سنن دارمي
من كتاب الصللاة
نماز کے مسائل
167. باب إِذَا نَامَ عَنْ حِزْبِهِ مِنَ اللَّيْلِ:
کوئی شخص رات کی نماز سے سویا رہ جائے تو کیا کرے
حدیث نمبر: 1516
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَبْدٍ قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ نَامَ عَنْ حِزْبِهِ أَوْ عَنْ شَيْءٍ مِنْهُ، فَقَرَأَهُ فِيمَا بَيْنَ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَصَلَاةِ الظُّهْرِ، كُتِبَ لَهُ كَأَنَّمَا قَرَأَهُ مِنْ اللَّيْلِ".
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص اپنے وظیفے کو یا اس میں سے کسی چیز کو چھوڑ کر سو گیا اور اس کو فجر اور ظہر کے درمیان پڑھ لیا تو اس کے لئے ایسا ہی لکھ دیا جاتا ہے گویا اس نے رات میں ہی پڑھا ہے۔“
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1518]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 747]، [أبوداؤد 1313]، [ترمذي 581]، [نسائي 1789]، [ابن ماجه 1343]، [أحمد 32/1]، [أبويعلی 235]، [ابن حبان 2643]، [ابن خزيمة 1171، وغيرهم]
وضاحت: (تشریح حدیث 1515)
ابوداؤد کی روایت میں ہے: اس کو ثواب رات میں ہی پڑھنے کا لکھ دیا جاتا ہے اور اس کا سونا (نیند) اس کے اوپر صدقہ ہوتا ہے۔
یہ الله تعالیٰ کی رحمت و مہربانی ہے کہ بندہ اگر رات میں اٹھ کر نماز کی نیّت کر کے سویا تو سونے کے باوجود اس کو رات میں ہی عبادت کرنے کا ثواب اور سونے کا بھی اجر ملتا ہے (سبحان الله العظيم)، نیز یہ کہ جو شخص تہجد پڑھتا ہو اور کبھی کبھار نہ اٹھ سکے، سوتا رہ جائے تو ظہر سے پہلے اس کو تہجد کی نماز پڑھ لینی چاہیئے، البتہ گیارہ رکعت کے بجائے بارہ رکعت نماز پڑھے کیونکہ وتر رات کی نماز ہے اور جیسا کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے جس کا ذکر ابھی گذر چکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد چھوٹ جانے پر دن میں ظہر سے پہلے 12 رکعت پڑھ لیتے تھے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح