(حديث مرفوع) حدثنا ابو المغيرة، حدثنا الاوزاعي، عن يحيى، عن ابي قلابة، عن ابي المهاجر، عن ابي امية الضمري، قال: قدمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم من سفر فسلمت عليه، فلما ذهبت لاخرج، قال:"انتظر الغداء يا ابا امية". قال: فقلت: إني صائم يا نبي الله. فقال: "تعال اخبرك عن المسافر، إن الله وضع عنه الصيام، ونصف الصلاة". قال ابو محمد: إن شاء، صام، وإن شاء، افطر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَاجِرِ، عَنْ أَبِي أُمَيَّةَ الضَّمْرِيِّ، قَالَ: قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ سَفَرٍ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَلَمَّا ذَهَبْتُ لِأَخْرُجَ، قَالَ:"انْتَظِرْ الْغَدَاءَ يَا أَبَا أُمَيَّةَ". قَالَ: فَقُلْتُ: إِنِّي صَائِمٌ يَا نَبِيَّ اللَّهِ. فَقَالَ: "تَعَالَ أُخْبِرْكَ عَنْ الْمُسَافِرِ، إِنَّ اللَّهَ وَضَعَ عَنْهُ الصِّيَامَ، وَنِصْفَ الصَّلَاةِ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: إِنْ شَاءَ، صَامَ، وَإِنْ شَاءَ، أَفْطَرَ.
سیدنا ابوامیہ ضمری رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سفر سے آیا، جب میں نے واپسی کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوامیہ! دوپہر کے کھانے کے لئے رکو“، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! میں تو روزے سے ہوں، فرمایا: ”میرے پاس آؤ میں تمہیں مسافر کے روزے کا حکم بتاؤں، اللہ تعالیٰ نے مسافر پر روزے اور آدھی نماز کو معاف کر دیا ہے۔“ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: مسافر کا جی چاہے تو روزہ رکھے اور نہ جی چاہے تو نہ رکھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1753]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2408]، [ترمذي 715]، [نسائي 2273]، [ابن ماجه 1667]۔ اس حدیث میں ابوالمغيرہ: عبدالقدوس بن حجاج، ابوقلابہ: عبداللہ بن زید اور ابوامیہ: عمرو بن امیہ ضمری ہیں۔
وضاحت: (تشریح حدیث 1749) اس حدیث میں مسافر کے لئے روزہ اور آدھی نماز سے مراد یہ ہے کہ سفر میں فرض روزہ نہ رکھ سکے تو حضر میں اس کی قضا کرے کیونکہ فرض معاف نہیں ہے، اور آدھی نماز سے مراد چار رکعت والی نماز میں قصر کر کے دو رکعت پڑھنا ہے۔
عبید بن جبیر نے کہا: سیدنا ابوبصرہ غفاری رضی اللہ عنہ جب فسطاط (ایک شہر) سے رمضان میں نکلے تو میں ان کے ساتھ کشتی میں سوار ہوا، انہوں نے دوپہر کا کھانا نکالا اور کہا: قریب آ جاؤ، میں نے عرض کیا: کیا آپ ابھی شہری آبادی کو نہیں دیکھ رہے ہیں؟ سیدنا ابوبصرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے نفرت ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 1754]» اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2412]، [أحمد 398/6]، [المعجم الكبير للطبراني 279/2، 2169]
وضاحت: (تشریح حدیث 1750) مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رمضان میں سفر کے ارادے سے نکلتے تو افطار کر لیتے جیسا کہ سیدنا ابوبصرہ رضی اللہ عنہ نے کیا، ان کے نزدیک جو ایسا نہ کرے وہ سنّت سے اعراض کرتا ہے، اس حدیث سے علماء کرام نے استدلال کیا ہے کہ انسان جب سفر کے ارادے سے نکلے تو قصر اور افطار شروع کر سکتا ہے گرچہ وہ شہر کی آبادی سے دور نہ ہوا ہو۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص بنا عذر و بیماری کے رمضان کا ایک روزہ نہ رکھے تو ساری عمر کے روزے اس کو پورا نہ کر سکیں گے، چاہے وہ پوری عمر روزے رکھتا رہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 1755]» اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن متعدد طرق سے مروی ہے۔ دیکھئے: [أحمد 442/2]، [أبوداؤد 2397]، [ترمذي 723]، [نسائي 3278]، [ابن ماجه 1622]، [ابن ابي شيبه 105/3]، [عبدالرزاق 7475، وغيرهم]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص بلا عذر جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے (سفر اور مرض) رمضان کے ایک دن کا روزہ چھوڑ دے تو ساری عمر کے روزے اس کو پورا نہ کر سکیں گے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 1756]» اس حدیث کا حوالہ پیچھے گذر چکا ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 1751 سے 1753) یعنی قیامت تک بھی روزے رکھے گا تو وہ ثواب جو رمضان کے ایک روزے سے حاصل ہوتا حاصل نہ ہو سکے گا، تاہم بعض علماء نے کہا: ایسا مبالغہ کے طور پر فرمایا ورنہ دو ماہ کے روزے لگاتار اس کا بدل کافی ہیں۔
19. باب في الذي يَقَعُ عَلَى امْرَأَتِهِ في شَهْرِ رَمَضَانَ نَهَاراً:
19. جو شخص رمضان میں دن کے وقت اپنی بیوی سے جماع کر لے اس کا بیان
حدیث نمبر: 1754
اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا سليمان بن داود الهاشمي، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن الزهري، عن حميد بن عبد الرحمن، عن ابي هريرة، قال: اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجل، فقال: هلكت؟ فقال:"وما اهلكك؟ قال: واقعت امراتي في شهر رمضان، قال: "فاعتق رقبة". قال: ليس عندي. قال:"فصم شهرين متتابعين". قال: لا استطيع. قال:"فاطعم ستين مسكينا". قال: لا اجد. قال: فاتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بعرق فيه تمر، فقال:"اين السائل؟ تصدق بهذا". فقال: اعلى افقر من اهلي يا رسول الله؟ فوالله ما بين لابتيها اهل بيت افقر منا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"فانتم إذا"وضحك حتى بدت انيابه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْهَاشِمِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَقَالَ: هَلَكْتُ؟ فَقَالَ:"وَمَا أَهْلَكَكَ؟ قَالَ: وَاقَعْتُ امْرَأَتِي فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، قَالَ: "فَأَعْتِقْ رَقَبَةً". قَالَ: لَيْسَ عِنْدِي. قَالَ:"فَصُمْ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ". قَالَ: لَا أَسْتَطِيعُ. قَالَ:"فَأَطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا". قَالَ: لَا أَجِدُ. قَالَ: فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَقٍ فِيهِ تَمْرٌ، فَقَالَ:"أَيْنَ السَّائِلُ؟ تَصَدَّقْ بِهَذَا". فَقَالَ: أَعَلَى أَفْقَرَ مِنْ أَهْلِي يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَوَاللَّهِ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا أَهْلُ بَيْتٍ أَفْقَرَ مِنَّا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"فَأَنْتُمْ إِذًا"وَضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ أَنْيَابُهُ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا: میں تباہ و برباد ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کس چیز نے تمہیں تباہ کیا؟“ عرض کیا: میں نے اپنی بیوی سے ماہ رمضان میں صحبت کر لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک غلام آزاد کر دو“، عرض کیا: مجھے اس کی طاقت نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو دو مہینے لگاتار روزے رکھ لو“، عرض کیا: اتنی استطاعت بھی نہیں، فرمایا: ”اچھا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو“، عرض کیا: میرے پاس کھانا نہیں ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بڑی تھیلی لائی گئی جس میں کھجوریں تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ ”وہ سائل پوچھنے والا کدھر ہے؟“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: ”جاؤ اس کو صدقہ کر دو“، عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا اپنے اہل سے زیادہ محتاج پر صدقہ کر دوں؟ قسم اللہ کی ان دونوں پتھریلے میدانوں کے درمیان کوئی بھی گھرانہ میرے گھر سے زیادہ محتاج نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ کے دانت دیکھے جا سکے، فرمایا: ”ایسا ہے تو جاؤ تم ہی اسے لے جاؤ۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1757]» مذکورہ بالا روایت کی سند صحیح ہے اور یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1936]، [مسلم 1111]، [مسند موصلي 6368]، [ابن حبان 3523]، [مسند الحميدي 1038]
وضاحت: (تشریح حدیث 1753) یعنی اپنے گھر والوں کو کھلا دو، جیسا کہ بخاری شریف کی روایت میں ہے «أطعمه أهلك» اس حدیث میں مذکورہ حالت میں بطورِ کفارہ پہلی صورت غلام آزاد کرنے کی رکھی گئی، دوسری صورت پے در پے دو مہینہ روزہ رکھنے کی، تیسری صورت ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی، اب بھی ایسی حالت میں یہ تینوں صورتیں قائم ہیں، چونکہ شخصِ مذکور نے ہر صورت کی ادائیگی کے لئے اپنی مجبوری ظاہر کی، آخر میں ایک صورت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے نکالی تو اس پر بھی اس نے خود اپنی مسکینی کا اظہار کیا، رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی حالت پر رحم آیا اور اس رحم و کرم کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا جو یہاں مذکور ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں تو (جہنم کی آگ میں) جل گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”کیا ماجرا ہے؟“ تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ اس نے رمضان میں اپنی بیوی سے صحبت کر لی ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک تھیلی لائی گئی جس کو عذق (یا عروق) کہا جاتا تھا، اس میں کھجوریں تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جلنے والا کہاں ہے؟“ وہ آدمی کھڑا ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو صدقہ کر دو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1759]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1935]، [مسلم 1112]، [أبويعلی 4663]، [ابن حبان 3528]
وضاحت: (تشریح احادیث 1754 سے 1756) یہ حدیث مختصر ہے، مفصل ذکر اوپر گذر چکا ہے، رمضان کے دن میں جماع کرنے والے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غلام آزاد کرنے، یا دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنے، یا ساٹھ مسکین کو کھانا کھلانے کا حکم دیا، یہ کفارہ ظہار ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روزے کی حالت میں جماع کرنا بڑا سنگین جرم ہے اور اس کا کفارہ وہی ہے جو اوپر ذکر کیا گیا۔ اس حدیث سے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاقِ حسنہ بھی سامنے آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گناہ کے ارتکاب پر کوئی سرزنش نہیں کی بلکہ اس کی طرف سے نہ صرف کفارہ دیا بلکہ اس کو مخاطب بھی کیا تو بڑے لطیف انداز میں «(أَيْنَ الْمُحْتَرِقْ)»، وہ محترق (جلنے والا) کدھر ہے۔ سبحان اللہ! کتنا پیارا اسلوب اور اخلاق ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن احمد، حدثنا سفيان، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "لا تصوم المراة يوما تطوعا في غير رمضان، وزوجها شاهد إلا بإذنه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا تَصُومُ الْمَرْأَةُ يَوْمًا تَطَوُّعًا فِي غَيْرِ رَمَضَانَ، وَزَوْجُهَا شَاهِدٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورت اپنے شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر رمضان کے علاوہ ایک دن کا بھی نفلی روزہ نہ رکھے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1761]» اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5192]، [مسلم 1026]، [أبوداؤد 2458]، [ترمذي 782]، [ابن ماجه 1722]، [أبويعلی 6273]، [ابن حبان 3572]، [مسند الحميدي 1033، 1046]
وضاحت: (تشریح احادیث 1756 سے 1758) نفلی روزہ نفلی عبادت ہے اور خاوند کی اطاعت عورت کے اوپر فرض ہے اس لئے نفلی عبادت سے زیادہ فرض کی ادائیگی ضروری ہے، مرد دن میں اگر اپنی بیوی سے ملاپ کرنا چاہے تو عورت کو نفلی روزہ ختم کرنا ہو گا، لہٰذا پہلے ہی اجازت لے کر اگر روزہ رکھے تو بہتر ہے (مولانا راز رحمۃ اللہ علیہ)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر شوہر موجود ہو تو عورت اس کی اجازت کے بغیر ایک دن کا بھی نفلی روزہ نہ رکھے“، فرمایا: ”نذر کا روزہ پورا کرے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1762]» اس روایت کی سند حسن لیکن حدیث متفق علیہ ہے، جیسا کہ اوپر مذکور ہے۔ نیز دیکھئے: [مسند الحميدي 1046]
وضاحت: (تشریح حدیث 1758) ان احادیث سے ثابت ہوا کہ عورت کو نفلی روزہ رکھنے کے لئے شوہر کی اجازت لینا ضروری ہے، اس سے شوہر کا حق بھی معلوم ہوا نیز یہ بھی پتہ چلا کہ فرض روزے کے لئے شوہر کی اجازت کی ضرورت نہیں، اسی طرح فرض نماز و زکاۃ ہے کہ اس کے لئے شوہر سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔