سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری اس مسجد میں ایک نماز مسجد حرام کے علاوہ دوسری تمام مساجد سے ایک ہزار درجہ زیادہ بہتر ہے۔“
(حديث مرفوع) اخبرنا مسدد، حدثنا بشر بن المفضل، حدثنا عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "صلاة في مسجدي هذا افضل من الف صلاة فيما سواه، إلا المسجد الحرام".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي هَذَا أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ، إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری اس مسجد میں ایک نماز دوسری مساجد کی ہزار نمازوں سے زیادہ افضل ہے سوائے مسجد حرام کے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1459]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أحمد 29/2، 54]، [مسلم 1395]، [ابن ماجه 1405]، [ابن أبى شيبه 371/2]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری اس مسجد میں ایک نماز دوسری تمام مساجد کی ایک ہزار نمازوں سے بہتر ہے سوائے مسجد حرام کے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1460]» اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1190]، [مسلم 1394]، [أبويعلی 5857]، [ابن حبان 1621]، [الحميدي 969]
وضاحت: (تشریح احادیث 1455 سے 1458) ان احادیث سے مسجدِ نبوی کی فضیلت ثابت ہوئی کہ اس میں نماز پڑھنے کا ثواب دوسری مساجد سے ہزار گنا زیادہ ہے سوائے مسجد الحرام کے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ مسجد الحرام روئے زمین کی ساری مساجد سے افضل ہے کیونکہ اس میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے، «كما ورد فى بعض الروايات» ۔ دیکھئے: [فتح الباري، شرح حديث 1190] ۔
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، حدثنا محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد: مسجد الكعبة، ومسجدي هذا، ومسجد الاقصى".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: مَسْجِدُ الْكَعْبَةِ، وَمَسْجِدِي هَذَا، وَمَسْجِدِ الْأَقْصَى".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین مسجدوں کے سوا کسی مسجد کے لئے کجاوے نہ باندھے جائیں (یعنی سفر نہ کیا جائے)، ایک مسجد حرام (بیت اللہ شریف)، دوسرے میری یہ مسجد (مسجد نبوی)، اور تیسرے مسجد اقصی (یعنی بیت المقدس)۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1461]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1189]، [مسلم 1397]، [أبوداؤد 2033]، [نسائي 699]، [ابن ماجه 1409]، [أبويعلی 5880]، [ابن حبان 1619]، [الحميدي 973]
وضاحت: (تشریح حدیث 1458) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ان تین مساجد کے علاوہ ثواب کی نیت سے کسی بھی مسجد میں سفر کر کے جانا جائز نہیں، اور ثواب کی نیت سے قبر اور مزاروں کے لئے سفر کرنا تو حرام ہے، حتیٰ کہ علمائے کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ مبارک کی زیارت کے قصد سے مدینہ منورہ جانے کو بھی خلافِ شرع اور مذکورہ بالا حدیث کے مخالف تصور کیا ہے، ہاں جو شخص مسجدِ نبوی میں جائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ کی زیارت کے لئے جائے تو کوئی حرج نہیں، وہاں جا کر درود و سلام شرعی طریقے پر کہنا اور سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما و دیگر صحابہ پر سلام کہنا معیوب نہیں، اسی طرح قرب و جوار کے قبرستان میں عبرت و موعظت کے لئے جانا اور مرحومین کے لئے دعا کرنا بھی خلافِ شرع نہیں بلکہ جائز و مستحب ہے، بس شدّ رحال کی یعنی خاص طور سے کسی قبر، مزار، درگاہ اور قبرستان کی زیارت ثواب حاصل کرنے کے لئے اور صاحبِ قبر سے سفارش یا طلبِ معاش و حاجت روائی کے لئے سفر کر کے جانا خلافِ شرع اور حرام ہے۔ اللہ سب کو دین کی سمجھ دے۔ آمین۔
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص رات کے اندھیرے میں نماز کی غرض سے نکلے الله تعالیٰ قیامت کے دن اس کو نور عطا فرمائے گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده جيد والحديث يصح بشواهده، [مكتبه الشامله نمبر: 1462]» یہ روایت حسن اور شواہد کے پیشِ نظر حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن حبان 2046]، [موارد الظمآن 422]، [مجمع الزوائد 2109]
وضاحت: (تشریح حدیث 1459) اس حدیث سے رات کی تاریکی میں نماز کے لئے جانے کی فضیلت ثابت ہوئی، ایسے آدمی کے لئے قیامت کے دن نور ہی نور ہوگا۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد والحديث يصح بشواهده
سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ بندے کی طرف اس وقت تک متوجہ رہتا ہے جب تک کہ اِدھر اُدھر التفات نہ کرے، جب اپنے چہرے کو نمازی موڑتا ہے تو الله تعالیٰ بھی اس سے منہ موڑ لیتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح، [مكتبه الشامله نمبر: 1463]» یہ روایت اس سند سے عبدالله بن صالح اور ابوالاحوص کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن اس کے شواہد بھی ملتے ہیں جن سے اس روایت کو تقویت ملتی ہے۔ دیکھئے: [أحمد 175/5]، [أبوداؤد 909]، [نسائي 1194]، [مجمع الزوائد 245، 2453]
وضاحت: (تشریح حدیث 1460) اس حدیث سے نماز میں اِدھر اُدھر التفات کرنے اور دیکھنے کی ممانعت ہے۔ التفات دو طرح سے ہو سکتا ہے۔ نظر گھما کر اِدھر اُدھر دیکھنا تو اس کی احادیث کی روشنی میں گنجائش ہے، اور فرض نماز میں یہ بھی نہ ہو تو بہتر ہے، اور گردن موڑ کر اِدھر اُدھر دیکھنا یہ منع ہے کیونکہ نماز میں انسان کو یکسو ہو کر سجدے کی طرف نظر رکھنی چاہیے تاکہ دھیان اِدھر اُدھر نہ بنے اور خشوع و خضوع برقرار رہے جو نماز کیلئے اشد ضروری ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح
(حديث مرفوع) اخبرنا احمد بن عبد الله، حدثنا حجاج بن محمد، قال: قال ابن جريج: اخبرني عثمان بن ابي سليمان، عن علي الازدي، عن عبيد بن عمير الليثي، عن عبد الله بن حبشي، ان النبي صلى الله عليه وسلم سئل: اي الاعمال افضل؟ قال: "إيمان لا شك فيه، وجهاد لا غلول فيه، وحجة مبرورة". قيل: فاي الصلاة افضل؟ قال:"طول القيام". قيل: فاي الصدقة افضل؟ قال:"جهد مقل". قيل: فاي الهجرة افضل؟ قال:"ان تهجر ما حرم الله عليك". قيل: فاي الجهاد افضل؟ قال:"من جاهد المشركين بماله ونفسه". قيل: فاي القتل اشرف؟ قال:"من عقر جواده واهريق دمه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: أَخْبَرَنِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ عَلِيٍّ الْأَزْدِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ اللَّيْثِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُبْشِيٍّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ: أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: "إِيمَانٌ لَا شَكَّ فِيهِ، وَجِهَادٌ لَا غُلُولَ فِيهِ، وَحَجَّةٌ مَبْرُورَةٌ". قِيلَ: فَأَيُّ الصَّلَاةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:"طُولُ الْقِيَامِ". قِيلَ: فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:"جُهْدُ مُقِلٍّ". قِيلَ: فَأَيُّ الْهِجْرَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:"أَنْ تَهْجُرَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْكَ". قِيلَ: فَأَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:"مَنْ جَاهَدَ الْمُشْرِكِينَ بِمَالِهِ وَنَفْسِهِ". قِيلَ: فَأَيُّ الْقَتْلِ أَشْرَفُ؟ قَالَ:"مَنْ عُقِرَ جَوَادُهُ وَأُهْرِيقَ دَمُهُ".
عبداللہ بن حبشی سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون سا عمل افضل ہے؟ ارشاد فرمایا: ”اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا سب سے افضل عمل ہے، پھر وہ جہاد جس میں خیانت نہ ہو، اور پھر حج مبرور۔“ دریافت کیا گیا: اور سب سے زیادہ افضل (فضیلت والی) نماز کون سی ہے؟ فرمایا: ”جس میں قیام لمبا ہو۔“ پوچھا گیا: اور سب سے افضل صدقہ کون سا ہے؟ فرمایا: ”جو کم مال والا محنت کر کے صدقہ دے۔“ عرض کیا گیا: ہجرت کون سی افضل ہے؟ فرمایا: ”جو حرام کام سے ہجرت (کنارہ کشی) اختیار کرے۔“ پوچھا گیا: پھر جہاد کون سا افضل ہے؟ فرمایا: ”جو مشرکین سے اپنے جان و مال کے ساتھ جہاد کرنا ہو۔“ پوچھا گیا: سب سے افضل قتل کون سا ہے؟ فرمایا: ”جس کا خون بہایا جائے اور اس کے گھوڑے کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے جائیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1464]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1449]، [نسائي 2525، 5001]، [أحمد 411/3]، [ترغيب وترهيب 30]
(حديث مرفوع) حدثنا عفان، اخبرنا همام، عن ابي جمرة، عن ابي بكر بن ابي موسى، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من صلى البردين، دخل الجنة". قيل لابي محمد: ما البردين؟ قال: الغداة والعصر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ صَلَّى الْبَرْدَيْنِ، دَخَلَ الْجَنَّةَ". قِيلَ لِأَبِي مُحَمَّدٍ: مَا الْبَرْدَيْنِ؟ قَالَ: الْغَدَاةُ وَالْعَصْرُ.
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ٹھنڈے وقت کی دو نمازیں (فجر و عصر) وقت پر پڑھیں تو وہ جنت میں داخل ہو گیا۔“ امام دارمی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ «بردين» کا مطلب کیا ہے؟ فرمایا: فجر اور عصر کی نماز۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1465]» اس حدیث کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 574]، [مسلم 635]، [أبويعلی 7265]، [ابن حبان 1739]
(حديث مرفوع) اخبرنا يحيى بن حسان، حدثنا سليمان بن بلال، عن إبراهيم بن ابي اسيد، عن جده، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "من صلى الصبح، فهو في جوار الله، فلا تخفروا الله في جاره، ومن صلى العصر، فهو في جوار الله، فلا تخفروا الله في جاره". قال ابو محمد: إذا امن ولم يف، فقد غدر واخفر.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي أُسَيْدٍ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ صَلَّى الصُّبْحَ، فَهُوَ فِي جِوَارِ اللَّهِ، فَلَا تُخْفِرُوا اللَّهَ فِي جَارِهِ، وَمَنْ صَلَّى الْعَصْرَ، فَهُوَ فِي جِوَارِ اللَّهِ، فَلَا تُخْفِرُوا اللَّهَ فِي جَارِهِ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: إِذَا أُمِّنَ وَلَمْ يَفِ، فَقَدْ غَدَرَ وَأَخْفَرَ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے فجر کی نماز پڑھ لی وہ اللہ کے جوار (پڑوس یا ذمے داری اور عہد و پیمان) میں ہے، پس تم اللہ کے عہد میں اس کے پیمان کو نہ توڑو، اور جو شخص عصر کی نماز پڑھ لے تو وہ بھی اللہ کے جوار میں ہے، پس تم اللہ کے جوار کو نہ توڑو۔“ امام دارمی رحمہ اللہ نے «اخفر» کے معنی بیان کرتے ہوئے فرمایا: جب انسان مامون ہو جائے اور عہد کو پورا نہ کرے تو گویا اس نے خیانت کی اور عہد کو توڑ دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد إن كان جد إبراهيم سالما البراد، [مكتبه الشامله نمبر: 1466]» اس روایت کی سند جید ہے، اور ان الفاظ میں یہ روایت امام دارمی رحمہ اللہ کے انفرادات میں سے ہے، لیکن اس کے ہم معنی صحیح حدیث موجود ہے۔ دیکھئے: [مسلم 657]، [ترمذي 222]، [ابن ماجه 2945]، [الطيالسي 938]، [أحمد 312/4 وغيرهم]
وضاحت: (تشریح احادیث 1461 سے 1464) اس حدیث سے نمازِ فجر اور عصر کی فضیلت ثابت ہوئی۔ مسلم شریف کی روایت کے الفاظ ہیں: «مَنْ صَلَّى الصُّبْحَ فَهُوَ فِي ذِمَّةِ اللّٰهِ.»”جس نے صبح کی نماز پڑھ لی وہ اللہ کی ذمہ داری میں ہے۔ “ اور یہ بہت بڑی فضیلت ہے، جو اللہ کی ذمہ داری میں ہو اسے کون چھو سکتا ہے، اور کون نقصان و تکلیف یا ضرر پہنچا سکتا ہے؟
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد إن كان جد إبراهيم سالما البراد
عبداللہ بن ارقم نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نماز کا وقت ہو جائے اور آدمی کو پائخانہ کی ضرورت ہو تو پہلے بیت الخلاء جائے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1467]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 88]، [ترمذي 142]، [نسائي 851]، [ابن حبان 2071]، [موارد الظمآن 194]، [الحميدي 896]
وضاحت: (تشریح حدیث 1464) یعنی پہلے حاجت رفع کرے بعد میں نماز کو جائے، کیونکہ ایسی صورت میں نماز میں یکسوئی نہ رہے گی۔ صحیح حدیث ہے: «لَا صَلَاةَ بِحَضْرَةِ الطَّعَامِ، وَلَا هُوَ يُدَافِعُهُ الأَخْبَثَانِ»”نماز نہیں پڑھنی چاہیئے جب کھانا سامنے آئے یا پائخانہ یا پیشاب کا تقاضہ ہو۔ “[صحيح مسلم: 560] ۔