(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا الاوزاعي، عن يحيى بن ابي كثير، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن، قال: حدثني ابو هريرة، قال: بينما عمر بن الخطاب يخطب، إذ دخل رجل فعرض به عمر، فقال: يا امير المؤمنين، ما زدت ان توضات حين سمعت النداء. فقال: والوضوء ايضا؟ الم تسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: "إذا جاء احدكم إلى يوم الجمعة، فليغتسل".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ: بَيْنَمَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَخْطُبُ، إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ فَعَرَّضَ بِهِ عُمَرُ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَا زِدْتُ أَنْ تَوَضَّأْتُ حِينَ سَمِعْتُ النِّدَاءَ. فَقَالَ: وَالْوُضُوءَ أَيْضًا؟ أَلَمْ تَسْمَعْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ إِلَى يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَلْيَغْتَسِلْ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ خطبہ دے رہے تھے کہ اسی اثناء میں ایک شخص داخل ہوا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی طرف تعریض کی تو اس نے کہا: اے امیر المومنین! اذان سن کر میں نے صرف وضو کیا ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: صرف وضو؟ کیا تم نے سنا نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”جب تم میں سے کوئی شخص جمعہ کے دن (نماز کے لئے) آنا چاہے تو اسے غسل کر لینا چاہئے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1580]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 878]، [مسلم 845]، [أبوداؤد 340]، [نسائي 1376]، [ابن ماجه 1089]، [أبويعلی 258]، [ابن حبان 1230]
وضاحت: (تشریح احادیث 1574 سے 1578) بخاری شریف میں وضاحت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا بات ہے تم لوگ نماز کے لئے آنے میں دیر کیوں کرتے ہو؟ اس پر اس شخص نے کہا: میں نے اذان سننے کے بعد وضو کیا اور کوئی کام نہیں کیا ......۔
(حديث مرفوع) اخبرنا عفان، حدثنا همام، انبانا قتادة، عن الحسن، عن سمرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من توضا للجمعة فبها ونعمت، ومن اغتسل، فالغسل افضل".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، أَنْبأَنَا قَتَادَةُ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ تَوَضَّأَ لِلْجُمُعَةِ فَبِهَا وَنِعْمَتْ، وَمَنْ اغْتَسَلَ، فَالْغُسْلُ أَفْضَلُ".
سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے جمعہ کے لئے وضو کیا تو اچھا کیا اور جس نے غسل کر لیا تو (بہت اچھا کیا اور) یہ افضل ہے۔“
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أن سماع الحسن من سمرة ليس بثابت، [مكتبه الشامله نمبر: 1581]» اس روایت کے رواۃ ثقہ ہیں، بس حسن کا لقاء سمرہ سے ثابت نہیں ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 354]، [ترمذي 497]، [نسائي 1379، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 1578) جمعہ کا دن بڑی فضیلت کا دن ہے، اس دن نمازِ جمعہ کے لئے نہا دھو کر، با وضو، تیل خوشبو لگا کر اوّل وقت میں جامع مسجد آنے کی بڑی فضیلت ہے، «كماسيأتي» ۔ مذکورہ بالا احادیث جمعہ کے دن غسل سے متعلق ہیں جن میں بہت تاکید سے یہ حکم مروی ہے کہ جو کوئی نمازِ جمعہ کے لئے مسجد آئے اس کو غسل کر لینا چاہئے۔ حدیث کے الفاظ «غسل يوم الجمعة واجب» ہے لیکن یہ وجوب لغوی ہے شرعی نہیں، اسی لئے صحابہ کرام اور علمائے امّت نے جمعہ کے دن غسل کرنے کو مستحب کہا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أن سماع الحسن من سمرة ليس بثابت
190. باب في فَضْلِ الْجُمُعَةِ وَالْغُسْلِ وَالطِّيبِ فِيهَا:
190. جمعہ اور اس میں غسل کرنے اور خوشبو لگا کر جانے کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 1580
اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن عبد المجيد، حدثنا ابن ابي ذئب، عن المقبري، عن ابيه، عن عبد الله بن وديعة، عن سلمان الفارسي صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ان نبي الله صلى الله عليه وسلم قال: "من اغتسل يوم الجمعة فتطهر بما استطاع من طهر، ثم ادهن من دهنه، او مس من طيب بيته، ثم راح فلم يفرق بين اثنين وصلى ما كتب له، فإذا خرج الإمام انصت، غفر له ما بينه وبين الجمعة الاخرى".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَدِيعَةَ، عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَتَطَهَّرَ بِمَا اسْتَطَاعَ مِنْ طُهْرٍ، ثُمَّ ادَّهَنَ مِنْ دُهْنِهِ، أَوْ مَسَّ مِنْ طِيبِ بَيْتِهِ، ثُمَّ رَاحَ فَلَمْ يُفَرِّقْ بَيْنَ اثْنَيْنِ وَصَلَّى مَا كُتِبَ لَهُ، فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ أَنْصَتَ، غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى".
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور خوب اچھی طرح پاکی حاصل کرے، پھر تیل لگائے اور گھر میں جو خوشبو میسر ہو استعال کرے، پھر (جمعہ کے لیے) نکلے تو دو آدمیوں کے درمیان نہ گھسے، اور جتنی مقدر ہو نماز پڑھے، پھر جب امام (خطبہ کے لئے) آئے تو خاموش رہے، تو اس کے اس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک سارے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1582]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 883]، [نسائي 1402]، [ابن حبان 2776، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 1579) اس حدیث سے جمعہ کی فضیلت ثابت ہوئی، اور حدیث میں مذکور افعال کو اپنا کر ایک مسلمان ظاہری و باطنی برکات اور نیکی حاصل کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی تو فیق بخشے، آمین۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن فجر کی نماز میں سورة السجدة اور سورة الانسان پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1583]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 891]، [مسلم 880/66]، [نسائي 958]
وضاحت: (تشریح حدیث 1580) فجر کی نماز میں جمعہ کے دن « ﴿الم . تَنْزِيلُ الْكِتَابِ﴾(السجدة)» اور « ﴿هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ﴾(الانسان)» پڑھنا سنّت ہے۔ راقم نے ایک بار جمعہ کے دن دوسری سورتیں پڑھی تو شیخ محترم مفتیٔ اعظم ابن باز رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ سورۃ سجدہ اور سورة الانسان پڑھنا سنّت ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ پڑھا کرتے تھے۔ بتایا کہ معجم الطبرانی میں یہ لفظ ہے: «كان يداوم» یعنی ہمیشہ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مداومت کی ہے۔ عربی قاعدے کی رو سے بھی «كان» جب فعل مضارع سے پہلے آئے تو یہ اکثر استمرار و مداومت پر دلالت کرتا ہے، لہٰذا اس سنّت پرعمل کرنا چاہئے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا الاوزاعي، عن يحيى، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "المتعجل إلى الجمعة كالمهدي جزورا، ثم الذي يليه كالمهدي بقرة، ثم الذي يليه كالمهدي شاة، فإذا جلس الإمام على المنبر، طويت الصحف، وجلسوا يستمعون الذكر".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْمُتَعَجِّلُ إِلَى الْجُمُعَةِ كَالْمُهْدِي جَزُورًا، ثُمَّ الَّذِي يَلِيهِ كَالْمُهْدِي بَقَرَةً، ثُمَّ الَّذِي يَلِيهِ كَالْمُهْدِي شَاةً، فَإِذَا جَلَسَ الْإِمَامُ عَلَى الْمِنْبَرِ، طُوِيَتْ الصُّحُفُ، وَجَلَسُوا يَسْتَمِعُونَ الذِّكْرَ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جمعہ کی نماز کے لئے جلدی جانے والے کی مثال اونٹ کی قربانی کرنے والے جیسی ہے، پھر جو اس کے بعد آئے وہ گائے کی قربانی کرنے والے جیسا، اور جو اس کے بعد آئے وہ بکری کی قربانی کرنے والے جیسا ہے، پھر جب امام منبر پر بیٹھ جاتا ہے تو دفتر بند کر دیئے جاتے ہیں اور وہ (لکھنے والے فرشتے) بھی بیٹھ کر خطبہ سننے لگتے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1584]» اس روایت کی سند صحیح اور اصل حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 881]، [مسلم 850]، [أبوداؤد 351]، [ترمذي 499]، [نسائي 1387]، [أبويعلی 5994]، [ابن حبان 2774]، [الحميدي 963]، [مسند أحمد 239/2]
(حديث مرفوع) اخبرنا نصر بن علي، حدثنا عبد الاعلى، عن معمر، عن الزهري، عن الاغر ابي عبد الله صاحب ابي هريرة، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: "إذا كان يوم الجمعة، قعدت الملائكة على ابواب المسجد، فكتبوا من جاء إلى الجمعة، فإذا راح الإمام، طوت الملائكة الصحف ودخلت تستمع الذكر". قال: وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "المتهجر إلى الجمعة كالمهدي بدنة، ثم كالمهدي بقرة، ثم كالمهدي شاة، ثم كالمهدي بطة، ثم كالمهدي دجاجة، ثم كالمهدي بيضة"..(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ الْأَغَرِّ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ صَاحِبِ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِذَا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، قَعَدَتْ الْمَلَائِكَةُ عَلَى أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ، فَكَتَبُوا مَنْ جَاءَ إِلَى الْجُمُعَةِ، فَإِذَا رَاحَ الْإِمَامُ، طَوَتْ الْمَلَائِكَةُ الصُّحُفَ وَدَخَلَتْ تَسْتَمِعُ الذِّكْرَ". قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْمُتَهَجِّرُ إِلَى الْجُمُعَةِ كَالْمُهْدِي بَدَنَةً، ثُمَّ كَالْمُهْدِي بَقَرَةً، ثُمَّ كَالْمُهْدِي شَاةً، ثُمَّ كَالْمُهْدِي بَطَّةً، ثُمَّ كَالْمُهْدِي دَجَاجَةً، ثُمَّ كَالْمُهْدِي بَيْضَةً"..
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو فرشتے مسجد کے دروازوں پر بیٹھ جاتے ہیں اور جو بھی جمعہ کے لئے آتا ہے اس کا نام لکھ لیتے ہیں، پس جب امام (خطبہ کے لئے) آتا ہے تو وہ فرشتے دفتر بند کر دیتے ہیں اور خود بھی داخل ہو کر خطبہ سنتے ہیں۔“ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے پہلے آنے والا اونٹ کی قربانی دینے والے کی طرح ہے، پھر جو آتا ہے گائے کی قربانی دینے والے کی طرح ہے، اس کے بعد آنے والا بکری کی قربانی، اور اس کے بعد بطخ کی قربانی، اور اس کے بعد آنے والا مرغی کی قربانی، اور اس کے بعد آنے والا انڈے کی قربانی دینے والے کی طرح ہے۔“
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1585]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 929]، [مسلم 850، وغيرهما]
وضاحت: (تشریح احادیث 1581 سے 1583) اس حدیث میں بط کی قربانی کے ثواب کا ذکر ہے جو صحیحین میں نہیں ہے، نیز اونٹ، گائے، بکری، بطخ، مرغی اور انڈے کی قربانی سے مطلب یہ ہے کہ جمعہ کے لئے سویرے آنے والے کو اتنا ثواب ملتا ہے جتنا کوئی اتنا صدقہ و خیرات کرے، اور یہ بڑی فضیلت کی بات ہے۔ جمعہ کی نماز کے لئے جلد سے جلد مسجد جانا چاہیے، ہم نے شیخ ابن باز اور محمد سلیمان الیحی جیسے مالدار ترین شخص کو دیکھا ہے کہ وہ جمعہ کی نماز کے لئے ساڑھے دس بجے پہلی اذان کے وقت ہی گھر سے نکل کر مسجد چلے جاتے تھے (رحمہم اللہ)۔
سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھتے، پھر واپس ہوتے تو بنوغنم کے قلعہ کے سائے تلے جانے میں جلدی کرتے جو ہمارے قدموں کے برابر ہوتا۔
تخریج الحدیث: «إسناده منقطع، [مكتبه الشامله نمبر: 1586]» اس روایت کی سند میں انقطاع ہے، لیکن دوسری آنے والی حدیث اس کی شاہد ہے۔ تخریج کے لئے دیکھئے: [الطيالسي 672]، [بيهقي 191/3]، [مسند أحمد 164/1، 167]، [أبويعلی 680]، [مجمع الزوائد 3137]
وضاحت: (تشریح حدیث 1583) یعنی سایہ زیادہ طویل نہ ہوتا تھا، اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوّل وقت میں جمعہ پڑھتے تھے۔ آج عصر کے وقت تک نمازِ جمعہ کو مؤخر کیا جا تا ہے جو قطعاً اسوۂ حسنہ یا سنّت کی پیروی نہیں۔
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھ کر واپس ہوتے تو دیواروں کا سایا اتنا نہیں ہوتا تھا کہ ہم اس میں ٹھہر سکیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1587]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4168]، [مسلم 860]، [أبوداؤد 1085]، [ابن ماجه 1100]، [ابن حبان 1151، 1512]، [دارقطني 18/2]
وضاحت: (تشریح حدیث 1584) اس صحیح متفق علیہ حدیث سے جمعہ کی نماز اوّل وقت میں پڑھنے کا واضح ثبوت ملا۔ سعودی عرب میں اسی پر عمل ہے۔ اور ساری مساجد میں ایک ہی وقت میں نماز ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی مسجد میں بارہ بجے، کسی میں ایک بجے، اور کسی مسجد میں دو اور تین بجے تک جمعہ کی نماز ہوتی رہے۔ الله تعالیٰ لوگوں کو سمجھ دے، آمین۔