سیدنا عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم آگ سے بچو گرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا دے کر ہی سہی، اگر یہ نہ کر سکو تو اچھی بات کہہ کر (آگ سے بچو)۔“
وضاحت: (تشریح احادیث 1693 سے 1695) پہلی حدیث سے صدقے کی اہمیت ثابت ہوئی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر خطبہ میں اس کا حکم دیتے تھے، نیز اس میں مثلہ کرنے کی ممانعت بھی ہے کیونکہ اسلام میں انسان زندہ بھی معزز اور مکرم ہے اور مرنے کے بعد بھی، اسی لئے فرمایا کہ میت کی ہڈی توڑنا ایسے ہی ہے جیسے زندہ آدمی کی ہڈی توڑنا جو سخت گناہ ہے اور اس میں قصاص جاری ہوتا ہے۔ دوسری حدیث میں جہنم کی آگ سے بچنے کا حکم ہے چاہے ایک کھجور کا ٹکڑا ہی صدقہ کر کے اس عذاب سے بچا جائے، اور اگر کوئی صدقہ خیرات نہ کر سکے تو یہ بھی بڑا صدقہ ہے کہ سائل کو نرمی سے جواب دے کر کہے: میں اس وقت مجبور ہوں معاف کرنا، اور سائل کو جھڑکنا، اس سے جھگڑنا درست نہیں جیسا کہ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں: تم ہر وقت مانگتے رہتے ہو تمارا پیٹ نہیں بھرتا، ہم خیرات ہی کرتے رہیں، اس طرح کے الفاظ کہنا درست نہیں بلکہ نرمی سے کہہ دیا جائے: بھائی اس وقت میں کچھ نہیں دے سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: « ﴿وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْ﴾[الضحىٰ: 10] »”اور نہ مانگنے والے کو ڈانٹ ڈپٹ کرو۔ “
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1698]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1417]، [مسلم 1016]، [نسائي 2552]، [ابن حبان 473]