سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ پر بیٹھ کر بیت اللہ کا طواف کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی حجر اسود کے پاس سے گزرتے تو جو چیز (عصا وغیرہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہوتی تو اس کی طرف اس سے اشارہ کرتے اور اللہ اکبر کہتے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 1882) رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس حدیث سے سواری پر طواف کرنا اور حجرِ اسود کی طرف چھڑی سے اشارہ کرنا اور اللہ اکبر کہنا ثابت ہوا، امام شافعی و امام احمد رحمہما اللہ کا یہ ہی مسلک ہے کہ سواری پر بیٹھ کر طواف کرنا عذر کے باعث جائز ہے، اور حجرِ اسود چومتے یا اس کی طرف اشارہ کرتے وقت طواف کرنے والا یہ کہے: «بِسْمِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ أَكْبَرُ اَللّٰهُمَّ إِيْمَانًا بِكَ وَتَصْدِيْقًا بِكِتَابِكَ وَوَفَاءً بِعَهْدِكَ وَإِتِّبَاعًا لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ مُحَمَّدٍ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.» اس کے بعد طواف شروع کرے۔ والله اعلم۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1887]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1607]، [مسلم 1272]، [ترمذي 865]، [ابن حبان 3825]