(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن المبارك، حدثنا مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، عن انس، قال: كان ابو طلحة اكثر انصاري بالمدينة مالا نخلا، وكانت احب امواله إليه بيرحاء، وكانت مستقبلة المسجد، وكان يعني النبي صلى الله عليه وسلم يدخلها ويشرب من ماء فيها طيب. فقال انس: فلما انزلت هذه الآية: لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون وما تنفقوا من شيء فإن الله به عليم سورة آل عمران آية 92، قال: إن احب اموالي إلي بيرحاء، وإنها صدقة لله ارجو برها وذخرها عند الله، فضعها يا رسول الله حيث شئت. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "بخ ذلك مال رابح او رائح، وقد سمعت ما قلت فيه، وإني ارى ان تجعله في الاقربين". فقال ابو طلحة: افعل يا رسول الله، فقسمه ابو طلحة في قرابة بني عمه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ أَبُو طَلْحَةَ أَكْثَرَ أَنْصَارِيٍّ بِالْمَدِينَةِ مَالًا نَخْلًا، وَكَانَتْ أَحَبَّ أَمْوَالِهِ إِلَيْهِ بَيْرُحَاءُ، وَكَانَتْ مُسْتَقْبِلَةَ الْمَسْجِدِ، وَكَانَ يَعْنِي النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَاءٍ فِيهَا طَيِّبٌ. فَقَالَ أَنَسٌ: فَلَمَّا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ سورة آل عمران آية 92، قَالَ: إِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِي إِلَيَّ بَيْرُحَاءُ، وَإِنَّهَا صَدَقَةٌ للَّهِ أَرْجُو بِرَّهَا وَذُخْرَهَا عِنْدَ اللَّهِ، فَضَعْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ حَيْثُ شِئْتَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "بَخٍ ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ أَوْ رَائِحٌ، وَقَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ فِيهِ، وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَجْعَلَهُ فِي الْأَقْرَبِينَ". فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: أَفْعَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَسَّمَهُ أَبُو طَلْحَةَ فِي قَرَابَةِ بَنِي عَمِّهِ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ مدینہ کے انصار میں مال و باغات کے اعتبار سے سب سے زیادہ مال دار تھے، اور اپنے باغات میں سب سے زیادہ محبوب انہیں بیرحاء کا باغ تھا، جو مسجد نبوی کے سامنے تھا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس میں تشریف لے جایا کرتے اور اس کا میٹھا پانی پیا کرتے تھے، سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: جب یہ آیت «لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا .....» نازل ہوئی، یعنی تم نیکی کو اس وقت تک نہیں پا سکتے جب تک تم اپنی پیاری سے پیاری چیز نہ خرچ کرو۔ [آل عمران: 92/3] تو یہ سن کر سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میرا محبوب ترین مال بیرحاء ہے، اس لئے اب وہ صدقہ ہے، اس کی نیکی اور اس کے ذخیرہ آخرت ہونے کی امید رکھتا ہوں، اس لئے اے اللہ کے رسول آپ جہاں جیسے اس کو چاہیں استعمال کیجئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خوب یہ تو بڑا ہی نفع بخش مال ہے، یہ تو بڑی آمدنی کا مال ہے، تم نے جو بات کہی وہ میں نے سن لی اور میں مناسب سمجھتا ہوں کہ تم اسے اپنے نزدیکی رشتہ دراوں میں تقسیم کر دو“، سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں ایسا ہی کروں گا، چنانچہ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے رشتہ داروں اور چچا کے لڑکوں میں تقسیم کر دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1695]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1461]، [مسلم 998]، [مالك فى الموطأ فى الصدقة 2]، [أبوداؤد 1689]، [أبويعلی 3732]، [ابن حبان 3340]
وضاحت: (تشریح احادیث 1691 سے 1693) ان احادیث سے ثابت ہوا کہ سب سے بہترین صدقہ وہ ہے جو آدمی کو سب سے زیادہ پیارا اور پسندیدہ ہو، اس حدیث میں سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت بھی ہے کہ محبوب ترین باغ اپنے اقارب میں تقسیم کر دیا، یہ صلہ رحمی کی اعلیٰ ترین مثال ہے جس پر اخلاص و محبت سے عمل کیا جائے تو بہت سارے خاندانی مسائل دم توڑ دیں۔ پہلی حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خاوند اگر محتاج ہو تو بیوی اس پر خرچ کر سکتی ہے، اسی طرح دیگر عزیز و رشتے دار پر صدقہ کرنے کا ثبوت ملا اور اس کا دوگنا ثواب ہے، نیز یہ کہ صدقے میں گھٹیا چیز نہیں دینی چاہیے، اور قریبی رشتے دار پر احسان اور صدقہ کرنے کا ڈبل ثواب ہے، اور یہ صلہ رحمی بھی ہے، احسان وصدقہ بھی جس کا اللہ تعالیٰ کے یہاں بڑا اجر ہے۔
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جو بھی خطبہ دیا اس میں ہم کو صدقہ کرنے کا حکم ضرور دیا، اور ہم کو مثلہ کرنے سے منع کیا۔ (مثلہ مرے ہوئے آدمی کے کان ناک وغیرہ کاٹنے کو کہتے ہیں)۔
تخریج الحدیث: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 1697]» اس روایت کی سند قوی اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري: 291، 4192]، [مسلم 348]، [أبوداؤد 2667]
سیدنا عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم آگ سے بچو گرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا دے کر ہی سہی، اگر یہ نہ کر سکو تو اچھی بات کہہ کر (آگ سے بچو)۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1698]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1417]، [مسلم 1016]، [نسائي 2552]، [ابن حبان 473]
وضاحت: (تشریح احادیث 1693 سے 1695) پہلی حدیث سے صدقے کی اہمیت ثابت ہوئی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر خطبہ میں اس کا حکم دیتے تھے، نیز اس میں مثلہ کرنے کی ممانعت بھی ہے کیونکہ اسلام میں انسان زندہ بھی معزز اور مکرم ہے اور مرنے کے بعد بھی، اسی لئے فرمایا کہ میت کی ہڈی توڑنا ایسے ہی ہے جیسے زندہ آدمی کی ہڈی توڑنا جو سخت گناہ ہے اور اس میں قصاص جاری ہوتا ہے۔ دوسری حدیث میں جہنم کی آگ سے بچنے کا حکم ہے چاہے ایک کھجور کا ٹکڑا ہی صدقہ کر کے اس عذاب سے بچا جائے، اور اگر کوئی صدقہ خیرات نہ کر سکے تو یہ بھی بڑا صدقہ ہے کہ سائل کو نرمی سے جواب دے کر کہے: میں اس وقت مجبور ہوں معاف کرنا، اور سائل کو جھڑکنا، اس سے جھگڑنا درست نہیں جیسا کہ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں: تم ہر وقت مانگتے رہتے ہو تمارا پیٹ نہیں بھرتا، ہم خیرات ہی کرتے رہیں، اس طرح کے الفاظ کہنا درست نہیں بلکہ نرمی سے کہہ دیا جائے: بھائی اس وقت میں کچھ نہیں دے سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: « ﴿وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْ﴾[الضحىٰ: 10] »”اور نہ مانگنے والے کو ڈانٹ ڈپٹ کرو۔ “
سیدنا ابولبابہ انصاری رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے راضی ہو گئے تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میری توبہ یہ ہے کہ میں اپنے قبیلہ کی رہائش گاہ ترک کر کے آپ کے ساتھ سکونت اختیار کر لوں اور اپنے مال سے دست بردار ہو کر اسے اللہ اور رسول کے لئے صدقہ کر دوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری طرف سے اس کا ثلث کافی ہے۔“
تخریج الحدیث: «في اسناده علتان: ضعف سعيد بن مسلمة وجهالة عبد الرحمن بن أبي لبابة. ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1699]» اس روایت کی سند میں سعید بن مسلمہ ضعیف اور عبدالرحمٰن بن ابی لبابہ مجہول الحال ہیں۔ دیکھئے: [ابن حبان 3371]، [الموارد 841]، نیز اسی طرح کا قصہ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب کہ وہ غزوہ تبوک میں شرکت سے محروم رہ گئے تھے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3319]، [نسائي 3833، 3834]، ابولبابہ کے غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے کا ذکر الاستیعاب میں بھی ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في اسناده علتان: ضعف سعيد بن مسلمة وجهالة عبد الرحمن بن أبي لبابة. ولكن الحديث صحيح
(حديث مرفوع) اخبرنا يعلى، واحمد بن خالد، عن محمد بن إسحاق، عن عاصم بن عمر بن قتادة، عن محمود بن لبيد، عن جابر بن عبد الله، قال: بينا نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذ جاء رجل بمثل البيضة من ذهب اصابها في بعض المغازي، قال احمد: في بعض المعادن، وهو الصواب، فقال: يا رسول الله، خذها مني صدقة، فوالله ما لي مال غيرها، فاعرض عنه، ثم جاءه عن ركنه الايسر، فقال مثل ذلك، ثم جاءه من بين يديه، فقال مثل ذلك، ثم قال:"هاتها"، مغضبا، فحذفه بها حذفة لو اصابه لاوجعه او عقره ثم، قال: "يعمد احدكم إلى ماله لا يملك غيره فيتصدق به، ثم يقعد يتكفف الناس، إنما الصدقة عن ظهر غنى، خذ الذي لك لا حاجة لنا به". فاخذ الرجل ماله وذهب. قال ابو محمد: كان مالك يقول: إذا جعل الرجل ماله في المساكين يتصدق بثلث ماله.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْلَى، وَأَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ جَاءَ رَجُلٌ بِمِثْلِ الْبَيْضَةِ مِنْ ذَهَبٍ أَصَابَهَا فِي بَعْضِ الْمَغَازِي، قَالَ أَحْمَدُ: فِي بَعْضِ الْمَعَادِنِ، وَهُوَ الصَّوَابُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، خُذْهَا مِنِّي صَدَقَةً، فَوَاللَّهِ مَا لِي مَالٌ غَيْرَهَا، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ جَاءَهُ عَنْ رُكْنِهِ الْأَيْسَرِ، فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ جَاءَهُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ، فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ قَالَ:"هَاتِهَا"، مُغْضَبًا، فَحَذَفَهُ بِهَا حَذْفَةً لَوْ أَصَابَهُ لَأَوْجَعَهُ أَوْ عَقَرَهُ ثُمَّ، قَالَ: "يَعْمِدُ أَحَدُكُمْ إِلَى مَالِهِ لَا يَمْلِكُ غَيْرَهُ فَيَتَصَدَّقُ بِهِ، ثُمَّ يَقْعُدُ يَتَكَفَّفُ النَّاسَ، إِنَّمَا الصَّدَقَةُ عَنْ ظَهْرِ غِنًى، خُذْ الَّذِي لَكَ لَا حَاجَةَ لَنَا بِهِ". فَأَخَذَ الرَّجُلُ مَالَهُ وَذَهَبَ. قَالَ أَبُو مُحَمَّد: كَانَ مَالِكٌ يَقُولُ: إِذَا جَعَلَ الرَّجُلُ مَالَهُ فِي الْمَسَاكِينِ يَتَصَدَّقُ بِثُلُثِ مَالِهِ.
سیدنا جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک آدمی انڈے کے برابر سونا لے کر آیا جو اسے کسی غزوے میں ملا تھا۔ اور احمد (بن خالد) نے کہا کہ کسی سونے کی کان سے حاصل ہوا تھا اور یہ ہی صحیح ہے۔ اس شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! اسے لے لیجئے، یہ میری طرف سے صدقہ ہے اور اللہ کی قسم اس کے علاوہ میرے پاس اور کوئی مال نہیں ہے، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا، پھر وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف سے آیا اور یہی عرض کیا، پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے آیا اور یہی عرض کیا تو آپ نے ناراض ہوتے ہوئے کہا: ”لاؤ“، پھر اس سونے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دور پھینک دیا جو اگر کسی کے لگ جاتا تو یا تو اسے زخمی کر دیتا یا اچھی ضرب لگا دیتا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی اپنا سارا مال لے کر چلا آتا ہے اور اس کے پاس اس مال کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا، پھر وہ اس مال کو صدقہ کر دیتا ہے، پھر بیٹھ کر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے، اصلی صدقہ وہ ہے جس کا مالک صدقہ دینے کے بعد بھی مالدار رہے، چلو اپنا مال لے جاؤ، ہمیں اس کی ضرورت نہیں“، چنانچہ اس شخص نے وہ انڈے کے برابر سونا اٹھایا اور چلا گیا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے: جب کوئی آدمی اپنا مال مساکین پر صدقہ کرے تو اپنے مال کا ایک تہائی حصہ صدقہ کرے۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أن ابن إسحاق قد عنعن وهو مدلس، [مكتبه الشامله نمبر: 1700]» اس روایت کے کل رواۃ ثقات ہیں۔ حوالہ دیکھئے: [أبوداؤد 1673]، [أبويعلی 2084]، [ابن حبان 3372]، [موارد الظمآن 839]
وضاحت: (تشریح احادیث 1695 سے 1697) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا حدیث میں یہ صدقہ اس لئے قبول نہیں فرمایا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ وہ محتاج ہو جائے گا، اپنے اہل و عیال کو کیا کھلائے گا؟ سب سے مقدم اپنے اہل و عیال کی پرورش ہے پھر جو حاجتِ ضروری سے بچے وہ مسکینوں کو دیوے، پھر یہ کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی جب کل مال صدقہ کر دیتا ہے تو اس کو ندامت و شرمندگی ہوتی ہے اور وہ مفلسی سے گھبراتا ہے، پھر ایسی نیکی سے کیا فائدہ جو بعد کو بری معلوم ہو، برخلاف اس کے یہ بہتر ہے کہ کچھ صدقہ کرے اور کچھ اپنے پاس بھی رکھے (وحیدی)، لہٰذا اس حدیث سے کل مال صدقہ کر دینے کی ممانعت ثابت ہوئی۔ ایک حدیث میں مذکور ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی الله تعالیٰ عنہ نے اپنا کل مال لا کر حاضرِ خدمت کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول بھی فرما لیا جیسا کہ آگے آرہا ہے، تو یہ ان لوگوں کے لئے ہے جو اللہ پر کامل بھروسہ رکھتے اور فقر سے ڈرتے نہیں ہیں یا جن کو مال مل جانے کی توقع ہو وہ اپنا سارا مال صدقہ کر سکتا ہے۔ واللہ علم
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أن ابن إسحاق قد عنعن وهو مدلس
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا هشام بن سعد , عن زيد بن اسلم، عن ابيه، قال سمعت عمر، قال: امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان نتصدق، فوافق ذلك مالا عندي، فقلت: اليوم اسبق ابا بكر إن سبقته يوما. قال: فجئت بنصف مالي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"ما ابقيت لاهلك؟"قلت: مثله، قال: فاتى ابو بكر بكل ما عنده، فقال:"يا ابا بكر، ما ابقيت لاهلك؟". فقال: ابقيت لهم الله ورسوله. فقلت: لا اسابقك إلى شيء ابدا.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ , عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ، قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَتَصَدَّقَ، فَوَافَقَ ذَلِكَ مَالًا عِنْدِي، فَقُلْتُ: الْيَوْمَ أَسْبِقُ أَبَا بَكْرٍ إِنْ سَبَقْتُهُ يَوْمًا. قَالَ: فَجِئْتُ بِنِصْفِ مَالِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِكَ؟"قُلْتُ: مِثْلَهُ، قَالَ: فَأَتَى أَبُو بَكْرٍ بِكُلِّ مَا عِنْدَهُ، فَقَالَ:"يَا أَبَا بَكْرٍ، مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِكَ؟". فَقَالَ: أَبْقَيْتُ لَهُمْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ. فَقُلْتُ: لَا أُسَابِقُكَ إِلَى شَيْءٍ أَبَدًا.
اسلم نے کہا: میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم صدقہ کریں، اتفاق سے اس وقت میرے پاس بہت مال تھا، میں نے دل میں کہا: آج اگر میں نے سبقت کی تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پر بازی لے جاؤں گا، چنانچہ میں اپنا آدھا مال لے کر حاضر خدمت ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے اہل و عیال کے لئے تم نے کیا چھوڑا؟“ عرض کیا: اسی قدر چھوڑ آیا ہوں، پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی جو کچھ ان کے پاس تھا سب لے کر آ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوبکر گھر بار کے لئے کیا چھوڑا ہے“، عرض کیا: ان کے واسطے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ آیا ہوں، تب میں نے کہا: (اے ابوبکر) میں تم سے کبھی آگے نہ بڑھ سکوں گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل هشام بن سعد، [مكتبه الشامله نمبر: 1701]» یہ روایت حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1678]، [ترمذي 3675]، [السنة لابن ابي عاصم 1240]، [شرح السنة 180/6]
وضاحت: (تشریح حدیث 1697) اس حدیث سے سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کی فضیلت ثابت ہوئی جو اللہ کے راستے میں اپنا مال و دولت قربان کرنے میں سبقت کرتے ہیں۔ پھر بڑوں کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے گویا ہوئے کہ میں کبھی آپ سے بازی نہیں لے جاسکتا ہوں، نیز اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آدمی اپنے اہل و عیال، گھر بار کا بھی خیال رکھے، اور یہ بھی ثابت ہوا کہ یقین و توکل ہو تو سب کچھ خیرات بھی کر سکتا ہے۔ نیز یہ کہ قدر و منزلت مال کی مقدار میں نہیں بلکہ نیّت و اخلاص میں ہے۔ واللہ علم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل هشام بن سعد
(حديث مرفوع) اخبرنا خالد بن مخلد، حدثنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر، قال: "فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر من رمضان صاعا من تمر او صاعا، من شعير على كل حر وعبد، ذكر او انثى، من المسلمين". قيل لابي محمد: تقول به؟ قال: مالك كان يقول به.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: "فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ مِنْ رَمَضَانَ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا، مِنْ شَعِيرٍ عَلَى كُلِّ حُرٍّ وَعَبْدٍ، ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى، مِنْ الْمُسْلِمِينَ". قِيلَ لِأَبِي مُحَمَّدٍ: تَقُولُ بِهِ؟ قَالَ: مَالِكٌ كَانَ يَقُولُ بِهِ.
سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے فطرے کی زکاة (صدقہ فطر) ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو فرض قرار دی تھی، ہر مسلمان آزاد، غلام، مرد و عورت پر۔ امام دارمی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: کیا آپ بھی یہی کہتے ہیں یعنی ایک صاع کے قائل ہیں؟ فرمایا: امام مالک رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 1702]» اس روایت کی سند قوی اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1504]، [مسلم 984]، [مسند ابي يعلی 5834]، [ابن حبان 3300] و [الحميدي 718]
وضاحت: (تشریح حدیث 1698) صاع ایک پیمانہ ہے جو یہاں سعودی عرب میں آج بھی رائج ہے، اس کا وزن شیخ محمد صالح العثیمن رحمۃ اللہ علیہ نے دو کلو چالیس گرام بتایا ہے، پرانے حساب میں تقریباً پونے تین سیر ہوتا ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، عن سفيان، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، قال:"امر رسول الله صلى الله عليه وسلم بزكاة الفطر عن كل صغير وكبير، حر وعبد، صاعا من شعير، او صاعا من تمر". قال ابن عمر: فعدله الناس بمدين من بر.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:"أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِزَكَاةِ الْفِطْرِ عَنْ كُلِّ صَغِيرٍ وَكَبِيرٍ، حُرٍّ وَعَبْدٍ، صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ". قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَعَدَلَهُ النَّاسُ بِمُدَّيْنِ مِنْ بُرٍّ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ہر چھوٹے، بڑے، آزاد و غلام کی طرف سے ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو صدقہ فطر کا حکم دیا، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: پس لوگوں نے اس کو گیہوں کے دو مد کے مساوی قرار دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1703]» اس حدیث کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 1699) چھوٹے بڑے یا غلام کے صدقۂ فطر سے مراد یہ ہے کہ جو شخص ان کا کفیل ہو وہ ان کی طرف سے زکاةِ فطر (فطرہ) ادا کرے جو ایک صاع کھجور ہو یا جو اور گیہوں، واضح رہے کہ ایک صاع عربی حساب میں چار مد کا ہوتا ہے، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بتایا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع فرض قرار دیا اور لوگ نصف صاع دینے لگے، تفصیل آگے آ رہی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عثمان بن عمر , حدثنا داود بن قيس، عن عياض بن عبد الله، عن ابي سعيد الخدري، قال:"كنا نخرج زكاة الفطر إذ كان فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن كل صغير وكبير، حر ومملوك، صاعا من طعام، او صاعا من تمر، او صاعا من شعير، او صاعا من اقط، او صاعا من زبيب، فلم يزل ذلك كذلك حتى قدم علينا معاوية المدينة حاجا، او معتمرا، فقال: إني ارى مدين من سمراء الشام يعدل صاعا من التمر، فاخذ الناس بذلك". قال ابو سعيد: اما انا، فلا ازال اخرجه كما كنت اخرجه. قال ابو محمد: ارى صاعا من كل شيء.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ , حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ:"كُنَّا نُخْرِجُ زَكَاةَ الْفِطْرِ إِذْ كَانَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كُلِّ صَغِيرٍ وَكَبِيرٍ، حُرٍّ وَمَمْلُوكٍ، صَاعًا مِنْ طَعَامٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ، فَلَمْ يَزَلْ ذَلِكَ كَذَلِكَ حَتَّى قَدِمَ عَلَيْنَا مُعَاوِيَةُ الْمَدِينَةَ حَاجًّا، أَوْ مُعْتَمِرًا، فَقَالَ: إِنِّي أَرَى مُدَّيْنِ مِنْ سَمْرَاءِ الشَّامِ يَعْدِلُ صَاعًا مِنْ التَّمْرِ، فَأَخَذَ النَّاسُ بِذَلِكَ". قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: أَمَّا أَنَا، فَلَا أَزَالُ أُخْرِجُهُ كَمَا كُنْتُ أُخْرِجُهُ. قَالَ أَبُو مُحَمَّد: أَرَى صَاعًا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ موجود تھے تو ہم ہر چھوٹے بڑے اور غلام کی طرف سے ایک صاع غلہ یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع کشمش کا صدقہ فطر نکالا کرتے تھے، اور اسی طرح ہوتا رہا یہاں تک کہ حج یا عمرے کے بعد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ہمارے پاس مدینہ میں تشریف لائے تو کہا کہ میرے خیال سے اس شامی گیہوں کے دو مد ایک صاع کھجور کے برابر ہیں، پس لوگوں نے یہی بات پکڑ لی (یعنی گیہوں کا فطرہ آدھا صاع)، سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: لیکن میں تو اتنا ہی فطرہ نکالتا ہوں جتنا (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں) نکالا کرتا تھا (یعنی پورا ایک صاع)، امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: میری رائے میں مذکورہ کسی بھی جنس کا ایک صاع فطرہ نکالنا چاہئے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1704]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1506]، [مسلم 985]، [أبوداؤد 1616]، [ترمذي 673]، [نسائي 2510]، [ابن ماجه 1829]، [أبويعلی 1227]، [ابن حبان 3305]، [مسندالحميدي 718]
وضاحت: (تشریح حدیث 1700) اس حدیث میں «صَاعًا مِنْ طَعَامٍ» کا لفظ آیا ہے جس سے اکثر علماء کے نزدیک گیہوں ہی مقصود ہے، بعض نے کہا کہ جو کے علاوہ دوسرے غلہ جات مراد ہیں، اس حدیث میں فطرے کی اجناس ذکر کی گئی ہیں، جو غلہ، کھجور، جَو، پنیر یا زبیب ہیں (زبیب سوکھا انگور، کشمش یا انجیر کو کہتے ہیں)، ان اجناس میں سے کوئی ایک چیز ہر فرد کی طرف سے ایک صاع فطرے کے دینا فرض ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک صاع چھوڑ کر صرف نصف صاع ڈیڑھ کلو فطره دینا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی رائے سے تھا جس کو بہت سے صحابہ نے قبول نہیں کیا، ان میں سے اس حدیث کے راوی سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ بھی ہیں جو فرماتے ہیں کہ میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی ایک صاع فطرہ نکالتا تھا اور اب بھی ایک صاع ہی نکالتا ہوں، اور یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جو اپنی طرف سے کچھ نہ کہتے تھے: « ﴿وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ . إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ﴾[النجم: 3، 4] »، امام دارمی رحمہ اللہ نے بھی ایک صاع فطرہ نکالنے کو ترجیح دی ہے۔
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رمضان کا صدقہ فطر غلے میں سے ایک صاع یا کھجور کا ایک صاع یا جَو میں سے ایک صاع یا زبیب کا ایک صاع یا پنیر کا ایک صاع نکالا کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 1705]» اس حدیث کی سند قوی ہے اور تخریج گذر چکی ہے۔ نیز دیکھئے: [موطأ امام مالك: كتاب الزكاة 54 باب مكيلة الزكاة]