(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا هشام، حدثنا قتادة، عن ابي مجلز، عن ابن عباس رضي الله عنه في قوله: "ولا جنبا إلا عابري سبيل سورة النساء آية 43، قال: هو المسافر".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فِي قَوْلِهِ: "وَلا جُنُبًا إِلا عَابِرِي سَبِيلٍ سورة النساء آية 43، قَالَ: هُوَ الْمُسَافِرُ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے «﴿وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ ...﴾»[النساء 43/4] میں «عابري سبيل» سے مراد فرمایا: مسافر ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1208]» اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تفسير طبري 97/5]۔ ابومجلز کا نام لاحق بن حمید ہے۔
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا مسلم، حدثنا الحسن بن ابي جعفر، حدثنا سلم العلوي، عن انس رضي الله عنه: ولا جنبا إلا عابري سبيل سورة النساء آية 43، قال: "الجنب يجتاز بالمسجد ولا يجلس فيه".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُسْلِمٌ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَبِي جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا سَلْمٌ الْعَلَوِيُّ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: وَلا جُنُبًا إِلا عَابِرِي سَبِيلٍ سورة النساء آية 43، قَالَ: "الْجُنُبُ يَجْتَازُ بِالْمَسْجِدِ وَلَا يَجْلِسُ فِيهِ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مذکورہ بالا آیت کا مطلب ہے کہ جنابت کی حالت میں مسجد میں سے گزر جائے، بیٹھے نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف الحسن بن أبي جعفر، [مكتبه الشامله نمبر: 1209]» حسن بن ابی جعفر کی وجہ سے اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [بيهقي 443/2] و [معرفة السنن للبيهقي 5097]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف الحسن بن أبي جعفر
(حديث مقطوع) اخبرنا الحكم بن المبارك، وابو نعيم، عن شريك، عن عبد الكريم الجزري، عن ابي عبيدة، قال: "الجنب يمر في المسجد، ولا يقعد فيه"، ثم قرا هذه الآية: ولا جنبا إلا عابري سبيل سورة النساء آية 43.(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، وَأَبُو نُعَيْمٍ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ الْجَزَرِيِّ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، قَالَ: "الْجُنُبُ يَمُرُّ فِي الْمَسْجِدِ، وَلَا يَقْعُدُ فِيهِ"، ثُمَّ قَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ: وَلا جُنُبًا إِلا عَابِرِي سَبِيلٍ سورة النساء آية 43.
ابوعبیدہ نے کہا: جنبی مسجد سے گزر سکتا ہے، اس میں بیٹھے گا نہیں، استشہاد میں یہ آیت پڑھی: «﴿وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ﴾» ۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1210]» اس قول کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [146/1] و [تفسير طبري 99/5]
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم مسجد میں حالت جنابت میں چلتے تھے اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن أبي ليلى، [مكتبه الشامله نمبر: 1212]» یہ قول ضعیف ہے، محمد بن ابی لیلی اس روایت میں ضعیف ہیں۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 146/1]، [بيهقي 443/2]، [الدر المنثور 166/2]
وضاحت: (تشریح احادیث 1202 سے 1207) ان آثار سے جنبی کے مسجد سے گذرنے کا ثبوت ہے، نیز یہ روایت «لَا أُحِلُّ الْمَسْجِدَ لِجُنُبٍ وَلَا حَائِضٍ» متکلم فیہ ہے۔ البتہ ان کا مسجد میں بیٹھنا درست نہیں۔ واللہ علم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف محمد بن أبي ليلى
(حديث مقطوع) اخبرنا يعلى بن عبيد، حدثنا عبد الملك، عن عطاء، في المراة الحائض في عنقها التعويذ او الكتاب، قال: "إن كان في اديم، فلتنزعه، وإن كان في قصبة مصاغة من فضة، فلا باس، إن شاءت، وضعت، وإن شاءت، لم تفعل"، قيل لعبد الله: تقول بهذا؟ قال: نعم.(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ، عَنْ عَطَاءٍ، فِي الْمَرْأَةِ الْحَائِضِ فِي عُنُقِهَا التَّعْوِيذُ أَوْ الْكِتَابُ، قَالَ: "إِنْ كَانَ فِي أَدِيمٍ، فَلْتَنْزِعْهُ، وَإِنْ كَانَ فِي قَصَبَةٍ مُصَاغَةٍ مِنْ فِضَّةٍ، فَلَا بَأْسَ، إِنْ شَاءَتْ، وَضَعَتْ، وَإِنْ شَاءَتْ، لَمْ تَفْعَلْ"، قِيلَ لِعَبْدِ اللَّهِ: تَقُولُ بِهَذَا؟ قَالَ: نَعَمْ.
حائضہ عورت کے اپنے گلے میں تعویذ یا قرآن (آیت) لٹکانے کے بارے میں عطاء رحمہ اللہ سے مروی ہے، فرمایا: اگر چمڑے پر لکھا ہو تو عورت اس کو نکال دے، اور اگر چاندی کے خول میں ہو تو کوئی حرج نہیں، چاہے تو نکال دے اور چاہے تو نہ نکالے۔ امام دارمی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: آپ بھی یہی کہتے ہیں؟ فرمایا: ہاں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى عطاء، [مكتبه الشامله نمبر: 1212]» عطاء رحمہ اللہ تک اس روایت کی سند صحیح ہے، اور اسے ابن ابی شیبہ نے [مصنف 38/7، 3595] میں اور عبدالرزاق نے [مصنف 1347] میں ذکر کیا ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 1207) تعویذ لٹکانا في ذاتہ غلط ہے چہ جائیکہ حالتِ حیض میں وہ تعویذ چاہے آیتِ قرآنیہ سے لکھا گیا ہو یا اعداد ہندسوں میں لکھا گیا ہو، کسی صورت جائز نہیں، علمائے کرام کا اصح قول یہی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے: «إِنَّ الرُّقَي وَالتَّمَائِمَ وَالتِّوَلَةً شِرْكٌ.» جھاڑ پھونک، تعویذ، محبت کیلئے اعمال سب شرک ہیں۔ لہٰذا اس سے بچا جائے۔ اس حدیث «إِنَّ الرُّقَي» کے لئے دیکھئے: [أبوداؤد 3883]، [ابن ماجه 3576]، [مسند أحمد 381/1] ۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى عطاء
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن يزيد، حدثنا ضمرة، قال: حدثنا عبد الله بن شوذب، حدثنا عن مطر، قال: سالت الحسن، وعطاء عن الرجل تكون معه امراته في سفر فتحيض، ثم تطهر، ولا تجد الماء، قالا: "تتيمم وتصلي"، قال: قلت لهما: يطؤها زوجها؟، قالا:"نعم، الصلاة اعظم من ذلك".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَوْذَبٍ، حَدَّثَنَا عَنْ مَطَرٍ، قَالَ: سَأَلْتُ الْحَسَنَ، وَعَطَاءً عَنْ الرَّجُلِ تَكُونُ مَعَهُ امْرَأَتُهُ فِي سَفَرٍ فَتَحِيضُ، ثُمَّ تَطْهُرُ، وَلَا تَجِدُ الْمَاءَ، قَالَا: "تَتَيَمَّمُ وَتُصَلِّي"، قَالَ: قُلْتُ لَهُمَا: يَطَؤُهَا زَوْجُهَا؟، قَالَا:"نَعَمْ، الصَّلَاةُ أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ".
مَطَر (الوراق) نے بیان کیا کہ حسن اور عطاء رحمہم اللہ سے میں نے اس آدمی کے بارے میں پوچھا جس کے ساتھ سفر میں اس کی بیوی ہو اور اسے حیض آ جائے، پھر پاک بھی ہو جائے لیکن پانی نہ ملے؟ ان دونوں نے فرمایا: تیمّم کرے گی اور نماز پڑھے گی، مطر نے کہا: کیا اس کا شوہر اس حالت میں اس سے وطی کر سکتا ہے؟ فرمایا: نماز اس سے عظیم تر ہے۔ یعنی جب نماز پڑھ سکتی ہے تو شوہر سے مل بھی سکتی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1213]» اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 97/1]، [بيهقي 310/1]
(حديث مقطوع) حدثنا سعيد بن المغيرة، عن ابن المبارك، عن ابن جريج، عن عطاء، في المراة تطهر ولا تجد الماء، قال: "يصيبها زوجها إذا تيممت"، سئل عبد الله: تقول بهذا؟، قال: إي والله.(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، فِي الْمَرْأَةِ تَطْهُرُ وَلَا تَجِدُ الْمَاء، قَالَ: "يُصِيبُهَا زَوْجُهَا إِذَا تَيَمَّمَتْ"، سُئِلَ عَبْد اللَّهِ: تَقُولُ بِهَذَا؟، قَالَ: إِي وَاللَّهِ.
عطاء رحمہ اللہ سے مروی ہے، جو عورت حیض سے پاک ہو کر پانی نہ پائے، فرمایا: جب تیمّم کر لے تو شوہر مل سکتا ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: آپ کی بھی یہی رائے ہے؟ فرمایا: اي والله۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه ابن جريج وقد عنعن، [مكتبه الشامله نمبر: 1214]» اس روایت کی سند ابن جریج کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [مصنف عبدالرزاق 925]
وضاحت: (تشریح احادیث 1208 سے 1210) حیض سے پاک ہونے کے بعد پانی نہ ملنے پر یہ مسئلہ درست ہے، مجبوری میں ایسا کیا جا سکتا ہے، یعنی تیمّم کر کے نماز پڑھ لے اور اس کا شوہر اس سے مل سکتا ہے۔ والله اعلم۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه ابن جريج وقد عنعن
(حديث مقطوع) اخبرنا يزيد، حدثنا شريك، عن ليث، عن طاوس، في استبراء الامة إن لم تكن تحيض، قال: "خمسة واربعين".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ طَاوُسٍ، فِي اسْتِبْرَاءِ الْأَمَةِ إِنْ لَمْ تَكُنْ تَحِيضُ، قَالَ: "خَمْسَةً وَأَرْبَعِينَ".
طاؤوس رحمہ اللہ سے مروی ہے، اگر لونڈی کو حیض نہ آتا ہو تو اس کی استبراء کی مدت پینتالیس (45) دن ہے۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1215]» لیث بن ابی سلیم کی وجہ سے اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 226/4] و [مصنف 166/5] میں ہی اس کا شاہد موجود ہے۔