سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص اپنے وظیفے کو یا اس میں سے کسی چیز کو چھوڑ کر سو گیا اور اس کو فجر اور ظہر کے درمیان پڑھ لیا تو اس کے لئے ایسا ہی لکھ دیا جاتا ہے گویا اس نے رات میں ہی پڑھا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1518]» اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 747]، [أبوداؤد 1313]، [ترمذي 581]، [نسائي 1789]، [ابن ماجه 1343]، [أحمد 32/1]، [أبويعلی 235]، [ابن حبان 2643]، [ابن خزيمة 1171، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 1515) ابوداؤد کی روایت میں ہے: اس کو ثواب رات میں ہی پڑھنے کا لکھ دیا جاتا ہے اور اس کا سونا (نیند) اس کے اوپر صدقہ ہوتا ہے۔ یہ الله تعالیٰ کی رحمت و مہربانی ہے کہ بندہ اگر رات میں اٹھ کر نماز کی نیّت کر کے سویا تو سونے کے باوجود اس کو رات میں ہی عبادت کرنے کا ثواب اور سونے کا بھی اجر ملتا ہے (سبحان الله العظيم)، نیز یہ کہ جو شخص تہجد پڑھتا ہو اور کبھی کبھار نہ اٹھ سکے، سوتا رہ جائے تو ظہر سے پہلے اس کو تہجد کی نماز پڑھ لینی چاہیئے، البتہ گیارہ رکعت کے بجائے بارہ رکعت نماز پڑھے کیونکہ وتر رات کی نماز ہے اور جیسا کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے جس کا ذکر ابھی گذر چکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد چھوٹ جانے پر دن میں ظہر سے پہلے 12 رکعت پڑھ لیتے تھے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح
(حديث قدسي) اخبرنا اخبرنا يزيد بن هارون، انبانا محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ينزل الله تعالى إلى السماء الدنيا كل ليلة لنصف الليل الآخر، او لثلث الليل الآخر، فيقول: من ذا الذي يدعوني فاستجيب له؟ من ذا الذي يسالني، فاعطيه؟ من ذا الذي يستغفرني فاغفر له؟ حتى يطلع الفجر او ينصرف القارئ من صلاة الفجر".(حديث قدسي) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَنْزِلُ اللَّهُ تَعَالَى إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا كُلَّ لَيْلَةٍ لِنِصْفِ اللَّيْلِ الْآخِرِ، أَوْ لِثُلُثِ اللَّيْلِ الْآخِرِ، فَيَقُولُ: مَنْ ذَا الَّذِي يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ؟ مَنْ ذَا الَّذِي يَسْأَلُنِي، فَأُعْطِيَهُ؟ مَنْ ذَا الَّذِي يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ؟ حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ أَوْ يَنْصَرِفَ الْقَارِئُ مِنْ صَلَاةِ الْفَجْرِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ہر رات اس وقت آسمان دنیا پر اترتا ہے جب رات کا آخری نصف حصہ باقی رہ جاتا ہے، یا جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے اور فرماتا ہے: کون ہے مجھ سے دعا کرنے والا کہ میں اس کی دعا قبول کر لوں؟ کون ہے مجھ سے مانگنے والا کہ میں اسے عطا کردوں؟ کون ہے مجھ سے بخشش طلب کرنے والا کہ میں اس کو بخش دوں؟ یہاں تک کہ فجر ہو جائے، یا پڑھنے والا نماز فجر سے فارغ ہو جائے (یعنی اس وقت تک یہ پکار ہوتی رہتی ہے)۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1519]» اس روایت کی یہ سند حسن ہے، لیکن حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1145]، [مسلم 758]، [أبوداؤد 1315]، [ترمذي 3498]، [أبويعلی 1180، 5936]، [ابن حبان 919، 920]، [الشريعة للآجري 73-75]، [الأسماء و الصفات للبيهقي ص: 449]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن ولكن الحديث متفق عليه
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارا پروردگار جس کا نام بابرکت ہے، ہر رات اس وقت آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے جب کہ رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے، وہ فرماتا ہے: جو کوئی مجھ سے دعا کرے گا میں اس کی دعا قبول کر لوں گا، جو کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرے گا میں اسے معاف کر دوں گا، اور جو مجھ سے مانگے گا میں اس کی جھولی بھر دوں گا، (صبح) فجر تک یہ منادی ہوتی رہتی ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1520]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ حوالے اوپر درج کئے جا چکے ہیں۔ مزید دیکھئے: [التوحيد لابن خزيمة 301/1، 192 بهذا السند]
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تبارک تعالیٰ ہر رات آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور کہتا ہے: ہے کوئی مانگنے والا کہ میں اسے مالا مال کر دوں؟ ہے کوئی مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اس کو بخش دوں؟“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1521]» اس حدیث کی سند بھی صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند ابي يعلی 7408، 7409]، [الشريعة للأجرى ص: 277]، [السنة لابن ابي عاصم 507]، [بيهقي فى الأسماء و الصفات 451]
(حديث قدسي) اخبرنا اخبرنا ابو المغيرة، حدثنا الاوزاعي، حدثنا يحيى بن ابي كثير، عن هلال بن ابي ميمونة، عن عطاء بن يسار، عن رفاعة بن عرابة الجهني، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: "إذا مضى من الليل نصفه او ثلثاه، هبط الله إلى السماء الدنيا، ثم يقول: لا اسال عن عبادي غيري، من ذا الذي يسالني فاعطيه؟ من ذا الذي يستغفرني فاغفر له؟ من ذا الذي يدعوني فاستجيب له، حتى يطلع الفجر".(حديث قدسي) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ رِفَاعَةَ بْنِ عَرَابَةَ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا مَضَى مِنْ اللَّيْلِ نِصْفُهُ أَوْ ثُلُثَاهُ، هَبَطَ اللَّهُ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، ثُمَّ يَقُولُ: لَا أَسْأَلُ عَنْ عِبَادِي غَيْرِي، مَنْ ذَا الَّذِي يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ؟ مَنْ ذَا الَّذِي يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ؟ مَنْ ذَا الَّذِي يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ، حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ".
سیدنا رفاعہ بن عرابہ جہنی رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب رات کا نصف یا دو تہائی حصہ گزر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر آتا ہے اور طلوع فجر تک اعلان فرماتا ہے: میں اپنے بندوں کے بارے میں کسی سے نہ پوچھوں گا، کون ہے جو مجھ سے مانگے میں اسے عطا کر دوں؟ کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے اور میں اسے بخش دوں؟ کون ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا قبول کر لوں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1522]» اس روایت کی یہ سند صحیح ہے۔ ابوالمغیرہ کا نام عبدالقدوس بن حجاج ہے۔ دیکھئے: [أحمد 16/4]، [ابن ماجه 1367، وغيرهما]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب رات کا تہائی یا نصف حصہ ہوتا ہے۔۔۔“ اور نزول کی مذکورہ بالا حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه علتان: ضعف محمد بن حميد وعنعنه ابن اسحاق، [مكتبه الشامله نمبر: 1524]» اس روایت کی سند میں محمد بن حمید ضعیف اور ابن اسحاق کا عنعنہ بھی ہے اور ابراہیم بن المختار میں بھی کلام ہے، لیکن یہ حدیث صحیح سند سے آگے آرہی ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه علتان: ضعف محمد بن حميد وعنعنه ابن اسحاق
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يحيى، حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا ابي، عن ابن إسحاق، حدثني سعيد بن ابي سعيد المقبري، عن عطاء مولى ام صبية، عن ابي هريرة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "لولا ان اشق على امتي لامرتهم بالسواك عند كل صلاة، ولاخرت العشاء الآخرة إلى ثلث الليل، فإنه إذا مضى ثلث الليل الاول، هبط الله إلى السماء الدنيا، فلم يزل هنالك حتى يطلع الفجر، يقول قائل: الا سائل يعطى؟ الا داع يجاب؟ الا سقيم يستشفي فيشفى؟ الا مذنب مستغفر فيغفر له؟".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاق، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ عَطَاءٍ مَوْلَى أُمِّ صُبَيَّةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لَأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ، وَلَأَخَّرْتُ الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ، فَإِنَّهُ إِذَا مَضَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْأَوَّلُ، هَبَطَ اللَّهُ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَلَمْ يَزَلْ هُنَالِكَ حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ، يَقُولُ قَائِلٌ: أَلَا سَائِلٌ يُعْطَى؟ أَلَا دَاعٍ يُجَابُ؟ أَلَا سَقِيمٌ يَسْتَشْفِي فَيُشْفَى؟ أَلَا مُذْنِبٌ مُسْتَغْفِرٌ فَيُغْفَرَ لَهُ؟".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے تھے: ”اگر میں اپنی امت پر مشقت محسوس نہ کرتا تو ان کو ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا اور عشاء کی نماز میں تہائی رات تک تاخیر کرتا، کیونکہ جب رات کا پہلا تہائی حصہ گزر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر آتا ہے اور طلوع فجر تک وہاں رہتا ہے، اور فرشتہ منادی کرتا ہے: کیا کوئی مانگنے والا نہیں جسے دیا جائے، کیا کوئی دعا کرنے والا نہیں کہ دعا قبول کی جائے، کیا کوئی بیمار نہیں جس کو شفا دی جائے، کیا کوئی ایسا گناہ کرنے والا نہیں جو مغفرت طلب کرے اور اسے بخش دیا جائے؟“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1525]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبويعلی 6576]، اسی طرح آنے والی حدیث کی سند ہے۔
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے مثل مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 1526]» تخریج کے لئے [مسند ابي يعلي 6576] دیکھئے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 1516 سے 1524) ان تمام احادیثِ صحیحہ سے الله تعالیٰ کا آسمانِ دنیا پر آنا اور منادی کرنا ثابت ہوا جو بلا تکییف و تمثیل صحیح اور ثابت ہے، عقل کا اس میں کوئی دخل نہیں اور نہ اس کی مخلوق سے تشبیہ جائز ہے۔ اہلِ حدیث اور سلف صالحین کا یہی عقیدہ ہے جس طرح ان کا عقیدہ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ مستوی عرش ہے اور اس کی رحمت و علم ساری کائنات کو محیط ہے۔ اللہ تعالیٰ کے آسمانِ دنیا پر آنے کا ذکر 7 آیاتِ شریفہ اور 15 احادیثِ مبارکہ صحیحہ سے ثابت ہے اس لئے یہ تاویل کرنا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اترتی ہے یا یہ کہ فرشتہ اترتا ہے بالکل لغو اور باطل ہے جس کی تفصیل علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب «نزول الرّب إلى السماء الدنيا» میں دیکھی جا سکتی ہے، بعض میں اوّل اللیل میں، اور بعض میں بیچ رات میں، اور کچھ احادیث میں آخری تہائی رات میں اللہ تعالیٰ کا آسمانِ دنیا پر آنا ذکر ہے، تو ہو سکتا ہے کبھی رات کے پہلے تہائی حصہ میں اور کبھی بیچ رات میں اور کبھی آخری تہائی حصے میں نزول جلّ شانہ ہو، اسی لئے کبھی کبھی حبیبِ الٰہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوّل حصے میں اور کبھی بیچ میں اور کبھی آخری تہائی میں وتر پڑھتے تھے اور آخری تہائی حصے ہی سے فجر سے پہلے تہجد پڑھنے کی فضیلت معلوم ہوئی کہ رب ذو الجلال کا نزولِ مبارک اس ساعت میں آسمانِ دنیا پر ہوتا ہے۔ (اللہ تعالیٰ اس کی تو فیق بخشے، آمین)۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن حسان، حدثنا سفيان هو ابن عيينة، عن سليمان الاحول , عن طاوس، عن ابن عباس، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام يتهجد من الليل قال: "اللهم لك الحمد، انت نور السموات والارض ومن فيهن، ولك الحمد، انت قيوم السموات والارض ومن فيهن، ولك الحمد، انت ملك السموات والارض ومن فيهن، انت الحق، وقولك الحق، ووعدك الحق، ولقاؤك حق، والجنة حق، والنار حق، والبعث حق، والنبيون حق، ومحمد صلى الله عليه وسلم حق. اللهم لك اسلمت، وبك آمنت، وعليك توكلت، وإليك انبت، وبك خاصمت، وإليك حاكمت، فاغفر لي ما قدمت وما اخرت، وما اعلنت وما اسررت، انت المقدم وانت المؤخر، لا إله إلا انت، ولا حول ولا قوة إلا بك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ هُوَ ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَحْوَلِ , عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ يَتَهَجَّدُ مِنْ اللَّيْلِ قَالَ: "اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ، أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ، أَنْتَ قَيُّومُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ، أَنْتَ مَلِكُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، أَنْتَ الْحَقُّ، وَقَوْلُكَ الْحَقُّ، وَوَعْدُكَ الْحَقُّ، وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ، وَالْجَنَّةُ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ، وَالْبَعْثُ حَقٌّ، وَالنَّبِيُّونَ حَقٌّ، وَمُحَمَّدٌّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقٌّ. اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ، وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ، وَبِكَ خَاصَمْتُ، وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ، فَاغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِكَ".
سیدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات میں تہجد کے لئے اٹھتے تو یہ دعا پڑھتے: «اَللّٰهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ ........ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِكَ» تک، ”اے میرے اللہ! ہر طرح کی تعریف تیرے ہی لئے ہے، تو آسمان و زمین اور ان میں بسنے والی تمام کائنات کا نور ہے، تو ہی آسمان و زمین اور اس میں رہنے والی تمام مخلوق کو سنبھالنے والا ہے، تمام تعریفیں تیرے ہی لئے زیبا ہیں اور تو ہی تمام آسمانوں اور زمینوں اور ان کے اندر جو کچھ مخلوق ہے ان کا بادشاہ ہے، تو سچا ہے، تیرا فرمان سچا ہے، تیرا وعدہ سچا ہے، تیری ملاقات برحق، جنت سچ ہے، دوزخ سچ ہے، مرنے کے بعد اٹھنا سچ ہے، تمام انبیاء سچے ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں، اے الله! میں فرماں بردار ہوں، اور تجھی پر ایمان لایا ہوں، اور تجھی پر بھروسہ ہے، اور تیری ہی طرف میں نے رجوع کیا ہے، اور تیرے ہی دلائل کے ذریعہ میں بحث کرتا ہوں، اور تجھی کو حکم بنایا ہے، پس جو خطائیں مجھ سے پہلے ہوئیں اور جو بعد میں ہوں گی ان سب کو معاف فرما، خواہ وہ ظاہر ہو گئی ہوں یا پوشیدہ ہوں، آگے کرنے والا اور پیچھے رکھنے والا تو ہی ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں اور طاقت و قوت تیری ہی طرف سے ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1527]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1120]، [مسلم 769]، [أبويعلی 2404]، [ابن حبان 2597]، [الحميدي 503]
وضاحت: (تشریح حدیث 1524) تہجد کے لئے اٹھنے والے خوش نصیبوں کیلئے نماز سے پہلے مذکورہ بالا دعا پڑھنا مسنون ہے۔