یعنی ان کے حقوق شرع کے مطابق ادا کرو، کیونکہ تم نے ان کو اللہ کے نام کے ساتھ اپنی امان و قبضہ میں لیا ہے، اور اللہ کے حکم سے ان کی شرمگاہوں کو اپنے لئے حلال کیا ہے، اور ان کے اوپر تمہارا حق یہ ہے کہ تمہارے بچھونوں پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جس کا آنا تمہیں برا لگتا ہو، یعنی تمہاری مرضی کے بنا کسی کو گھر میں آنے کی اجازت نہ دیں، اگر وہ ایسا کریں تو انہیں مار سکتے ہو لیکن اتنی سخت مار نہ ہو کہ ہڈی ٹوٹ جائے یا کاری زخم لگ جائے، اور تمہارے اوپر ان کا حق یہ ہے کہ ان کو دستور کے موافق کھانا اور کپڑا دو، اور قیامت کے دن تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو تم کیا جواب دو گے؟“ عرض کیا: ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا، ادا کیا اور نصیحت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلمہ کی انگلی کو آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے اشارہ کیا، پھر اس (انگشت شہادت) کو لوگوں کی طرف جھکایا اور فرمایا: اے الله گواه رہ، اے اللہ گواہ رہ، اے اللہ گواہ رہ، پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے ایک بار اذان دی اور اقامت کہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھی اور دونوں نمازوں کے درمیان کوئی نماز نہیں پڑھی (یعنی سنت یا نوافل نہیں پڑھے) پھر آپ قصوا پر سوار ہو کر میدان عرفات میں آئے تو اپنی اونٹنی کا پیٹ چٹانوں کی طرف کیا۔ اسماعیل نے کہا پیڑ پودوں کی طرف۔ اور حبل مشاۃ مقام کا نام ہے اپنے سامنے کیا اور قبلہ کی طرف منہ کیا اور شام تک وقوف کیا یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا اور زردی ختم ہو گئی اور آفتاب کی ٹکیہ بھی غائب ہو گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھایا اور مزدلفہ کی طرف واپس لوٹے اور اونٹنی کی لگام نکیل اتنی شدت سے کھینچی کہ اس کا سر پالان کے کنارے سے لگتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے داہنے ہاتھ سے لوگوں کو اشارہ کرتے جاتے تھے: ”اے لوگو! آہستہ چلو، آہستہ چلو،“ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلندی پر آئے، تو نکیل کو تھوڑا سا ڈھیلا چھوڑ دیتے تاکہ وہ چڑھ جائے یہاں تک کہ آپ مزدلفہ پہنچے اور وہاں ایک اذان دو تکبیروں سے نماز مغرب اور عشاء جمع کر کے پڑھی، اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے یہاں تک کہ فجر طلوع ہو گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان و ایک اقامت سے فجر کی نماز پڑھی، پھر قصواء پر سوار ہوئے اور مشعر الحرام کے پاس آکر ٹھہرے، قبلہ کی طرف منہ کیا، اللہ تعالیٰ سے دعا کی، تکبیر و تہلیل کی اور توحید بیان کی، یہاں تک کہ خوب اجالا پھیل گیا اور آفتاب طلوع ہونے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے روانہ ہوئے اور اب سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کو اپنے پیچھے بٹھا لیا جو خوبصورت بالوں والے گورے خوبرو مرد تھے۔ آپ وہاں سے چلے تو عورتیں ہودجوں میں بیٹھی جا رہی تھیں، سیدنا فضل رضی اللہ عنہ ان عورتوں کو دیکھنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ ان کے چہرے پر رکھ دیا، پھر سیدنا فضل رضی اللہ عنہ نے اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرف بھی اپنا دست مبارک کر دیا، یہاں تک کہ آپ وادی محسر میں پہنچے تو اونٹنی کو (ایڑھ لگائی) حرکت دی، (یعنی تیز چلایا) پھر بیچ والے راستے سے چلے جو جمرہ عقبہ پر لے جاتا ہے، پھر آپ اس جمره کے پاس پہنچے جہاں درخت ہے اور اس پر سات کنکریاں ماریں، ہر کنکری پر اللہ اکبر کہتے تھے اور ہر کنکری ایسی تھی جس کو انگلی میں رکھ کر پھینکتے ہیں۔ (چنے یا باقلا کے دانے برابر) اور آپ نے وادی کے اندر سے کنکریاں ماریں، پھر وہاں سے لوٹ کر قربان گاہ آئے اور اپنے ہاتھ سے تریسٹھ اونٹ نحر کئے (ذبح کئے) پھر باقی جو بچے وہ نحر کے لئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دیئے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھی اپنے ہدی میں شریک کر لیا، پھر ہر اونٹ میں سے گوشت کا ٹکڑا لینے کا حکم فرمایا، وہ سب ایک دیگ میں پکائے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کو کھایا اور ان کا شوربہ پیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور بیت اللہ کی طرف چل پڑے، مکہ پہنچے اور وہاں ظہر کی نماز پڑھی، پھر بنی عبدالمطلب کے پاس آئے جو زمزم کا پانی پلا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اولاد عبدالمطلب! پانی کھینچو، اگر اس کا خوف نہ ہوتا کہ لوگ تمہیں مغلوب کریں گے تمہارے پانی پلانے پر تو میں بھی تمہارے ساتھ پانی کھینچتا۔“(یعنی میں پانی کھینچوں گا تو اور لوگ بھی اس کار خیر کے لئے دوڑ پڑیں گے) انہوں نے ایک ڈول (کھینچ کر) دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی اس سے پیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1892]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1218]، [أبوداؤد 1905]، [ابن ماجه 3074]، [أبويعلی 227]، [ابن حبان 3791]
وضاحت: (تشریح احادیث 1887 سے 1889) اس حدیث سے مختصراً رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کا طریقہ معلوم ہوا، اس میں بہت سارے مسائل بیان کر دیئے گئے ہیں اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کا آنکھوں دیکھا حال بیان کر دیا ہے۔ اس حدیث میں بڑے بڑے فائدے ہیں اور بہت سے قواعدِ اسلام ہیں، اور یہ حدیث مسلم کی اکیلی حدیثوں سے ہے کہ بخاری میں نہیں ہے، اور ابوداؤد نے مثلِ مسلم کے روایت کی ہے، اور ابوبکر بن منذر نے ایک کتاب تصنیف کی ہے فقط اس کے فائدوں میں، اور اس سے ڈیڑھ سو سے اوپر مسئلے نکالے ہیں۔ اور اگر کوئی غور کرے تو اس سے بھی زیادہ پاوے، اور اب اتنے ٹکڑے میں جو فوائد ہیں جن پر تنبیہ کی احتیاج ہے ہم ان کو ذکر کرتے ہیں۔ (1) یہ کہ جعفر بن محمد اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: ہم جابر بن عبداللہ کے پاس گئے تو انہوں نے سب لوگوں کو پو چھا، جب لوگ ملاقات کو آئیں تو ہر ایک کی خاطر کی جائے اس کے مرتبے کے موافق، جیسا سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ خیال رکھو لوگوں کے مرتبے کا۔ (2) میں نے کہا: میں محمد بن علی امام حسین کا پوتا ہوں سو انہوں نے میری طرف شفقت سے ہاتھ بڑھایا اور اس میں تعظیم اور خاطر داری ہے اہلِ بیت کی، جیسے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے دلجوئی کی محمد بن علی کی جو پوتے ہیں سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے۔ (3)(سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: مرحبا خوش رہو اور شاباش) اس سے معلوم ہوا کہ جو آوے اس کے دل خوشی کچھ بات کہنا۔ (4) نرمی اور اخلاق اور انس دینا اپنے ملاقاتیوں کو اور ان کو محبت سے جرأت دینا کہ کچھ پوچھیں اور خوف نہ کریں، اسی لئے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھا پھر فرمایا کہ پوچھو۔ (5) صاحب زادہ صاحب محمد نے جو یہ کہا کہ میں ان دنوں جوان تھا اس سے معلوم ہوا کہ وجہ ان سے زیادہ محبت کرنے کی اور دلجوئی کی یہی تھی کہ وہ صغیر السن اور چھوٹے تھے، اور بوڑھوں کے ساتھ یہ بات کہ سینہ پر ہاتھ رکھنا ضروری نہیں، اور یہ خاطر داری سبب ہوگی ان کو حدیث کا مطلب یا در کھنے کی۔ (6) وہ یعنی سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نابینا تھے اتنے میں نماز کا وقت آگیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ امامت اندھے کی روا ہے اور اس کے جائز ہونے میں اختلاف نہیں، مگر افضل ہونے میں تین قول ہیں شافعیہ کے: ایک یہ کہ امام ہونا اندھے کا آنکھ والے سے افضل ہے اس لئے کہ اس کی نگاہ کہیں نہیں پڑتی اور خیال نہیں بٹتا۔ دوسرے یہ کہ آنکھ والا افضل ہے اس لئے وہ ناپاکیوں سے خوب بچ سکتا ہے۔ تیسرے یہ کہ دونوں برابر ہیں اور یہی قول صحیح تر ہے اور یہی منصوص ہے امام شافعی رحمہ اللہ سے۔ (7) یہ کہ گھر والے کا امام ہونا افضل ہے گو نابینا بھی ہو۔ (8) یہ کہ وہ کھڑے ہوئے ایک چادر اوڑھ کر۔ نماز جائز ہے ایک کپڑے سے اگرچہ اور کپڑے بھی موجود ہوں، جیسے ان کی بڑی چادر موجود تھی۔ (9) تپائی وغیرہ کا گھر میں رہنا جائز ہے، پھر نماز پڑھائی پکار دیا تاکہ لوگ تیاری کریں حج کی اور مناسک اور احکامِ حج خوب سیکھ لیں، اور آپ کی باتیں اور وصیتیں خوب یاد کریں اور لوگوں کو پہنچا دیں، اور دعوتِ اسلام کی اور شوکتِ ایمان کی خوب ظاہر ہو جاوے۔ (10) اس سے معلوم ہوا کہ امام کو مستحب ہے کہ جب بڑے کام پر چلے تو لوگوں کو آگاہ کر دے کہ اس کی سواری کے لئے تیار ہو جائیں۔ (11) معلوم ہوا کہ سب لوگوں نے احرام حج کا باندھا اسی لئے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہر شخص نے وہی کیا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو لوگ ہدی نہیں لائے تھے ان کو فسخ حج بعمرہ کا حکم فرمایا تو لوگوں نے تأمل کیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ کرنا پڑا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عذر کیا کہ میرے ساتھ ہدی ہے ورنہ میں بھی احرام کھول ڈالتا۔ اور معلوم ہوا کہ سیدنا علی اور سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہما نے بھی احرام حج ہی کا باندھا تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا احرام تھا۔ غرض ”ہم لوگ“ سے ”سوار ہوئے قصوا اونٹنی پر“ تک اس سے کئی مسئلے معلوم ہوئے، چنانچہ (12).... بات یہ ہے کہ مستحب ہے غسل احرام کا اس عورت کو بھی جو حائضہ ہو یا نفاس والی۔ (13) نفاس والی عورت کو مستحب ہے لنگوٹ باندھنا، کچھ کپڑا اندام نہائی پر رکھ لے، اور اس میں اختلاف نہیں۔ (14) معلوم ہوا کہ وقت احرام کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت پڑھی، اور نووی نے ان کو مستحب کہا ہے، اور کہا ہے یہ مذہب کافہ علماء کا ہے کہ احرام کے وقت دو رکعت مستحب ہے سوا حسن بصری وغیرہ کے، اور جو لوگ استحباب کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی نہ پڑھے تو اس پر کچھ دم وغیرہ لازم نہیں آتا، نہ وہ گنہگار ہوتا ہے، مگر ایک فضیلت فوت ہو گئی، اور جن وقتوں میں نماز منع ہے اگر اس وقت احرام باندھے تو مشہور یہی ہے کہ نہ پڑھے، اور بعض اصحابِ شافعیہ کا قول ہے کہ پڑھ لے اور حسن بصری وغیرہ نے کہا ہے کہ ان دو رکعتوں کا پڑھنا کسی نمازِ فرض کے بعد مستحب ہے کہ نہیں، تو نہیں۔ اور ابن تیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں فرمایا ہے، جو بڑے محقق اور حافظِ حدیث ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحلیفہ میں ظہر کی دو رکعت پڑھیں اور لبیک پکاری حج اور عمرہ دونوں کی، اور یہ نماز ظہر کی فرض تھی۔ اور احرام کی دو رکعتیں پڑھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہیں ثابت نہیں سوا فرض ظہر کے، اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت پڑھیں، پس غالب ہے کہ یہ ظہر ہی کی دو رکعتیں ہوں اور احرام کی نہ ہوں، چنانچہ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں اور ذی الحلیفہ میں دو، پس یہ رکعتیں ظہر ہی کی تھیں اور قول ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کا قوی معلوم ہوتا ہے، غرض جنہوں نے سب روایتوں میں غور نہیں کیا انہوں نے سمجھا کہ یہ احرام کی تھیں، اور قصواء آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کا نام تھا۔ (یہاں تک کہ جب آپ کو لے کر سے وہی ہم نے بھی کیا) تک قولہ، سوار اور پیادے اس سے۔ (15) مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ حج میں سوار اور پیادہ دونوں طرح جانا روا ہے اور یہ مسئلہ ایسا ہے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے اور دلائل کتاب و سنّت اس میں موجود ہیں، چنانچہ الله تعالیٰ جل شانہ فرماتا ہے: « ﴿وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ﴾[الحج: 27] » اور اختلاف ہے علماء کا اس میں کہ افضل کیا ہے، سو امام شافعی اور امام مالک رحمہما اللہ اور جمہور کا قول ہے کہ سواری پر جانا افضل ہے اس لئے کہ اس میں پیروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی، اور اس لئے بھی کہ اس میں مناسک کا ادا کرنا آسان ہے، اور اس لئے بھی کہ اس میں خرچ زیادہ ہوتا ہے، اور جتنا خرچ زیادہ ہو اتنا ہی ثواب زیادہ ہے اس لئے کہ وہ الله تعالیٰ کی راہ میں ہے۔ اور امام داؤد رحمہ اللہ کا قول ہے کہ پیدل جانا افضل ہے کہ اس میں مشقت زیادہ ہے، اور یہ قول ٹھیک نہیں اس لئے کہ مشقت مطلوب نہیں بلکہ پیروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مطلوب ہے۔ (16) یہ مسئلہ ہے کہ یہ جو کہا کہ ان پر قرآن اترتا تھا اس سے ثابت ہوگیا کہ جو عمل ان کی طرف سے روایت ہو اسی کو اختیار کرنا ضروری ہے اور وہی دین ہے، نہ وہ قول و فعل جو رائے سے نکالا گیا ہو کہ وہ ہرگز قابلِ اخذ نہیں، نہ وہ دین ہو سکتا ہے۔ یعنی جن صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لبیک پر کچھ زیادہ کئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہیں کیا۔ اس سے: (17) مسئلہ معلوم ہوگیا کہ لبیک میں زیادتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منظور کی اور یہ جو کہا کہ توحید کے ساتھ، اس سے معلوم ہوا کہ مشرک لوگ جو شرک کی باتیں بڑھاتے تھے ان کو حضرت نے نکال دیا، اور اکثر علماء نے کہا ہے کہ فقط اتنا ہی لبیک کہنا جتنا حضرت سے ثابت ہے مستحب ہے، اور یہی قول ہے امام مالک و امام شافعی رحمہم اللہ کا۔ (یہاں تک کہ جب ہم بیت اللہ سے جو صفا کی طرف ہے، تک) اس سے کئی مسئلے معلوم ہوئے، چنانچہ: (18) یہ ہے کہ طوافِ قدوم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار رمل کیا اور چار بار بدستور متعارف چلے، اس سے ثابت ہوا کہ طوافِ قدوم سنّت ہے اور اس پر ساری امّت کا اتفاق ہے۔ (19) یہ کہ طواف سات پھیرے ہے۔ (20) یہ کہ رمل تین پھیروں میں اوّل کے سنّت ہے، اور رمل اچھل کر چلنے کو کہتے ہیں اور ہر پھیرے کو شوط کہتے ہیں، اور اصحابِ شافعیہ کا قول ہے کہ ایک طواف میں خواه حج کا ہو یا عمرہ کا رمل سنّت ہے، اور سوا حج اور عمرہ کے جو طواف ہو اس میں رمل سنّت نہیں، اور جلدی چلنا بھی ایک میں سنّت ہے دوسرے طواف میں نہیں، اور اس میں شافعی کے دو قول مشہور ہیں۔ اصح قول یہ ہے کہ جلدی چلنا اس طواف میں سنّت ہے جس کے بعد سعی ہے ورنہ نہیں، اور یہ صورت طوافِ قدوم اور طوافِ افاضہ میں ہو سکتی ہے کہ ان دونوں کے بعد سعی ہو سکتی ہے، اور طوافِ وداع میں نہیں ہو سکتی، اور دوسرا قول یہ ہے کہ جلدی نہ چلے مگر طوافِ قدوم میں خواہ اس کے بعد سعی کا ارادہ ہو یا نہ ہو۔ اور اسی طرح طوافِ عمرہ میں جلدی اس لئے کہ عمره میں اس کے بعد کوئی طواف نہیں اور اسی طرح سنّت ہے اضطباع۔ (21) مسئلہ: اضطباع یہ ہے کہ چادر بیچ داہنی بغل کے نیچے ڈال دے اور دونوں سرے ایک آگے سے ایک پیچھے سے لے کر بائیں کندھے پر ڈال دے، اور دایاں کندھا کھلا رہے کہ اس میں ایک بہادری پائی جاتی ہے، اور یہ اضطباع بھی اسی طواف میں سنّت ہے جس میں رمل سنّت ہے، اور اصل رمل کی یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمرۂ قضاء میں مکہ تشریف لائے تو مشرکانِ مکہ نے کہا کہ ان کو مدینہ کے تپ نے دبلا کر دیا اور یہ سست ہو گئے، سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یاروں کو حکم دیا کہ اس طرح طواف کریں کہ کافروں پر رعب ہو جائے اور بہادری اور قوت مسلمانوں کی ان پر ظاہر، اور بعد اس علت دور ہو جانے کے بھی یہ حکم حجۃ الوداع میں باقی رہا، اب وہ قیامت تک سنّت ہوگیا، بخلاف حصہ مولفہ کے کہ وہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تھا اب نہ رہا۔ (22) مسئلہ یہ ہے کہ جب طواف سے فارغ ہو تو مقامِ ابراہیم کے پیچھے آ کر دو رکعت طواف کی ادا کرے، اور اس میں اختلاف ہے کہ یہ واجب ہے یا سنّت، اور شافعیہ کے اس میں تین قول ہیں، اوّل: اور سب سے صحیح اور پکا یہ ہے کہ یہ سنّت ہے۔ دوسرا: یہ کہ واجب، تیسرا: یہ کہ اگر طواف واجب ہے تو یہ رکعتیں بھی واجب ہیں، اور اگر طواف سنّت ہے تو یہ بھی سنّت ہیں اور بہر حال اگر کسی نے ان کو نہ پڑھا تو طواف اس کا باطل نہیں ہوتا، اور مسنون یہی ہے کہ ان کو مقامِ ابراہیم کے پیچھے پڑھے اور اگر وہاں جگہ نہ ملے تو حجر میں (یعنی حطیم میں پڑھے) اور نہیں تو مسجد میں، نہیں تو حرم میں، اور اگر اپنے وطن میں جا کر پڑھے جب بھی رواے ہے، اور اگر کئی بار پورا طواف یعنی سات سات شوط کر کے پھر ہر طواف کے لئے دو دو رکعت ادا کرے تو بھی اصحابِ شافعیہ کے نزدیک جائز ہے مگر خلافِ اولی ہے اور مکروہ نہیں، اور اسی کے قائل ہیں سیدنا مسور بن مخرمہ و سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما اور طاؤس اور عطار اور سعید بن جبیر اور احمد اور اسحاق اور ابویوسف، اور مکروہ کہا ہے اس کو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اور حسن بصری اور زہری اور مالک اور ثوری اور ابوحنیفہ اور ابوثور اور محمد بن حسن اور ابن منذر نے، اور نقل کیا ہے اس کو قاضی عیاض نے جمہورِ فقہاء۔ (23) مسئلہ یہ ہے کہ طواف کی رکعتوں میں پہلی رکعت میں « ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ﴾ » اور دوسری میں « ﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ﴾ » پڑھنا سنّت ہے۔ (24) مسئلہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ طوافِ قدوم کے بعد سنّت ہے کہ جب دو رکعتوں سے فارغ ہو تو پھر حجرِ اسود کو چھوئے اور باب الصفا سے نکلے، اور اسی پر اتفاق ہے کہ یہ چھونا واجب نہیں، اور اگر نہ چھوے تو کچھ دم لازم نہیں آتا، اور یہی قول ہے امام شافعی رحمہ اللہ کا۔ (25) مسئلہ یہ ہے کہ اس روایت میں « ﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ﴾ » پہلے مذکور ہے اور « ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ﴾ » بعد میں، تو معلوم ہوا کہ پہلی رکعت میں « ﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ﴾ » پڑھے اور دوسری میں « ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ﴾ » ، اور اس سے ثابت ہوا کہ مقدم مؤخر سورتیں پڑھنا ہے اگرچہ بعض جہال اس میں تعجب کریں، اور بعض روایتوں میں اس کے برعکس بھی آیا ہے جیسے ہم نے تیسویں مسئلہ میں لکھا ہے، ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں فرمایا کہ طوافِ قدوم میں اختلاف ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدل کیا یا سواری پر، اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ طوافِ قدوم پیدل کیا، اور جن روایتوں میں حجۃ الوداع میں اونٹ پرطواف کرنا آیا ہے، مراد اس سے شاید طوافِ افاضہ ہو، اور ابن حزم نے جو صفا اور مروہ کے طواف میں کہا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سوار تھے اونٹ پر اور تین بار دوڑا اور چار بار آہستہ چلے، یہ ان کی غلطی ہے، حقیقت میں یہ دوڑنا تین بار اور چار بار آہستہ چلنا ہی طواف بیت اللہ میں واقع ہوا ہے نہ سعی بین الصفا و المروہ میں، پھر کہا ہے کہ صفا اور مروہ میں ہر بار بطنِ وادی یعنی بیچ کے نشیب کی جگہ میں جہاں اب دو سبز کھمبے کھڑے کر دیئے ہیں میں دوڑنا مسنون ہے اور باقی راہ میں آہستہ چلنا، اور کہا ہے کہ میں نے اپنے استاد شیخ ابن تیمیہ قدس الله روحہ سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ ابن حزم کی بھول ہے اور یہ بھول ایسی ہے جیسے کسی نے کہا ہے کہ حضرت چودہ بار پھرے صفا اور مروہ کے بیچ میں اور وہ یہ سمجھا کہ شاید آنے اور جانے دونوں کو ملا کر ایک سعی کہتے ہیں، اور ایسے ہی سات مرتبہ کرنا چاہیے حالانکہ یہ صریح غلط ہے اس لئے کہ اگر ایسا ہوتا تو سعی صفا پر تمام ہوتی جہاں سے شروع ہوئی تھی اور یہ بخوبی ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعی مروہ پر ختم کی اور صفا سے شروع کی۔ پھر جب صفا کے قریب پہنچنے سے طواف تمام ہوا مروہ پر، تک اس سے بہت مناسک معلوم ہوئے، چنانچہ: (26) مسئلہ یہ ہے کہ صفا سے شروع کرنا چاہیے اور یہی قول ہے شافعی اور مالک اور جمہور کا، نسائی میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم فرمایا کہ شروع کرو وہیں سے جہاں سے شروع کیا ہے اللہ نے، اور اسناد اس کی صحیح ہے۔ (27) مسئلہ ہے کہ صفا اور مروہ پر چڑھنا چاہیے، اور اس چڑھنے میں اختلاف ہے، جمہور شافعیہ نے کہا ہے کہ چڑھنا سنّت ہے، نہ شرط ہے نہ واجب ہے، اور اگر کوئی اس پر نہ چڑھا تو سعی ہوگئی مگر فضیلت فوت ہوئی، اور ابوالحفص بن وکیل شافعی کا قول ہے کہ سعی صحیح نہیں ہوئی اور صواب وہی قولِ اوّل ہے مگر ضرور ہے کہ صفا کی دوڑ میں ایڑیاں لگا کر سعی شروع کرے اور مروہ کی دوڑ میں پیر کی انگلیاں لگا کر تمام کرے کہ سعی ناقص نہ ہو۔ (28) یہ ہے کہ مستحب ہے کہ اتنا چڑھے کہ کعبہ دکھائی دے اگر ممکن ہو ورنہ خیر۔ (29) یہ ہے کہ مستحب ہے بلکہ مسنون ہے کہ صفا پر کھڑا ہو اور وہیں ادعیات پڑھے اور دعا کرے قبلہ رخ ہو کر اور تین بار ذکر اور تین بار دعا کرے، اور بعضوں نے کہا تین بار ذکر اور دو بار دعا کرے مگر قولِ اوّل صحیح ہے، اور اس دعا میں اشارہ ہے کہ جنگِ احزاب میں تمام قبائلِ عرب مدینہ میں صلی اللہ علیہ وسلم پر چڑھ آئے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کو بھگا دیا اور یہ جنگ جس کو خندق کہتے ہیں چوتھے سال ہجرت کے یا پانچویں سال میں ماہِ شوال میں واقع ہوئی۔ (30) یہ کہ وادی کے بیچ میں دوڑنا مستحب ہے باقی چلنا حسبِ عادت، اور اس دوڑنے کو سعی کہتے ہیں، اور ہر بار میں جب وادی کے بیچ میں پہنچے دوڑ کر چلے اور اگر کسی نے اس کو ترک کیا تو فضیلت فوت ہوئی، یہ مذہب ہے شافعی کا اور ان کے موافقین کا، اور امام مالک نے کہا ہے کہ جو خوب نہ دوڑا اس پر دوباره اعادہ واجب ہے، اور ایک دوسری روایت بھی ان سے آئی ہے۔ (31) مسئلہ یہ ہے کہ مروہ پہنچ کر بھی وہی ذکر اور دعا کرے جو صفا پر کی ہے، اور یہ متفق علیہ مسئلہ ہے۔ (32) مسئلہ یہ ہے کہ معلوم ہوا کہ سعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مروہ پر تمام ہوئی تو صفا سے مروہ پر پہنچنا یہ ایک پھیرا ہوا اور وہاں سے پھر صفا پر آنا دوسرا پھیرا ہے، ایسے ہی سات پھیرے چاہئے، اور یہی مذہب ہے جمہور سلف وخلف کا۔ صرف دو شخصوں نے غلطی اور خطا سے ہمارا خلاف کیا ہے اور کہا ہے کہ صفا سے جانا اور پھر صفا پر آجانا یہ ایک پھیرا ہوا غرض ایسے ہی سات پھیرے کہ جمہور کے حساب سے چودہ پھیرے ہوتے ہیں ضرور ہے، اور یہ قول ان کا حدیث سے مردود ہو گیا ہے اس لئے کہ اس صورت میں سعی صفا پر تمام ہوتی اور اس میں مذکور ہے کہ مروہ پر تمام ہوئی، اور دو شخص ابن بنت شافعی اور ابوبکر صیرفی ہیں اصحابِ شافعیہ سے ہیں، اور اب عمل ساری امّت کا جمہور کے موافق ہے، ابن قیم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے زاد المعاد میں ان صاحبوں کے قول کو خطا کہا ہے۔ قولہ ”مجھے اگر پہلے سے معلوم ہوتا“ الى ”جن کے ساتھ قربانی تھی“ اس سے معلوم ہوگیا کہ انبیاء علمِ غیب نہیں ہوتا جب تک اللہ پاک کسی بات کی خبر بذریعہ وحی یا الہامِ صحیح کے نہ دے تب تک بات معلوم کر لینا ان کا کام نہیں، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آرزو کی کہ اگر ہدی ساتھ نہ ہوتی تو احرام حج کا عمرہ کر کے فسخ کر ڈالتا کہ اس میں آسانی اور سہولت ہے امّت کے لئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب اختیار دیا جاتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو باتوں میں تو اسے اختیار کرتے جو آسان یا آسان تر ہوتی۔ اب اس سے باطل ہوگیا قول ان لوگوں کا جو حج کے فسخ کے قائل نہیں عمرہ کر کے، اور بڑی تائید ہوئی مذہب ظاہر یہ ہے کہ جو فسخ حج بعمرہ کے قائل ہیں، اور اس کے مانعین دو عذر بڑے پیش کرتے ہیں: اوّل یہ کہ جب صحابہ میں اختلاف ہوا اس کے جواز و عدم جواز میں تو احتیاط یہی ہے کہ فسخ نہ کرے اور اس کا جواب تو اتنا ہی کافی ہے کہ احتیاط جب ہوتی ترکِ فسخ میں کہ سنّتِ رسول الثقلین ہم پر ظاہر نہ ہوتی، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت ظاہر ہوگئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت تک کے لئے فرما دیا سراقہ بن جعشم کے جواب میں، تو اب احتیاط اتباعِ سنّت میں ہے نہ ترکِ سنّت میں۔ اور دوسرا عذر یہ کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو فسخ حج کا حکم اس لئے دیا کہ معلوم ہو جائے ان لوگوں کو کہ عمرہ حج کے مہینوں میں جائز ہے اس لئے کہ جاہلیت کے زمانہ میں عمرہ حج کے مہینوں میں ممنوع جانتے تھے اور یہ عذر اس سے بھی زیادہ لغو ہے، اور اس کا جواب اوّل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پہلے تین عمرے کر چکے تھے اور وہ تینوں ذیقعدہ کے مہینے میں ہوئے تھے اور ذیقعدہ حج کے مہینوں میں سے ہے تو اب امرِ ممنوع کے بجا لانے کی جس کو منع کرنے ہو کیا ضرورت رہی۔ دوسرے یہ ہے کہ صحیحین میں روایات متعددہ میں یہ امر مذکور ہو چکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میقات پر اجازت دی کہ جو چاہے عمرہ کا احرام کرے، جو چاہے حج کا اور جو چاہے حج و عمرہ دونوں کا، پھر اسی سے معلوم ہوگیا کہ عمرہ حج کے مہینوں میں جائز ہو گیا اب فسخ کی کیا ضرورت رہی۔ تیسرے یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بخوبی تصریح کر دی اور صاف فرما دیا کہ جس کے پاس ہدی نہیں ہے وہ احرام کھول ڈالے اور جس کے پاس ہدی ہے وہ محرم رہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آرزو کی اگر میں ہدی نہ لاتا تو احرام کھول ڈالتا، غرض دونوں قسم کے محرموں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرق کیا تو بخوبی ثابت ہوگیا کہ احرام ہرگز مانع فسخ نہیں بلکہ ہدی کا ساتھ لانا مانع فسخ ہے، اور تم جو علت فسخ کی بیان کرتے ہو (یعنی: تاکہ صحابہ کو معلوم ہو جائے کہ ایامِ حج میں عمرہ درست ہے) یہ ہر محرم میں پائی جاتی ہے اور ایسی نہیں ہے کہ ایک محرم میں پائی جائے اور دوسری میں نہ پائی جائے حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدی کو فارق ٹھہرایا کہ جو لایا ہے وہ فسخ نہ کرے اور جو نہیں لایا ہے وہ فسخ کر دے، اور اگر وہ علت ہوتی جو تم نے کہی ہے تو سب کو فسخ کا حکم دیا، غرض اسی طرح کے گیارہ جواب مانعینِ فسخ کو علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے زاد المعاد میں دیئے ہیں «(فمن أراد الزيادة فليرجع إليه)» اور یہ جو مذکور ہوا یعنی علم غیب نہ ہونا۔ (33) مسئلہ ہے اس حدیث کا اور جواز فسخِ حج۔ (34) اور یہ جو ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے برا مانا الخ، اس سے معلوم ہوا کہ خاوند اپنی بیوی کو خلافِ شرع کام پر ڈانٹ پلا سکتا ہے اگرچہ وہ پیغمبر زادی ہو پھر اوروں کا تو کیا ذکر ہے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو تو یہی خیال ہوا پھر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت معلوم ہوگئی چپ ہو گئے۔ (35) مسئلہ یہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی لبیک سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی یوں احرام باندھے کہ یا اللہ میرا احرام وہی ہے جو فلاں شخص کا احرام ہو، تو یہ روا ہے۔ (36) مسئلہ یہ ہے کہ راوی نے کہا کہ انہوں نے بال کترائے، اور اس سے معلوم ہوا کہ کتروانا بھی روا ہے گو منڈانا سر کا افضل ہے مردوں کو، مگر صحابہ نے یہاں افضل پر اس لئے عمل نہ کیا کہ اگر منڈاتے تو حج کے وقت مطلق بال نہ رہتے اس لئے یہاں تقصیر پر کفایت کی اور حلق نہ کیا۔ پھر جب ترویہ کا دن ہوا تو دونوں (ظہر و عصر) کے بیچ میں کچھ نہیں پڑھا، اس سے کئی مسائل معلوم ہوئے چنانچہ مع مسائل سابقہ: (37) مسئلہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے لئے آٹھویں تاریخ منیٰ کا ارادہ کیا، اس سے معلوم ہوا کہ جو مکہ میں ہو وہ آٹھویں تاریخ احرام باندھے اور یہی مذہب ہے امام شافعی اور ان کے موافقین کا کہ ان کے نزدیک افضل یہی ہے اسی حدیث کی رو سے۔ (38) یہ کہ سنّت یہی ہے کہ آٹھویں تاریخ سے پہلے منیٰ نہ جاوے۔ اور امام مالک نے پہلے اس سے جانے کو مکروہ کہا ہے اور بعض سلف نے کہا ہے کچھ مضائقہ نہیں اگر پہلے جاوے۔ (39) اور یہ جو فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سوار ہوئے، اس سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ اس جگہ میں سوار ہونا افضل ہے پیدل چلنے سے، جیسے اور راہوں میں حج کے سوار ہونا افضل ہے پیدل چلنے سے۔ اور امام نووی نے اسی کو صحیح کہا ہے اور امام شافعی کا ایک قول ضعیف بھی ہے کہ پیدل چلنا افضل ہے۔ (40) یہ کہ منیٰ میں یہ پانچ نمازیں پڑھنا مسنون ہیں جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھیں۔ (41) یہ کہ منیٰ میں اس شب یعنی نویں رات کو رہنا سنّت ہے اور یہ رہنا مسنون ہے کچھ رکن نہیں، نہ واجب ہے، اور اگر کسی نے اس کو چھوڑ دیا تو اس پر دم واجب نہیں ہوتا اور اس پر اجماع ہے۔ (42) یہ کہ جو کہا: ”جب آفتاب نکل آیا“ اس سے ثابت ہوا کہ منیٰ سے نہ نکلے جب تک آفتاب طلوع نہ ہو اور یہ سنّت ہے باتفاق۔ (43) یہ کہ نمرہ میں اترنا مستحب ہے کہ سنّت یہ ہے کہ عرفات میں داخل نہ ہوں جب تک آفتاب ڈھل نہ جائے، پھر جب آفتاب ڈھل جائے ظہر اور عصر ملا کر پڑھیں۔ پھر عرفات میں داخل ہوں اس لئے نمرہ میں اترنا مسنون ہوا۔ پھر جس کا خیمہ ہو لگایا جائے اور زوال کے قبل غسل کریں وقوفِ عرفات کے لئے۔ پھر جب زوال ہو جائے امام لوگوں کے ساتھ مسجد ابراہیم میں جائے اور وہاں دو چھوٹے چھوٹے خطبے پڑھے اور دوسرا خطبہ بہت چھوٹا ہو۔ پھر اس کے بعد ظہر اور عصر دونوں کو جمع کر کے ادا کرے، پھر نماز سے فارغ ہو کر موقف میں جائے۔ (44) مسئلہ یہ ہے کہ معلوم ہوا کہ محرم کو خیمہ میں یا اور سایہ کے نیچے رہنا درست ہے۔ (45) خیموں کا رکھنا روا ہے بالوں کے ہوں خواہ اور کسی چیز کے۔ اور نمرہ ایک موضع ہے عرفات کی بغل میں اور عرفات میں داخل نہیں۔ قولہ ”قریش یقین کرتے تھے“ اس کا مطلب یہ ہے کہ قریش تمام عرب کے خلاف کرتے تھے کہ عرب لوگ عرفات میں جا کر وقوف کرتے اور قریش مزدلفہ میں کھڑے رہتے اور کہتے کہ ہم الله تعالیٰ کے گھر والے ہیں ہم حرم سے باہر نہ جائیں گے اور مزدلفہ حرم میں ہے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بفرمانِ واجب الاذعان قرآن کے عرفات میں جا کر وقوف کیا جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: « ﴿ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ﴾[البقرة: 199] » یعنی پھر لوٹو وہاں سے جہاں سے سب لوگ لوٹتے ہیںو یعنی عرفات سے۔ (46) قولہ ”یہاں تک کہ جب آفتاب ڈھل گیا“ اس سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ عرفات میں داخل ہونا قبل صلوٰة ظهر و عصر کے خلافِ سنّت ہے۔ قولہ ”آپ وادی کے بیچ میں پہنچے الخ“ یہ وادی «عُرَنَه» ہے جس میں عین کو پیش را کو زبر اس کے بعد نون ہے اور عرنہ عرفات میں داخل نہیں امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک اور تمام علماء کا یہی قول ہے مگر امام مالک فرماتے ہیں کہ عرفات میں ہے۔ (47) قولہ ”پھر خطبہ پڑھا الخ۔ “ اس سے مسئلہ یہ معلوم ہوا کہ خطبہ دینا مستحب ہے امام کو عرفہ کے دن۔ اور یہ باتفاقِ امّت مسنون ہے اور جمہور کا یہی قول ہے، اور خلاف کیا ہے اس میں مالکیہ نے، اور مذہب شافعی کا یہ ہے کہ حج میں چار خطبے سنّت ہیں: ایک تو ساتویں تاریخ ذی الحجہ کی کعبہ کے پاس بعد ظہر کے۔ دوسرے یہی جو مذکور ہوا عرنہ میں عرفات کے دن۔ تیسرے یوم النحر میں یعنی دسویں تاریخ۔ چوتھے کوچ کے دن منیٰ سے جس کو یوم نفر اوّل کہتے ہیں اور وہ ایامِ تشریق کا دوسرا دن ہے یعنی بارہویں تاریخ۔ اور اصحاب شافعیہ نے کہا ہے کہ یہ سب جگہ ایک ہی ایک خطبہ ہے مگر عرفات کے دن کہ اس میں دو ہیں، اور اسی طرح یہ سب خطبے بعد نمازِ ظہر کے ہیں مگر خطبہ عرفات کہ وہ قبل ظہر کے ہے اور ہر خطبہ میں احکامِ ضروری کی تعلیم کرنا ضرور ہیں۔ قولہ ”اور تمہارے خون اور اموال الخ“ اس میں بڑی تاکید فرمائی کہ جیسے عرب کو اس دن کی حرمت اور اس ماہ کی حرمت اور اس شہرِ مکہ کی حرمت بخوبی معلوم تھی ویسے ہی ایک دوسرے کو مارنا، مال لوٹنا، ایذاء دینا اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام فرمایا اور اس سے ثابت ہوا۔ (48) مسئلہ یہ ک نظیر دینا اور مثال بیان کرنا اور تشبیہ دینا درست ہے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں مال و جاہ کی حرمت کی تشبیہ دی۔ قولہ ”ہر چیز ایام جاہلیت کی میرے پیروں کے نیچے ہے الخ“ اس سے مقصود یہ ہے کہ بیع و شراء، اور معاملات ایسے کہ جن میں ابھی قبضہ نہیں، اور خون ایسے جن کا قصاص نہیں لیا گیا، اور سود جو وصول نہیں کیا گیا اس کا مطالبہ اب نہ کرنا چاہیے اور یہ سب باطل اور لغو ہو گیا۔ اور ابن ربیعہ کا نام محققوں نے لکھا ہے کہ ایاس تھا بیٹا ربیعہ کا، وہ بیٹا حارث کا، وہ بیٹا عبدالمطلب کا، اور بعضوں نے اس کا نام حارثہ کہا ہے اور یہ لڑکا چھوٹا تھا اور گھروں میں گھٹنوں کے بل چلتا تھا، اور بنی سعد اور بنی لیث کے بیچ میں لڑائی ہوئی اور اس کے ایک پتھر لگا اور مر گیا یقول ہے زبیر بن بکار کا۔ (49) اور یہ جو فرمایا: ”ڈرو اللہ سے عورتوں پر الخ“ اس سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ عورتوں کے ساتھ حسن سلوک اور اخلاق اور محبت اور نرمی سے بسر کرنا ضروری ہے، اور اس بارے میں بہت احادیث آئی ہیں اور بہت ڈرایا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی حق تلفی سے، اور فرمایا ہے کہ ”تم میں سے بہتر وہ ہے جو عورتوں کے ساتھ اچھی طرح رہتا ہے۔ “ اور امام نووی کی اس بارے میں ایک کتاب ہے ریاض الصالحیں۔ اور یہ جو فرمایا: ”حلال کیا ہے تم نے ان کے ستر کو الخ“ یعنی الله تعالیٰ نے فرمایا ہے: « ﴿فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾[البقرة: 229] » اس حکمِ خدائے تعالیٰ سے ان کی فروج تم پر حلال ہوئی ہیں، اس کا خیال رکھو کہ انہیں تکلیف نہ دو اور ان کے حقوق تلف نہ کرو یا اس سے مراد کلمۂ توحید «لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰه» ہے کیونکہ مسلمان عورت غیر مسلمان مرد کو جائز نہیں، یا مراد اس سے یہ آیت: « ﴿فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ﴾[النساء: 3] » یا مراد کلمہ سے ایجاب و قبول ہے اور یہ کلمہ اللہ ہی نے بتایا ہے۔ اور یہ جو فرمایا: ”تمہارے بچھونے پر الخ“ اس سے زنا مراد نہیں اس لئے کہ اس میں تو رجم ہے یعنی پتھراؤ کر کے مار ڈالنا بلکہ مراد یہ ہے کہ کسی غیر کے ساتھ تخلیہ نہ کریں یا کسی کو گھر میں نہ آنے دیں جب تک کہ اجازت نہ ہو، خواہ مرد ہو، خواہ عورت، خواہ اجنبی ہو، خواہ بی بی کے محارم میں سے ہو، غرض بغیر اجازت شوہر کے کسی کو گھر میں آنے نہ دینا چاہیے، پھر خواہ اجازت زبان سے پائی جائے خواہ عرف و عادت سے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد هو ابن زيد، عن ايوب، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال: بينا رجل واقف مع النبي صلى الله عليه وسلم بعرفة، فوقع عن راحلته او قال: فاقعصته، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "اغسلوه بماء وسدر، وكفنوه في ثوبين، ولا تحنطوه، ولا تخمروا راسه، فإن الله تعالى يبعثه يوم القيامة ملبيا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ هُوَ ابْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: بَيْنَا رَجُلٌ وَاقِفٌ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَةَ، فَوَقَعَ عَنْ رَاحِلَتِهِ أَوْ قَالَ: فَأَقْعَصَتْهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ، وَكَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْنِ، وَلَا تُحَنِّطُوهُ، وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَبْعَثُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّيًا".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ایک آدمی میدان عرفات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وقوف کئے ہوئے تھا کہ اپنی سواری سے گر پڑا، یا کہا: اور اونٹ نے انہیں کچل دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے کر دو کپڑوں کا کفن دو، انہیں نہ خوشبو لگانا نہ ان کا سر ڈھانکنا، کیونکہ قیامت کے دن الله تعالیٰ انہیں لبیک کہتے ہوئے اٹھائے گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1894]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1266]، [مسلم 1206]، [أبوداؤد 3238]، [ترمذي 951]، [نسائي 1903]، [ابن ماجه 3084]، [أبويعلی 2337]، [ابن حبان 3957]، [الحميدي 471]