سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو ام القرآن (فاتحہ) نہ پڑھے اس کی نماز ہی نہیں ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1278]» یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 756]، [مسلم 394]، [أبوداؤد 822]، [ترمذي 247]، [نسائي 909]، [ابن ماجه 837]، [أبويعلی 7224] و [ابن حبان 1782 وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 1275) حدیث کا لفظ، «لَا صَلَاةَ» ہے جو نکرہ ہے اور عموم پر دلالت کرتا ہے، معانی یہ ہیں کہ وہ نماز فرض ہو یا نفل، سرّی ہو یا جہری، امام کے ساتھ ہو یا منفرد، اس میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھی جائے تو وہ نماز صحیح نہیں ہوگی، اس لئے ہر نماز کی ہر رکعت میں فاتحہ پڑھنی چاہئے، اکیلے پڑھتے ہوں یا امام کے پیچھے، ہر صورت میں سورۂ فاتحہ پڑھنا چاہئے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا عفان، حدثنا حماد بن سلمة، عن حميد، عن الحسن، عن سمرة بن جندب، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم"كان يسكت سكتتين: إذا دخل في الصلاة، وإذا فرغ من القراءة"، فانكر ذلك عمران بن حصين، فكتبوا إلى ابي بن كعب، فكتب إليهم ان قد صدق سمرة. قال ابو محمد: كان قتادة يقول: ثلاث سكتات، وفي الحديث المرفوع سكتتان.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يَسْكُتُ سَكْتَتَيْنِ: إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ، وَإِذَا فَرَغَ مِنْ الْقِرَاءَةِ"، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ، فَكَتَبُوا إِلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، فَكَتَبَ إِلَيْهِمْ أَنْ قَدْ صَدَقَ سَمُرَةُ. قَالَ أَبُو مُحَمَّد: كَانَ قَتَادَةُ يَقُولُ: ثَلَاثُ سَكَتَاتٍ، وَفِي الْحَدِيثِ الْمَرْفُوعِ سَكْتَتَانِ.
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز میں) دو جگہ خاموش رہتے (یعنی سکتہ کرتے) تھے، جس وقت نماز میں داخل ہوتے (یعنی دعائے استفتاح کے وقت)، دوسرا سکتہ قراءت سے فراغت کے وقت (یعنی رکوع سے پہلے)، سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے اس بات پر ان کا انکار کیا تو لوگوں نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس (یہ مسئلہ) لکھ کر بھیجا تو انہوں نے جواب دیا کہ سمرة نے صحیح کہا ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: قتادہ رحمہ اللہ تین مرتبہ سکتہ کرنے کو کہتے تھے (یعنی تکبیر تحریمہ کے بعد، پھر فاتحہ کے بعد، پھر قرأت کے اختتام پر رکوع سے پہلے)۔ (سفر السعادات میں بھی ایسا ہی ہے، اس لئے کہ سورۂ فاتحہ کے بعد سکتے کے دوران مقتدی سورۂ فاتحہ پڑھ لیں) لیکن مرفوع حدیث میں دو بار ہی سکتے کا بیان ہے۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أن سماع الحسن من سمرة لم يقطع به والله أعلم. وقد ترجح عندنا أنه لم يسمع منه، [مكتبه الشامله نمبر: 1279]» اس روایت کے راوی ثقات ہیں، لیکن حسن کا سماع سمرہ سے محل نظر ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 777]، [ترمذي 251]، [نسائي 898]، [ابن ماجه 844]، [ابن حبان 1807]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أن سماع الحسن من سمرة لم يقطع به والله أعلم. وقد ترجح عندنا أنه لم يسمع منه
(حديث مرفوع) اخبرنا بشر بن آدم، حدثنا عبد الواحد بن زياد، حدثنا عمارة بن القعقاع، عن ابي زرعة بن عمرو، عن ابي هريرة، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسكت بين التكبير والقراءة إسكاتة حسبته قال: هنية فقلت له: بابي وامي يا رسول الله، ارايت إسكاتتك بين التكبير والقراءة، ما تقول؟ قال: اقول: "اللهم باعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب. اللهم نقني من خطاياي كما ينقى الثوب الابيض من الدنس. اللهم اغسلني من خطاياي بالثلج والماء البارد".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا عُمَارَةُ بْنُ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْكُتُ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ إِسْكَاتَةً حَسِبْتُهُ قَالَ: هُنَيَّةً فَقُلْتُ لَهُ: بِأَبِي وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ إِسْكَاتَتَكَ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ، مَا تَقُولُ؟ قَالَ: أَقُولُ: "اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ. اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنْ خَطَايَايَ كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنْ الدَّنَسِ. اللَّهُمَّ اغْسِلْنِي مِنْ خَطَايَايَ بِالثَّلْجِ وَالْمَاءِ الْبَارِدِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر (تحریمہ) اور قرأت کے درمیان تھوڑی دیر چپ رہتے۔ ابوزرعہ نے کہا میں سمجھتا ہوں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے «اسكاتة» کے ساتھ «هنية» کہا۔ میں (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ) نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ پر میرے ماں باپ فدا، آپ تکبیر اور قرأت کے درمیان کی خاموشی میں کیا پڑھتے ہیں؟ فرمایا: ”میں پڑھتا ہوں: «اللهم باعد ........ والماء البارد» یعنی: ”اے اللہ میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اتنی دوری کر جتنی دوری تو نے مشرق و مغرب میں کی ہے، اے اللہ مجھے میرے گناہوں سے اس طرح پاک و صاف کر دے جس طرح سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے، اے اللہ میرے گناہوں کو برف اور ٹھنڈے پانی سے دھو ڈال۔“
وضاحت: (تشریح احادیث 1276 سے 1278) دعائے استفتاح کئی طرح سے وارد ہے لیکن سب میں صحیح دعا یہی ہے: «اَللّٰهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ ....... إلخ»، اور اہلِ حدیث اسی کوترجیح دیتے ہیں، نیز یہ کہ مذکورہ بالا روایت میں دعا کے آخر میں «بِالثَّلْجِ وَالْمَاءِ الْبَارِدِ» مذکور ہے جب کہ صحیحین اور سنن میں «بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ» آیا ہے جو زیادہ ہے، مطلب یہ کہ اے اللہ! میرے گناہوں کو پانی، برف اور اولے سے دھو ڈال، اور یہ تینوں چیزیں مبالغے کے طور پر ذکر کی گئی ہیں، یعنی ایسی دھلائی ہو کہ ذرہ برابر میل کچیل باقی نہ رہ سکے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، انبانا محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا قال القارئ غير المغضوب عليهم ولا الضالين سورة الفاتحة آية 7، فقال من خلفه: آمين، فوافق ذلك اهل السماء، غفر له ما تقدم من ذنبه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا قَالَ الْقَارِئُ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7، فَقَالَ مَنْ خَلْفَهُ: آمِينَ، فَوَافَقَ ذَلِكَ أَهْلَ السَّمَاءِ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب قاری «غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ» کہے تو جو اس کے پیچھے (نمازی) ہیں وہ آمین کہیں، اور یہ آمین آسمان والوں کے ساتھ موافقت کر گئی تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل محمد بن عمرو ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1281]» اس سند سے یہ حدیث حسن ہے، لیکن دوسری سند سے صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 782]، [مسلم 410]، [مسند أبى يعلی 5874]، [ابن حبان 1804]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل محمد بن عمرو ولكن الحديث صحيح
(حديث مرفوع) اخبرنا نصر بن علي، حدثنا عبد الاعلى، عن معمر، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، وابي سلمة، عن ابي هريرة، ان نبي الله صلى الله عليه وسلم، قال: "إذا قال الإمام: غير المغضوب عليهم ولا الضالين سورة الفاتحة آية 7 فقولوا: آمين، فإن الملائكة تقول: آمين، وإن الإمام يقول: آمين، فمن وافق تامينه تامين الملائكة، غفر له ما تقدم من ذنبه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، وَأَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا قَالَ الْإِمَامُ: غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7 فَقُولُوا: آمِينَ، فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَقُولُ: آمِينَ، وَإِنَّ الْإِمَامَ يَقُولُ: آمِينَ، فَمَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلَائِكَةِ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب امام «غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ» پڑھے تو تم آمین کہو، اس لئے کہ فرشتے بھی آمین کہتے ہیں اور امام بھی آمین کہتا ہے، پس جس کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے سے موافقت کر گیا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1282]» یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 782]، [مسلم 410]، [أبوداؤد 936]، [ترمذي 250]، [نسائي 927]، [أبويعلی 5874]، [ابن حبان 1804]
وضاحت: (تشریح احادیث 1278 سے 1280) ان دونوں حدیثوں سے آمین کہنے کی فضیلت معلوم ہوئی۔ نیز یہ کہ فرشتے بھی آمین کہتے ہیں اور امام بھی آمین کہتے ہیں اس لئے مقتدی حضرات کو بھی بآوازِ بلند آمین کہنی چاہیے تاکہ گناہوں کا کفارہ ہو جائے، اس کی ایک اور دلیل آگے آ رہی ہے۔
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے کہا: جب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم «وَلَا الضَّالِّينَ» پڑھتے تو آمین کہتے تھے، اور یہ کہتے وقت اپنی آواز بلند فرماتے تھے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 1280) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بآواز بلند آمین کہتے تھے۔ روایاتِ صحیحہ سے یہ ثابت ہے، اہلِ حدیث کا اسی پر عمل ہے اور بلادِ حرمین شریفین میں بھی اسی پر عمل ہوتا ہے، اور یہ ہی سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: «صَلُّوْا كَمَا رَأَيْتُمُوْنِيْ أُصَلِّيْ.»”جیسے مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو ویسے ہی نماز پڑھو“ کے عین مطابق ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو سنّتِ رسول صلی الله علی وسلم کے مطابق عمل کی توفیق بخشے، آمین۔
(حديث مرفوع) اخبرنا نصر بن علي، حدثنا عبد الاعلى، عن معمر، عن الزهري، عن ابي بكر بن عبد الرحمن، وعن ابي سلمة، عن ابي هريرة، انهما صليا خلف ابي هريرة، فلما ركع، كبر، فلما رفع راسه، قال:"سمع الله لمن حمده، ثم قال: ربنا ولك الحمد"، ثم سجد وكبر، ثم رفع راسه وكبر، ثم كبر حين قام من الركعتين، ثم قال:"والذي نفسي بيده، إني لاقربكم شبها برسول الله صلى الله عليه وسلم، ما زال هذه صلاته حتى فارق الدنيا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَعَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُمَا صَلَّيَا خَلْفَ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَلَمَّا رَكَعَ، كَبَّرَ، فَلَمَّا رَفَعَ رَأْسَهُ، قَالَ:"سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، ثُمَّ قَالَ: رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ"، ثُمَّ سَجَدَ وَكَبَّرَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ وَكَبَّرَ، ثُمَّ كَبَّرَ حِينَ قَامَ مِنْ الرَّكْعَتَيْنِ، ثُمَّ قَالَ:"وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنِّي لَأَقْرَبُكُمْ شَبَهًا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا زَالَ هَذِهِ صَلَاتُهُ حَتَّى فَارَقَ الدُّنْيَا".
ابوبکر بن عبدالرحمٰن اور ابوسلمہ سے مروی ہے کہ ان دونوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو وہ جب رکوع میں گئے تو «الله اكبر» کہا، جب رکوع سے سر اٹھایا تو «سمع الله لمن حمده» کہا، پھر کہا: «ربنا ولك الحمد» پھر سجدے میں جاتے ہوئے «الله اكبر» کہا، پھر سجدے سے سر اٹھایا تو «الله اكبر» کہا، پھر جب دوسری رکعت کے لئے اٹھے تو «الله اكبر» کہا، پھر کہا قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں نماز میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھنے والا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اسی طرح تھی یہاں تک کہ آپ دنیا سے رخصت ہو گئے۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر:]» یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 785]، [مسلم 392]، [نسائي 1154]، [مسند أبى يعلی 5949]، [ابن حبان 1766]
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر بار اٹھتے جھکتے، کھڑے ہوتے اور بیٹھتے وقت «الله اكبر» کہتے دیکھا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1284]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [نسائي 1145]، [مسند أبى يعلی 5101، 5128]
وضاحت: (تشریح احادیث 1281 سے 1283) ان احادیث سے نماز میں ہر ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف منتقل ہوتے وقت اللہ اکبر کہنا ثابت ہوا، صرف رکوع سے اٹھتے ہوئے «سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَه»(یعنی: الله تعالیٰ نے اس کی بات سن لی جس نے اس کی تعریف کی) کہنا چاہیے، اور فقہاء و علمائے کرام نے تکبیرِ تحریمہ کے بعد کی تمام تکبیرات اور «سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» کہنا، رکوع و سجود کی تسبیحات، سب کو نماز کے واجبات میں ذکر کیا ہے، اگر منفرد اور امام یہ کہنا بھول جائے تو اس کو جدۂ سہو کرنا ہوگا۔ واللہ اعلم۔
(حديث مرفوع) اخبرنا عثمان بن عمر، اخبرنا مالك، عن الزهري، عن سالم، عن ابيه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان "إذا دخل الصلاة، كبر ورفع يديه حذو منكبيه، وإذا ركع كبر ورفع يديه، وإذا رفع راسه من الركوع، فعل مثل ذلك، ولا يرفع بين السجدتين او في السجود".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ "إِذَا دَخَلَ الصَّلَاةَ، كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، وَإِذَا رَكَعَ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ، فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَلَا يَرْفَعُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ أَوْ فِي السُّجُودِ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو «الله اكبر» کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے (یعنی رفع الیدین کرتے)، اور جب رکوع میں جاتے تو تکبیر کہتے اور رفع یدین کرتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو ایسے ہی رفع یدین کرتے، اور سجدتین یا سجود کے درمیان رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1285]» یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 735]، [مسلم 390]، [أبوداؤد 721]، [ترمذي 255]، [نسائي 1024]، [ابن ماجه 858]، [مسند أبى يعلی 5420، 5481] و [ابن حبان 1861، 1864 وغيرهم]
مالک بن الحویرث نے روایت کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر تحریمہ کہتے تو کانوں تک ہاتھ اٹھاتے، اور اسی طرح رکوع میں جاتے ہوئے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1286]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 737]، [مسلم 391]، [ابن حبان 1863]