(حديث مرفوع) حدثنا ابو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، حدثنا يحيى بن سعيد، عن عمرة بنت عبد الرحمن , عن عائشة , ان يهودية دخلت عليها، فقالت: اعاذك الله من عذاب القبر، فلما جاء النبي صلى الله عليه وسلم سالته: ايعذب الناس في قبورهم؟ قال:"عائذا بالله". قالت: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم"ركب يوما مركبا فخسفت الشمس، فجاء النبي صلى الله عليه وسلم فنزل، ثم عمد إلى مقامه الذي كان يصلي فيه، قام الناس خلفه فاطال القيام، ثم ركع فاطال الركوع، ثم رفع فاطال القيام، وهو دون القيام الاول، ثم ركع فاطال الركوع، وهو دون الركوع الاول، ثم سجد سجدتين، ثم قام ففعل مثل ذلك، ثم تجلت الشمس". فدخل علي فقال:"إني اراكم تفتنون في قبوركم كفتنة الدجال". سمعته يقول: "اللهم إني اعوذ بك من عذاب القبر، واعوذ بك من عذاب النار"..(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّ يَهُودِيَّةً دَخَلَتْ عَلَيْهَا، فَقَالَتْ: أَعَاذَكِ اللَّهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، فَلَمَّا جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَتْهُ: أَيُعَذَّبُ النَّاسُ فِي قُبُورِهِمْ؟ قَالَ:"عَائِذًا بِاللَّهِ". قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"رَكِبَ يَوْمًا مَرْكَبًا فَخَسَفَتْ الشَّمْسُ، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَ، ثُمَّ عَمِدَ إِلَى مَقَامِهِ الَّذِي كَانَ يُصَلِّي فِيهِ، قَامَ النَّاسُ خَلْفَهُ فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ، وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ قَامَ فَفَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ تَجَلَّتْ الشَّمْسُ". فَدَخَلَ عَلَيَّ فَقَالَ:"إِنِّي أُرَاكُمْ تُفْتَنُونَ فِي قُبُورِكُمْ كَفِتْنَةِ الدَّجَّالِ". سَمِعْتُهُ يَقُولُ: "اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ"..
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی اور کہا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ عذاب قبر سے بچائے، پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے عرض کیا: کیا لوگوں کو ان کی قبروں میں عذاب دیا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس سے) اللہ کی پناہ مانگی، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر بیٹھے اور سورج کو گرہن لگ گیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے، سواری سے اترے اور اس مقام تک پہنچے جہاں امامت کرتے تھے، لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیر تک لمبا قیام کیا، پھر رکوع کیا اور اس میں بھی دیر کی، پھر رکوع سے اٹھے تو دوبارہ لمبا قیام کیا جو پہلے قیام سے کچھ کم تھا، پھر رکوع کیا اور لمبا رکوع کیا، لیکن پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سجدے کئے پھر کھڑے ہوئے اور ایسے ہی دوسری رکعت پڑھی، پھر سورج صاف ہو گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنی قبروں میں دجال کے فتنے کی طرح فتنے میں مبتلا کئے جاؤ گے“، میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اے اللہ! میں قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ اے اللہ! میں جہنم کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1568]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1049، 1055]، [مسلم 903]، [نسائي 1474]، [أبويعلی 4841]، [ابن حبان 2840]، [مسند الحميدي 179، 180]
وضاحت: (تشریح احادیث 1564 سے 1566) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ تم قبر میں فتنے میں مبتلا کئے جاؤگے، اور عذابِ قبر سے پناہ مانگنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قبر میں لوگ عذاب میں مبتلا کئے جائیں گے، اور یہی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوال کا جواب ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو يعقوب يوسف البويطي، عن محمد بن إدريس هو الشافعي، حدثنا مالك بن انس، عن زيد بن اسلم، عن عطاء بن يسار، عن ابن عباس، قال: خسفت الشمس فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فحكى ابن عباس: ان صلاته صلى الله عليه وسلم ركعتين في كل ركعة ركعتين، ثم خطبهم، فقال:"إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله لا يخسفان لموت احد، ولا لحياته، فإذا رايتم ذلك، فافزعوا إلى ذكر الله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو يَعْقُوبَ يُوسُفُ الْبُوَيْطِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِدْرِيسَ هُوَ الشَّافِعِيُّ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: خَسَفَتْ الشَّمْسُ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَكَى ابْنُ عَبَّاسٍ: أَنَّ صَلَاتَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ خَطَبَهُمْ، فَقَالَ:"إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ، وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ، فَافْزَعُوا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ہر رکعت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکوع کئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ”بیشک شمس و قمر اللہ کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جو کسی کی موت و زندگی کی وجہ سے بےنور نہیں ہوتی ہیں (یعنی گرہن نہیں لگتا ہے) لہٰذا اب تم ایسا (گرہن) دیکھو تو فوراً نماز کی طرف لپکو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1569]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1046، 1052]، [مسلم 907]، [مالك 2]، [أبوداؤد 1171]، [نسائي 1468]، [ابن حبان 2832، 2853]
(حديث موقوف) (حديث مرفوع) قال: واخبرنا مالك، عن يحيى بن سعيد، عن عمرة، عن عائشة، قالت:"خسفت الشمس فصلى النبي صلى الله عليه وسلم، فحكت انه صلى ركعتين، في كل ركعة ركعتين".(حديث موقوف) (حديث مرفوع) قَالَ: وَأَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:"خَسَفَتْ الشَّمْسُ فَصَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَكَتْ أَنَّهُ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فِي كُلِّ رَكْعَةٍ رَكْعَتَيْنِ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، انہوں نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی، ہر رکعت میں دو رکوع کئے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1571]» تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ نیز دیکھئے: [موطأ امام مالك: باب الكسوف 3]
دوسری سند سے بھی سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1573]» اس روایت کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 1566 سے 1571) ان تمام احادیثِ صحیحہ سے صلاةِ کسوف یا خسوف کا ثبوت اور ان کی مختلف کیفیات معلوم ہوئیں، کسوف یا خسوف دونوں کے ایک ہی معانی ہیں یعنی سورج اور چاند کا بے نور ہونا، اور یہ بے نوری خواه زمین کے ان دونوں کے درمیان حائل ہونے سے ہو یا کسی اور ظاہری سبب سے اس کا اہم معنوی سبب الله تعالیٰ کا اپنے بندوں کو یہ آگاہی دینا ہے کہ جو ذاتِ باری تعالیٰ ان اجرام فلکیہ کو جزوی اور وقتی طور پر بے نور کر دیتی ہے وہ کلی طور پر ہمیشہ کے لئے ان سے روشنی چھین کر انہیں تباہ و برباد کر سکتی ہے، کیونکہ یہ اس کی ادنیٰ مخلوق ہے۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جلدی سے نماز و دعا اور استغفار کی طرف لپکتے اور اس کا حکم دیتے تھے۔ صلاةِ کسوف بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی طرح پڑھائی ہے لیکن ہمیشہ دو رکعت ہی پڑھی، ہر رکعت میں دو سے چار بار رکوع کئے اور رکوع سے اٹھ کر پھر فاتحہ اور قرآت کی اور سجدے ہر رکعت میں دو ہی کئے ہیں۔ صحیح بخاری میں ہر رکعت میں دو بار رکوع کرنے کا ذکر ہے جو سب روایات سے زیادہ صحیح ہے، آخری احادیث میں سورج گرہن کے وقت صدقہ و خیرات کا بھی حکم ہے۔ واضح رہے کہ اس نماز میں عورت و مرد سب شریک ہو سکتے ہیں اور یہ سنّتِ مؤکدہ ہے۔
سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو لے کر عیدگاہ کی طرف نکلے کہ بارش کے لئے دعا کریں، پس آپ قبلہ رو ہوئے اور چادر کو الٹا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1574]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1012]، [مسلم 894]، [أبوداؤد 1166]، [ابن حبان 2864]، [مسند الحميدي 419، 420]
(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن نافع، عن شعيب، عن الزهري، اخبرني عباد بن تميم: ان عمه اخبره، ان النبي صلى الله عليه وسلم"خرج بالناس إلى المصلى يستسقي لهم، فقام فدعا الله قائما، ثم توجه قبل القبلة، فحول رداءه فاسقوا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي عَبَّادُ بْنُ تَمِيمٍ: أَنَّ عَمَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"خَرَجَ بِالنَّاسِ إِلَى الْمُصَلَّى يَسْتَسْقِي لَهُمْ، فَقَامَ فَدَعَا اللَّهَ قَائِمًا، ثُمَّ تَوَجَّهَ قِبَلَ الْقِبْلَةِ، فَحَوَّلَ رِدَاءَهُ فَأُسْقُوا".
عباد بن تمیم نے خبر دی کہ ان کے چچا نے انہیں خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے لئے بارش کی دعا کرنے انہیں لے کر عیدگاہ کی طرف گئے، کھڑے ہوئے اور اللہ سے دعا کی، پھر قبلہ کی طرف متوجہ ہوئے اور چادر الٹی (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول ہوئی) اور بارش ہو گئی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1575]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1023]
وضاحت: (تشریح احادیث 1571 سے 1573) قحط سالی کے وقت بارش کے لئے دعا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں سے ہے اور اس کے کئی طریقے ہیں: (1) کسی بھی وقت کوئی بھی بارش کے لئے الله تعالیٰ سے دعا مانگے، (2) امام نوافل یا فرض نماز یا خطبہ کے دوران دعا کرے، (3) کامل ترین صورت یہ ہے کہ امام لوگوں کو لے کر عید گاہ جائے، دو رکعت جہری نماز پڑھائے جس کو صلاة الاستسقاء کہتے ہیں، خطبہ دے اور پھر بارش کے لئے دعا کر کے چادر کو الٹے، نماز سے پہلے توبہ و استغفار، صدقہ و خیرات بھی قبولیتِ دعا کے اسباب میں سے ہے۔ ان تمام امور کا ثبوت احادیثِ صحیحہ میں موجود ہے جن میں سے چند احادیث امام دارمی رحمۃ الله علیہ نے یہاں ذکر کی ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا عثمان بن محمد، حدثنا عبدة، عن سعيد، عن قتادة، عن انس، قال:"كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يرفع يديه في شيء من الدعاء إلا في الاستسقاء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:"كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي شَيْءٍ مِنْ الدُّعَاءِ إِلَّا فِي الِاسْتِسْقَاءِ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم بارش کی دعا کے علاوہ کسی دعا میں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1576]» اس حدیث کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1031]، [مسلم 895]، [أبوداؤد 1170]، [نسائي 1512]، [ابن ماجه 1180]، [أبويعلی 2935]، [ابن حبان 2863]
وضاحت: (تشریح حدیث 1573) اس حدیث سے استسقاء کے لئے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ثابت ہوا، اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ بارش کے علاوہ کسی دعا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے، ان کے عدم رویت پر محمول کیا گیا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد مقامات پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا ثبوت احادیثِ صحیحہ میں موجود ہے، لیکن فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کا کسی حدیث میں ذکر نہیں ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: [فتح الباري 517/2] ۔
(حديث مرفوع) اخبرنا خالد بن مخلد، حدثنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا جاء احدكم الجمعة فليغتسل".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ الْجُمُعَةَ فَلْيَغْتَسِلْ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص جمعہ کی نماز کے لئے آنا چاہے تو اسے غسل کر لینا چاہیے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده قوي والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1577]» اس روایت کی سند قوی اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 877]، [مسلم 844]، [ترمذي 492، 493]، [أبويعلی 5480]، [ابن حبان 1223]، [مسند الحميدي 620]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي والحديث متفق عليه