سیدنا حجاج بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کی ہڈی ٹوٹ جائے یا وہ لنگڑا ہو جائے تو وہ حلال ہو گیا (یعنی احرام کھول دے) اور اس پر (آئندہ سال) دوسرا حج واجب ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1936]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1862]، [ترمذي 940]، [نسائي 2860]، [ابن ماجه 3077]، [طبراني 3211، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح احادیث 1931 سے 1933) احادیث الباب سے ثابت ہوا کہ احرام باندھنے کے بعد کوئی دشمن یا مرض کی وجہ سے حج یا عمرہ پورا نہ کر سکے وہ احرام کھول دے اور اس کی قضا کرے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن موسى، اخبرنا ابن جريج، عن ابي الزبير، عن جابر، قال: "رمى رسول الله صلى الله عليه وسلم الجمرة يوم النحر: الضحى، وبعد ذلك عند زوال الشمس".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: "رَمَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجَمْرَةَ يَوْمَ النَّحْرِ: الضُّحَى، وَبَعْدَ ذَلِكَ عِنْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ عقبہ کی رمی قربانی کے دن چاشت کے وقت کی، اس کے بعد جو رمی (کنکری مارنا) کی وہ زوال کے بعد۔ (یعنی 11، 12، 13 ذی الحجہ کو زوال کے بعد کنکری ماری)۔
تخریج الحدیث: «إلى قوله عليه الصلاة والسلام " يوم النفر " اسناده ضعيف لإنقطاعه عبد الله بن أبي بكر لم يسمع أبا البداح وإلى (أبي البداح) اسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1938]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1299/314]، [أبوداؤد 1971]، [ترمذي 894]، [نسائي 3063]، [ابن ماجه 3053، وغيرهم]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إلى قوله عليه الصلاة والسلام " يوم النفر " اسناده ضعيف لإنقطاعه عبد الله بن أبي بكر لم يسمع أبا البداح وإلى (أبي البداح) اسناده صحيح
ابوالبداح بن عاصم نے اپنے والد سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ چرانے والوں کو اجازت دی کہ وہ نحر کے دن رمی کر لیں، پھر دوسرے دن یا کل کے بعد ایک ساتھ دو دن کی رمی کر لیں، پھر جس دن منیٰ سے واپسی کا ارادہ ہو اس دن رمی کر لیں۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: بعض رواة نے عبدالله بن ابی بکر عن ابیہ عن ابی البداح کہا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1939]» یہ دو اسناد ہیں، پہلی سند ضعیف اور دوسری سند جس کا حوالہ امام دارمی رحمہ اللہ نے دیا ہے صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1975]، [ترمذي 955]، [نسائي 3069]، [ابن ماجه 3027]، [أبويعلی 6836]، [ابن حبان 3888]، [موارد الظمآن 1015]، [الحميدي 877]
وضاحت: (تشریح احادیث 1933 سے 1935) اونٹوں کے چرواہے اونٹ چرانے کے لئے منیٰ سے دور چلے جاتے تھے اور ان کو روزانہ منیٰ میں رمی کے لئے آنا دشوار تھا، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دی تھی کہ دو دن کی رمی آ کر ایک دن میں کر لیں، مثلاً یوم النحر کو کنکری مار کر چلے جائیں پھر 11 کو رمی نہ کریں 12 تاریخ کو آ کر دونوں دن کی رمی کر لیں۔
عبدالرحمٰن بن عثمان تیمی نے اپنے والد سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں ہمیں حکم دیا کہ ہم جمرہ عقبہ کی رمی چھوٹی چھوٹی کنکریوں سے کر لیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1940]» یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مجمع الزائد 5651]، [معجم الصحابة لابن قانع ترجمة 636، والأحاديث القادمة]
وضاحت: (تشریح حدیث 1935) «حصى الخذف» ایسی کنکری کو کہتے ہیں جو دو انگلیوں سے باآسانی پھینکی جا سکے، یعنی بڑے چنے کے برابر، تاکہ کسی کو لگ بھی جائے تو تکلیف نہ ہو۔
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن موسى، عن سفيان، عن ابي الزبير، عن جابر، قال:"امرهم رسول الله صلى الله عليه وسلم فرموا بمثل حصى الخذف، واوضع في وادي محسر، وقال: عليكم السكينة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:"أَمَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَمَوْا بِمِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ، وَأَوْضَعَ فِي وَادِي مُحَسِّرٍ، وَقَالَ: عَلَيْكُمْ السَّكِينَةَ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو حکم فرمایا، پس انہوں نے چھوٹی چھوٹی کنکریوں سے رمی کی اور وادی محسّر میں رفتار تیز رکھی، اور فرمایا: ”(سکون سے) آہستہ چلو۔“(یعنی وادی محسّر کے علاوہ)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1941]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1299]، [ترمذي 797]، [نسائي 3075]، [أبويعلی 2108]، [معرفة السنن والآثار 10110]
سیدنا عبدالرحمٰن بن معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو چھوٹی چھوٹی کنکریوں سے رمی جمار کا حکم فرماتے تھے۔ امام دارمی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: کیا عبدالرحمٰن بن معاذ صحابی ہیں؟ فرمایا: ہاں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1942]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1957]، [نسائي 2996]، [مسند الحميدي 875]، [معجم الصحابة لابن قانع رقم الترجمة 626]
وضاحت: (تشریح احادیث 1936 سے 1938) ان تمام احادیث سے ثابت ہوا کہ جمرات پر چھوٹی کنکریوں سے رمی کرنی چاہے، بڑی کنکری، پتھر، جوتے اور چپل وغیرہ پھینکنا خلافِ سنّت بلکہ غلو فی الدین ہے۔ [ابن ماجه 3029] میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکری مارتے ہوئے فرمایا: ”اے لوگو! تم دین میں غلو کرنے سے بچنا، تم سے پہلے لوگ دین میں غلو کی وجہ سے تباہ و برباد ہوئے۔ “ اس لئے دین کے ہر کام میں غلو کرنا منع ہے، اس سے بچنا چاہئے۔
سیدنا قدامۃ بن عبداللہ بن عمار کلابی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سرخ و سفید اونٹنی پر جمرات کو کنکری مارتے دیکھا، جہاں نہ کسی کو مارتے، نہ بھگاتے اور نہ یہ کہتے تھے ہٹو بچو۔ (یعنی بڑے سکون سے رمی کرتے تھے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1943]» اس کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 903]، [نسائي 3061]، [ابن ماجه 3035]، [الطيالسي 1078]، [طبراني 77]، [أحمد 413/3]۔ اس سند میں ابوعاصم: ضحاک بن مخلد اور ابونعیم: فضل بن وکین ہیں۔
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمی جمار تک برابر تلبیہ پکارتے رہے۔ (یعنی دس ذوالحجہ کو جمرہ عقبہ کو کنکری مارنے تک تلبیہ کہتے رہے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1944]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1670]، [مسلم 1281]، [أبوداؤد 1815]، [ترمذي 918]، [نسائي 3055]، [أبويعلی 7616]، [ابن حبان 3804]، [الحميدي 467]
وضاحت: (تشریح احادیث 1938 سے 1940) پہلی حدیث سے سواری پر بیٹھ کر کنکری مارنے کا ثبوت ملا، نیز یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری ایسے امیروں اور جاہ و چشم والوں کی طرح نہ تھی کہ لوگوں سے کہا جائے ہٹو، بچو، دور ہو جاؤ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری آرہی ہے۔ اور دوسری حدیث سے تلبیہ کہنے کا وقت معلوم ہوا جو احرام باندھنے سے لیکر جمرۂ عقبہ کی رمی تک ہے، رمی کے بعد حجاج کرام بھی صرف تکبیرات ہی 13 تاریخ کی عصر تک کہتے رہیں گے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا عثمان بن عمر، اخبرنا يونس، عن الزهري، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان "إذا رمى الجمرة التي تلي المسجد مسجد منى، يرميها بسبع حصيات يكبر مع كل حصاة، ثم تقدم امامها فوقف مستقبل القبلة رافعا يديه، وكان يطيل الوقوف، ثم ياتي الجمرة الثانية فيرميها بسبع حصيات يكبر كلما رمى بحصاة، ثم ينحدر من ذات اليسار مما يلي الوادي رافعا يديه يدعو، ثم ياتي الجمرة التي عند العقبة، فيرميها بسبع حصيات، يكبر كلما رمى بحصاة، ثم ينصرف ولا يقف عندها". قال الزهري: سمعت سالم بن عبد الله يحدث بهذا الحديث، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: وكان ابن عمر يفعله.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ "إِذَا رَمَى الْجَمْرَةَ الَّتِي تَلِي الْمَسْجِدَ مَسْجِدَ مِنًى، يَرْمِيهَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ، ثُمَّ تَقَدَّمَ أَمَامَهَا فَوَقَفَ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ رَافِعًا يَدَيْهِ، وَكَانَ يُطِيلُ الْوُقُوفَ، ثُمَّ يَأْتِي الْجَمْرَةَ الثَّانِيَةَ فَيَرْمِيهَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ كُلَّمَا رَمَى بِحَصَاةٍ، ثُمَّ يَنْحَدِرُ مِنْ ذَاتِ الْيَسَارِ مِمَّا يَلِي الْوَادِي رَافِعًا يَدَيْهِ يَدْعُو، ثُمَّ يَأْتِي الْجَمْرَةَ الَّتِي عِنْدَ الْعَقَبَةِ، فَيَرْمِيهَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ، يُكَبِّرُ كُلَّمَا رَمَى بِحَصَاةٍ، ثُمَّ يَنْصَرِفُ وَلَا يَقِفُ عِنْدَهَا". قَالَ الزُّهْرِيُّ: سَمِعْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَفْعَلُهُ.
امام زہری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب جمرہ کی رمی کرتے، جو مسجد منیٰ کے قریب ہے، تو آپ سات کنکریاں مارتے اور ہر کنکری مارتے وقت تکبیر کہتے تھے، پھر تھوڑا آگے بڑھتے اور نرم ہموار زمین پر پہنچ کر قبلہ رخ کھڑے ہوتے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر دیر تک دعا کرتے رہتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے جمرہ پر آتے (یعنی جمرہ وسطیٰ) اور اس پر بھی سات کنکریاں مارتے اور ہر کنکری پر اللہ اکبر کہتے تھے، پھر بائیں جانب نشیب کی طرف آتے اور وہاں بھی قبلہ رخ کھڑے ہوتے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے، پھر جمرہ عقبہ کے پاس آتے اور یہاں بھی سات کنکریوں سے رمی کرتے اور ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہتے، اس کے بعد واپس ہو جاتے اور یہاں آپ دعا کے لئے نہیں ٹھہرتے تھے۔ امام زہری رحمہ اللہ نے کہا: میں نے سالم بن عبداللہ سے سنا جو اس حدیث کو اپنے والد سے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے تھے، نیز فرمایا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایسے ہی کیا کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1945]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1753]، [نسائي 3083]، [ابن ماجه 3032]، [أبويعلی 5577]، [ابن حبان 3887]، [موارد الظمآن 1014]
وضاحت: (تشریح حدیث 1940) مذکورہ بالا حدیث میں رمی کا ذکر گیارہویں تاریخ کا ہے جس میں سب سے پہلے رمی جمرہ کی ہے جو جمره مسجدِ خیف سے قریب پڑتا ہے، جمرہ سے دور ہٹ کر کھڑے ہو کر دعا کرنا سنّت ہے، اسی طرح جمرۂ وسطیٰ سے دور ہٹ کر ہاتھ اٹھا کر دیر تک دعا کرنا سنّتِ نبوی ہے، اور آخری جمرے پر کنکری مار کر کھڑے رہنا یا دعا مانگنا ثابت و صحیح نہیں۔ تمام اعمال کی قبولیت کی شرط یہ ہے کہ وہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت کے مطابق ہو، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ایسا ہی کیا کرتے تھے جیسا کہ حبیبِ کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا تھا اور وہ اتنی دیر تک دعا کرتے تھے جتنی دیر میں سورۂ بقرۃ ختم کی جاتی ہے۔ نیز ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہنا بھی اس حدیث سے ثابت ہوا جو اللہ تعالیٰ کے ذکر کو بلند کرنے کے لئے اور شیطان و اس کی ذریت کو ذلیل و خوار کرنے کے مرادف ہے۔