(حديث مقطوع) اخبرنا إبراهيم بن المنذر، حدثنا داود بن عطاء، عن جعفر بن محمد، عن ابيه، قال: "عرض الكتاب والحديث سواء".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَطَاءٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: "عَرْضُ الْكِتَابِ وَالْحَدِيثُ سَوَاءٌ".
جعفر بن محمد سے مروی ہے، ان کے والد نے کہا: کتاب یا حدیث کا عرض (پیش کرنا) ایک ہی بات ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 663]» اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [المعرفة 826/2]، [الكفاية ص: 264] لیکن قول صحیح ہے۔
(حديث مقطوع) اخبرنا إبراهيم بن المنذر، حدثنا داود بن عطاء، قال: "كان زيد بن اسلم يرى عرض الكتاب والحديث سواء، وكان ابن ابي ذئب يرى ذلك".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَطَاءٍ، قَالَ: "كَانَ زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ يَرَى عَرْضَ الْكِتَابِ وَالْحَدِيثَ سَوَاءً، وَكَانَ ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ يَرَى ذَلِكَ".
داؤد بن عطاء (مولی المزنیین) نے کہا: زید بن اسلم کتاب یا حدیث پیش کرنا برابر سمجھتے تھے، اور ابن ابی ذئب کا بھی یہی خیال تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف داود بن عطاء، [مكتبه الشامله نمبر: 664]» اس روایت کی سند داؤد کی وجہ سے ضعیف ہے، اور کہیں یہ روایت نہیں ملی۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف داود بن عطاء
(حديث مقطوع) اخبرنا إبراهيم، حدثنا مطرف، عن مالك بن انس"انه كان يرى العرض والحديث سواء".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ، حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ"أَنَّهُ كَانَ يَرَى الْعَرْضَ وَالْحَدِيثَ سَوَاءً".
مطرف (بن عبدالله بن مطرف) نے کہا: امام مالک رحمہ اللہ کتاب پیش کرنا یا حدیث پڑھ کر سنانا برابر سمجھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 665]» اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الكفاية ص: 270]، اس اثر کی سند میں ابراہیم: ابن المنذر ہیں اور مطرف: ابن عبد اللہ ہیں۔
(حديث مرفوع) اخبرنا قبيصة، حدثنا سفيان، عن الاعمش، قال: كان إبراهيم، يقول: يقوم عن يساره، فحدثته عن سميع الزيات، عن ابن عباس: ان النبي صلى الله عليه وسلم "اقامه عن يمينه"، فاخذ به.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، قَالَ: كَانَ إِبْرَاهِيمُ، يَقُولُ: يَقُومُ عَنْ يَسَارِهِ، فَحَدَّثْتُهُ عَن سُمَيْعٍ الزَّيَّاتِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "أَقَامَهُ عَنْ يَمِينِهِ"، فَأَخَذَ بِهِ.
اعمش سے مروی ہے، ابراہیم نے کہا: (دوسرا شخص) امام کے بائیں کھڑا ہو گا، میں نے انہیں بتایا سمیع الزیات کے طریق سے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (نماز میں) اپنے دائیں جانب کھڑا کیا، اور پھر انہوں نے (ابراہیم نے) اسی کو اپنا مسلک بنا لیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 666]» اس قول کی سند صحیح ہے۔ اور یہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خالہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کی متفق علیہ حدیث کا ایک ٹکڑا ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 859] و [صحيح مسلم 763]۔ نیز دیکھئے: [مسند الموصلي 2465]، [ابن حبان 1190] و [مسند الحميدي 477]
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن حميد، حدثنا هارون بن المغيرة، عن عنبسة بن سعيد، عن خالد بن زيد الانصاري، عن عقار بن المغيرة بن شعبة، عن ابيه المغيرة بن شعبة، قال: نشد عمر الناس: اسمع من النبي صلى الله عليه وسلم احد منكم في الجنين؟ فقام المغيرة بن شعبة، فقال: قضى فيه عبدا او امة، فنشد الناس ايضا: فقام المقضي له، فقال:"قضى النبي صلى الله عليه وسلم لي به عبدا او امة"فنشد الناس ايضا: فقام المقضي عليه، فقال: قضى النبي صلى الله عليه وسلم"علي غرة عبدا او امة"، فقلت: اتقضي علي فيه فيما لا اكل، ولا شرب، ولا استهل، ولا نطق؟ ان تطله فهو احق ما يطل"فهم النبي صلى الله عليه وسلم إليه بشيء معه"، فقال: "اشعر؟"، فقال عمر: لولا ما بلغني من قضاء النبي صلى الله عليه وسلم لجعلته دية بين ديتين.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ زَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ عَقَّارِ بْنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِيهِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: نَشَدَ عُمَرُ النَّاسَ: أَسَمِعَ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ مِنْكُمْ فِي الْجَنِينِ؟ فَقَامَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ، فَقَالَ: قَضَى فِيهِ عَبْدًا أَوْ أَمَةً، فَنَشَدَ النَّاسَ أَيْضًا: فَقَامَ الْمَقْضِيُّ لَهُ، فَقَالَ:"قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِي بِهِ عَبْدًا أَوْ أَمَةً"فَنَشَدَ النَّاسَ أَيْضًا: فَقَامَ الْمَقْضِيُّ عَلَيْهِ، فَقَالَ: قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"عَلَيَّ غُرَّةً عَبْدًا أَوْ أَمَةً"، فَقُلْتُ: أَتَقْضِي عَلَيَّ فِيهِ فِيمَا لَا أَكَلَ، وَلَا شَرِبَ، وَلَا اسْتَهَلَّ، وَلَا نَطَقَ؟ أَنْ تُطِلَّهُ فَهُوَ أَحَقُّ مَا يُطَلُّ"فَهَمَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِ بِشَيْءٍ مَعَهُ"، فَقَالَ: "أَشِعْرٌ؟"، فَقَالَ عُمَرُ: لَوْلَا مَا بَلَغَنِي مِنْ قَضَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَجَعَلْتُهُ دِيَةً بَيْنَ دِيَتَيْنِ.
عقار بن مغیرہ بن شعبہ نے روایت کیا اپنے والد سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے پوچھا: تم میں سے کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنین کے بارے میں سنا؟ پس سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں غلام یا لونڈی (دیت میں) دینے کا فیصلہ کیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پھر لوگوں سے پوچھا، تو جس کے لئے یہ فیصلہ کیا گیا تھا وہ کھڑا ہوا اور اس نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنین کے بدلے میں میرے لئے ایک غلام یا لونڈی کا فیصلہ دیا تھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پھر لوگوں سے پوچھا، تو جس پر یہ فیصلہ صادر فرمایا تھا (مقضی علیہ) نے کھڑے ہو کر عرض کیا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اوپر جنین کے گرنے پر ایک غلام یا کنیز کا فیصلہ فرمایا، تو میں نے عرض کیا: کیا آپ میرے اوپر ایسے جنین کی دیت کا فیصلہ فرماتے ہیں جس نے نہ کھایا، نہ پیا، نہ رویا، نہ چلایا، یعنی نہ ولادت کے وقت آواز نکالی، نہ بولا، اگر آپ اس کو چھوڑ دیں کہ یہ اس کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کا دم معاف کیا جائے، پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی چیز کے ساتھ اس کی طرف جھکے اور فرمایا شعر کہتے ہو؟ یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ مجھے معلوم نہ ہو جاتا تو میں دو دیتوں کو ایک ہی قرار دے دیتا۔
تخریج الحدیث: «الحديث صحيح متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 668]» اس روایت کی سند میں محمد بن حمید ضعیف ہے، لیکن حدیث دیۃ الجنین متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5760، 6904] و [مسلم 1682] و [مسند موصلي 5917] و [صحيح ابن حبان 6018، 6020]
وضاحت: (تشریح احادیث 660 سے 665) اس روایت سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا اپنی رائے سے رجوع کرنا ثابت ہوا۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: الحديث صحيح متفق عليه
(حديث مقطوع) اخبرنا سعيد بن عامر، قال: كان سلام يذكر، عن ايوب، قال: "إذا اردت ان تعرف خطا معلمك، فجالس غيره".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، قَالَ: كَانَ سَلَّامٌ يَذْكُرُ، عَنْ أَيُّوبَ، قَالَ: "إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَعْرِفَ خَطَأَ مُعَلِّمِكَ، فَجَالِسْ غَيْرَهُ".
ایوب نے فرمایا: اگر تم اپنے استاذ کی غلطی جاننا چاہو تو ان کے علاوہ کسی دوسرے کی مجالست اختیار کرو۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 669]» اس قول کی سند صحیح ہے۔ سلام: ابن ابی مطیع ہیں، دیکھئے: [حلية الأولياء 9/3] و [تاريخ أبى زرعة 2072]
(حديث مقطوع) اخبرنا عفان، حدثنا حماد بن زيد، حدثنا ايوب، قال: "تذاكرنا بمكة الرجل يموت، فقلت: عدتها من يوم ياتيها الخبر، لقول الحسن، وقتادة، واصحابنا، قال: فلقيني طلق بن حبيب العنزي، فقال: إنك علي كريم، وإنك من اهل بلد العين إليهم سريعة، وإني لست آمن عليك، قال: وإنك قلت قولا ها هنا خلاف قول اهل البلد ولست آمن، فقلت: وفي ذا اختلاف؟، قال: نعم، عدتها من يوم يموت، فلقيت سعيد بن جبير فسالته، فقال: عدتها من يوم توفي، وسالت مجاهدا، فقال: عدتها من يوم توفي، وسالت عطاء بن ابي رباح، فقال: من يوم توفي، وسالت ابا قلابة، فقال: من يوم توفي، وسالت محمد بن سيرين، فقال: من يوم توفي، قال: وحدثني نافع: ان ابن عمر رضي الله عنهما، قال: من يوم توفي، وسمعت عكرمة، يقول: من يوم توفي، قال: وقال جابر بن زيد: من يوم توفي، قال: وكان ابن عباس، يقول: من يوم توفي، قال حماد: وسمعت ليثا حدث، عن الحكم ان عبد الله بن مسعود، قال: من يوم توفي، قال: وقال علي: من يوم ياتيها الخبر، قال عبد الله بن عبد الرحمن: اقول: من يوم توفي".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، قَالَ: "تَذَاكَرْنَا بِمَكَّةَ الرَّجُلَ يَمُوتُ، فَقُلْتُ: عِدَّتُهَا مِنْ يَوْمِ يَأْتِيهَا الْخَبَرُ، لِقَوْلِ الْحَسَنِ، وَقَتَادَةَ، وَأَصْحَابِنَا، قَالَ: فَلَقِيَنِي طَلْقُ بْنُ حَبِيبٍ الْعَنَزِيُّ، فَقَالَ: إِنَّكَ عَلَيَّ كَرِيمٌ، وَإِنَّكَ مِنْ أَهْلِ بَلَدٍ الْعَيْنُ إِلَيْهِمْ سَرِيعَةٌ، وَإِنِّي لَسْتُ آمَنُ عَلَيْكَ، قَالَ: وَإِنَّكَ قُلْتَ قَوْلًا هَا هُنَا خِلَافَ قَوْلِ أَهْلِ الْبَلَدِ وَلَسْتُ آمَنُ، فَقُلْتُ: وَفِي ذَا اخْتِلَافٌ؟، قَالَ: نَعَمْ، عِدَّتُهَا مِنْ يَوْمِ يَمُوتُ، فَلَقِيتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: عِدَّتُهَا مِنْ يَوْمِ تُوُفِّيَ، وَسَأَلْتُ مُجَاهِدًا، فَقَالَ: عِدَّتُهَا مِنْ يَوْمِ تُوُفِّيَ، وَسَأَلْتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، فَقَالَ: مِنْ يَوْمِ تُوُفِّيَ، وَسَأَلْتُ أَبَا قِلَابَةَ، فَقَالَ: مِنْ يَوْمِ تُوُفِّيَ، وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ سِيرِينَ، فَقَالَ: مِنْ يَوْمِ تُوُفِّيَ، قَالَ: وَحَدَّثَنِي نَافِعٌ: أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: مِنْ يَوْمِ تُوُفِّيَ، وسَمِعْت عِكْرِمَةَ، يَقُولُ: مِنْ يَوْمِ تُوُفِّيَ، قَالَ: وَقَالَ جَابِرُ بْنُ زَيْدٍ: مِنْ يَوْمِ تُوُفِّيَ، قَالَ: وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: مِنْ يَوْمِ تُوُفِّيَ، قَالَ حَمَّادٌ: وَسَمِعْتُ لَيْثًا حَدَّثَ، عَنْ الْحَكَمِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ، قَالَ: مِنْ يَوْمِ تُوُفِّيَ، قَالَ: وَقَالَ عَلِيٌّ: مِنْ يَوْمِ يَأْتِيهَا الْخَبَرُ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ: أَقُولُ: مِنْ يَوْمِ تُوُفِّيَ".
ایوب نے بیان کیا کہ ہم نے (عدت کا) تذکرہ کیا کہ ایک آدمی مکہ میں مرتا ہے، میں نے کہا: جس دن اس کی خبر ملے گی اسی دن سے عدت شمار ہو گی، جیسا کہ حسن قتادہ اور ہمارے دیگر اصحاب کا قول ہے۔ ایوب نے کہا: مجھ سے طلق بن حبیب نے ملاقات کی اور کہا: آپ میرے لئے بہت معزز ہیں، اور آپ ایسے شہر میں ہیں جہاں نظر زیادہ لگتی ہے، اور میں آپ کو محفوظ نہیں سمجھتا، نیز طلق نے کہا: آپ نے اس شہر کے رہنے والوں کے خلاف فتویٰ دیا ہے۔ اس لئے بھی آپ کو محفوظ نہیں سمجھتا، میں نے کہا: کیا اس مسئلے میں اختلاف ہے؟ طلق نے کہا: جی ہاں، اس عورت کی عدت جس دن اس کا شوہر مرا ہے اسی دن سے شمار ہو گی، ایوب نے کہا: میں سعید بن جبیر سے ملا اور ان سے یہ مسئلہ پوچھا تو انہوں نے بھی کہا: جس دن وفات ہوئی اسی دن سے عدت شمار ہو گی۔ پھر میں نے مجاہد سے پوچھا تو انہوں نے بھی کہا: «عدتها» جس دن اس کی وفات ہوئی، پھر عطاء بن ابی رباح سے میں نے پوچھا، انہوں نے بھی کہا: جس دن وفات پائی، اور ابوقلابہ سے پوچھا، انہوں نے بھی کہا: وفات کے دن سے عدت شمار ہو گی۔ محمد بن سیرین رحمہ اللہ سے پوچھا، انہوں نے بھی کہا: وفات کے دن سے شمار ہو گی۔ ایوب نے کہا: مجھ سے نافع نے بیان کیا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی یہی کہا کہ وفات کے دن سے عدت شمار ہو گی، اور میں نے عکرمہ کو بھی کہتے سنا «من يوم توفي» کہا، اور جابر بن زید نے کہا: «من يوم توفي» اور کہا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی یہی کہتے تھے کہ جس دن وفات پائی ہے۔ حماد نے کہا: میں نے لیث (ابن ابی سلیم) کو سنا، حکم سے بیان کرتے تھے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: «من يوم توفي» ۔ ایوب نے کہا: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (۱) جس دن خبر ملے اس دن سے عدت شمار ہو گی، (۲) امام دارمی عبد الله بن عبد الرحمن نے کہا: میری رائے ہے جس دن وفات پائی اسی دن سے عدت شمار ہو گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 670]» (1) سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اس اثر کو ابن ابی شیبہ نے [مصنف 198/5] میں دو سند سے ذکر کیا ہے، جن میں سے ایک سند ضعیف ہے۔ (2) اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المصنف 196/5-198]، [سنن سعيد بن منصور 288/1] و [مصنف عبدالرزاق 327/6] و [المحلي 311/10] و [سنن البيهقي 425/7]
وضاحت: (تشریح احادیث 665 سے 667) امام ایوب سختیانی رحمہ اللہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ صحابہ و تابعین کے فیصلے کی وجہ سے میں نے اپنی رائے بدل دی اور وہ یہ کہ شوہر کا جس دن انتقال ہوا اسی دن سے عدت شمار ہوگی۔
حکم بن مسعود سے مروی ہے کہ ہم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اخوت میں شریک بھائیوں کے بارے میں پوچھا (یعنی حقیقی، علاتی اور اخیافی بھائی) تو انہوں نے انہیں شریک نہیں ٹھہرایا، اگلے سال پھر ہم ان کے پاس گئے تو کہا: (میراث میں) سب شریک ہیں، ہم نے کہا: پچھلے سال تو آپ نے اس کے برعکس کہا تھا، فرمایا: وہ اُس وقت کا فیصلہ تھا اور یہ اس وقت کا فیصلہ ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 671]» اس اثر کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 11144]، [التاريخ الكبير للبخاري 332/2]، [المعرفة والتاريخ 223/2]، [البيهقي 255/6]، [الفرائض باب الشركة مصنف عبدالرزاق 19005]
وضاحت: (تشریح حدیث 667) اس روایت سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا اپنی رائے کو بدلنا ثابت ہوا جو اُمّتِ محمدیہ میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد سب سے زیادہ فضیلت رکھتے ہیں۔
(حديث مقطوع) اخبرنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا روح، حدثنا حجاج الاسود، قال: قال ابن منبه: "كان اهل العلم فيما مضى يضنون بعلمهم عن اهل الدنيا، فيرغب اهل الدنيا في علمهم، فيبذلون لهم دنياهم، وإن اهل العلم اليوم بذلوا علمهم لاهل الدنيا، فزهد اهل الدنيا في علمهم، فضنوا عليهم بدنياهم".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ الْأَسْوَدُ، قَالَ: قَالَ ابْنُ مُنَبِّهٍ: "كَانَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِيمَا مَضَى يَضَنُّونَ بِعِلْمِهِمْ عَنْ أَهْلِ الدُّنْيَا، فَيَرْغَبُ أَهْلُ الدُّنْيَا فِي عِلْمِهِمْ، فَيَبْذُلُونَ لَهُمْ دُنْيَاهُمْ، وَإِنَّ أَهْلَ الْعِلْمِ الْيَوْمَ بَذَلُوا عِلْمَهُمْ لِأَهْلِ الدُّنْيَا، فَزَهِدَ أَهْلُ الدُّنْيَا فِي عِلْمِهِمْ، فَضَنُّوا عَلَيْهِمْ بِدُنْيَاهُمْ".
حجاج الاسود سے مروی ہے وہب بن منبہ نے فرمایا: ماضی میں اہل علم اپنے علم کو دنیا داروں سے بچاتے تھے، تو دنیا دار ان کے علم میں رغبت رکھتے تھے، اور اپنی دنیا ان پر لٹا دیتے تھے، لیکن آج کے اہل علم نے اپنے علم کو دنیا داروں پر لٹایا ہے تو دنیا دار ان کے علم سے دست کش ہو گئے، اور اپنی دنیا کو ان سے بچا لیا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه: حجاج الأسود لم يدرك وهبا فيما نعلم والله أعلم، [مكتبه الشامله نمبر: 672]» اس روایت کی سند میں انقطاع ہے، کیونکہ حجاج (بن ابی زیاد) نے وہب کو نہیں پایا۔ دیکھئے: [حلية الأولياء 29/4]، [الجرح والتعديل 160/3] و [ميزان الاعتدال 460/1]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه: حجاج الأسود لم يدرك وهبا فيما نعلم والله أعلم
(حديث مقطوع) اخبرنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا محمد بن عمر بن الكميت، حدثنا علي بن وهب الهمداني، حدثنا الضحاك بن موسى، قال: "مر سليمان بن عبد الملك بالمدينة وهو يريد مكة، فاقام بها اياما، فقال: هل بالمدينة احد ادرك احدا من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم؟، فقالوا له: ابو حازم يا امير المؤمنين، فارسل إليه , فلما دخل عليه، قال له: يا ابا حازم، ما هذا الجفاء؟، قال ابو حازم: يا امير المؤمنين، واي جفاء رايت مني؟، قال: اتاني وجوه اهل المدينة ولم تاتني، قال: يا امير المؤمنين، اعيذك بالله ان تقول ما لم يكن، ما عرفتني قبل هذا اليوم، ولا انا رايتك، قال: فالتفت سليمان إلى محمد بن شهاب الزهري، فقال اصاب الشيخ: واخطات، قال سليمان: يا ابا حازم، ما لنا نكره الموت؟، قال: لانكم اخربتم الآخرة، وعمرتم الدنيا، فكرهتم ان تنتقلوا من العمران إلى الخراب، قال: اصبت يا ابا حازم، فكيف القدوم غدا على الله؟، قال: اما المحسن، فكالغائب يقدم على اهله، واما المسيء، فكالآبق يقدم على مولاه، فبكى سليمان، وقال: ليت شعري ما لنا عند الله؟، قال: اعرض عملك على كتاب الله، قال: واي مكان اجده؟، قال: إن الابرار لفي نعيم {13} وإن الفجار لفي جحيم {14} سورة الانفطار آية 13-14، قال سليمان: فاين رحمة الله يا ابا حازم؟، قال ابو حازم: رحمة الله قريب من المحسنين، قال له سليمان: يا ابا حازم، فاي عباد الله اكرم؟، قال: اولو المروءة والنهى، قال له سليمان: يا ابا حازم، فاي الاعمال افضل؟، قال ابو حازم: اداء الفرائض مع اجتناب المحارم، قال سليمان: فاي الدعاء اسمع؟، قال ابو حازم: دعاء المحسن إليه للمحسن، قال: فاي الصدقة افضل؟، قال: للسائل البائس، وجهد المقل ليس فيها من ولا اذى، قال: فاي القول اعدل؟، قال: قول الحق عند من تخافه او ترجوه، قال: فاي المؤمنين اكيس؟، قال: رجل عمل بطاعة الله ودل الناس عليها، قال: فاي المؤمنين احمق؟، قال: رجل انحط في هوى اخيه وهو ظالم، فباع آخرته بدنيا غيره، قال له سليمان: اصبت، فما تقول فيما نحن فيه؟، قال: يا امير المؤمنين، او تعفيني؟، قال له سليمان: لا، ولكن نصيحة تلقيها إلي، قال: يا امير المؤمنين، إن آباءك قهروا الناس بالسيف، واخذوا هذا الملك عنوة على غير مشورة من المسلمين، ولا رضا لهم حتى قتلوا منهم مقتلة عظيمة، فقد ارتحلوا عنها، فلو اشعرت ما قالوا، وما قيل لهم؟، فقال له رجل من جلسائه: بئس ما قلت يا ابا حازم، قال ابو حازم: كذبت، إن الله اخذ ميثاق العلماء ليبيننه للناس ولا يكتمونه، قال له سليمان: فكيف لنا ان نصلح؟، قال: تدعون الصلف، وتمسكون بالمروءة، وتقسمون بالسوية، قال له سليمان: كيف لنا بالماخذ به؟، قال ابو حازم: تاخذه من حله، وتضعه في اهله، قال له سليمان: هل لك يا ابا حازم ان تصحبنا فتصيب منا ونصيب منك؟ قال: اعوذ بالله، قال له سليمان: ولم ذاك؟، قال: اخشى ان اركن إليكم شيئا قليلا فيذيقني الله ضعف الحياة وضعف الممات، قال له سليمان: ارفع إلينا حوائجك؟، قال: تنجيني من النار وتدخلني الجنة، قال سليمان: ليس ذاك إلي، قال ابو حازم: فما لي إليك حاجة غيرها، قال: فادع لي، قال ابو حازم: اللهم إن كان سليمان وليك، فيسره لخير الدنيا والآخرة، وإن كان عدوك، فخذ بناصيته إلى ما تحب وترضى، قال له سليمان: قط، قال ابو حازم: قد اوجزت واكثرت إن كنت من اهله، وإن لم تكن من اهله فما ينفعني ان ارمي عن قوس ليس لها وتر؟، قال له سليمان: اوصني، قال: ساوصيك واوجز: عظم ربك ونزهه ان يراك حيث نهاك، او يفقدك حيث امرك، فلما خرج من عنده، بعث إليه بمائة دينار، وكتب إليه: ان انفقها ولك عندي مثلها كثير، قال: فردها عليه وكتب إليه: يا امير المؤمنين، اعيذك بالله ان يكون سؤالك إياي هزلا، او ردي عليك بذلا وما ارضاها لك، فكيف ارضاها لنفسي؟ وكتب إليه: إن موسى بن عمران لما ورد ماء مدين، وجد عليها رعاء يسقون، ووجد من دونهم جاريتين تذودان، فسالهما، فقالتا: لا نسقي حتى يصدر الرعاء وابونا شيخ كبير {23} فسقى لهما ثم تولى إلى الظل فقال رب إني لما انزلت إلي من خير فقير {24} سورة القصص آية 23-24، وذلك انه كان جائعا خائفا لا يامن، فسال ربه ولم يسال الناس، فلم يفطن الرعاء وفطنت الجاريتان، فلما رجعتا إلى ابيهما، اخبرتاه بالقصة وبقوله، فقال ابوهما وهو شعيب: هذا رجل جائع، فقال لإحداهما: اذهبي فادعيه، فلما اتته، عظمته وغطت وجهها، وقالت: إن ابي يدعوك ليجزيك اجر ما سقيت لنا سورة القصص آية 25 فشق على موسى حين ذكرت: اجر ما سقيت لنا، ولم يجد بدا من ان يتبعها، إنه كان بين الجبال جائعا مستوحشا، فلما تبعها، هبت الريح فجعلت تصفق ثيابها على ظهرها فتصف له عجيزتها، وكانت ذات عجز، وجعل موسى يعرض مرة، ويغض اخرى، فلما عيل صبره، ناداها: يا امة الله، كوني خلفي واريني السمت بقولك ذا، فلما دخل على شعيب إذا هو بالعشاء مهيا، فقال له شعيب: اجلس يا شاب فتعش، فقال له موسى: اعوذ بالله، فقال له شعيب: لم؟ اما انت جائع؟، قال: بلى، ولكني اخاف ان يكون هذا عوضا لما سقيت لهما، وإنا من اهل بيت لا نبيع شيئا من ديننا بملء الارض ذهبا، فقال له شعيب: لا يا شاب، ولكنها عادتي وعادة آبائي نقري الضيف، ونطعم الطعام، فجلس موسى، فاكل، فإن كانت هذه المائة دينار عوضا لما حدثت، فالميتة والدم ولحم الخنزير في حال الاضطرار احل من هذه، وإن كان لحق لي في بيت المال، فلي فيها نظراء، فإن ساويت بيننا، وإلا فليس لي فيها حاجة".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ الْكُمَيْتِ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ وَهْبٍ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: "مَرَّ سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بِالْمَدِينَةِ وَهُوَ يُرِيدُ مَكَّةَ، فَأَقَامَ بِهَا أَيَّامًا، فَقَالَ: هَلْ بِالْمَدِينَةِ أَحَدٌ أَدْرَكَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، فَقَالُوا لَهُ: أَبُو حَازِمٍ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ , فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ، قَالَ لَهُ: يَا أَبَا حَازِمٍ، مَا هَذَا الْجَفَاءُ؟، قَالَ أَبُو حَازِمٍ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، وَأَيُّ جَفَاءٍ رَأَيْتَ مِنِّي؟، قَالَ: أَتَانِي وُجُوهُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ وَلَمْ تَأْتِنِي، قَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أُعِيذُكَ بِاللَّهِ أَنْ تَقُولَ مَا لَمْ يَكُنْ، مَا عَرَفْتَنِي قَبْلَ هَذَا الْيَوْمِ، وَلَا أَنَا رَأَيْتُكَ، قَالَ: فَالْتَفَتَ سُلَيْمَانُ إِلَى مُحَمَّدِ بْنِ شِهَابٍ الزُّهْرِيِّ، فَقَالَ أَصَابَ الشَّيْخُ: وَأَخْطَأْتُ، قَالَ سُلَيْمَانُ: يَا أَبَا حَازِمٍ، مَا لَنَا نَكْرَهُ الْمَوْتَ؟، قَالَ: لِأَنَّكُمْ أَخْرَبْتُمْ الْآخِرَةَ، وَعَمَّرْتُمْ الدُّنْيَا، فَكَرِهْتُمْ أَنْ تَنْتَقِلُوا مِنْ الْعُمْرَانِ إِلَى الْخَرَابِ، قَالَ: أَصَبْتَ يَا أَبَا حَازِمٍ، فَكَيْفَ الْقُدُومُ غَدًا عَلَى اللَّهِ؟، قَالَ: أَمَّا الْمُحْسِنُ، فَكَالْغَائِبِ يَقْدُمُ عَلَى أَهْلِهِ، وَأَمَّا الْمُسِيءُ، فَكَالْآبِقِ يَقْدُمُ عَلَى مَوْلَاهُ، فَبَكَى سُلَيْمَانُ، وَقَالَ: لَيْتَ شِعْرِي مَا لَنَا عِنْدَ اللَّهِ؟، قَالَ: اعْرِضْ عَمَلَكَ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ، قَالَ: وَأَيُّ مَكَانٍ أَجِدُهُ؟، قَالَ: إِنَّ الأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ {13} وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِي جَحِيمٍ {14} سورة الانفطار آية 13-14، قَالَ سُلَيْمَانُ: فَأَيْنَ رَحْمَةُ اللَّهِ يَا أَبَا حَازِمٍ؟، قَالَ أَبُو حَازِمٍ: رَحْمَةَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنْ الْمُحْسِنِينَ، قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ: يَا أَبَا حَازِمٍ، فَأَيُّ عِبَادِ اللَّهِ أَكْرَمُ؟، قَالَ: أُولُو الْمُرُوءَةِ وَالنُّهَى، قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ: يَا أَبَا حَازِمٍ، فَأَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟، قَالَ أَبُو حَازِمٍ: أَدَاءُ الْفَرَائِضِ مَعَ اجْتِنَابِ الْمَحَارِمِ، قَالَ سُلَيْمَانُ: فَأَيُّ الدُّعَاءِ أَسْمَعُ؟، قَالَ أَبُو حَازِمٍ: دُعَاءُ الْمُحْسَنِ إِلَيْهِ لِلْمُحْسِنِ، قَالَ: فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟، قَالَ: لِلسَّائِلِ الْبَائِسِ، وَجُهْدُ الْمُقِلِّ لَيْسَ فِيهَا مَنٌّ وَلَا أَذًى، قَالَ: فَأَيُّ الْقَوْلِ أَعْدَلُ؟، قَالَ: قَوْلُ الْحَقِّ عِنْدَ مَنْ تَخَافُهُ أَوْ تَرْجُوهُ، قَالَ: فَأَيُّ الْمُؤْمِنِينَ أَكْيَسُ؟، قَالَ: رَجُلٌ عَمِلَ بِطَاعَةِ اللَّهِ وَدَلَّ النَّاسَ عَلَيْهَا، قَالَ: فَأَيُّ الْمُؤْمِنِينَ أَحْمَقُ؟، قَالَ: رَجُلٌ انْحَطَّ فِي هَوَى أَخِيهِ وَهُوَ ظَالِمٌ، فَبَاعَ آخِرَتَهُ بِدُنْيَا غَيْرِهِ، قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ: أَصَبْتَ، فَمَا تَقُولُ فِيمَا نَحْنُ فِيهِ؟، قَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَوَ تُعْفِينِي؟، قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ: لَا، وَلَكِنْ نَصِيحَةٌ تُلْقِيهَا إِلَيَّ، قَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِنَّ آبَاءَكَ قَهَرُوا النَّاسَ بِالسَّيْفِ، وَأَخَذُوا هَذَا الْمُلْكَ عَنْوَةً عَلَى غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ، وَلَا رِضًا لَهُمْ حَتَّى قَتَلُوا مِنْهُمْ مَقْتَلَةً عَظِيمَةً، فَقَدْ ارْتَحَلُوا عَنْهَا، فَلَوْ أُشْعِرْتَ مَا قَالُوا، وَمَا قِيلَ لَهُمْ؟، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَائِهِ: بِئْسَ مَا قُلْتَ يَا أَبَا حَازِمٍ، قَالَ أَبُو حَازِمٍ: كَذَبْتَ، إِنَّ اللَّهَ أَخَذَ مِيثَاقَ الْعُلَمَاءِ لَيُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا يَكْتُمُونَهُ، قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ: فَكَيْفَ لَنَا أَنْ نُصْلِحَ؟، قَالَ: تَدَعُونَ الصَّلَفَ، وَتَمَسَّكُونَ بِالْمُرُوءَةِ، وَتَقْسِمُونَ بِالسَّوِيَّةِ، قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ: كَيْفَ لَنَا بِالْمَأْخَذِ بِهِ؟، قَالَ أَبُو حَازِمٍ: تَأْخُذُهُ مِنْ حِلِّهِ، وَتَضَعُهُ فِي أَهْلِهِ، قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ: هَلْ لَكَ يَا أَبَا حَازِمٍ أَنْ تَصْحَبَنَا فَتُصِيبَ مِنَّا وَنُصِيبَ مِنْكَ؟ قَالَ: أَعُوذُ بِاللَّهِ، قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ: وَلِمَ ذَاكَ؟، قَالَ: أَخْشَى أَنْ أَرْكَنَ إِلَيْكُمْ شَيْئًا قَلِيلًا فَيُذِيقَنِي اللَّهُ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ، قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ: ارْفَعْ إِلَيْنَا حَوَائِجَكَ؟، قَالَ: تُنْجِينِي مِنْ النَّارِ وَتُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ، قَالَ سُلَيْمَانُ: لَيْسَ ذَاكَ إِلَيَّ، قَالَ أَبُو حَازِمٍ: فَمَا لِي إِلَيْكَ حَاجَةٌ غَيْرُهَا، قَالَ: فَادْعُ لِي، قَالَ أَبُو حَازِمٍ: اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ سُلَيْمَانُ وَلِيَّكَ، فَيَسِّرْهُ لِخَيْرِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَإِنْ كَانَ عَدُوَّكَ، فَخُذْ بِنَاصِيَتِهِ إِلَى مَا تُحِبُّ وَتَرْضَى، قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ: قَطُّ، قَالَ أَبُو حَازِمٍ: قَدْ أَوْجَزْتُ وَأَكْثَرْتُ إِنْ كُنْتَ مِنْ أَهْلِهِ، وَإِنْ لَمْ تَكُنْ مِنْ أَهْلِهِ فَمَا يَنْفَعُنِي أَنْ أَرْمِيَ عَنْ قَوْسٍ لَيْسَ لَهَا وَتَرٌ؟، قَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ: أَوْصِنِي، قَالَ: سَأُوصِيكَ وَأُوجِزُ: عَظِّمْ رَبَّكَ وَنَزِّهْهُ أَنْ يَرَاكَ حَيْثُ نَهَاكَ، أَوْ يَفْقِدَكَ حَيْثُ أَمَرَكَ، فَلَمَّا خَرَجَ مِنْ عِنْدِهِ، بَعَثَ إِلَيْهِ بِمِائَةِ دِينَارٍ، وَكَتَبَ إِلَيْهِ: أَنْ أَنْفِقْهَا وَلَكَ عِنْدِي مِثْلُهَا كَثِيرٌ، قَالَ: فَرَدَّهَا عَلَيْهِ وَكَتَبَ إِلَيْهِ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أُعِيذُكَ بِاللَّهِ أَنْ يَكُونَ سُؤَالُكَ إِيَّايَ هَزْلًا، أَوْ رَدِّي عَلَيْكَ بَذْلًا وَمَا أَرْضَاهَا لَكَ، فَكَيْفَ أَرْضَاهَا لِنَفْسِي؟ وَكَتَبَ إِلَيْهِ: إِنَّ مُوسَى بْنَ عِمْرَانَ لَمَّا وَرَدَ مَاءَ مَدْيَنَ، وَجَدَ عَلَيْهَا رِعَاءً يَسْقُونَ، وَوَجَدَ مِنْ دُونِهِمْ جَارِيَتَيْنِ تَذُودَانِ، فَسَأَلَهُمَا، فَقَالَتَا: لا نَسْقِي حَتَّى يُصْدِرَ الرِّعَاءُ وَأَبُونَا شَيْخٌ كَبِيرٌ {23} فَسَقَى لَهُمَا ثُمَّ تَوَلَّى إِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ {24} سورة القصص آية 23-24، وَذَلِكَ أَنَّهُ كَانَ جَائِعًا خَائِفًا لَا يَأْمَنُ، فَسَأَلَ رَبَّهُ وَلَمْ يَسْأَلْ النَّاسَ، فَلَمْ يَفْطِنْ الرِّعَاءُ وَفَطِنَتْ الْجَارِيتَانِ، فَلَمَّا رَجَعَتَا إِلَى أَبِيهِمَا، أَخْبَرَتَاهُ بِالْقِصَّةِ وَبِقَوْلِهِ، فَقَالَ أَبُوهُمَا وَهُوَ شُعَيْبٌ: هَذَا رَجُلٌ جَائِعٌ، فَقَالَ لِإِحْدَاهُمَا: اذْهَبِي فَادْعِيهِ، فَلَمَّا أَتَتْهُ، عَظَّمَتْهُ وَغَطَّتْ وَجْهَهَا، وَقَالَتْ: إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا سورة القصص آية 25 فَشَقَّ عَلَى مُوسَى حِينَ ذَكَرَتْ: أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا، وَلَمْ يَجِدْ بُدًّا مِنْ أَنْ يَتْبَعَهَا، إِنَّهُ كَانَ بَيْنَ الْجِبَالِ جَائِعًا مُسْتَوْحِشًا، فَلَمَّا تَبِعَهَا، هَبَّتْ الرِّيحُ فَجَعَلَتْ تَصْفِقُ ثِيَابَهَا عَلَى ظَهْرِهَا فَتَصِفُ لَهُ عَجِيزَتَهَا، وَكَانَتْ ذَاتَ عَجُزٍ، وَجَعَلَ مُوسَى يُعْرِضُ مَرَّةً، وَيَغُضُّ أُخْرَى، فَلَمَّا عِيلَ صَبْرُهُ، نَادَاهَا: يَا أَمَةَ اللَّهِ، كُونِي خَلْفِي وَأَرِينِي السَّمْتَ بِقَوْلِك ذَا، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى شُعَيْبٍ إِذَا هُوَ بِالْعَشَاءِ مُهَيَّأً، فَقَالَ لَهُ شُعَيْبٌ: اجْلِسْ يَا شَابُّ فَتَعَشَّ، فَقَالَ لَهُ مُوسَى: أَعُوذُ بِاللَّهِ، فَقَالَ لَهُ شُعَيْبٌ: لِمَ؟ أَمَا أَنْتَ جَائِعٌ؟، قَالَ: بَلَى، وَلَكِنِّي أَخَافُ أَنْ يَكُونَ هَذَا عِوَضًا لِمَا سَقَيْتُ لَهُمَا، وَإِنَّا مِنْ أَهْلِ بَيْتٍ لَا نَبِيعُ شَيْئًا مِنْ دِينِنَا بِمِلْءِ الْأَرْضِ ذَهَبًا، فَقَالَ لَهُ شُعَيْبٌ: لَا يَا شَابُّ، وَلَكِنَّهَا عَادَتِي وَعَادَةُ آبَائِي نُقْرِي الضَّيْفَ، وَنُطْعِمُ الطَّعَامَ، فَجَلَسَ مُوسَى، فَأَكَلَ، فَإِنْ كَانَتْ هَذِهِ الْمِائَةُ دِينَارٍ عِوَضًا لِمَا حَدَّثْتُ، فَالْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ فِي حَالِ الِاضْطِرَارِ أَحَلُّ مِنْ هَذِهِ، وَإِنْ كَانَ لِحَقٍّ لِي فِي بَيْتِ الْمَالِ، فَلِي فِيهَا نُظَرَاءُ، فَإِنْ سَاوَيْتَ بَيْنَنَا، وَإِلَّا فَلَيْسَ لِي فِيهَا حَاجَةٌ".
ضحاک بن موسیٰ نے بیان کیا کہ سلیمان بن عبدالملک مکہ جاتے ہوئے مدینہ سے گزرے تو وہاں کچھ دن قیام کیا، پوچھا: کیا مدینہ میں کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی کو پایا؟ لوگوں نے کہا: ابوحازم نے، چنانچہ ان کو بلایا اور جب وہ ان کے پاس داخل ہوئے تو سلیمان نے کہا: ابوحازم یہ کیا بے رخی ہے؟ ابوحازم نے عرض کیا: امیر المؤمنین! کیسی بے رخی آپ نے مجھ سے محسوس کی؟ کہا: اہل مدینہ کے بہت سے لوگ میرے پاس آئے، لیکن تم نہیں آئے؟ عرض کیا: امیر المؤمنین! میں آپ کو الله کی پناہ میں دیتا ہوں اس چیز سے جو سرزد نہیں ہوئی، آپ نے آج سے قبل مجھے پہچانا نہیں، اور نہ میں نے آپ کو دیکھا۔ راوی نے کہا: سلیمان، محمد بن شہاب زہری کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: شیخ صحیح فرماتے ہیں، میں نے ہی غلط کہا، پھر خلیفہ سلیمان نے دریافت کیا: ابوحازم کیا بات ہے، ہم موت کو ناپسند کرتے ہیں؟ عرض کیا: اس لئے کہ آپ نے آخرت کو برباد کر لیا اور دنیا بسالی ہے، اس لئے آبادی سے ویرانی کی طرف جانا ناپسند کرتے ہو، فرمایا: ابوحازم! تم نے سچ کہا، لیکن کل کو اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضری کیسے ہو گی؟ عرض کیا نیکی کرنے والا اس غائب کی طرح ہے جو اپنے اہل کے پاس آتا ہے، لیکن برائی کرنے والا اس بھگوڑے غلام کی طرح جو اپنے آقا کے پاس آتا ہے۔ یہ سن کر امیر المؤمنین سلیمان بن عبدالملک رونے لگے اور کہا: پتہ نہیں اللہ کے پاس ہمارے لئے کیا ہے؟ ابوحازم نے کہا: اپنے عمل کا کتاب اللہ سے موازنہ کیجئے۔ سلیمان نے کہا: قرآن میں کہاں اس چیز کو دیکھوں؟ ابوحازم نے کہا: ”بیشک اچھے نیک لوگ جنت میں ہوں گے اور فساق وفجار جہنم میں ہوں گے۔“[الانفطار 13/82-14 ] سلیمان نے کہا: پھر الله تعالیٰ کی رحمت کہاں ہے؟ ابوحازم نے جواب دیا۔ «﴿رَحْمَةَ اللهِ قَرِيْبٌ مِنَ الْمُحْسِنِيْنَ﴾»”اللہ کی رحمت محسنین کے قریب ہے۔“ خلیفہ سلیمان نے کہا: ابوحازم! اللہ کے کون سے بندے سب سے زیادہ معزز و مکرم ہیں۔ عرض کیا اخلاق و عمل والے۔ کہا: اے ابوحازم! کون سے اعمال سب سے بہتر ہیں؟ عرض کیا: فرائض کی ادائیگی اور حرام کاموں سے اجتناب۔ پوچھا: کون سی دعا سب سے زیادہ قبول ہوتی ہے؟ عرض کیا: محسن الیہ کی دعا (اپنے محسن کے لئے)۔ کہا: اور سب سے زیادہ اچھا کون سا صدقہ ہے؟ عرض کیا: جو صدقہ بھوکے سوالی کے لئے اور کم مال والا محنت کر کے صدقہ کرے اور جس میں احسان جتانا اور ایذا رسانی نہ ہو۔ سلیمان: تو سب سے انصاف والا قوال کیا ہے؟ عرض کیا: جس سے ڈرتے اور امید رکھتے ہو اس کے سامنے سچی بات۔ سلیمان: اور ایمان والوں میں سب سے زیادہ سمجھ دار کون ہے؟ ابوحازم: وہ آدمی جو اللہ کی اطاعت گزاری کرے اور اسی کی طرف لوگوں کی رہنمائی کرے، سلیمان: اور اہل ایمان میں سب سے زیادہ بے وقوف کون ہے؟ جواب: وہ آدمی جو اپنے بھائی کی غلط خواہش میں ملوث ہو اور وہ بھائی اپنی اس خواہش میں ظالم ہو۔ سلیمان نے کہا: آپ نے سچ کہا، ہمارے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ عرض کیا: امیر المؤمنین! کیا آپ مجھے اس سے معاف فرمائیں گے؟ کہا: نہیں، بس مجھے نصیحت کر دو۔ عرض کیا: اے امیر المؤمنین! آپ کے آباء نے لوگوں کو تلوار کے ذریعے زیر کیا، اور یہ بادشاہت بنا مسلمانوں کے مشورے و رضامندی کے زبردستی حاصل کی۔ یہاں تک کے بے شمار قتل کئے اور وہ سب ہمیں چھوڑ کر چلے گئے، کاش آپ سمجھیں کہ انہوں نے کیا کیا، اور لوگوں نے ان کے بارے میں کیا کہا؟ سلیمان کے مصاحبین میں سے کسی نے کہا: ابوحازم! تم نے کتنی بری بات کہی ہے؟ ابوحازم نے کہا: تم نے جھوٹ بولا، اللہ نے علماء سے عہد لیا ہے کہ لوگوں کے لئے بیان کر دیں اور چھپائیں نہیں۔ خلیفہ سلیمان نے ان سے کہا: ہم کس طرح اس کی اصلاح کر سکتے ہیں؟ عرض کیا: جب تم غرور و گھمنڈ چھوڑ دو گے، اخلاق کو اپناؤ گے، اور انصاف سے کام لو گے۔ سلیمان نے کہا: ہم اس کو کس طرح لے سکتے ہیں؟ ابوحازم نے کہا: جب اس کو حلال طریق سے لو گے اور جو اس کے اہل ہیں انہیں دو گے۔ سلیمان: ابوحازم! کیا یہ ممکن ہے کہ آپ ہمارے مصاحب رہیں، ہمیں آپ سے فائدہ پہنچے، اور آپ ہم سے مستفید ہوں، کہا: میں (اس سے) اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ سلیمان: ایسا کیوں؟ عرض کیا: مجھے ڈر ہے کہ اگر تھوڑا سا آپ کی طرف جھکاؤ اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے دنیا و آخرت میں ڈبل عذاب کا مزہ چکھائے۔ سلیمان: اپنی حاجات و ضروریات پیش کیجئے۔ عرض کیا: آپ مجھے جہنم سے نجات دلا دیجئے اور جنت میں داخل کرا دیجئے۔ فرمایا: یہ تو میرے بس میں نہیں ہے، ابوحازم نے کہا: اس کے علاوہ آپ سے مجھے کوئی حاجت نہیں۔ فرمایا: پھر میرے لئے دعا کر دیجئے۔ ابوحازم دعا گو ہوئے۔ اے اللہ! اگر سلیمان تیرے ولی ہیں تو دنیا و آخرت کی بھلائی ان کے لئے آسان کر دے، اور اگر وہ تیرا دشمن ہے تو اس کی پیشانی اپنی محبت و رضا مندی کی طرف پھیر لے۔ سلیمان: کافی ہے۔ ابوحازم: میں نے اختصار اور کچھ تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ شاید تم اس کے اہل ہو اور اگر اس کے اہل نہیں تو مجھے ایسی کمان سے تیر پھینکنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا جس میں تانت نہ ہو۔ سلیمان: مجھے وصیت کیجئے۔ عرض کیا: میں آپ کو مختصر وصیت کروں گا۔ اپنے رب کی تعظیم کیجئے، اور اس سے اپنے آپ کو بچایئے کہ آپ کو وہ وہاں دیکھے، جہاں دیکھنے سے آپ کو منع کیا ہے، یا وہاں گم پائے جہاں موجود رہنے کا آپ کو حکم دیا ہے۔ جب ابوحازم خلفیہ کے پاس سے چلے گئے تو خلیفہ نے سو دینار ان کے لئے بھیجے اور لکھا کہ یہ خرچ کیجئے، اور آپ کے لئے اس کے مثل میرے پاس بہت کچھ ہے۔ راوی نے کہا: ابوحازم نے وہ دنانير واپس کر دیئے اور لکھ بھیجا: اے امیر المؤمنین! میں آپ کو اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں، اس چیز سے کہ آپ کے مجھ سے سوالات بکواس ہوں، یا آپ کے لئے میرے جوابات بے کار ہوں، اور جو چیز مجھے آپ کیلئے پسند نہیں اپنے لئے اسے کیسے پسند کر سکتا ہوں۔ ان کے لئے مزید لکھا کہ موسیٰ بن عمران علیہ السلام جب مدین کے کنوئیں کے پاس پہنچے تو چرواہوں کو پانی پلاتے پایا اور وہیں دو لڑکیوں کو الگ کھڑے اپنی بکریوں کو روکتے دیکھا، تو ان سے ماجرا پوچھا، لڑکیوں نے جواب دیا: جب تک یہ چرواہے واپس نہ لوٹ جائیں، ہم پانی نہیں پلاتیں۔ اور ہمارے والد بڑی عمر کے بوڑھے ہیں، پس انہوں نے خود ان جانوروں کو پانی پلا دیا۔ پھر سائے کی طرف ہٹ آئے اور کہنے لگے: اے پروردگار! تو نے جو کچھ بھلائی میری طرف اتاری ہے، میں اس کا محتاج ہوں۔ [قصص: 23/28-24] اور یہ اس لئے کہ وہ بھوکے اور ڈرے ہوئے غیر محفوظ تھے (اس حال میں بھی) اپنے رب سے مانگا، لوگوں سے نہیں مانگا، وہ چرواہے کچھ نہ سمجھے، لڑکیاں سمجھ گئیں اور جب اپنے باپ کے پاس آئیں تو یہ قصہ اور ان کی دعا سنائی، ان کے والد جو شعیب () انہوں نے کہا: یہ آدمی بھوکا لگتا ہے، اور ان میں سے ایک لڑکی سے کہا: جاؤ اسے بلا لاؤ، پس جب وہ لڑکی ان کے پاس آئی تو تعظیم بجا لائی، اپنے چہرے کو چھپایا اور عرض کیا: میرے والد آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے جانوروں کو جو پانی پلایا ہے اس کی اجرت دیں [قصص 25/28] ، موسیٰ علیہ السلام پر یہ شاق گزرا کہ اپنے عمل کی اجرت لیں، لیکن لبیک کہنے کے سوا چارہ نہ تھا، کیونکہ ڈرے سہمے بھوکے پیاسے پہاڑوں میں تھے۔ لہٰذا اس لڑکی کے پیچھے چلنے لگے، جب ہوا چلتی تو وہ اپنے کپڑوں کو اپنی کمر پر کس لیتی جس سے اس کے کولہے ظاہر ہو جاتے، وہ کولہے والی تو تھی ہی اور موسیٰ علیہ السلام کی یہ حالت تھی کہ کبھی منہ پھیر لیتے اور کبھی آنکھ بند کر لیتے، جب پیمانہ صبر لبریز ہو گیا تو کہا: اے اللہ کی بندی! میرے پیچھے ہو جا اور اپنی آواز سے راستہ بتاتی جا، پھر جب شعیب علیہ السلام کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ وہ کھانے کا انتظام کئے ہوئے ہیں، شعیب علیہ السلام نے کہا: بیٹھو اے نوجوان! اور کھانا تناول کرو، موسیٰ علیہ السلام نے اعوذ باللہ پڑھا، شعیب علیہ السلام نے کہا: کیوں کیا تم بھوکے نہیں ہو؟ عرض کیا: جی بھوکا تو ہوں، لیکن ڈرتا ہوں کہ یہ میرے عمل کا بدلہ نہ ہو اور میں ایسے گھرانے کا فرد ہوں کہ ہم اپنے دین کو زمین کے برابر سونے کے بدلے بھی نہیں بیچتے۔ شعیب علیہ السلام نے کہا: نہیں اے نوجوان! یہ اجرت نہیں بلکہ میری اور میرے آباء و اجداد کی عادت ہے کہ ہم مہمان نوازی کرتے، کھانا کھلاتے ہیں۔ لہٰذا موسیٰ علیہ السلام بیٹھے اور کھانا کھا لیا۔ سو یہ سو دینار اگر میرے بیان کا بدل تھے تو مردار خون اور خنزیر اضطراری حالت میں اس سے زیادہ حلال ہیں اور اگر بیت المال سے میرا حق ہیں تو مجھ جیسے دوسرے بھی ہیں، کاش آپ ہمارے درمیان مساوات برتیں، ورنہ ان دیناروں کی مجھے کوئی حاجت نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده مسلسل بالمجاهيل، [مكتبه الشامله نمبر: 673]» اس روایت کی سند میں کئی راوی مجہول ہیں، اس لئے ضعیف ہے۔ محمد بن عمر، علی بن وہب، ضحاک بن موسیٰ، ان میں سے کسی کا بھی ترجمہ نہیں مل سکا۔ تخریج دیکھئے: [حلية الأولياء 234/3 -237]، یہ روایت اقوال زرین کا بہترین مجموعہ ہیں۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده مسلسل بالمجاهيل